میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
ثعبان عطاری کانام اس وقت کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ان کا تعلق معروف
مذہبی تنظیم دعوت اسلامی سے ہے وہ دعوت اسلامی کے بہترین مبلغ معلم اور
Motivation Speaker ہیں ان کے بیان کا انداز انتہائی منفرد اور دل پر براہ
راست اثرانداز ہونے والا ہے ان کے بیان کیئے ہوئے الفاظ کو اگر ہم بغور
سنتے ہیں اور پھر تسلی سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ الفاظ وہ
باتیں ہمیں اپنی زندگی کے اتار چڑھائو ، اونچی نیچ اور دھوپ چھاؤں میں بڑی
مدد فراہم کرتے ہیں ان کا ایک بیان میں تحریری شکل میں آپ تک پہنچانے کی
سعادت حاصل کررہا ہوں امید ہے آپ بغور اسے پڑھیں گے ، سمجھیں گے اور اس پر
عمل کرنے کی کوشش کریں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی
ہوئی مخلوق یعنی انسان جسے افضل بنایا اشرف بنایا تو اس کے اندر ایک فطری
عمل ہوتا ہے جس کو ہم عادت کہتے ہیں ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی عادت
ضرور ہوتی ہے جو یا تو ہر جگہ اسے پریشان کرتی ہے یا پھر اس کی مدد کرتی ہے
جیسے ایک شخص کو اداس رہنے کی عادت ہوتی ہے اب آپ اسے کسی کھیل کود والی
جگہ یا تفریح والی جگہ پر بھی لے جائیں گے تو وہ وہاں بھی اداس رہنے کا
طریقہ نکال لے گا لوگ انجوائے کررہے ہوں گے لیکن وہ کسی کونے میں منہ
لٹکائے اداس بیٹھا ہوگا کیونکہ یہ اس کی عادت ہے اور وہ اپنی عادت سے مجبور
ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی عادت پر
انحصار کرکے زندگی گزارنا ناکام لوگوں کا طریقہ ہے ہر جگہ ہر ماحول میں
اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرکے اس کے ذریعے آگے بڑھنے کی کوشش کریں کوئی کیا کہ
رہا ہے کیا کہے گا اس بات سے قطعہ نظر اپنے کام میں لگے رہو کیونکہ اگر ہم
وقت کے ساتھ نہیں چلیں گے تو یہ وقت ہمیں بہت پیچھے چھوڑ دے گا اور یہ وہ
دور ہے جب وقت بڑی تیزی سے تبدیل ہورہا ہے پہلے جب بچہ میٹرک کرتا تھا تو
ہمارے پاس Option سامنے ہوتے تھے کہ بچے کو یہ پڑھانا ہے یہ بنانا ہے لیکن
اب ایسا نہیں ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب وقت کی رفتار بہت تیز ہے اور کم عرصہ
میں وقت نے اپنی رفتار تیز کی ہے اور مزید تیز سے تیز کرتا جارہا ہے اس وقت
جو لوگ اپنے عمر کے پچاس یا ساٹھ سال گزار چکے ہیں انہوں نے اپنے سامنے وقت
کی رفتار کو دیکھا ہے صرف ایک چینل والا پاکستان ٹیلیوژن پھر وی سی آر پھر
وی سی پی پھر ڈش پھر سیکڑوں چینل پھر کمپیوٹر پھر موبائل اور اسی موبائل
میں آئے دن آنے والی تبدیلیاں یہ سب کچھ ان کے سامنے ہوا ہے ابھی کل کی بات
لگتی ہے لیکن بات یہیں تک رکنے والی نہیں ہے اب وہ کیا کرنے لگے ہیں وہ کہہ
رہے تھے کہ چار پانچ سال کے اندر ہم کوشش کر رہے ہیں موبائل فون ختم کر دیا
جائے AR اور VR تکنولوجی جو ہے augmented reality اور virtual reality کو
قائم کردیں یعنی اس موبائیل کو ہاتھوں میں فکس کر دیں عینک کے اندر موبائل
لے آئیں آنکھوں سے موبائل ٹچ ہونا شروع ہو جائے بظاہر اس وقت جو انڈسٹری
کام کررہی ہے وہ تباہ ہو جائے گی لیکن یہ آگے جانے کا طریقہ ہے جب کسی چیز
میں پوری طرح Involve ہوکر نہیں سوچیں گے تو آگے کیسے بڑھیں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ دیکھیں کہ ہمیں سائنس کی ترقی
Electronic Media سے نظر آجاتی ہے کہ آئے دن نئی نئی ٹیکنالوجی سامنے آتی
