“ کیا فلسطین میں تشدد کی نئی لہر کے خدشات بڑھتے جارہے ہیں.”

دنیا بھر میں اسلام کے مقدس مہینے رمضان کا آغاز ہونے والا ہے لیکن اس دوران فلسطین میں تشدد کی نئی لہر اٹھنے کے نئے خدشات پیدا بڑھتے جارہے ہیں کیونکہ حماس کے خلاف اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی ابھی تک کوئی صورت سامنے نظر نہیں آ رہی ہے۔
دوسری طرف رمضان کی آمد پر فلسطین زیادہ سے زیادہ سے زیادہ اپنے مقدس مہینے کے دوران مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرینگے۔
مسلمانوں کا مسجد اقصی اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے جسے قبلہ اول بھی کہا جاتا ہے اور یہ مقامی مسلمانوں کے لیے اہم عبادت گاہ کا مقام ہے۔ لیکن اس مقام کو یہودی بھی اپنا مقدس ترین مقام مانتے ہیں اور اسے ٹیمپل ماؤنٹ کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ جگہ اکثر اسرائیل و فلسطین کے درمیان یہ تنازعے کا باعث رہا ہے۔
رمضان المبارک اس خطے میں 10 یا 11 مارچ کو اسلامی کیلنڈر کے مطابق نیا چاند نظر آنے پر شروع ہونے والا ہے۔ رواں ہفتے اس مقدس مقام مسجد اقصیٰ کے صحن میں بے حد سکون تھا کیونکہ اسرائیل کی طرف سے کوئی جنگی صورتحال رُکی ہوئی تھی.
ایک مقامی چینل پر ایک فلسطینی خاتون کی گفتگو نے افسردگی کے ساتھ کہا کہ اس سال ’ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ رمضان آ رہا ہے کیونکہ لوگوں میں رمضان کی باقاعدہ روایات کو منانے اور ان سے لطف اندوز ہونے کا احساس پیدا نہیں ہوا ہے۔ غزہ میں جو کچھ ہوا ہے اور ہورہا ہے اس کی وجہ سے اس سال وہ رمضان شریف کا اہتمام میں آگے نہیں بڑھیں گے۔‘
اس ہی دوران رمضان کے آغاز پر 40 روزہ جنگ بندی کے آثار فلسطینی مسلمانوں کو معدوم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ مگر مصری ذرائع و ابلاغ کی رپورٹ کا یہی کہنا ہے کہ ثالث اتوار کی شام حماس کے ایک وفد سے دوبارہ ملاقات کریں گے تاکہ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کی جا سکے۔
جبکہ اسرائیل ترجمان نے سنیچر کے روز کہا کہ اس کے جاسوسی کے سربراہ نے اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات کی ہے کیونکہ اور وہ اپنے درجنوں یرغمالیوں کو رہا کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس ہی دوران اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کے ترجمان نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ حماس ’اپنے موقف پر قائم ہے‘ گویا اسے ’کسی معاہدے میں دلچسپی نہیں دیکھا رہا ہے۔‘
ایک منصوبے کے فریم ورک پر غور کیا جا رہا ہے جس کے تحت کچھ اسرائیلی یرغمالیوں کو چھڑانے کی بات کی جا رہی ہے جنھیں حماس نے یرغمال بنایا تھا اور اقوام متحدہ کی طرف سے قحط کے انتباہات کے درمیان امداد میں اضافہ بھی اس معاہدے میں شامل ہے۔
ایک غیر مُلکی چینل سے مسجد اقصٰی میں آنے والے ایک فلسطینی نمازی نے کہا کہ ’یہ رمضان مشکل ہوگا۔ ہم غزہ میں اپنے ہم وطنوں کی صورت حال کے درمیان اپنا روزہ کیسے افطار کریں گے اور کیسے کھائیں گے۔
’ہم اپنے خدا سے بہتر حالات کی دعا ہی کرسکتے ہیں۔‘
جبکہ اسرائیلی پولیس ہمیشہ کی طرح مسجد اقصیٰ کے چاروں طرف وسیع احاطے کے ارد گرد گشت کرتی ہوئی ہوتی ہے اور ہر دروازے پر اسرائیلی پولیس افسران موجود ہیں جو مسجد میں کسی کے داخلے پر کڑی نگرانی رکھتے ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے سنہ 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں اردن سے پرانے شہر کے اس حصے سمیت مشرقی یروشلم پر قبضہ کر کے اسے اپنے میں ضم کر لیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ جگہ فلسطینیوں کی وسیع جدوجہد کی ایک نمایاں علامت بن گئی ہے۔
سنہ 2000 میں اس وقت کے اسرائیلی اپوزیشن لیڈر ایریل شیرون کے مقدس پہاڑی کی چوٹی کے دورے کو ’دوسرے انتفادہ‘ کے ایک اہم محرک کے طور پر دیکھا گیا۔
اس ایریا پر اکثر اسرائیلی سکیورٹی فورسز اور فلسطینی نمازیوں کے درمیان خاص طور پر رمضان کے دوران جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
جب بھی اس پرانے شہر میں اسرائیلی قوم پرستوں کے ریلیاں اور مارچ وغیرہ ہوتے ہیں تو یہاں سنگین ترین کشیدگی بڑھ جاتی ہے، اور اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کی طرف سے اس جگہ پر طویل عرصے سے قائم انتہائی حساس مذہبی جمود کے قوانین کو تبدیل کرنے کے مطالبات کے درمیان یہاں یہودی زائرین کو زیارت کی اجازت تو ہوتی ہے لیکن عبادت کی نہیں۔ جبکہ مسلمان فلسطینیوں پر بھی پابندی لگادی جاتی ہے.
عالمی طاقتوں کو مسئلہ فلسطین کو حل کرنے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہیے اور اس خطے میں ایک پرامن اور آزادنہ فلسطین کے مسلمانوں کی خواہشات پر اس مسئلے کو حل کی طرف لیکر جانا چاہیے.
دنیا میں 52 سے زائد اسلامی مُلک کی فلسطین کے مسئلے پر ان کی خاموشی ایک دن خود ان کے لیے مصیبت کا باعث بن سکتی ہے. اور خاص کر مشرق وسطی کے کے مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی فلسطین کے معاملے میں سرد مہری ان کے لیے اور ان کے ملکوں کے لیے بھی ( کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے اپنے آپ کو محفوظ سمجھنا) بہت بڑی ایک دن حماقت بن سکتی ہے.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 284 Articles with 93695 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.