کالام روڈ کی تعمیر کیلئے اہلیان علاقہ کا حکومت کو ڈیڈ لائن

سوات کے سیاحتی علاقوں بحرین اور کالام کے عمائدین کا بحرین تا کالام طویل عرصہ سے خراب 6 کلومیٹر روڈ تعمیر کرنے کیلئے حکومت کو ایک ہفتہ 25 مئی 2024 کی ڈیڈ لائن دی ہے اور بصورت دیگر تمام سیاحتی علاقوں میں موجود ہوٹل اور ان علاقوں تک جانے والی سڑک کو بند کرکے کالام میں کسی بھی حکومتی اہلکار اور ضلعی حکام کے داخلے پر پابندی لگانے کی دھمکی دی ہے،عمائدین علاقہ نے اس سڑک کی تعمیر کیلئے اب تک منظور ہونے والے فنڈ کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کردیا، اس حوالے سے کالام مٹلتان، اتروڑ، گبرال و ملحقہ علاقوں کے عمائدین نے پلے کارڈ اٹھاکر پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا اور سڑکی کی عدم تعمیر پر ذمہ داروں کے خلاف شدید نعرہ بازی کی،بعدازاں سوات پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمائدین علاقہ اور سوات ہوٹل یونین ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری رحمت دین صدیقی،چیئر مین یوتھ ایسوسی ایشن ملک غلام علی ، سابق ناظم ملک حسن زیب اور دیگر مقررین نے کہا کہ سال 2010 کے سیلاب میں کالام اور ملحقہ علاقوں کی 33کلومیٹر رابطہ سڑکیں بری طرح متاثر ہوئیں جس کی وجہ سے کالام کا دیگر علاقوں کے ساتھ طویل عرصہ تک زمینی رابطہ منقطع رہا، متاثرین علاقہ کے مطابق اس وقت سے لے کر اب تک اس روڈ کی دوبارہ تعمیر کے نام پر اربوں روپے کے فنڈ منظور ہوئے اور تعمیراتی کام کے نام پر کثیر رقم نکالی گئی مگر مقام افسوس ہے کہ اتنا لمبا عرصہ گزر جانے کے باوجواس تباہ حال د روڈ پر تعمیراتی کام مکمل نہیں ہوسکا،انہوں نے یہ بھی شکایت کی کہ سیلاب کی وجہ سے روڈ کے ساتھ ساتھ متعدد رابطہ پل بھی تباہ ہوچکے ہیں اس اہم سڑک کی تباہی کی وجہ سے نہ صرف مقامی لوگ بلکہ سیاحوں کو بھی آمد و رفت میں شدید مشکلات اور پریشانی کا سامنا ہے، خراب سڑک اور بعض مقامات پر کھنڈرات کا نمونہ پیش کرنے والے راستوں پر اب تک 100 سے زیادہ ٹریفک حاثات رونما ہوچکے ہیں جس میں بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہوگئی ہیں جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہونے کے علاوہ عمر بھر کیلئے اپاہج بھی ہوچکے ہیں، انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم سے لے کر وزیر اعلیٰ اور مختلف اداروں نے اس روڈ کی تعمیر کیلئے فنڈ کی منظوری دی مگر اب تک نہ تو 14سال میں اس روڈ پر کام مکمل ہوا اور نہ ہی اس کیلئے منظور کردہ فنڈ کا پتہ چل رہا ہے کہ وہ کہاں جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اور دیگر ذمہ دار کالام روڈ پر جلد ازجلد کام شروع کرکے پایہ تکمیل تک پہنچائے بصورت دیگر کالام اور بحرین کے تمام ہوٹل اور سڑکوں کو بند کرکے حکومتی ذمہ داروں کے کالام میں داخلہ پر پابندی لگانے سمیت احتجاج کادائرہ وسیع کرنے مجبور ہوجائیں گے۔

کسی بھی مقام تک رسائی کیلئے آسان راستے سب سے اہم ضرورت ہوتی ہے جس کیلئے سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے ، بدقسمتی سے سوات کے سیاحتی علاقے مدین سے لے کر بحرین اور کالام کے آخرتک کی سڑکیں ہمیشہ بدحالی کا شکار رہتی ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں تک رسائی کیلئے نہ صرف مقامی لوگ بلکہ سیاح حضرات مشکلات کا شکار رہتے ہیں ، 2000 کا عشرہ اور بعد میں تاحال ان سڑکوں کی بدحالی برقرار ہے ، دہشت گردی کی لہرکے بعد اچانک آنے والے پاکستان کے تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب نے ان علاقوں کی انفراسٹرکچر کا حلیہ ہی بگاڑدیا اور مدین سے لے کر کالام تک پورے علاقے کی رابطہ سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کرتی رہیں، بعد میں امن کی بحالی پر اس وقت اور بعد میں آنے والی حکومتوں کے ذمہ داروں نے وعدے تو بڑے کئے جو آج تک وفا نہیں ہوسکے ہیں، کالام کے عمائدین کا یہ شکوہ بجا ہے کہ ان سیاحتی علاقوں کی سڑکیں نہ صرف مقامی لوگوں کی ضرورت ہے بلکہ یہاں آنے والے ملکی وغیر ملکی سیاح بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں لیکن سمجھ میں نہ آنے والی بات یہ ہے کہ آخر ان سڑکوں کی دوبارہ تعمیر میں کون ساامر مانع ہے ۔