جارہی ہے آج کے نوجوان کو ترقی کی اس رفتار کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا
انتہائی ضروری ہے ورنہ وقت اسے پیچھے چھوڑ کر خود آگے نکل جائے گا اب ایک
بچہ ہے وہ بیمار ہے لیکن کوئی ڈاکٹر اس کا مرض تلاش کرنے میں کامیاب نہیں
ہورہا ماں باپ پریشان ہیں کیا کریں پھر ایک شخص نے اس کی ساری رپورٹس سارے
معاملات Chat GPT میں ڈال دیئے لوگوں نہ کہا کہ یہ تم کیا کررہے ہو ؟ لیکن
اگلے ہی لمحے اس Chat GPT نے اس کی بیماری کی مکمل تفصیل سامنے رکھ دی یہ
کیا ہے ارے ڈاکٹروں اس طرح کی چیزوں کو سمجھ کر استعمال نہیں کرو گے تو
پیچھے رہ جائو گے کیونکہ اس ٹیکنالوجی کو تو ابھی اور آگے جانا ہے ساتھ
نہیں چلوگے تو گیئے کام سے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کاروبار میں نقصان دیکھنا ایک کاروباری
شخصیت کاکام نہیں ہے کیونکہ اسے اوپر جانا ہے اوپر اور اوپر اب دیکھئے چیل
ایک جانور ہے اللہ تعالیٰ کی مخلوق یہ دنیا کی سب سے تیزرفتار جاندار ہے
اسے Eagle Falcon بھی کہا جاتا ہے یہ جب آسمان سے زمین پر اپنے شکار کو
دیکھتی ہے تو بڑی تیزی سے وہ ڈائیو کرتی ہوئی زمین کی طرف آتی ہے کہتے ہیں
کہ جب وہ زمین کی طرف آتی ہے تو اس کی اسپیڈ 300 میل فی گھنٹہ ہوتی ہے اور
دنیا کا کوئی جاندار اتنی اسپیڈ سے بھاگ نہیں سکتا اچھا چیل کے بارے میں
ایک بات یہ مشہور ہے کہ اسے کوئی چھیڑ نہیں سکتا کوئی بھی جانور تنگ نہیں
کرسکتا بس کوے سے اس کی چلتی رہتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کوا اکثر اس کے اوپر بیٹھ جاتا ہے اور اس
کی گردن پر ٹھونگیں مارتا رہتا ہے لیکن چیل کی سوچ کچھ اور ہے جب وہ کوے کی
حرکت سے بیزار ہوجاتی ہے تو اسے اپنی جگہ سے ہٹنے یا اڑنے کو نہیں کہتی
بلکہ اپنی پرواز بڑھادیتی ہے اور وہ اوپر سے اوپر جانا شروع ہوجاتی ہے اوپر
سے اوپر اور پھر جب زیادہ اوپر جانے سے آکسیجن میں کمی واقع ہو جاتی ہے تب
کوا خود بخود بیہوش ہوکر گر پڑتا ہے اب نہ چیل کو اسے ہٹانے کی ضرورت پڑی
اور ٹوکنے کی بس اس نے اپنے کام کی رفتار اور تیز کردی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مطلب یہ ہے کہ جب آپ اپنے کام میں مصروف
رہیں گے آگے بڑھنے کے لیئے تو آپ کو ٹوکنے روکنے والے بہت ملیں گے لیکن اگر
ان کی طرف دھیان دینے کی بجائے اپنی مصروفیت میں اضافہ کردیتے ہیں اپنے کام
کی رفتار تیز کردیتے ہیں تو ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ خاموش ہو جائے گا یا
پھر سامنے سے خودبخود ہٹ جائے گا تو آپ کے ساتھ جب بھی ایسا ہو تو آپ اپنے
کام کی طرف اپنے توجہ بڑھادیں اپنی Involvement میں اضافہ کردیں وہ پروبلم
خود ہی ہل ہو جائے گی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج کا انگریز غیر مسلم یہودی صرف اس کوشش
میں ہے کہ وہ اس سوال کا جواب تلاش کرسکے کہ اس کائنات کو چلانے والا کون
ہے ؟ وہ اس سوال کے جواب کی تلاش میں اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ دریائوں
صحرائوں پہاڑوں جنگلوں اور پانی کے اندر گزاردیتا ہے کیونکہ وہ ایک دنیاوی
اعتبار سے تعلیم یافتہ اور اعلی ڈگری یافتہ شخص کہلاتا ہے جبکہ اس سے بڑا
کم عقل اور بیوقوف شاید ہی کوئی ہو کیونکہ جس کی تلاش میں وہ یہاں وہاں کی
خاک چھان رہا ہے وہ ذات تو اس کے بہت قریب ہے سامنے ہے بلکہ ساتھ ساتھ ہے
لیکن یہ سب دیکھنے کے لیئے ایمان والی آنکھوں کا ہونا بہت ضروری ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ثعبان عطاری کہتے ہیں کہ ایک دہریہ تھا
