پاکستان کے چھ ایٹمی دھماکے اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی عظیم خدمات

11مئی 1998 ء کو جب بھارت نے یکے بعد دیگرے پانچ ایٹمی دھماکے کرکے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن اپنے حق میں کرلیا تو بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے دھمکی آمیز لہجے میں پاکستان کو آزاد کشمیر سے دستبردار ہونے کی دھمکی دے ڈالی کہ اب بھارت دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ 19 مئی 1998 ء کو امریکی ٹیلی ویژن این بی سی نے امریکہ اور روس کے لیے جاسوسی کرنے والے سیاروں سے لی گئی تصویروں کی بنیاد پر ایک تفصیلی رپورٹ نشر کی ۔جس کے مطابق " شام کے دھندلکے میں کئی ٹرکوں پر مشتمل ایک قافلہ چک لالہ ائیر بیس پر پہنچا جہاں پرپہلے ہی کئی ایف 16 جنگی طیارے اور مال بردار جہاز بالکل تیار کھڑے تھے ۔پائلٹ اپنے اپنے طیاروں کے کاک پٹ میں بالکل مستعد تھے۔ لڑاکا طیارے بموں اور میزائلوں سے لیس تھے۔ قافلے کے ائیربیس پر پہنچتے ہی پورے ائیر پورٹ کو دھوئیں سے بھردیاگیا ۔دھوئیں کے غلاف Smoke Screen کی بدولت یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ٹرکوں میں سے کیا سامان نکال کر مال بردار جہازوں میں لاداگیا " ۔ اس رپورٹ سے یہ بات باآسانی اخذ کی جاسکتی ہے کہ بھارت کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتیں کس طرح پاکستانی سرزمین کے چپے چپے کو انتہائی طاقتور مواصلاتی سیٹلائٹ نظام کے ذریعے دیکھ رہی تھیں۔دوسری جانب امریکی صدر کلنٹن نواز شریف کو مسلسل دھمکاکر ایٹمی دھماکوں سے روک رہے تھے انہوں نے نواز شریف کے ذاتی بنک اکاؤنٹ میں پانچ ارب ڈالر جمع کروانے کا لالچ بھی دیا ۔اسی دوران حکومت پاکستان کو مصدقہ ذرائع سے اطلاع ملی کہ اسرائیل کے چھ جیٹ فائٹر طیارے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر کے ایک فضائی اڈے"سری نگر" پر تیار کھڑے ہیں ،یہ طیارے فضا سے زمین تک مارکرنے والے خطرناک میزائلوں سے لیس ہیں۔ یہ اطلاع ملتے ہی وزیر اعظم محمد نوازشریف نے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے ہاٹ لائن پر رابطہ قائم کیا اور دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ اگر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی تو بھارت کوایسا جواب دیا جائے گا جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ہم سو نہیں رہے ،ہم جاگ رہے ہیں۔ محمدنوازشریف کی بروقت جرات مندی کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات محفوظ رہیں اور 27 اور 28 مئی 1998 ء کی درمیانی رات بخیرو خوبی گزر گئی ۔چنانچہ وزیر اعظم نواز شریف کے حکم پر پاکستانی سائنس دانوں کی ٹیم ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی سربراہی میں چاغی کے مطلوبہ مقام پر جا پہنچی ۔ سائنس دانوں کی ٹیم نے سرنگ کے اندر اور باہر ضروری آلات اور کیمروں کی تنصیب کا کام شروع کردیا۔ دھماکوں کی شدت اور تابکاری کے اثرات نوٹ کرنے والے آلات بھی نصب کردیے گئے۔ تمام کیمروں کا براہ راست تعلق کئی کلومیٹر دور کنٹرول روم سے قائم ہوچکا تھا۔ ایٹم بم رکھنے کے بعد سرنگ کے دھانے کو پلگ یعنی بند کرکے ہائی کمان کو اطلاع دے دی گئی۔ اس مرحلے پر متعلقین کا اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہونا قدرتی امر تھا۔ اول تو ایٹمی دھماکے کرنے کا پہلا حقیقی تجربہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔پاکستان نے قوموں کی تاریخ میں اگر آزاد اورخود مختار قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے تو اسے بھارتی ایٹمی دھماکوں کا ہر حال میں جواب دینا ضروری تھا ۔ 28مئی کا سورج پاکستانی قوم کی بے پناہ امیدوں کو لیے طلوع ہوا تو ابتداء میں ہوا کا رخ سازگار نہ تھا،دوپہر گیارہ بجے ہوا کا رخ موافق ہونے پر ہائی کمان کو اطلاع کردی گئی ۔ اسی اثنا میں ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی اپنے رفقا کے ساتھ راس کوہ کنٹرول روم پہنچ چکے تھے اور سارے آپریشن کی براہ راست نگرانی کررہے تھے ۔وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے دھماکوں کے لیے گرین سگنل ملتے ہی کنٹرول روم میں سنسناہٹ پھیل گئی ۔وہاں موجود سب کی نبضیں تیز ہوگئیں، سانسیں رکنے لگیں۔ سہ پہر تین بجے میاں نوازشریف نے وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے کنٹرول روم میں موجود تمام سائنس دانوں سے براہ راست خطاب کیا ۔ ا ن کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے ان کی کامیابی کے لیے دعا کی ۔اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر ثمرمبارک مند نے ایٹمی دھماکے کے لیے بٹن دبانے کا فریضہ انجام دیا ۔ بٹن دبانے کے بعد 31 سیکنڈ تک جب پہاڑ کو کچھ نہ ہوا تو سب کے دل بیٹھ گئے لیکن اگلے چار سیکنڈ بعد زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے ،اس طرح تین بج کر سولہ منٹ پر راس کوہ پہاڑ ایک خوفناک زلزلے سے لرز اٹھا ۔یہ ایک ہیبت ناک گرج تھی، دل ہلا دینے والا زلزلہ تھا۔ ایٹم کی قوتوں کا سویا ہوا جن ایک خوفنا ک چنگھاڑ کے ساتھ بیدار ہوچکا تھا جن کی قوت چار کروڑ کلوگرام بارود کے برابر تھی۔ اس سنگلاخ پہاڑ کو تراشنے اور سرنگ بنانے کے لیے جدید ترین مشینوں اور ہتھیاروں سے لیس ماہر ارضیات کو چار سال تک سخت مشقت کرنی پڑی تھی لیکن وہی سخت ترین پہاڑ ایٹم کی طاقت سے پگھلے ہوئے موم کی طرح ہوگیا ۔اس پہاڑ کی چوٹی کئی میٹر بلند ہوکر رنگ تبدیل کرنے لگی۔ پہلے سرخ پھر نارنجی اور پھریہ سارا پہاڑ سفید ہوگیا ۔ چند لمحوں بعد جب ایٹمی دھماکے کا زور ٹوٹا تو درجہ حرارت کروڑوں سے گر کر ہزاروں کی سطح پر آگیا۔ ٹوٹی پھوٹی چٹانیں جو دھماکے کی بے پناہ طاقت کے زیر اثر اپنی جگہ سے بلند ہوگئی تھیں ایک ہیبت ناک شور کے ساتھ نیچے بیٹھنا شروع ہوگئیں۔ صدیوں سے آسمان کی بلندی کو چھونے والا یہ مغرور اور خشک پہاڑ نڈھال ہوکر بیٹھ چکا تھا ۔دھماکے سے پیدا ہونے والے ارتعاش کے اثرات اب پہاڑ سے باہر نکل کر زمین کے اندر ہی اندر تیزی سے کرہ ارض کی سطح پر پھیلتے جارہے تھے ۔یہ اثرات جہاں سے بھی گزرتے ۔ چاغی کی راس کوہ پہاڑوں پر گزرنے والی داستان سناتے جاتے۔ جونہی یہ اثرات دنیا بھر میں نصب ارتعاش پیما آلات پر نظر آئے تو ہمارے دشمنوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی اور دنیا کی آٹھ بڑی طاقتوں کے ایوانوں میں زلزلہ طاری ہوگیا ۔سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے علم ہنر ٗ فنی مہارت اور گراں قدر تجربے کی بدولت پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت بنا کر اپنے والد کے سونپے ہوئے مشن کو حقیقت کا روپ دے کر یہ بات ثابت کردیا کہ ظلم کے خلاف جہاد صرف تلوار سے ہی نہیں ہوتا بلکہ علم اس سے بھی بڑا ہتھیار ہے ۔ آنے والی نسلیں نہ صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو تحسین کی نظر سے دیکھیں گی بلکہ ڈاکٹر ثمرمبارک مند ٗ ڈاکٹر احسن مبارک ٗ ڈاکٹر اشفاق احمد خاں ٗ ایٹمی دھماکوں کی مشکل ترین سرنگیں کھودنے والے عظیم ماہر ارضیات محمد حسین چغتائی ، بریگیڈئر سرفراز علی ٗ بریگیڈئر زاہد علی اکبر ٗ ذوالفقار علی بھٹو ٗ جنرل محمد ضیا الحق ٗ غلام اسحاق خاں ٗ جنرل جہانگیر کرامت اور سب سے بڑھ کر محمد نواز شریف کی معاونت اور تحفظاتی کردار کو کبھی فراموش نہیں کرسکیں گی۔ میاں محمد نوازشریف جو اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں ان کی وطن عزیز سے وفاداری اب بھی کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے ۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مندنے ایک انٹرویو میں مجھے بتایا تھا کہ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے فزکس میں رول آف آنرز کے ساتھ ماسٹر ڈگری حاصل کی تھی ۔ گورنمنٹ کالج فزکس ڈیپارٹمنٹ کا ایک وفد 1961ء میں تفریحی اور تعلیمی دورے پر بھارت گیاتھا ،میں بھی اس وفد میں شامل تھا۔وہاں بھارتی طلبہ سے بھی ملاقات ہو ئی ۔انہوں نے یہ کہہ کر ہمارے تن بدن میں آگ بھر دی کہ پاکستان خود تو کچھ بنا نہیں سکتا اس لیے اپنا دفاع بھارت کے سپرد کردے۔ڈاکٹر ثمر کہتے ہیں کہ اسی وقت میں نے پختہ عزم کیا تھا کہ میں ایسا عظیم کارنامہ انجام دوں گا جس سے میرا وطن دفاع کے میدان میں بھارت سے برتر ہو کر ناقابل تسخیر ہو جائے۔ اﷲ تعالی نے 28 مئی 1998ء کی سہ پہر کامیاب ایٹمی دھماکوں کی شکل میں مجھے یہ موقعہ کردیا جس پر میں اﷲ کا شکر ادا کرتا ہوں۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ ڈاکٹر ثمر اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں لیکن ان کی اہلیت سے استفادہ نہیں کیا جارہا اور نہ ہی پاکستانی قوم کو ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا نام اب یا د ہے۔یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے؟

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 799093 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.