جیسی عوام ویسے حکمران

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا اداب
ہمارے یہاں کا ہر وہ شخص جس نے یا تو پاکستان کو بنتے ہوئے دیکھا ہے یا پاکستان کے بننے کے بعد سے لیکر اب تک کے حالات سے واقف ہے اس نے اس ملک کا حال اسی طرح دیکھا ہوگا جیسے پہلے تھا اور جیسے اب ہے اور جب ہم اس ملک کی اقتصادی , معاشی اور ظاہری صورتحال کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ اس ملک کو کسی بھی حکمران یا کسی بھی شخص کے چلانے کی ضرورت نہ ہے اور نہ ہی ان کے اندر اس ملک کو چلانے کی صلاحیت ہے بلکہ یہ ملک ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں عطا ہی اس لیئے کیا گیا تھا کہ اس ملک کے حالات کیسے بھی ہوں وقت کے ساتھ پریشانی تو آئیں گی لیکن یہ ملک چلتا رہے گا اسی آب و تاب کے ساتھ اور اس کے خلاف اٹھنے والی آنکھیں اور اٹھنے والے ہاتھ کبھی بھی اپنی ناپاک خواہش کو پورا نہیں کرسکیں گے بلکہ ایک ایک کرکے وہ خود نیست و نابود ہو جائیں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ایسا سب کچھ ہمارے ساتھ یا ہمارے ملک میں ہی کیوں ہے کیا اس ملک کے لیئے غلط سوچ رکھنے اور اپنے مقاصد کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے والے لوگوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا ہی صحیح ہوگا یا ہماری غلطیاں بھی اس میں شامل ہیں ؟ تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ الانعام کی آیت 129 میں ارشاد فرمایا کہ

وَ كَذٰلِكَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ

ترجمعہ کنزالایمان :
اور یونہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلط کرتے ہیں بدلہ ان کے کیے کا.

اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ جب تک ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے سے کمتر لوگوں پر ناحق ظلم کرتے ہیں ناجائز طور پر کسی کو پریشان کرتے ہیں اپنے ہی لوگوں کو ملاوٹ والی اشیاء فروخت کرکے انہیں کھانے پر مجبور کرتے ہیں اور حلال و حرام کا خیال کیئے بغیر دوسروں کا حق مارتے رہیں گے تو یہ ظلم ہی ہے اور اللہ تعالی ہمارے ان مظالم کے خلاف ہمارے اعمال کی بدولت ہم پر اس سے بڑا ظالم مسلط فرمادیتا ہے یعنی جیسے اعمال ویسے حکمران ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے یہاں حکمران طبقہ شروع ہی سے اسی طرح سے ہم پر مسلط ہوتا آیا ہے لیکن انہیں اچھا یا برا کہنے کی بجائے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا اپنے اعمال کی طرف نظر ثانی کرنا ہوگی کہ حدیث کے مطابق جس طرح لوگوں کے اعمال ہوں گے ان پر ویسے ہی حکمران مسلط کردئیے جائیں گے اگر تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں اور ہمارے مذہب میں جہاں بھی حکمرانوں کا ذکر آیا ہے وہاں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے خلیفہ سوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہمیں ہر جگہ ملتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کیا آپ نے سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ وہ اس لیئے کہ آپ کے دور میں کوئی امیر امیر نہیں تھا کوئی غریب غریب نہیں تھا سب کے لیئے قوانین یکساں تھے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر (رضی اللہ عنہ )سے اس بارے میں پوچھ ہو گی. یہ ہوتی ہے حکومت خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چوبیس لاکھ مربع میل پر حکومت کی اور وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر پہرہ دیتے تھے اور لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے.
