ملّتِ ابراہیمی ۔تعارف اور اساسی خصوصیات

انبیائے کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام کی برگزیدہ جماعت میں سیدنا ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ہستی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ آپ کو جدّ الانبیا کے لقب سے ممتاز کیا گیا ہے۔ہزاروں انبیا آپ کی اولاد میں تشریف لائے حتیٰ کہ خاتم الانبیا محمد مصطفیٰﷺ بھی آپ ہی کے بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اولاد میں ہیں۔امت محمدیہ کا بھی اپنے پیغمبرﷺ کے ذریعے حضرت ابراہیم سے خصوصی تعلق اور نسبت ہے بلکہ جماعتِ انبیا میں آنحضرت ﷺ کے بعد سب سے زیادہ مناسبت حضرت ابراہیم سے ہے۔نماز جو افضل ترین اور باربار کی جانے والی عبادت ہے اس میں التحیات کے بعد درود شریف وہ مقرر کیا گیا جس میں آنحضرت ﷺ کیلیے ایسی ہی رحمتیں اور برکتیں مانگی جاتی ہیں جیسی سیدنا ابراہیم اور ان کی اولاد پر نازل فرمائیں گئی۔حج ،قربانی وغیرہ سیدنا ابراہیم اور آپ کے مقدس گھرانے کی یادگاریں آج بھی اس امت میں جاری و ساری ہیں۔قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے کئی جگہوں پر سیدنا ابراہیم کا تذکرہ فرمایا ،آپ اور آپ کے ساتھیوں کے اسوہ کو بہترین ارشاد فرمایا اور آپ کی ملت کی اتباع کا حکم دیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ملتِ ابراہیمی جس کی پیروی کا جابجا حکم فرمایا جا رہا ہے وہ ہے کیا ،اس کی وہ کیا بنیادی خصوصیات ہیں جس کی وجہ سے اسے قابل ِ اتباع قراردیا گیا ۔اصل سوال کا جواب دینے سے قبل لفظ ملت کے لغوی وشرعی مفہوم کے متعلق چند باتیں عرض کی جاتی ہیں:
القاموس الوحید میں ملّت کے مندرجہ ذیل معانی لکھے ہیں:
شریعت،مذہب ،طریقہءزندگی جیسے ملتِ اسلام اور ملتِ نصرانیت ملت دراصل ان احکام و قوانین کے مجموعے کا نام ہےجن کو اللہ نے اپنے نبیوں کے ذریعے دین ودنیا کی سعادت کے لیے اپنے بندوں کو عطا کیے ہیں۔(القاموس الوحید،ص۱۵۸۳)
حضرت قاضی ثناءاللہ پانی پتی رحمہ اللہ تعالیٰ ملت کی تعریف ان الفاظ سے فرماتے ہیں:
ملّت دین کی طرح ان باتوں کا نام ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کی زبان پر اپنے بندوں کیلیے مقرر کیا ہے تاکہ اس کے ذریعے دونوں جہان میں قرب اور صلاح کے درجات پاسکیں۔ملت اور دین میں فرق یہ ہے کہ ملت کی نسبت صرف اسی نبی کی طرف ہی کی جا سکتی ہے جس سے وہ منسوب ہے۔نہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی اضافت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی ایک امت کی طرف(تفسیر ِمظہری ،ج۱ص۹۱)
ملّت کی لغوی واصطلاحی تعریفات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے مفسّرین ملّت کا ترجمہ دین سے بھی کرتے ہیں جیسا کہ آگے آئے گا۔ابہم قرآنِ کریم کی ان آیات کو دیکھتے ہیں جن میں ملّتِ ابراہیم کا تذکرہ اور پھر اس کے تحت مفسّرین کے اقوال دیکھتے ہیں۔اس کے بعد انہی آیات کی روشنی میں ملّت ِابراہیم کی بنیادی خصوصیات کا مطالعہ کریں گے۔
۱۔وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْراهِيمَ إِلاَّ مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْناهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ (130) إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ (131) وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفى لَكُمُ الدِّينَ فَلا تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (132)(البقرۃ)
اور کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے انحراف کرے ؟ سوائے اس شخص کے جو خود اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کرچکا ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے دنیا میں انہیں (اپنے لیے) چن لیا تھا، اور آخرت میں ان کا شمار صالحین میں ہوگا۔جب ان کے پروردگار نے ان سے کہا کہ : سر تسلیم خم کردو ! تو وہ (فورا) بولے : میں نے رب العالمین کے (ہر حکم کے) آگے سر جھکا دیا۔اور اسی بات کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی، اور یعقوب نے بھی (اپنے بیٹوں کو) کہ : اے میرے بیٹو ! اللہ نے یہ دین تمہارے لیے منتخب فرما لیا ہے، لہذا تمہیں موت بھی آئے تو اس حالت میں آئے کہ تم مسلم ہو۔