دہریہ اسے کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے نہ صرف منکر ہوتے ہیں بلکہ ان
کے پاس دلائل بھی بہت ہوتے ہیں تو ایک دہریہ کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ
کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا کہنے لگے مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ آخر اس نے کیا
دیکھا ؟ اسے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ہونے کی کس دلیل نے اتنا متاثر کیا کہ
وہ مسلمان ہوگیا تو میں نے جا کر اس سے بات کی اور پوچھا کہ آخر ایسی کونسی
خیر اور بھلائی والی بات اس تک پہنچی کہ وہ مسلمان ہوگیا تو کہنے لگے کہ اس
نے بڑی پیاری بات کہی بڑے غور سے پڑھیئے گا اس نے کہا کہ جو انسان اللہ
تعالیٰ کی ذات کا منکر ہے اس کے لیئے ایک ہی دلیل کافی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایسی بات سن کر ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ
اللہ تعالیٰ کی ذات کے جلوے اس کی قدرت کے نظارے کہاں کہاں ہیں وہ کہتا ہے
کہ سائنس آج ایک جگہ پہنچ کر یہ تسلیم کرتی ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ سے نہیں ہے
یعنی یہ بنائی گئی ہے اب سوال یہ ہے کہ پھر اس کو بنانے والا کون ہے ؟ اور
یہ کہ یہ دنیا کب بنائی گئی ؟ مطلب یہ کائنات ہمیشہ سے وجود میں نہیں تھی
بلکہ اسے وجود میں لایا گیا ہے جیسے گاڑی ہے یہ پہلے نہیں تھی لیکن جب یہ
بنائی گئی تو اگئی اب اس نے کہا کہ میں نے سوچا کہ یہ اتنی بڑی کائنات کا
خالق کوئی ماورائی ہستی تو ہوسکتی ہے یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے
اور انسان تو اس وقت تھا ہی نہیں یہ تو انسانی وجود سے بہت بڑی کوئی ہستی
ہے اچھا پھر اس نے کہا کہ جب کائنات کا وجود نہیں تھا تو وقت بھی نہیں تھا
کائنات وجود میں آئی تو وقت کے بڑھنے گھٹنے کا بھی سلسلہ شروع ہوا مطلب وہ
ہستی وقت سے بھی آزاد ہے یعنی وہ Timeless ہستی ہے پھر میں نے سوچا کہ اتنی
بڑی کائنات بنانے والا کتنا طاقتور ہوگا اس نے جو چیز ایجاد کی ہے یہ اتنی
بڑی ہے کہ یہ کسی طاقتور کا کام ہے یعنی وہ ہستی انتہائی Powerful ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اور پھر اس کائنات کی تخلیق میں اس کی حکمت
نظر آتی ہے کیونکہ اس نے جو یہ کائنات بنائی اس کے مدار بنائے اس میں سورج
بنائے اس میں چاند بنائے چاند کے اندر طاقت رکھی کہ سورج سے طاقت لے اور
پھر ان کی چمک بنائی پھر اس دنیا کے اندر اتنی رنگہ رنگی اتنا نظام رکھا
حکمت کتنی بڑی ہوگی اس کی پھر وہ کہتا ہے کہ وہ ہستی بڑی محبت کرنے والی
ہستی ہے کیونکہ کائنات کی تخلیق کے بعد انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر ان کے
درمیان رشتوں ناطوں کا وجود جس میں بیپناہ محبت اور الفت نظر آتی ہے تو اس
نے کہا کہ میں نے پڑھا ہے کہ ایک scientific Principle ہے کہ جب کوئی اتنی
بڑی چیز Creat کی جاتی ہے تو اس کے بنانے والا بھی صرف ایک ہی ہوسکتا ہے
اگر اتنے بڑے نظام کو چلانے میں کوئی اور ہوتا تو لڑائی ہوجاتی اس لیئے اس
کو بنانے والا بھی ایک ہی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ کہتا ہے کہ اب دیکھیں جو ہستی Timeless
ہو Powerful ہو Caring ہو تو آخر وہ کون ہے ؟ تو قرآن پڑھو جس کو تم مقدس
کتاب کہتے ہو اس میں واضح لکھا ہوا ہے this is one almighty Allah who is
