ڈاکٹر اظہار احمد گلزار گل و گلزار شخصیت / تحریر : پروفیسر ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ڈاکٹر اظہار احمد گلزار۔۔۔فیصل آباد کے بہت کھرے،متحرک ، پرخلوص ، دو رنگی سے پاک فکر وعمل اور سادہ دل کے مالک، اور بسیار نویس شاعر،ادیب اور محقق ہیں۔
میرا ان سے نہ تفصیلی تعارف ہے ،نہ بہت طویل ملاقاتیں۔شائد 2019 میں پہلی ،آخری اور مختصر ملاقات ہوئی،جب وہ میری پہلی کتاب۔قول حسن۔۔کی تقریب تعارف میں تشریف لائے۔۔اور مجھے پہلی ہی ملاقات میں گلدستۂ محبت تھما دیا۔

ڈاکٹر اظہار کے نام میں محض" گُل " ہی نہیں،بلکہ پورا " گلزار " موجود ہے۔۔
اس لیئے وہ قلم سے لفظوں کے اور ہاتھوں سے خوشبوؤں کے پھول بانٹتے ہی نہیں، نچھاور کرتے ہیں ۔صرف زندوں میں ہی نہیں ۔دنیا سے رخصت ہوجانے والوں کی مرقدوں پر بھی۔۔انہیں،ان کی یادوں،باتوں،علمی،ادبی کارناموں اور معرکہ آرائیوں کو زندہ رکھنے کا فرض اور قرض نبھاتے ہیں ۔

مجھے نہیں معلوم کہ کہیں انہوں نے اپنا تعارف بھی لکھا ہو،یا کسی اور نے ان کی شخصیت اور علمی و ادبی قدر و قیمت پر مفصل یا مجمل قلم اٹھایا ہو۔

مجھے وہ اس شعر کے مصداق نظر آتے ہیں۔

مٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر " گل "و "گلزار " ہوتا ہے۔

" گل " اور" گلزار " یوں ہی تو نہیں ان کا مضبوط ترین تعارف اور شخصیت کا غالب عنصر ہیں ۔

کچھ سال پہلے لاہور کے ایک بڑے ادیب،محقق اور وقیع ادبی جرائد کے مدیر نے میرے گھر تشریف لاکر مجھ ناچیز کو عزت بخشی۔باتوں باتوں میں انہوں نے پوچھ لیا!
" اظہار احمد گلزار کو جانتے ہیں ؟"
میں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ،اور بس اتنا ہی کہہ سکا:
" ادیب و شاعر ہیں،بے تحاشا پھول بانٹتے ہیں۔ اور خالص،اصلی و نسلی راجپوت لگتے ہیں ۔"

میں نسلی اعتبار سے ہرگز متعصب نہیں رہا۔
زندگی کے ساٹھ سال ۔۔یعنی سٹھیانے سے پہلے تک۔۔اسی عدم تفاخر کا شکار رہا۔۔مگر سٹھیانے اور زندگی کے ساٹھ سالہ نشیب و فراز ،مشاہدات و تجربات کے بعد اور بالخصوص پرنسپل شپ کے سوا پانچ سال گزارنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ اصلی اور نسلی راجپوت ہونا بھی یقیناً بڑے فخر اور نصیب کی بات ہے۔
یقیناً نسلی تفاوت کسی تفاخر کی بنیاد ہرگز نہیں ہونی چاہیے،یہ الٰہی تعلیمات کے مطابق محض باہمی تعارف کا ذریعہ ہیں۔مگر صدیوں اور ہزاریوں کی انسانی تاریخ ان نسلی خصوصیات و امتیازات ،مزاج،عادات واطوار اور فردی و اجتماعی کردار کی بھی شاہد وراوی ہے،جس سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔۔
اگر اس تفاوت میں کچھ بھی باعث فخر واعزاز نہ ہوتا تو راہبر کامل صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مُطّلبی،ہاشمی اور قریشی تفاخر کا اظہار نہ فرماتے۔
ہمارے ماحول میں موجود ذات ،برادری اور قبیلے کے مزاج اور عادات واطوار کو نظر انداز کیا جاتا ہے ،نہ ممکن ہے۔
ہمارے معاشرے میں سیاسی،مذہبی اور معاشرتی مفادات کے تحت اپنی ذات ،برادری بدلنے کا بھی چلن عام ہے،اگرچہ اپنے چال چلن سے اصلیت چھپانا ممکن نہیں ہوتا۔
میں ایک ایسے صاحب کو جانتا ہوں۔۔اگرچہ ایسے اَن گِنت کردار موجود ہیں ۔۔جو کبھی مذہبی ضرورت کے تحت "صدیقی" ہونے پر نازاں تھے۔اب سیاسی ضرورت و مصلحت کے تحت "گجر" کے لاحقے سے معروف و موسوم ہیں۔

یادوں کے اس سلسلے میں کالج کا ایک اور دریچہ بھی کھل گیا ہے۔۔
میرے کالج میں ایک صاحب لوگوں کی ذات برادری کی تصدیق کے ماہر،بلکہ حرف آخر مانے جاتے تھے۔کہنے کو تو وہ دانش ور اور محقق تھے،آج کل ایک نجی ادارے کی ضرورت کے تحت نئے نئے ماہر اقبالیات بھی بن گئے ہیں ۔