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ دربار کا وقت ختم ہونے کے بعد گھر آئے اور کسی کام میں لگ گئے اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا .امیر المومنین آپ فلاں شخص سے میرا حق دلوا دیجئے اس کی بات سن کر آپ کو بہت غصہ آیا اور اس شخص کو ایک درا پیٹھ پر مارا اور کہا، جب میں دربار لگاتا ہوں تو اس وقت تم اپنے معاملات لے کر آتے نہیں اور جب میں گھر کے کام کاج میں مصروف ہوتا ہوں تو تم اپنی ضرورتوں کو لے کر آ جاتے ہو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غصہ میں دیکھ کر وہ شخص واپس چلا گیا بعد میں آپ کو اپنی غلطی کا اندازہ ہوا تو بہت پریشان ہوئے اور اس شخص کو (جسے درا مارا تھا) بلوایا اور اس کے ہاتھ میں درا دیا اور اپنی پیٹھ آگے کی کہ مجھے درا مارو میں نے تم سے زیادتی کی ہے وقت کا بادشاہ ،چوبیس لاکھ مربع میل کا حکمران ایک عام آدمی سے کہہ رہا ہے میں نے تم سے زیادتی کی مجھے ویسی ہی سزا دو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس شخص نے کہا میں نے آپ کو معاف کیا آپ رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں نہیں کل قیامت کو مجھے اس کا جواب دینا پڑے گا تم مجھے ایک درا مارو تا کہ تمہارا بدلہ پورا ہو جائےآپ رضی اللہ عنہ روتے جاتے تھے اور فرماتے اے عمر تو کافر تھا ظالم تھابکریاں چراتا تھا خدا نے تجھے اسلام کی دولت سے مالا مال کیا اور تجھے مسلمانوں کا خلیفہ بنایا کیا تو اپنے رب کے احسانوں کو بھول گیا آج ایک آدمی تجھ سے کہتا ہے کہ مجھے میرا حق دلاو تو تو اسے درا مارتا ہےاے عمر کیا تو سمجھ بیٹھا ہے کہ مرے گا نہیں کل قیامت کے دن تجھے اللہ کو ایک ایک عمل کا حساب دینا پڑے گا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسی بات کو دھراتے رہے اور بڑی دیر روتے رہے
۔اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایسا کیوں تھا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں حساب کتاب کا معاملہ بڑا سخت ہے اب اندازا لگایئے کہ ایک نبی ایک خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اور سرکار کے پہلو میں آرام فرمانی ہستی کی سوچ کا یہ عالم ہے تو ہماری کیا اوقات ہے کیا آج کے حکمران ہمیں ایسی سوچ کے ساتھ نظر آتے ہیں ؟ اور یہ بات ہمارے درمیاں ہر اس شخص کے لیئے ایک سبق ہے جو کسی نہ کسی منصب پر فائض ہے اب وہ چاہے پورے ملک کا حکمران ہو یا کسی علاقے کا یا کسی گھر کا اللہ کا نظام سب کے لیئے یکساں ہے اور ویسے بھی جب کسی کو کوئی منصب دیا جاتا ہے تو اس سے حلف لیا جاتا ہے وہ حلف اصل میں اللہ سے وعدہ ہوتا ہے جو وہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو استعمال کرتے ہوئے قسم کھاتا ہے کہ میں اپنے منصب پر دیانتداری سے کار بند رہوں گا اور اگر ایسا نہ کیا تو باری تعالی نے صاف طور پر اپنی کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ
اللہ رب العزت نے سورہ النحل کی آیت 91 میں ارشاد فرمایا کہ

وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِ اللّٰہِ اِذَا عٰہَدۡتُّمۡ وَ لَا تَنۡقُضُوا الۡاَیۡمَانَ بَعۡدَ تَوۡکِیۡدِہَا وَ قَدۡ جَعَلۡتُمُ اللّٰہَ عَلَیۡکُمۡ کَفِیۡلًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا تَفۡعَلُوۡنَ ۔

ترجمعہ کنزالایمان:
