فضائل مولا ئے کائنات مشکل کشاء
شیر خدا علیہ السلام تحریر پیرآف اوگالی شریف
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر نبی کی ذریت اس کی صلب سے جاری فرمائی
اور میری ذریت حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی صلب سے چلے گی۔
1. المعجم الکبير لطبراني، 3 : 44، ح : 2630
2. مجمع الزوائد، 9 : 172
3. کنزل العمال’ 11 : 400، ح : 32892
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک میں اپنا خلیفہ بنایا تو
انہوں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے مجھے
عورتوں اور بچوں میں خلیفہ بنایا ہے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا کہ آپ اس چیز پر راضی نہیں کہ آپ میرے لئے اس طرح بن جائیں جس
طرح کہ ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قائم مقام تھے مگر یہ
کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔
1. صحيح مسلم، 4 : 1870- 1871، کتاب فضائل الصحابه، باب 4 من فضائل علي بن
ابي طالب رضي الله عنه، ح : 2404
2. صحيح البخاري، 3 : 1358، کتاب المناقب باب 9 فضل الصحابه، ح : 3503
3. صحيح البخاري، 4 : 1602، کتاب المغازي، باب 74غزوه تبوک،ح : 1454
4. سنن الترمذي، 5 : 640 - 641، کتاب المناقب، باب 30 مناقب علي رضي الله
عنه بن ابي طالب، ح : 3724، 3730، 3731
5. سنن ابن ماجه، 1 : 42، المقدمه، باب فضل علي بن ابي طالب ح : 115
6. المستدرک للحاکم، 3 : 109، کتاب معرفة الصحابه، باب ذکر بغض فضائل علي
رضي الله عنه
7. المعجم الکبير لطبراني، 1 : 146، ح : 328
8. المعجم الکبير لطبراني، 1 : 148، ح : 333، 334
9. المعجم الکبير لطبراني، 2 : 247، ح : 2036
10. المعجم الکبير لطبراني، 5 : 203، ح : 5094، 5095
11. المعجم الکبير، 11 : 61، ح : 11087
12. مسند احمد بن حنبل، 3 : 32،
13. مسند احمد بن حنبل، 4 : 438
14. مسند احمد بن حنبل، 3 : 338
15. مسند ابي يعلي، 1 : 286، ح : 345
16. مسند ابي يعلي، 2 : 57، ح : 698
17. مسند ابي يعلي، 2 : 66، ح : 709
18. مسند ابي يعلي، 2 : 73، ح : 718
19. مسند ابي يعلي، 2 : 86، ح : 739، 738
20. مسند ابي يعلي، 2 : 99، ح : 755
21. مصنف عبدالرزاق، 11 : 226، ح : 20390، باب اصحاب النبي صلي الله عليه
وآله وسلم
22. مجمع الزوائد، 9 : 109، باب منزلة رضي الله تعالي عنه
23. سنن ابن ماجه، 1 : 42 - 43. المقدمه، باب 11 فضل علي بن ابي طالب رضي
الله عنه،
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم میں سے بعض کے گھروں کے دروازے مسجد نبوی (کے صحن) کی طرف کھلتے
تھے ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان تمام
دروازوں کو بند کر دو سوائے باب علی کے، راوی کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے چہ
می گوئیاں کیں اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ ارشاد
فرمایا : حمد و ثناء کے بعد فرمایا مجھے باب علی کے سوا ان تمام دروازوں کو
بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے پس تم میں سے کسی نے اس بات پر اعتراض کیا ہے
خدا کی قسم نہ میں کسی چیز کو کھولتا اور نہ بند کرتا ہوں مگر یہ کہ مجھے
اس چیز کے کرنے کا حکم دیا جاتا ہے پس میں اس (حکم خداوندی) کی اتباع کرتا
ہوں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی فیصلے کرتا ہوں جن کا
مجھے حکم دیا جاتا ہے۔ حکمت اس میں یہ تھی کہ جب کسی پر غسل واجب ہو گا اور
وہ غسل کے لئے گھر سے نکلے گا تو ایسی حالت میں مسجد نبوی میں قدم رکھے گا
اور مسجد کا تقدس مجروح ہو گا، غسل واجب ہو تو صرف دو افراد مسجد میں قدم
رکھ سکتے ہیں ایک محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے علی
مرتضیٰ رضی اللہ عنہ۔ حدیث پاک میں آتا ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے علی میرے اور تمہارے سوا
کسی کے لئے جائز نہیں کہ اس مسجد (نبوی) میں حالت جنابت میں رکھے۔
یہ اس لئے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے جسم اطہر اور روح اقدس سے ظاہری بھی اور باطنی بھی ایک خاص تعلق
قائم ہو چکا تھا
1. مسند ابي يعلي، 2 : 311، ح : 1042
2. مجمع الزوائد، 9 : 115
3. المعجم الکبير الطبراني، 2 : 246، ح : 2031
4. مسند احمد بن حنبل، 1 : 175
5. مسند احمد بن حنبل، 1 : 331
6. مسند احمد بن حنبل، 2 : 26
7. مسند احمد بن حنبل، 4 : 369
8. کنزالعمال، 11 : 598، فضائل علي رضي الله عنه، رقم حديث : 32877 |