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِٔ افلاک میں ہے خوار و زبُوں

ان کی شخصیت کے کچھ معروف حوالے اور اشارے بھی ہیں،جن کا ذکر "نقص امن" کا موجب بن سکتا ہے۔میں تو ذکر نہیں کروں گا،البتہ آپ پہچان جائیں تو مجھے دوش نہ دیجیئے گا۔


میں بتا چکا کہ میں ذات برادری کے تعصب سے دور ہی رہا تحریک اسلامی سے وابستگی نے یہ کیڑا ذہن سے نکال ہی دیا۔
البتہ کالج کے زمانے میں مجھے اس تعصب اور تفاخر کی ضرورت واہمیت سے واسطہ ضرور پڑا۔۔

اگرچہ سن رکھا تھا کہ ایگریکلچر یونیورسٹی اس تعصب کا گڑھ ہے،کچھ جھلک گورنمنٹ کالج میں بھی دیکھی اور کچھ موہوم منظر سمن آباد کالج میں بھی نظر آئے ۔
مجھے مختلف برادریوں کے رویوں اور مزاجوں کا گہرائی اور قریب سے مشاہدے کا موقعہ ملا،میرے بہت سارے رفقائے کار نے ہر تعصب اور امتیاز سے ماوراء ہوکر نہایت،اخلاص،بے لوثی اور وفاداری سے میرے ساتھ تعلق کو نبھایا اور اپنے حسن عمل و کردار سے مجھے خرید لیا،مگر میرے اندر کا راجپوت بھی یہیں پروان چڑھا اور راجپوتوں کی جانب ذاتی معاملات میں کچھ فطری طور پر زیادہ جھکا۔۔راجپوتوں کی ایک بات مجھے بہت پسند آئی۔۔۔
گفتار اور کردار کے کھرے۔مَن کے سچے۔بہادر اور جرأت مند ۔منافقت اور دوغلے چہرے اور کردار و عمل سے پاک۔۔غلط یا صحیح۔۔اپنے مؤقف پر چٹان کی مانند ڈٹے۔۔وفا اور جفا دونوں کے پیکر۔۔جس کے ساتھ کھڑے اس کے ساتھ ہرحال میں کھڑے ۔ڈٹے ہوئے ۔
اپنے کالج کے ایسے دوستوں کی ایک بڑی تعداد کا پیار اور وفا بھی میری یادوں کا دلکش دریچہ اور ٹھنڈی ہواؤں کا دریچہ ہی نہیں،کِواڑ ہے ۔
ان کے نام لکھوں تو کہیں کوئی مروت و محبت کا پیکر ناراض نہ ہوجائے۔۔
یہ نام دل پر بھی لکھے ہیں اور زبان پر بھی رواں رہتے ہیں۔وہیں جہاں مہر و وفا کے دیگر نام پتھر کی لکیر کی طرح نقش ہیں ۔

اظہار احمد گلزار۔۔پکا راجپوت پہلے ہے۔ادیب،شاعر اور محقق بعد میں ۔شائد یہ تعصب بھی میرے ان کے ساتھ واجبی تعلق کے باوجود مضبوط کشش کی بنیاد ہے۔زندگی کے چھیاسٹھ سال مکمل ہونے کے دنوں میں اپنی شخصیت کی تحلیل و تجزیئے کے بعد اب میں خود کو خاصا متعصب پاتا ہوں۔
اور راجپوتی صفات خود میں چھلکتی ،بلکہ اُبلتی محسوس کرتا ہوں۔کہ یہ بلاشبہ باعث فخر ہیں ۔

زیر نظر تحریر کا عنوان تو کچھ اور تھا،باب کچھ اور رقم ہوگیا۔
اظہار احمد گلزار۔۔کی شخصیت و ادبی کارہائے نمایاں میرا موضوع ہے،نہ مجھے کچھ خاص پتا ہے۔
ان کا ایک کمنٹ میرا اصل موضوعِ سخن تھا،جو میری کل کی پوسٹ۔۔۔میں بنا پرنسپل۔۔45 ۔۔۔پر انہوں نے کیا۔
انہوں نے لکھا:
"ماشاءالله ۔۔ سر
نام نہاد اساتذہ کے رویوں کے خلاف حسب سابق عمدہ خامہ فرسائی کی گئی ہے ۔۔۔آپ کے حوصلے اور ہمت کو داد 💗"
۔اور جس پر میں نے جواب دیا۔۔
" ڈاکٹر اظہار صاحب ۔۔مروادیا آپ نے"

یہ دراصل انسانی رویے کا ایک اور دریچہ ہے،جو اظہار صاحب نے کھولا ،اور جس پر اظہار خیال اب مجھ پر واجب ہے۔۔مگر آئندہ۔۔ان شاءاللہ ۔

Professor Doctor Ejaz Farooq Akram
About the Author: Professor Doctor Ejaz Farooq Akram Read More Articles by Professor Doctor Ejaz Farooq Akram: 35 Articles with 28929 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.