اور اللہ کا عہد پورا کرو جب قول باندھو اور قسمیں مظبوط کرکے نہ توڑو او تم اللہ کو اپنے اوپر ضامن کر تے ہو بیشک اللہ تمہارے کام جانتا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب بھی کسی ملک میں حکومت کی تبدیلی کی بات آتی ہے تو وہاں لفظ " ووٹ " کا استعمال زیادہ ہوتا ہے کہ ووٹ دینا قومی فریضہ ہے ٫ ووٹ ایک امانت ہے , ووٹ دینا شرعی فریضہ ہے وغیرہ وغیرہ لیکن اس لفظ ووٹ کے مطلب کیا ہے اس کے معنی کیا ہیں ؟ یہ شاید کم لوگوں کو علم ہے یا پھر اس کی اہمیت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے ایک عام انسان کو کوئی سروکار نہیں جبکہ یہ بات بہت ضروری ہے کہ ووٹ کے معنی اور اس کے استعمال سے پہلے اس کے بارے میں ہر انسان کو مکمل معلومات حاصل ہوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مفتی اعظم پاکستان جناب مفتی منیب الرحمان صاحب اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ اسلام کی تاریخ میں لفظ ووٹ کا استعمال ہمیں کہیں نہیں ملتا اور یہ جدید اصطلاح ہے اور اس جدید دور میں اسے ووٹ کا نام دیا گیا ووٹ کے معنی امانت کے ہیں یعنی ووٹ آپ کے پاس اس کی امانت ہے جس کو آپ دیتے ہیں یہ قومی اور شرعی دونوں فرائض میں آتا ہے لیکن ایک بات یاد رکھئے کہ اگر کسی غلط شخص یا جماعت کو آپ نے یہ امانت دی اور وہ اپنے وعدے پر پورا نہیں اترتا اور شرعی حلف کی پاسداری نہیں کرتا تو اس کے جرم میں آپ بھی شریک ہو جائیں گے اور گناہ کے مرتکب ہو جائیں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اور اگر کسی ایسے شخص کا انتخاب کرنے میں اپنے ووٹ کا استعمال آپ کرتے ہیں جو حلف کا بھی پابند ہو شرعی طور پر اپنی زمہ داری نبھانے کے لائق ہو تو پھر اس کے ہر نیک اور شرعی کام یا فیصلے میں آپ کو بھی نیکی کا اجر ملے گا لہذہ اس امانت کے استعمال میں ہمیں بڑی احتیاط سے کام لینا چاہئے صرف پسند یا ناپسند کی بنیاد پر اس کا استعمال غلط اور ناجائز ہوگا کیوں کہ ووٹ دینے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے گواہی دے دی کہ جس کو میں نے یہ امانت سونپی ہے وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے احکامات کا پاسدار ہے لہذہ غلط فیصلہ پر پکڑ اور صحیح فیصلہ پر اجر کا امکان لازمی ہوتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اب چاہے وہ تاریخ اسلام کے بہادروں بزدلوں ظالم یا مظلوموں کے سبق آموز واقعات پر مبنی ہو یا دینی و مذہبی معلومات کی کوئی کتاب ہو یا پھر دنیا کی تاریخی معلومات یا لوگوں کے متعلق ہو تو ہمیں بہت کچھ پڑھنے کو ملے گا ۔جیسے ایک حکمران تھا جس کا نام تھا
نیرو (Nero) ۔
روم کا یہ بدنام زمانہ حکمران ایک لے پالک بچہ تھا۔ جب اس کے باپ کی وفات ہوئی تو وہ بادشاہ بنا۔ تخت سنبھالنے کے بعد شروع شروع میں اس نے اپنی ظالمانہ فطرت کا کوئی مظاہرہ نہیں کیا، لیکن اقتدار کے ماہ و سال گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی طبیعت میں ایک مجنونانہ اشتعال کی سی کیفیت بڑھنے لگی۔ سب سے پہلے اس نے اپنی ماں ’’ایگریپینا دی ینگر‘‘ (Agrippina The Younger) کو قتل کیا۔ بعدازاں کچھ عرصے بعد ہی اس نے اپنی دونوں بیویوں کو بھی باری باری قتل کردیا۔ آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک جاپہنچی کہ اس نے پورے روم کو آگ لگانے کا منصوبہ بنایا تاکہ وہ پرانے شہر کی جگہ پر ایک نیا شہر بناسکے۔ یہ آگ ’’دی گریٹ فائر آف روم‘‘ کہلاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو آرام سے بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ وہ یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے روم کے بچ جانے والے شہریوں پر ہی آگ لگائے جانے کی سازش کا الزام لگا دیا اور ان پر مقدمات چلانے کے بعد بہت سوں کو شدید تشدد کرواکے مروا دیا۔ لیکن جب اللہ تعالٰی کی ڈھیل پوری ہوگئی تو اس کی ذہنی حالت اتنی خراب ہوگئی کہ اس نے خودکشی کرکے اپنی بھی جان لے لی کیونکہ اب اللہ تعالیٰ کی رسی کے کھینچنے کا وقت آچکا تھا اور وہ اپنے انجام کو جا پہنچا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حکمرانی کا منصب اتنا آسان نہیں جیسے لوگ سمجھتے ہیں ہمارے یہاں حکمرانی ایک طرح کا کھیل سمجھا جاتا ہے بس پیسہ حاصل کرنا مقصد ہوتا ہے کہیں سے بھی آئے چاہے وہ جائز ذرائع ہوں یا ناجائز جبکہ انصاف پسند حکمران کی احادیث مبارکہ میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہیں جیسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ تین قسم کے لوگوں کی دعا اللہ تعالیٰ کبھی رد نہیں فرماتا پہلا وہ شخص ہے جو کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتا ہو دوسرا مظلوم اور تیسرا انصاف کرنے والا حکمران۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تاریخ اسلام میں ہمیں بیشمار ایسے حکمرانوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو نہ صرف انصاف پسند تھے بلکہ ان کی حکمرانی کے دور دور تک ڈنکے بجتے تھےکسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت کیا کرتا تھا وہ بہت انصاف پسند اور رحمدل تھا اس کی رعایا بھی اسے پسند کیا کرتی تھی بادشاہ کی کوئی اولاد نا تھی اور بادشاہ کی رانی خوبصورت تو تھی مگر کم عقلی میں اپنی مثال آپ تھی رانی بادشاہ کو ہر وقت اس بات کے لیے اکساتی رہتی تھی کہ اس کے بھائی کو وزیر بنا دیا جائے بادشاہ اپنی رانی کی بات سنی ان سنی کر دیتا تھا ایک دن بادشاہ اور رانی محل کے جھروکے میں بیٹھے ہوئے تھے محل سے دور ایک بستی میں شادیانے بج رہے تھے کہ جیسے کسی کی بارات آئی ہو رانی نے بادشاہ سے پھر اپنے بھائی کو وزیر بنانے کی بات چھیڑ دی اور ضد کرنے لگی کہ اس کے بھائی کو وزیر بنا دیا جائے بادشاہ بڑے تحمل سے اپنی بیوی کی بات سنتا رہا اور پھر کہا اچھا اپنے بھائی کو بلاﺅ رانی خوش ہوگئی کہ بادشاہ اب اس کے بھائی کو وزیر بنا دے گا اس نے خادمہ کو کہا کہ جلدی سے اس کے بھائی کو بلایا جائے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں چند لمحوں بعد رانی کا بھائی بھی ہاپنتا ہوا بادشاہ کے حضور حاضر ہو گیا بادشاہ نے رانی کو دیکھتے ہوئے اپنے سالے سے کہا تم وزیر بننا چاہتے ہو سالے نے کہا کہ ہاں بادشاہ نے کہا کہ جاﺅ پتہ کر کے آﺅ کہ سامنے والی بستی میں شادیانے کیوں بج رہے ہیں سالا خوشی خوشی بستی کی جانب بھاگا اور کچھ دیر کے بعد بھاگتا ہوا واپس آیا اور کہا کہ یہ شادیانے کسی کی بارات میں بج رہے ہیں بادشاہ نے پھر کہا کہ جاﺅ پتہ کرو کہ کس کی بارات ہے؟ سالا پھر بھاگتا ہوا بستی کی جانب نکل گیا اور کچھ دیر کے بعد آ کر جواب دیا کہ یہ بارات قمرو کمہار کے بیٹے کی ہے بادشاہ نے پھر سوال کیا کہ جاﺅ پتہ کرو کہ یہ بارات کس گاﺅں سے آئی ہے سالا پھر بھاگتا ہوا بستی کی جانب نکل گیا اور چند لمحوں بعد آکر جواب دیا کہ یہ بارات فلاں گاﺅں سے آئی ہے رانی اس پورے عمل کو غور سے دیکھ رہی تھی اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بادشاہ کیا کرنا چاہ رہا ہے بادشاہ نے پھر سالے سے کہا جاﺅ پتہ کر کے آﺅ کے قمرو کمہار کے بیٹے کی شادی کس سے ہو رہی ہے سالا اب اس عمل سے تھک چکا تھا مگر وزیر بننے کی لالچ میں دوبارہ بستی کی جانب نکل پڑا اور کچھ دیر بعد واپس آکر جواب دیا کہ یہ بارات رشید کمہار کے گھر آئی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مسلسل کی بھاگ ڈور سے سالے کی حالت خراب ہو چلی تھی بادشاہ نے اپنے سالے پر رحم کھائے بغیر پھر