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:
ابراہیم علیہ السلام کے طریقے اور آپ کے راستے کی مخالفت اوراس سے اعراض کون کرسکتا ہے سوائے اس شخص کے جس نے اپنے آپ کو بیوقوف بنایا؟یعنی بےوقوفی کی اور حق کو چھوڑ کر گمراہی کی طرف جانے کی بری تدبیر کرکے اپنی جان پر ظلم کیا ۔اس طرح کہ اس نے اس ہستی کے طریقے کی مخالفت کی جسے اللہ تعالی نے دنیا میں ہدایت اور راستی کیلئے ابتدائے عمر سے چنا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا دوست بنا لیا اور وہ آخرت میں بھی سعادت مند نیک لوگوں میں ہوں گے۔پس جس نے ان کے اس طریقے،راستے اور دین کو چھوڑا اور گمراہی و سرکشی کے طریقے کی پیروی کی تو اس سے بڑی بےوقوفی کیا ہوگی یا اس سے بڑا ظلم کون سا ہوگا۔(ابنِ کثیر،ج۱ص۳۱۸)
۲۔قُلْ صَدَقَ اللَّهُ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (95) (آلِ عمران)
آپ کہ دیجیے اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا پس تم ابراہیم علیہ السلام کے دین کی پیروی کرو جو سب سے ہٹ کر اللہ تعالیٰ کی طرف مائل تھے اور شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے
۳۔
وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْراهِيمَ حَنِيفاً وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلاً (125)(النسا)
اور اس سے بہتر کس کا دین ہوگا جس نے اپنے چہرے (سمیت سارے وجود) کو اللہ کے آگے جھکا دیاہو، جبکہ وہ نیکی کا خوگر بھی ہو، اور جس نے سیدھے سچے ابراہیم کے دین کی پیروی کی ہو، اور (یہ معلوم ہی ہے کہ) اللہ نے ابراہیم کو اپنا خاص دوست بنا لیا تھا۔
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیںوَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْراهِيمَ حَنِيفاً اور وہ حضرت محمدﷺ اور قیامت تک کے آنے والے آپ کے پیروکار ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهذَا النَّبِيُّ [آل عمران: 68]کہ ابراہیم علیہ السلام کے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو آپ کی پیروی کرنے والے ہیں اور یہ نبی (محمدﷺ)۔نیز اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ثُمَّ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ يا محمّد أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْراهِيمَ حَنِيفاً ۔۔۔حنیف وہ ہے جو ارادتا شرک سے بچنے والاہو یعنی علیٰ وجہ البصیرہ اسے چھوڑنے والا ہو اور حق کو پوراپورا قبول کرنے والاہو،نہ تو اسے کوئی روکنے والا روک سکے اور نہ ہی کوئی ہٹانے والا ہٹاسکے۔وَقَوْلُهُ: وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًایہ ابراہیم علیہ السلام کی اتباع کی ترغیب ہے ۔اس لیے کہ آپ قرب الٰہی کی انتہا تک پہنچنے کے باوصف امام ہیں جن کی اقتدا کی جائے۔آپ درجہء خلّت تک پہنچے جو مقاماتِ محبت میں بلندترین ہےاور یہ بات اپنے رب کی اطاعت کی کثرت سے حاصل ہوئی(تفسیر ا بن کثیرص۳۷۳ج۲)

۴۔
قُلْ إِنَّنِي هَدانِي رَبِّي إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ. دِيناً قِيَماً مِلَّةَ إِبْراهِيمَ حَنِيفاً وَما كانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ [الْأَنْعَامِ: 161- 162]
(اے پیغمبر) کہہ دو کہ میرے پروردگار نے مجھے ایک سیدھے راستے پر لگا دیا ہے جو کجی سے پاک دین ہے، ابراہیم کا دین۔ جنہوں نے پوری طرح یکسو ہو کر اپنا رخ صرف اللہ کی طرف کیا ہوا تھا، اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔
اس آیت کی تفسیر میں حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ ہر صبح ملتِ ابراہیمی پر ہونے کی تکرار فرماتے تھے؛
عَنِ ابْنِ أَبْزَى عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم إذا أَصْبَحَ قَالَ «أَصْبَحْنَا عَلَى مِلَّةِ الْإِسْلَامِ وَكَلِمَةِ الْإِخْلَاصِ وَدِينِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ وَمِلَّةِ أَبِينَا إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ» .
