موسمیاتی تبدیلی اور بے وقت کی بارشوں سے فصلوں کی تباہی

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات دنیا بھر میں ظاہر ہورہے ہیں جس کی وجہ سے بے وقت کی بارشوں کے علاوہ گرمی اور سردی کی شدت میں اضافہ دیکھا جارہا ہے ، حالیہ بارشوں کے اثرات عالمی سطح پر بھی نمودار ہوئے جس میں یو اے ای اور چائنا میں بے وقت کی بارشوں سے اربوں کے نقصانات ہوئے اور تاحال دونوں ممالک ان نقصانات پر قابو پانے کیلئے دن را ت کوشاں ہیں ، بے وقت کی ان بارشوں سے جہاں مختلف ممالک کے لوگ پریشان ہیں وہاں سوات جو مختلف قسم کی فصلوں اور پھلوں کیلئے دنیا بھر میں مشہور ہے وہاں کے کاشت کار بھی ان بے وقت کی بارشوں سے شدید پریشانی کا شکا رہیں،اس وقت ملاکنڈ ڈویژن اور سوات میں بے تحاشہ بارشوں کے ساتھ ژالہ باری بھی ہورہی ہے جس کی وجہ سے تیار فصلوں کو اتنا نقصان پہنچا ہے جس کے ازالہ کیلئے کاشت کار سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں ، سوات کے کاشت کا ر اس حوالے سے کہہ رہے ہیں کہ بے وقت اور حد سے زیادہ ہونے والی بارشوں اور ژالہ باری نے ان کی تیار موسمی فصلوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچادیا ہے ،خاص کر گند م جو انسانی خوراک کی اہم ضرورت کو پورا کرتی ہے اس کی فصل کو جو نقصان پہنچا ہے اس کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں گند م کی قیمت میں اضافہ کی وجہ سے لوگوں کو ایک بار پھر سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،محکمہ زراعت کے ماہرین کا بھی اس حوالے سے کہنا ہے کہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے ہر قسم کی فصلو ں کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اس سے ان کی پیداواری صلاحیت آدھی سے بھی کم ہونے کا خدشہ ہے اور اس کیلئے انہوں نے تمام کاشت کاروں کو شعبہ زراعت کے ماہرین سے فوری رجوع اور ان کے مشوروں پر عمل کی ہدایت کردی ہے ۔

محکمہ موسمیات کے مطابق امسال ملاکنڈ ڈویژن کے تمام اضلاع میں معمول سے 30 فیصد زائد بارشوں کا سلسلہ ریکارڈ کیا گیا ہے اوربے وقت کی بارشوں کا جو سلسلہ تسلسل سے اس وقت جاری ہے اس سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ اس تناسب میں مزید اضافہ ہوگا ۔ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے بھی کاشت کاروں کو مسلسل آگاہی دی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید بارشوں اور ژالہ باری کا امکان ہے جس کی وجہ سے ان کی فصلوں کو مزید نقصانات پہنچنے کا اندیشہ ہے لہذامحکمہ زراعت کی جانب سے جاری کردہ احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔
 
سوات کی تحصیل مٹہ سے تعلق رکھنے والے کاشت کار ایسوسی ایشن کے صدر رحمت علی خان اور تحصیل بابوزئی کے معروف کاشت کار وکاروباری شخصیت خورشید علی خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سوات اور ملحقہ علاقوں میں حالیہ بارشوں کی وجہ سے کھیتوں میں موجود گند م اور باغات میں آڑو، خوبانی ، آلوچہ سمیت دیگر مختلف قسم کی پھلوں کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ دوسری جانب کھاد اور دیگر ادویات جو فصلوں کی تیاری میں ممد ومعاون ہوتے ہیں ان کی قیمتوں میں حد سے زیادہ اضافہ نے بھی کاشت کاروں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے ۔
 
حالیہ بارشوں کی وجہ سے ان زمینوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے جو نشیبی علاقوں میں واقع ہیں کیونکہ نشیبی علاقو ں سے پانی کا اخراج فوری نہیں ہوتا اُوپر سے مسلسل بارشوں کی وجہ سے وہاں دیر تک موجود پانی کی وجہ سے کھیتوں میں ہونے والی فصلیں اور باغات میں مختلف قسم کے پھلوں کی تیار کونپلیں تباہ ہورہی ہیں چونکہ وہاں سے کاشت کاروں کیلئے بڑی مقدار میں موجود پانی کا نکالنا ممکن نہیں ہوتا جبکہ حکومتی سطح پر کاشت کاروں کی اس مشکل پر قابو پانے کیلئے باربار کی شکایات کے باوجود کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے جس پر متاثرہ کاشتکاروں نے حکومت سے ان کی کھیتوں اور باغات میں موجود پانی کو نکالنے کیلئے ہنگامی بنیادو ں پر اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