دوسری جانب عمائدین بحرین اور کالام کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ باربار ان خراب ہونےوالی سڑکوں کی تعمیر کے نام پر بڑے بڑے فنڈ ز آخر جاتے کہاں ہیں کوئی تو اس کا حساب دے ، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ 33 کلومیٹر کل سڑک کی تعمیر تو ایک طرف لیکن جو سب سے مشکل مرحلہ ہے وہ یہ ہے کہ بحرین سے کالام تک صرف 6 کلو میٹر کا سفر طے کرنا محال ہوگیا ہے ، حالیہ سیلاب کے بعد اس مقام پر سڑک کا نام ونشان ہی ختم ہوکر رہ گیا ہے اوراب یہاں سڑک کی بجائے بڑے بڑے کھڈے ، پہاڑوں سے گرنے والا ملبہ اور بارشوں کے دنوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے باعث باربار اس خراب راستے کی مزید بند ش نے سیاحوں کے راستے تو بند کردئے ہیں ساتھ ساتھ مقامی لوگ بھی منٹوں کا سفر گھنٹوں اور بعض اوقات پورے دن میں طے کرتے ہیں ۔

بحرین تا کالام اس خطرناک 6 کلو میٹر راستہ کے ایک جانب پہاڑ ہیں تو دوسری جانب دریائے سوات بہہ رہا ہے جس پر سفرکے دوران معمولی سی غلطی کے باعث یا تو پورے کے پورے خاندان زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں یا زخمی ہونے کی صورت عمر بھر کی معذوری کا شکا ر ہوجاتے ہیں ،آئے روز اس سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے حادثات معمول بنے ہوئے ہیں جس میں قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں، پچھلے ہفتے بھی اس علاقے سے موسمی تغیر کے باعث نقل مکانی کرنے والے خاندان کودوبارہ اپنے علاقے میں واپسی پر حادثہ پیش آیا جس میں کئی افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے ،اس کے علاوہ اگر کسی مقامی شخص کو کوئی طبی ایمرجنسی پیش آتی ہے تو پہاڑی علاقوں سے انہیں سڑک تک لانے اور پھر ہسپتالوں میں پہنچانے کیلئے کئی کئی گھنٹوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے جس کے دوران اکثر بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے لوگ ہسپتال کی بجائے قبرستان پہنچ جاتے ہیں اور اس حوالے سے سب سے زیادہ شکایات زچگی والی خواتین کی پیش آتی ہیں جس پر مقامی لوگوں کی شکایات بالکل بجا ہیں اور اس پر حکومتی ذمہ داروں کو فوری توجہ دینا چاہئے۔

” تنگ آمد بجنگ آمد“ کے مصداق اب ان متاثرہ علاقوں کے لوگ احتجاج پر اُتر آئے ہیں سوات پریس کلب میں احتجاج اور بعد ازاں پریس کانفر نس کرتے ہوئے عمائدین علاقہ نے واضح الفاظ میں حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اول تو اس روڈ کی تعمیر کیلئے فوری طور پر کارروائی کی جائے دوسری بات یہ کہ اب تک اس سڑک کی تعمیر میں تاخیر کے ذمے داروں کا بھی تعین کرکے ان سے بھاری فنڈز خرد برد کرنے کے حوالے سے باز پرس کی جائے ۔

یہاں اس بات کی نشان دہی کرنا ضروری ہے کہ سوات کے سیاحتی علاقے اب مقامی نہیں بلکہ بین الاقوامی اہمیت کے حامل سیاحتی علاقے ہیں جہاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ملکی وغیر ملکی سیاح آتے ہیں ایسے میں اگر مقامی لوگوں نے اپنے دعوے پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہوٹل بند کردئے تو اس سے بڑے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ، بات ابھی اس مرحلے میں ہے جہاں بیٹھ کر بات چیت سے معاملات کو حل کیا جاسکتا ہے لیکن اگر خدانخواستہ بات ایک بار بگڑ گئی تو پھر اسے درست کرنے میں بہت وقت لگے گا ۔ کالام کے لوگوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اپر سوات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نا م پر کام کرنے والا ادارہ جو اصل میں کالام ڈویلپمنٹ اتھارٹی ہے جسے گزشتہ حکومت کے وزیر اعلیٰ نے سازش کے تحت تبدیل کرکے اس میں اپنے بھائی کو محکمے کا سربراہ بنانے کے علاوہ اپنے منظور نظر افراد کو مختلف آسامیوں پر تعینات کرکے مقامی لوگوں کو اس میں نوکریاں دینے میں سراسر نظر انداز کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بالائی سوات کے ترقیاتی کام جوں کے توں ہیں جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید اضافہ ہورہا ہے ۔
 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 52 Articles with 30936 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.