رسول اللہ ﷺ جب صبح ہوتی تو کہتے: ہم نے صبح کی ملتِ اسلام پر کلمہء اخلاص پر،ہمارے نبی محمدﷺ کے دین ،ہمارے باپ ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ملت پر جو حنیف تھے اور شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے (ابنِ کثیر ج۳ ص۳۴۲)
قاضی ثناءاللہ پانی پتی رحمہ اللہ تعالیٰ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں
ثمّ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ يا محمّد أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْراهِيمَ حَنِيفاً فى التوحيد والدعوة الى الله بالرفق وإيراد الدلائل مرة بعد اخرى والمجادلة مع كل أحد على حسب فهمه وفى التوجه الى قبلته فى الصلاة والتشرع بشرائع دينه (مظہری)
یعنی پھر ہم نے اے محمدﷺ آپ کی طرف وحی کی کہ آپ ابراہیم علیہ السلام کی ملت کی پیروی کریں جو حنیف تھے یعنی توحید اور نرمی کے ساتھ دعوت الی اللہ کرنے ،ایک کے بعد دوسرے دلائل لا نے اور ہر ایک سے اس کی فہم کے مطابق مباحثہ کرنے میں،ان کے قبلہ کی طرف توجہ کرنے اور ان کے دین کی مقررکردہ باتوں کو لازم پکڑکر
حنیف کی تفسیر قاضی ثناءاللہ پانی پتی رحمہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمائی ہے:
مائلا من الأديان كلها الى الإسلام(مظہری ص۲۶۲ج۳)
تمام ادیان سے ہٹ کر اسلام کی طرف مائل ہونے والا
۵۔ وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ (78)(الحج)
اور اللہ کے راستے میں جہاد کرو، جیسا کہ جہاد کا حق ہے۔ اس نے تمہیں (اپنے دین کے لیے) منتخب کرلیا ہے، اور تم پر دین کے معاملے میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ اپنے باپ ابراہیم کے دین کو مضبوطی سے تھام لو، اس نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا، اور اس (قرآن) میں بھی، تاکہ یہ رسول تمہارے لیے گواہ بنیں، اور تم دوسرے لوگوں کے لیے گواہ بنو۔ لہذا نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ ادا کرو، اور اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھو، وہ تمہارا رکھوالا ہے، دیکھو، کتنا اچھا رکھوالا، اور کتنا اچھا مددگار۔

ملتِابراہیمی کی خصوصیات
۱۔شرک سے بیزاری
ملتِ ابراہیمی کی پہلی خصوصیت جس نے اسے قیامت تک کے آنے والے انسانوں کے لئے لائقِ تقلید بنا دیا وہ شرک سے بیزاری ہے۔سیدنا ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام ایک ایسے گھر میں پیدا ہوتے ہیں جو بذاتِ خود بت تراش تھا ۔آپ کی نشوونما ایک ایسے ماحول میں ہوتی ہے جہاں توحید کا تصور نہیں تھا۔پتھر کے خود تراشیدہ بتوں کی عبادت اس معاشرے کا چلن تھا۔ان حالات میں اللہ تعالیٰ کے اس چنے ہوئے بندے کے دل میں شرک سے بیزاری ڈال دی جاتی ہے ۔اپنی قوم پر حجت تمام کرتے ہوئے آپ مظاہرِفطرت کو پیش کرتے ہیں۔ان کے زوال کو قوم کے سامنے ان کے عاجزومخلوق ہونے کی دلیل بناتے ہیں اور اپنے آپ کو تمام ادیان ِباطلہ اور شرک سے بری قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی توحید کا ببانگِ دہل اعلان کرتے ہیں۔قرآنِ حکیم اس کا نقشہ یوں پیش کرتا ہے:
فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ (76) فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ (77) فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ (78) إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (79) (انعام:76تا79)
چنانچہ جب ان پر رات چھائی تو انہوں نے ایک ستارا دیکھا۔ کہنے لگے : یہ میرا رب ہے پھر جب وہ ڈوب گیا تو انہوں نے کہا : میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