سوال کیا کہ جاﺅ پوچھ کے آﺅ کہ حق مہر کتنا طے ہوا ہے بمشکل سالا بستی کی جانب چلا اور کافی دیر بعد واپس آکر جواب دیا اب بادشاہ نے اپنے سالے کو ایک جانب کھڑے ہونے کا اشارہ کیا اور اپنے وزیر کو طلب کیا وزیر کے آنے پر بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ جاﺅ جا کر پتہ کرو کہ یہ شادیانے کیوں بج رہے ہیں وزیر فوراً حکم کی تعمیل کے لیے چل پڑا اور کچھ دیر کے بعد بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جواب دینے کی اجازت طلب کی اجازت ملنے پر وزیر نے بتایا کہ یہ شادیانے قمرو کمہار کے بیٹے کی بارات کے ہیں جو فلاں گاﺅں سے آئی ہے قمرو کمہار کے بیٹے کی شادی رشید کمہار کی بیٹی سے ہو رہی ہے اور حق مہر اتنا ہے اور رشید نے اپنی بیٹی کو کیا جہیز دیا ہے یہ بارات آج ہی واپس جائے گی اور رشید کمہار بارات کی تواضع گڑ کے چاول اور اصلی گھی سے کرنے والا ہے وزیر کا جواب سن کر بادشاہ نے اپنی رانی کی جانب دیکھا رانی بہت شرمندہ ہوئی اور آئندہ کبھی اپنے بھائی کو وزیر بنانے کی ضد نہیں کی۔کسی طاقتور کی رشتہ داری کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ہر عہدے کے اہل ہیں اور صرف اہل لوگ اور اہل افراد ہی ملک کا نظام بہترین طریقے سے چلا سکتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تاریخ میں بیشمار انصاف پسند حکمرانوں کا تذکرہ جن میں ٹیپو سلطان اور غیاث الدین بلبن جیسے حکمرانوں کا نام بھی آتا ہے اور دوسری طرف فرعون اور قارون جیسے حکمرانوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو اپنے مظالم کے سبب اپنے برے انجام کو پہنچ گئے اور برے حکمرانوں کے لیئے حدیث میں واضح ہے کہ بہت جلد وہ اپنی آنکھوں سے اپنا انجام دیکھیں گے لیکن میں نے پہلے بھی کہا کہ ہمیں بغور اپنا محاسبہ کرنا ہوگا اگر ہمارے یعنی عوام کے اعمال اچھے ہوں گے تو ہم پر حکمران بھی اچھے اور نیک لوگ ہوں گے ورنہ ہم پر ظالم اور نااہل لوگ مسلط کردیے جائیں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حدیث میں آیا ہے کہ ،
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں پر بہت سے سال ایسے آئیں گے جن میں دھوکہ ہی دھوکہ ہو گا۔ اس وقت جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا۔ بددیانت کو امانت دار تصور کیا جائے گا اور امانت دار کو بددیانت اور ’’رویبضہ‘‘ یعنی نااہل اور فاسق و فاجر لوگ قوم کی نمائندگی کریں گے۔ عرض کیا گیا: ’رویبضہ‘ سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا: وہ نااہل اور فاسق شخص جو اہم معاملات میں عوام کی نمائندگی اور رہنمائی کا ذمہ دار بن جائے۔
(امام ابن ماجہ)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سب سے پہلے ہمیں اپنا آپ بدلنا ہوگا اپنے اندر تبدیلیاں لانی ہوں گی زرا سوچیئے کہ رشتوں میں مادیت ، دودھ میں پانی ، ایمان میں منافقت ، مرچ میں سرخ اینٹیں ، ہلدی میں رنگ ، دیسی گھی میں کیمیکل ، ادرک میں کیمیکل والا پانی ، گوشت میں پانی کی فلنگ ، ہوٹلوں میں مردار گوشت ،دوستی میں خودغرضی ، آٹے میں ملاوٹ ، نوکری میں رشوت اور نماز میں دکھاوا اور کہتے ہیں کہ حکمران ٹھیک نہیں ہمیں سب سے پہلے اپنے اعمال درست کرنا ہوں گے اپنے ہر عمل کو اللہ تعالیٰ کی مرضی ، منشاء اور مصلحت کے تابع کرنا ہوگا اس کے احکامات کی پیروی کرنا ہوگی اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی احادیث پر عمل کرکے آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنا ہوگا پھر ہمیں اپنے لیئے اچھے حکمرانوں کے لیئے دعائوں کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی بلکہ خالق کائنات ہمارے نیک اعمال کی بدولت ہم ہر بھی نیک ، صالح ، شریعت کے پابند اور انصاف پسند حکمران عطا کردے گا ان شاءاللہ ۔

 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 166 Articles with 133922 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.