گزشتہ پندرہ سال کے دوران ہمیں درجنوں مرتبہ لکھ پتی، کروڑ پتی، ارب پتی اور کھرب پتی بننے کے لاتعداد مواقع ملے لیکن ہم نے ان سے استفادہ نہیں کیا۔ اگر ہم "ای میل" بھیجنے والی "فی میلز" کی ہدایات پر عمل کرلیتے تو ہمارے بینک اکائونٹ میں بے نامی ٹرانزیکشنز کے ذریعے جمع ہونے والی کھربوں روپے کی رقم موجود ہوتی اور ہم اپنے بعض صحافی دوستوں سے بھی زیادہ امیر کبیر ہوتے۔ غیر ممالک سے آنے والی نعمتوں کو ٹھکرانے کے بعد ہم آج بھی اپنی اہلیہ کے "ککھ پتی یا کنگلے پتی ہیں" ، لیکن اس پر بھی ہم اس" نعمت خداوندی" کے لئے اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں جو اس نے ہمیں نیک اولاد کی صورت میں عطا کی ہے کیوں کہ غربت کے مارے دل کی تسلی کے لئے اپنی اولاد کو ہی اپنی دولت قرار دیتے ہیں۔ ان پندرہ سالوں میں ہمیں درجنوں ایسی ای میلز، فیس بک اور واٹس ایپ میسیجز موصول ہوئے جن کی رو سے ہم اربوں کی جائیداد کے مالک آں جہانی سسر کے داماد، کسی ارب پتی متوفی کے اکلوتے وارث بن سکتے تھے۔ ہمیں اپنا "کھوٹا" مقدر بدلنے کے لئے صرف چند ہزار ڈالر ای میلز بھیجنے والی خاتون کے بتائے ہوئے اکائونٹ میں بھیجنے پڑتے۔ یہ چند ہزار ڈالر کی شرح مبادلہ پاکستانی کرنسی میں لاکھوں روپے کے برابر بنتی ہے۔ لیکن ہم نے اپنی چالیس سال سے بھی زائد "صحافتی زندگی" میں یک مشت ایک لاکھ روپے سے زائد کی رقم نہیں دیکھی اس لیے خود کو ارب اور کھرب پتی بنانے کے لئے لاکھوں روپیہ کہاں سے لاتے۔ جب ہم نے ان ای میلز کے حقائق جاننے کے لئے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ کرم فرمائی ہمارے ساتھ ای فراڈ اور آن لائن کریمنلز گروہوں کی جانب سے کی گئی تھی جن کا نیٹ ورک زیادہ تر بیرون ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ سادہ لوح افراد کو ترغیب دینے کے لئے "میل حضرات" اپنی میلز میں میل یا شی میل کی بجائے فی میلز کا نام استعمال کرتے ہیں۔
ہمارے ملک میں بھی آن لائن کرائمز اور ای فراڈ کی وارداتیں عام ہیں لیکن محدود دائرہ کار میں۔ کراچی سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں ریاستی رٹ نہ ہونے کی وجہ سے ڈکیتی اور راہ زنی کی وارداتیں عام ہیں اور اسٹریٹ کرمنلز کے ہاتھوں مال کے علاؤہ عوام کی زندگیاں بھی محفوظ نہیں ہے، لیکن دوسری طرف ای فراڈ اور آن لائن گروہوں کے ہاتھوں لوگوں کی عزتیں غیر محفوظ ہیں کراچی سمیت ملک کے دیگرعلاقوں میں تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوانو ں نےبجائے اسلحہ لے کر سڑکوں یا گھروں میں لوٹ مار کرنے کےجدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے ای فراڈ اور آن لائن کرائمزکے کاروبار کوآمدنی کا ذریعہ بنالیا۔پاکستان میں یہ کاروبار پنجاب اور سندھ کے مضافاتی علاقوں سے چلایا جارہا ہے۔ ای فراڈ اور آن لائن کرائمز کاکارو بار امریکا سمیت یورپی ممالک میں عام ہے،جب کہ ہمارے ملک میں یہ ابھی نچلی سطح تک محدود ہے۔ ہمیں وقتاًفوقتاً اپنے موبائل فون پر اس قسم کے پیغامات موصول ہوتے ہیں کہ ’’ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرف سے آپ کے شناختی کارڈ نمبر پر 85800 روپےکی رقم منظور ہوئی ہے، نیچے دیے ہوئے نمبر پر میسیج کریں تاکہ آپ کی رقم آپ تک پہنچائی جاسکے‘‘۔ جب آپ اس نمبر پر میسیج کرتے ہیں تو موبائل میں موجود تمام بیلنس خودکار طریقے سے پیغام بھیجنے والے کے موبائل اکاؤنٹ میںمنتقل ہوجاتا ہے۔ کسی جعلی ادارے کی جانب سےآپ کو پیغام موصول ہوتا ہے کہ ’’آپ کے نام ایک پارسل بھیجا گیا ہے جس میں آئی فون سمیت دیگر قیمتی تحائف پیک ہیں۔ اس موبائل نمبر پر واٹس ایپ میسیج کریں تاکہ آپ کا پارسل آپ کو پہنچایا جاسکے ۔ جب آپ میسیج میں دیئے گئے نمبروں کی بجائے اسی نمبر پر اس سے مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری جانب سے مغلظات سننا پڑتی ہیں۔ واٹس ایپ اور فیس بک پر کچھ افراد نسوانی ایپس کا استعمال کرکے مردوں کو اس طرح شکنجے میں جکڑتے ہیں کہ وہ ان کی ہر بات ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔وہ اس سے نسوانی آواز میں بے حجابانہ گفتگو کرتے ہیں جب مذکورہ شخص اس کاجواب انہی کے انداز میں دیتا ہے تو اس گفتگو کو بطور ’’سند‘‘ محفوظ کرلیتے ہیں۔واٹس ایپ میسیج پر اسے ویڈیو سیکس پر مائل کیا جاتاہے۔ اس شخص کی جانب سے کی جانے والی ہر حرکت ریکارڈ کرکے بعد ازاں مذکورہ ویڈیوز اور آڈیو گفتگو اسے بھیجی جاتی ہے ۔ اس مقصد کے لیے پولیس اور کسی تحقیقاتی ایجنسی کا مونوگرام بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ متاثرہ شخص سے ایک بڑی رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ انکار یا مطالبہ پورا نہ کرنے کی صورت میں اس ویڈیو اور گفتگو کو سوشل میڈیا پر وائرل اور اس کے اہل خانہ کو بھیجنے اورسائبر کرائمز ایکٹ کے تحت پولیس اور ایف آئی اے کی موبائلیں اس کے گھر بھیج کر اسے گرفتار کرانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔متاثرہ شخص بدنامی کے خوف سے یا تو ان کا مطالبہ پورا کرتا ہے یا خودکشی پر مجبور ہو جاتاہے۔ لیکن مطالبہ پورا کرنے کے بعد معاملہ یہیںختم نہیں ہوجاتا بلکہ بلیک میلرز کی طرف سے اس قسم کے مطالبات اکثر و بیشتر ہوتے رہتے ہیں۔
بیرونی ممالک میں ای فراڈ کا طریقہ کار بالکل مختلف نوعیت کا ہے ۔مثلاً تقریباً 20 سال قبل مجھے نائیجریا کی ایک ’’مظلوم ‘‘ لڑکی کی اپنے کمپیوٹر پر ای میل موصول ہوئی کہ ’’میں ایک یتیم لڑکی ہوں، میرے والد فوجی افسر تھے،وہ باغیوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے تھے۔ ان کے بعد میری والدہ بھی انتقال کرگئیں۔ باغیوں نے اقتدارمیں آکر میرے گھر کو آگ لگا دی، ایک پادری (Reverrend Father ) میری جان بچاکرمجھے اپنے ساتھ لے گیا،جس کے بعد سے میں گرجا گھر میں رہ رہی ہوں۔ وہاں مجھ پر بے شمار پابندیاں عائد ہیں، کمپیوٹر بھی میں چھپ کر استعمال کرتی ہوں۔ مجھے اس قید سے نکالیں۔ میرے والد نے دس ملین ڈالر لندن کے ایک بینک میں جمع کرائے تھے، آپ ریورنڈ فادر سے رابطہ کرکے ان کے بتائے ہوئے وکیل سے رابطہ کریں۔ میری جانب سے پاور آف اٹارنی لے کرلندن میں،بینک سے رابطہ کریں۔ اس میں سے میں آپ کو نصف رقم ادا کروں گی، (Your faithfully Weaping Girl) میں نے ویپنگ گرل کے بتائے ہوئے ای میل ایڈریس پر ریورنڈ فادر سے رابطہ کیا تو انہوں نے چند منٹ کے اندر ہی مجھے لیگل اٹارنی کا ای میل ایڈریس سینڈ کردیا۔ لیگل اٹارنی بھی شاید میری ای میل کے منتظر تھے انہوں نے فوراً اس کا جواب دے کو اپنی فیس پچاس ہزار امریکی ڈالربھیجنے کا مطالبہ کردیا۔ یوں ہمارا ارب پتی بننے کا خواب ادھورا رہ گیا اور ہم آج تک اپنی اہلیہ کے کنگال پتی یا کھکھ پتی ہیں۔ اس طرح کی درجنوں ای میلزہمیں موصول ہوئیںجن میں انواع اقسام کی کہانیاں ہوتی تھیں۔ ان ای میلز کے ساتھ سرکاری لیٹر ہیڈ اور بینک سرٹیفیکٹ بھی منسلک ہوتے تھے۔
حال ہی میں فیس بک میسنجر پر ایک’’ مبینہ خاتون ‘‘کا میسیج موصول ہوا ، انہوں نےپاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی تلاش میں مدد مانگ کر میرا واٹس ایپ نمبر لیا۔ اس کے بعد واٹس ایپ میسیجز کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک مسیج میں انہوں نے جو کہانی بیان کی وہ یوں ہےکہ ’’میں امریکا کے مارگن چیس بینک نیو یارک میں آڈٹ آفیسر ہوں، پاکستان سے تعلق رکھنے والا خالد سلیم نامی شخص جو امریکا میں رہائش پذیر تھا، اس کا کروڈ آئل کا کاروبار تھا، اس نے ہمارے بینک میں 2900000امریکی ڈالر کا اکاؤنٹ کھلوایا تھا۔جنوبی امریکا اپنی بیوی کے ساتھ سیر کے لیے گیا تھا لیکن وہاں حادثے میں جاں بحق ہوگیا۔ بنک حکام کی تلاش کے باوجود اس کا کوئی وارث یا رقم کا دعویدارسامنے نہیں آیا۔لہٰذا آپ اس کے رشتہ دار بن کر جیسا میں کہوں ویسا ہی کریں۔ ‘‘ 2900000لاکھ ڈالرکی رقم میں سے آدھے آپ رکھئے گا اور آدھے میرے ہوں گے۔ اس نے مرحوم خالد سلیم کی ڈپازٹ سلپ بھی بھیجی ۔مجھے مذکورہ رقم سے دل چسپی نہیں تھی حالانکہ پاکستانی کرنسی کے مطابق یہ چار ارب سے بھی زائد کی رقم بنتی ہے۔ہمیں اس اسٹوری سے دلچسپی تھی جو ای فراڈ سےمتعلق مضمون تحریر کرنے کے لیے مل گئی تھی۔مذکورہ خاتون نے بنک منیجر کے نام خط کا مسودہ بنا کر مجھے بھیجا اور اسے ، اس کے دیئےہوئے واٹس ایپ نمبر پر بھیجنے کی ہدایت کی۔ میں نے اس کے کہنے پراس کے دیئے ہوئے واٹس ایپ نمبر پر بینک کے مبینہ منیجر مسٹر مورگن سے رابطہ کیا جنہوں نے چند ہی منٹ کے وقفے کےبعد مجھ سے میرے وراثت نامے کے کوائف طلب کیے، میں نے اس سے ان خاتون کو آگاہ کیا۔ انہوں نے میرے کوائف خود ہی کمپوز کرکے اس ہدایت کے ساتھ بنا کر مجھے سینڈ کردیے کہ مسٹر مورگن کو واٹس ایپ کردوں۔ مسٹر مورگن نے چند منٹ بعد ہی مجھے بنک کے لیٹر ہیڈ پر خالد سلیم کے نام سے بنایا گیا بنک ڈپازٹ سرٹیفکیٹ سینڈ کردیا۔ بعد ازاں بنک منیجر نے مجھے بینک کے لیگل ایڈوائزر سے رابطہ کرنے کے لیے کہا۔ میں نے جب ان سے رابطہ کیا تو انہوںنے آدھے گھنٹے بعد جواب میں واٹس ایپ میسیج بھیجا کہ ’’ مجھے چیس بینک کے منیجر مسٹر مورگن نے ہدایت کی ہےکہ آپ کے عزیز مسٹر خالد سلیم کی ڈپازٹ منی آپ کو دلوانے میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف ) سے آپ کو مذکورہ فنڈ آپ کے نام ٹرانسفر کرنے کی منظوری کا لیٹر دلواؤں۔ آپ مجھے میری خدمات کی فیس کے طور پر میرے بنک آف امریکا کے اکاؤنٹ نمبر میں ایک لاکھ ڈالر بھیجیں تاکہ میں آپ کوآئی ایم ایف سے منظوری لیٹر بنوا کر بھجواسکوں۔ ایک لاکھ ڈالر کی رقم پاکستانی کرنسی میں تقریباً دو کروڑ نوےلاکھ روپےکے برابر ہے اور اتنی بڑی رقم میںنے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی۔ میں نے لیگل ایڈوائزر صاحب کا تحریری جواب اپنی پارٹنر کو واٹس ایپ کیا۔انہوں نےیقین دہانی کرائی کہ وہ اپنی کارمکان آج ہی بنک میںگروی رکھ کر مذکورہ رقم لیگل ایڈوائزرکے اکاؤنٹ میں بھیج کرپیمنٹ سلپ انہیں بھیج دیں گی۔ایک گھنٹے بعد ہی میری پارٹنر نے مجھے موبائل فون کی تصویر بھیجی جس کی اسکرین پر مبینہ طور پر لیگل ایڈوائزر کو ایک لاکھ ڈالر کی سلپ کی تصویر نظر آرہی تھی، لیکن جس ہاتھ نے فون پکڑا ہوا تھاوہ کسی مرد کا معلوم ہورہا تھا۔
آئی ایم ایف جس سے قرضےحاصل کرنے کے لیے دنیا بھر کے غریب ممالک کو کئی کئی ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے، ہمارے نام فنڈ کی منظوری کا سرٹیفکٹ ایک گھنٹے کے اندر ہی واٹس ایپ کردیا۔ لیکن اس سرٹیفکٹ پرآئی ایم ایف کے نامعلوم اکاؤنٹ میں 1250یوروکی ادائیگی کی ہدایت کی گئی تھی۔ آئی ایم ایف کا منظوری سرٹیفکٹ ہم نے اپنی امریکی فیس بک دوست کو بھیج دیا جنہوں نے اسے فوری طور سے مسٹر مورگن کو واٹس ایپ کرنے کی ہدایت کی۔جب میں نے بنک منیجر کو مذکورہ سرٹیفکٹ واٹس ایپ کیا تو ان کا جواب آیا کہ آپ کی2900000 ڈالر کی رقم ایکسپریس ورلڈ وائیڈ ڈیلیوری کمپنی کو پارسل کی صورت میںبک کرادی ہے، جو آپ کے گھر پر یہ پارسل پہنچا دے گی،آپ اس کمپنی سے رابطہ کریں۔میں نے مذکورہ ہدایت جب اپنی’’ شریک کار‘‘سے بیان کی تو انہوں نے فوری طور پر ڈیلیوری کمپنی سے رابطہ کرکے ان کی ہدایت پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ ڈیلیوری کمپنی سے رابطہ کرنے پر ان کی جانب سے ڈیلیوری چارجز کی مد میں 1000 ڈالرمانگے گئے۔ میں نےاپنی شریک کار کو جب ایکسپریس ورلڈ وائیڈ ڈیلیوری کمپنی کے ڈیمانڈ لیٹر کا ذکر کیا تو ان کا جواب آیا کہ آپ فوری طور سے یہ رقم کمپنی کو ارسال کردیں ، کل ہم لاکھوں ڈالر کے مالک ہوں گے۔ میں نے ان سے اس کھیل میں مزید شرکت سے معذرت کی توان کا رویہ یکلخت تبدیل ہوگیا۔ اس دوران میں نے جو تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ مذکورہ مبینہ خاتون، بینک منیجر، لیگل ایڈوائزر، آئی ایم ایف کا کوآرڈی نیٹر ، ڈیلیوری کمپنی ، ای فراڈ یا آن لائن کرائم کا ون ایکٹ پلے تھا، جس کا اسٹیج ایک ہی آفس میںلگایا گیا تھا۔ جس میں چیس بینک نیویارک کا جعلی لیٹر ہیڈ ، مالک مسٹر جے پی مورگن کا نام بطور منیجر اور بینک کی مہریں استعمال کی گئیں ۔ اسی طرح عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف ) کا لیٹر ہیڈ اور اسٹیمپ استعمال کی گئی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جے پی مورگن چیس نیشنل بنک ،امریکا کا ایک قومی بینک ہے جو نیویارک سٹی میں واقع ہے جو جے پی مورگن کی ملکیت ہے ۔ لیکن جعلسازی کا کاروبار کرنے والوں نے مذکورہ فراڈ میںان کا نام بینک منیجر کے طور پر استعمال کیا۔ اس جعلسازی میں آئی ایم ایف جیسے ادارے کے نام کو بھی استعمال کیا گیا، جو لمحہ فکریہ ہے۔
|