پھر جب انہوں نے چاند کو چمکتے دیکھا تو کہا کہ : یہ میرا رب ہے۔ لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے : اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ دیتا تو میں یقینا گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاؤں۔پھر جب انہوں نے سورج کو چمکتے دیکھا تو کہا : یہ میرا رب ہے,یہ زیادہ بڑا ہے۔ پھر جب وہ غروب ہوا تو انہوں نے کہا : اے میری قوم ! جن جن چیزوں کو تم اللہ کی خدائی میں شریک قرار دیتے ہو، میں ان سب سے بیزار ہوں۔میں نے تو پوری طرح یکسو ہو کر اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔

حضرت ابراہیم کو جس قوم سے سابقہ تھا ان میں بت پرستی کے ساتھ ستارہ پرستی کا بھی مرض تھا ۔اس لیے یہاں آپ نے پہلے بتوں کی نفی کی اور پھر ستاروں کو معبود بنا کر موثر بالذات ماننے کے عقیدے کی بھی تفصیل کے ساتھ تردید کی۔چونکہ بتوں کا عاجز ولاچار ہونا زیادہ واضح تھا کہ وہ بت خود ان کے اپنے تراشیدہ تھے لہٰذا ان کی تردید اجمالا کردی ۔البتہ ستارے دور ہونے اور خود تراشیدہ نہ ہونے کی وجہ سے سمجھنا نسبتا مشکل محسوس ہورہا تھا لہٰذا ان کی تردید میں کچھ تفصیل فرمائی اور پھر اس میں بھی ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ترقی کی۔چنانچہ پہلے ستارے پھر چاند اور پھر سورج کے ڈھلنے سے استدلال کیا۔ان زوال ہو جانے والی اشیا سے اپنی محبت نہ ہونے کا اعلان کیا اور آخر کار اپنے عقیدہء توحید اورشرک سے براءت کا اظہار کیا۔


عشق کی آتش کا جب شعلہ اٹھا
ماسوا معشوق سب کچھ جل گیا
تیغِ لاسے قتلِ غیرِ حق ہوا
مرحبا اے عشق تجھ کو مرحبا
اتمامِ حجت کے بعد آپ نے وہ لازوال جملہ فرمایا جس کی باز گشت سے آج بھی اہلِ صدق و وفا ایک ولولہء تازہ پاتے ہیں اور ہر سال قربانی کا جانور ذبح کرتے ہوئے اسی جملے کو دوہرایا جاتا ہے۔یعنی میں نے سب ادیانِ باطلہ سے رخ پھیرتے ہوئے اپنا چہرہ خالقِ ارض و سماوات کی طرف پھیر دیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (4) (الممتحِنّہ)
تمہارے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ : ہمارا تم سے اور اللہ کے سوا تم جن جن کی عبادت کرتے ہو، ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں، اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض پیدا ہوگیا ہے جب تک تم صرف ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ۔ البتہ ابراہیم نے اپنے باپ سے یہ ضرور کہا تھا کہ : میں آپ کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا ضرور مانگوں گا، اگرچہ اللہ کے سامنے میں آپ کو کوئی فائدہ پہنچانے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اے ہمارے پروردگار آپ ہی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے، اور آپ ہی کی طرف ہم رجوع ہوئے ہیں، اور آپ ہی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے۔
یہاں ابراہیم علیہ السلام شرک اور اپنی مشرک قوم سے مکمل علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں ۔گویا مشرک اور موحد نسبی اور علاقائی اعتبار سے قریب کیوں نہ ہوں حقیقت میں ان کی قومیں الگ ہیں۔توحید کا رشتہ وہ رشتہ ہے جو ہزار لسانی و خاندانی اختلافات کے باوجود دلوں کو جوڑتا ہے۔
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں ،لآ الٰہ الّااللہ
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا (41) إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا (42)(مریم)