کاشت کارایسوسی ایشن کے دیگر عہدیداروں نے فریاد کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتی حفاظتی اقدامات نہ ہونے اور زرعی بینک کی جانب سے کاشتکاروں کو دئے جانے والے قرضے پر حد سے زیادہ شرح سود نے بھی کاشت کاروں کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے ، اس حوالے س زمینداروں نے شکایت کرتے ہوئے بتایا کہ سوات میں موجود زرعی بینک کاشت کاروں کی فلاح وبہبود اور مدد کا ادارہ نہیں بلکہ وہ کاشت کاروں کی تباہی کا ادارہ اس وقت بنا ہوا ہے کیونکہ زرعی بینک زمینداروں کو دی جانے والی ایک لاکھ روپے کی واپسی پر 31 ہزار اضافی رقم وصول کررہا ہے جس کی ادائیگی موجودہ مشکل وقت میں کاشت کاروں کیلئے کسی صورت ممکن نہیں بینکوں کی قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات اس وقت بڑھ جاتی ہیں جب سوات میں موجود ہ بارشوں کی صورتحال اور یا سیلاب جو گزشتہ کئی سال سے مسلسل آرہے ہیں اس میں حکومت کی جانب سے کاشتکا روں کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا جاتا ان کے مقابلے میں جب اسی طرح کی صورت حال پنجاب یا سندھ میں پیش آتی ہے تو وہاں کی حکومتیں ان علاقوں کو آفت زدہ قرار دے کر کاشت کاروں کیلئے خصوصی مراعات کا اعلان کرتی ہے جس کی وجہ سے وہاں کے کاشتکاروں کو دوبارہ اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے اور نقصانات کے ازالہ میں مدد مل جاتی جبکہ خیبر پختونخوا میں حکومت کی جانب سے کاشتکاروں کے ساتھ کسی قسم کی مدد وتعاﺅن نہ ہونے کی وجہ سے سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے کاشتکاروں کو ہروقت شدید مشکلات کا سامنا رہتاہے ۔

حالیہ بارشوں سے صرف کاشت کار متاثر نہیں ہوئے بلکہ ان کی باغوں اور کھیتو ں میں کام کرنے والے محنت کش بھی کام نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری کے شکار ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے کمر توڑ مہنگائی کے باعث ان غریب محنت کشوں کے چولہے بھی ٹھنڈے پڑ گئے ہیں ،مینگورہ شہر کے علاقے نواں کلی سے تعلق رکھنے والے ایک محنت کش نے فریاد سناتے ہوئے کہا کہ بارشوں کی وجہ سے ان کا روزگار بھی چھن گیا ہے ، کھیتوں میں کھڑے پانی اور نمی کے باعث فصلوں کی دیکھ بھال اور بوائی کا کام رُک گیا ہے جس کی وجہ سے وہ گھروں میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔

کاشت کاروں کے شکایات کی تناظر میں جب سوات کے محکمہ زراعت کے تحقیقی شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر روشن علی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ سوات میں 85 ہزار ایکٹر زمین پر ہر سال گندم کاشت کی جاتی ہے جس سے سالانہ 115ہزار ٹن گند م حاصل ہوتی ہے اسی طرح دیگر فصلیں اور پھلوں کی باغات سے پیداوار کی وجہ سے سوات کے کاشت کاروں کا روزگار چلتا رہتا ہے لیکن رواں سال بے تحاشا بارشوں کی وجہ سے گندم اور دیگر فصلوں کی پیداوار میں آدھی سے زیادہ کمی کا خدشہ ہے۔
 
ڈاکٹر روشن علی نے مزید بتایا کہ صرف زیادہ بارشوں سے فصلوں کی پیداوار متاثر نہیں ہوتی بلکہ جب فصلوں میں پھول آتے ہیں تو اس وقت ژالہ باری بھی ان کیلئے انتہائی خطرناک ہوتی ہے کیونکہ اس سے فصل آدھی سے زیادہ زمین پر گر جاتی ہے اس کے علاوہ کاشت کاروں کی یہ شکایت بھی درست ہے کہ کھاد اور دیگر ادویات کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں جس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے لیکن کاشت کاروں کی نااہلی یہ ہے کہ انہوں نے روایتی طریقوں کو یکسر چھوڑ دیا ہے جس میں وہ مقامی طورپر ماضی میں کھاد کے متبادل کے طورپر استعمال ہونے والے روایتی کھاد”ڈھیران“ کا استعمال کرتے تھے جو انہوں نے اس وقت مکمل طورپر ختم کردیا ہے جس کی وجہ سے وہ مہنگی کھاد اور ادویات پر سارا انحصا ر کئے ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ بات غلط ہے کہ حکومت زمینداروں کے ساتھ تعاﺅن نہیں کرتی ، حکومت وقتاً فوقتاً زمینداروں کو سستے نرخوں پر مختلف فصلوں کی تخمیں ،کھاد اور ادویات فراہم کرتی ہے جبکہ محکمہ زراعت کی جانب سے بھی کاشت کاروں کو آگاہی مہم کے سلسلے میں مفید معلومات اور زراعت کے جدید طریقوں سے آگاہی کیلئے سیمینار ورکشا پ وغیرہ کا اہتمام بھی کرتی ہے جس سے استفادہ کرنے کیلئے کاشت کاروں کو محکمہ زراعت کی جانب سے گاہے بہ گاہے جاری کردہ ہدایات پر عمل کرنا چاہئے جس سے ان کی مشکلات میں کافی حدتک کمی آئے گی۔

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 52 Articles with 30299 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.