اور اس کتاب میں ابراہیم کا بھی تذکرہ کرو۔ بیشک وہ سچائی کے خوگر نبی تھے۔یاد کرو جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا تھا کہ : ابا جان ! آپ ایسی چیزوں کی کیوں عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں، نہ دیکھتی ہیں، اور نہ آپ کا کوئی کام کرسکتی ہیں ؟
یہاں ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کو ان کے شرک پر متنبہ کرتے ہوئے دلیل دیتے ہیں کہ وہ عبادت کے لائق نہیں جو نہ سنے ،نہ دیکھے اور نہ ہی کسی کام آئے
قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ (66) أُفٍّ لَكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (67)(الانبیاء)
ابراہیم نے کہا : بھلا بتاؤ کہ کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کر رہے ہو جو تمہیں نہ کچھ فائدہ پہنچاتی ہیں نہ نقصان ؟تف ہے تم پر بھی، اور ان پر بھی جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتےہو۔ بھلا کیا تمہیں اتنی سمجھ نہیں ؟
نمرود کے سامنے ابراہیم علیہ السلام نے ایک ایسی دلیل دی جس نے نمرود کوعاجز کردیا۔وہ یہ کہ جو رب ہے وہ سورج کے طلوع وغروب پر بھی قدرت رکھتا ہے۔وہ اپنی منشا کے مطابق سورج مشرق سے نکالتا ہے اور مغرب میں غروب کرتا ہے ،اب اگر نمرود خدائی کا دعویدار ہے تو ذرا سورج کو مغرب سے نکال لائے ۔قرآنِ حکیم اس کا نقشہ کھینچتا ہے:
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (258)(البقرۃ)
کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر غور کیا جس کو اللہ نے سلطنت کیا دے دی تھی کہ وہ اپنے پروردگار (کے وجود ہی) کے بارے میں ابراہیم سے بحث کرنے لگا ؟ جب ابراہیم نے کہا کہ : میرا پروردگار وہ ہے جو زندگی بھی دیتا ہے اور موت بھی، تو وہ کہنے لگا کہ : میں بھی زندگی دیتا ہوں اور موت دیتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا : اچھا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تم ذرا اسے مغرب سے تو نکال کر لاؤ، اس پر وہ کافر مبہوت ہو کر رہ گیا۔ اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

۲۔اطاعت و فرمانبرداری
ملتِ ابراہیمی کی دوسری اہم خصوصیت جس نے اسے ممتاز کیا وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے آگے سرِتسلیم خم کرنا ہے اور یہی اسلام ہے کہ آدمی اپنے آپ کو بندہ اور غلام سمجھ کر اپنے مالکِ حقیقی اور آقا کے ہر فرمان کو تسلیم کرے ۔گویا
نشود نصیبِ دشمن کہ شود ہلاکِ تیغت
سرِدوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی
اور
اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا
سرِتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
سیدنا ابراہیم اس طرزِ محبت کے امام ہیں اور قرآنِ کریم ان کی اس شان کو یوں بیان کرتا ہے
إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ (131)(البقرۃ)
اسی کامل تابعداری کا مظہر بیٹے کو قربان کرنا ہے۔جس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ کو خواب میں دکھایا جاتا ہے کہ آپ اپنے پیارے بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ذبح کررہے ہیں۔چونکہ پیغمبروں کا خواب بھی وحی ہوتا ہے لہٰذا آپ اپنے فرزند حضرت اسماعیل کی گردن پر چھری چلاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ دونوں باپ بیٹے کے اس جذبہء اطاعت شعاری کو قبول فرماتے ہوئے اس کا ذکر فرماتے ہیں:
فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ (103) وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ (104) قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (105) إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ (106) وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ (107) وسَلٰمٌ عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ(108))الصافّات)
چنانچہ (وہ عجیب منظر تھا) جب دونوں نے سر جھکا دیا، اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل گرایا۔اور ہم نے انہیں آواز دی کہ : اے ابراہیم !تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ یقینا ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔یقینا یہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا۔اور ہم نے ایک عظیم ذبیحہ کا فدیہ دے کر اس بچے کو بچا لیا۔اور جو لوگ ان کے بعد آئے ان میں یہ روایت قائم کی(کہ وہ یہ کہا کریں کہ) سلام ہو ابراہیم پر۔

اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے فرمانبرداری اختیار کرنے کی ایک اور مثال آپ کا وہ طرزِعمل ہے جو ااپ نے اپنی بیوی بچے کو مکہ کی غیر آباد سرزمیں میں چھوڑ کر اختیار کیا ۔

يَا إِبْرَاهِيمُ، أَيْنَ تَذْهَبُ وَتَتْرُكُنَا بِهَذَا الوَادِي، الَّذِي لَيْسَ فِيهِ إِنْسٌ وَلاَ شَيْءٌ؟ فَقَالَتْ لَهُ ذَلِكَ مِرَارًا، وَجَعَلَ لاَ يَلْتَفِتُ إِلَيْهَا، فَقَالَتْ لَهُ: آللَّهُ الَّذِي أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ نَعَمْ، قَالَتْ: إِذَنْ لاَ يُضَيِّعُنَا، ثُمَّ رَجَعَتْ، فَانْطَلَقَ إِبْرَاهِيمُ حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ الثَّنِيَّةِ حَيْثُ لاَ يَرَوْنَهُ، اسْتَقْبَلَ بِوَجْهِهِ البَيْتَ، ثُمَّ دَعَا بِهَؤُلاَءِ الكَلِمَاتِ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ: رَبِّ {إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ المُحَرَّمِ} [إبراهيم: 37](،صحیح بخاری ،کتا ب احادیث الانبیاء،رقم۳۳۶۴)
یعنی حضرت ہاجرہ نے بے قرار ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ ہمیں ایک ایسی وادی میں میں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں جہاں نہ تو کوئی انسان ہے اور نہ کوئی چیز ہے؟ بار بار پوچھنے پر بھی جب ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے جواب نہ دیا تو حضرت ہاجرہ نے از خود دریافت کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے۔آپ نے جواب دیا کہ جی ہاں۔اس پر حضرت ہاجرہ نے کہا کہ پھر اللہ تعالیی ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔پھر وہ واپس لوٹ گئیں۔اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام چلے اور ایسی جگہ جہاں سے انہیں کوئی دیکھ نہ سکے قبلہ رخ ہوکر دعاکی جس کا ذکر قرآنِ کریم میں ہے۔
شیرخوار بچے اور اس کی اکیلی والدہ کو ایک غیر آباد جگہ پر چھوڑنا بظاہر عقلِ دور اندیش کے خلاف ہے لیکن خلیل اللہ کا ہر عمل عقل کے تمام بتوں پر ضربِ کاری تھا۔اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے جان و تن اور فرزندو زن سبھی نثار تھےاور آپ کی یہی ادا تھی جو قیامت تک کے آنے والے عشاقانِ الٰہی کے لئے مشعلِ راہ ہے:
آنکس کہ ترا شناخت جاں راچہ کند
فرزند و عیال و خانماں راچہ کند
دیوانہ کنی ہر دو جہانش بخشی
دیوانہء تو ہر دو جہاں راچہ کند
جس نے تمہیں پہچان لیا وہ جان کا کیا کرے،بال بچوں اور گھر بار کا کیا کرے
تم دیوانہ بنادیتے ہو اور پھر دو جہان بخش دیتے ہو،تمہارا دیوانہ دونوں جہان لے کر کیا کرے
۳۔قربانی
ملتِابراہیمی کی اساسی خصوصیات میں راہِ خدا میں قربانی ہے۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی رضامندی میں قربانی پیش کرنے سے عبارت ہے۔سب سے پہلے اپنے خاندان اور قوم کے سامنے توحید کی دعوت پیش کرنے اور معبودانِ باطلہ کی نفی کرنے میں آپ کو بڑی تکالیف اٹھانی پڑیں حتیٰ کہ قوم نے آپ کو اپنے تئیں جان سے مارڈالنے میں کوئی کسر نہ چھوڑرکھی ۔پھر اپنے والد کے سامنے عقیدہء توحید کی دعوت پیش کی جس پر باپ نے آپ کو اپنے سے دور کر دیا بلکہ پتھر تک مارنے کی دھمکی دی۔اس کے بعد آپ کو اللہ کے دین کی حفاظت و اشاعت کے لئے ہجرت بھی کرنا پڑی جس میں آپ کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام بھی آپ کے ساتھ تھے۔اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر آپ نے اپنے بڑھاپے میں ملنے والے بیٹے اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو لق و دق وادی میں چھوڑا۔پھر دور سے آکر ان کی خبر گیری کرتے رہے۔جب اسماعیل علیہ الصلٰوۃ والسلام کچھ ان کا اور ماں کا سہارا بننے لگے تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ اس بچے کو میرے نام پر قربان کردیجیے۔ابراہیم علیہ السلام اس امتحان کے لئے بھی تیار ہوگئے بلکہ گزر گئے۔ان تمام قربانیوں کا ذکر پیچھے مختلف آیات میں آچکا ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر سلام آیا اور امامت وسیادت کو آپ کی نسلوں میں جاری رہنے کی خوشخبری بھی ملی۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کے حوالے سے قرآنِ کریم میں آپ کے چند امتحانات کا ذکر ہیں جن میں آپ کو آزمایا گیا اور آپ ان میں کامیاب ہوئے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ (124) (البقرۃ)
اور جب آزمایا ابراہیم کو اس کے رب نے کئی باتوں میں،پھر اس نے وہ پوری کیں،تب فرمایا کہ میں تجھے کروں گا سب لوگوں کا پیشوا،بولا اور میری اولاد میں سے بھی ،فرمایا:نہیں پہنچے گا میرا قرار ظالموں کو۔
یہ امتحان کن باتوں میں لیا گیا،اس کی تفسیر میں علماءکے مختلف اقوال ہیں لیکن ان سب کا جمع ہونا ممکن ہے۔بڑے امتحانات تو وہی ہیں جن کا اوپر بھی ذکر ہوچکا ہے اور جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے معروف واقعات ہیں۔ان کے علاوہ بعض ایسے احکامات ہیں جن کا تعلق بدن کی صفائی ،ستھرائی اور پاکی سے ہے ،انہیں خصائلِ فطرت بھی کہتے ہیں اور مندرجہ ذیل ہیں:
مونچھوں کا چھوٹا کرنا،کلی،ناک میں پانی ڈالنا،مسواک،سر میں مانگ نکالنا،ناخن کترنا،حلق العانہ،ختنہ،بغل کے بال چننا،پیشاب پاخانہ کے اثر کا پانی سےدھونا
اس کے علاوہ اور بھی چیزیں لکھی گئی ہیں جن کے لئے تفسیر ابنِ کثیر کی آیتِ مذکورہ کے تحت مراجعت کی جا سکتی ہے۔
ملتِ ابراہیمی کی ان اساسی خصوصیات کو سمجھ کر ان پر اپنی زندگی کے لائحہ عمل کو تیار کرنا امتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلٰوۃ والسلام کے فرد کی ذمہ داری ہے ۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تعلق کی تجدید جو ہر نماز میں درود ابراہیمی کی شکل میں کی جاتی ہے،اس کا تقاضا بھی یہی ہے۔اسی ملت کی پیروی آج بھی امت کے عروج کی ضامن ہے اور بادِصرصر کو نسیمِ بہار بدلنے کا ذریعہ ہے:

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا





 

Fahad Anwar
About the Author: Fahad Anwar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.