the creator اتنی بڑی کائنات کو بنانے والا کوئی اور نہیں بلکہ رب تعالی ہے
جب کسی بھی معاملے میں ہماری ساری تدبیریں فیل ہوجاتی ہیں تو وہاں ہمیں
احساس ہوتا ہے کہ نہیں ابھی رب تعالی کی ذات باقی ہے کوئی بیماری کی جس کا
علاج ہم کروا کروا کر تھک جاتے ہیں لیکن بیماری بگڑتی جاتی ہے تو اس وقت
امید کی ایک کرن اللہ تعالیٰ کی ذات کی صورت میں ہمیں دکھائی دیتی ہے اور
ایک اہل ایمان مسلمان اپنے ہاتھوں کو اس کی بارگاہ میں بلند کردیتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس رب تعالی کی اپنے بندوں سے محبت کا
اندازہ ہم لگا ہی نہیں سکتے اب دیکھیں ہم جو سانس لیتے کیا آپ کو معلوم ہے
کہ ہر سانس میں ہمارے اندر 8 خطرناک ترین جراثیم ہمارے جسم میں داخل ہو
جاتے ہیں اب وہ کون ہے جو ان آٹھوں جراثیم کو نیوٹرلائز کردیتا ہے مطلب آپ
یہ سمجھے کہ آٹھ دہشت گرد داخل ہوگئے لیکن سامنے کتنی مظبوط فوج ہوگی جو ان
سب کو نیوٹرلائز کردیتا ہے کیا ہمارے جسم میں کوئی آرمی موجود ہے جو ان
آٹھوں کو فارغ کردیتی ہے ایک سائنسی تحقیق کے مطابق دنیا میں کم و بیش تین
ہزار قسم کی چھوٹی چھوٹی کینسر کی اقسام ہیں جس کی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ
دنیا میں موجود ہر انسان کسی نہ کسی قسم کے کینسر میں مبتلا ہے لیکن آپ
دیکھیں اللہ تعالیٰ کی شان وعظمت کا کھلا ثبوت کہ ہمارے اندر اس نےایک چیز
پیدا کردی ہے اور وہ ہے قوت مدافعت یعنی ایک ملٹری آپریشن ہمارے اندر چل
رہا ہوتا ہے جو آنے والے جراثیم کا مقابلہ کرتا ہے بیماریوں کا سامنا کرتا
ہے اور انہیں بھگاتا ہے کیا نظام قدرت ہے میرے خالق کائنات کا ورنہ آٹھ
خطرناک جراثیم اگر انسان کے اندر جائیں تو کیا وہ بچ سکتا ہے نہیں لیکن یہ
میرے رب تعالی کی شان ہے اور ہمیں اس طرح کائنات کے ذرے ذرے پر اس کے جلوے
اس کی شان دکھائی دیتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک مسلمان کا اپنے رب تعالی پر مکمل اور
پختہ ایمان ہونا چاہئے اور پھر اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم
کی ذات پر اور ان کی ختم نبوت پر ایمان ہونا چاہئے کی اللہ تعالیٰ نے آپ
علیہ وآلیہ وسلم کو اس دنیا میں ہمارے لیئے رحمت بناکر بھیجا اور فرمایا کہ
وہ رب ہی ہے جو تمہیں پالتا ہے ہر حالات میں آپ کے ساتھ ساتھ ہے صبح اٹھنے
سے لیکر رات سونے تک ہم کتنے گناہ کرجاتے ہیں لیکن وہ ہمیں رات کو پرسکون
نیند دے کر ہمیں سلادیتا ہے وہ کتان بڑا غفور الرحیم ہے اور پھر اس نے
زندگی گزارنے کے طریقے کو بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اگر پرسکوں اور اچھی
زندگی گزارنے کے خواں ہو تو میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے بتائے
ہوئے راستے کو چن لو اس راستے میں تمہیں مال و دولت نہیں ملے گی لیکن رب
تعالی کو راضی کا راستہ مل جائے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے
رستے پر چل کر تو دیکھو ان کی سنتوں پر عمل کرکے تو دیکھو
اللہ تعالی نے سورہ الاحزاب کی آیت 21 میں ارشاد فرمایا کہ
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ
كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ
كَثِیْرًا۔
ترجمعہ کنزالایمان:
بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے اس کے لیے کہ اللہ اور پچھلے دن کی
امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے۔
یعنی میرا رب فرماتا ہے کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی
فرمانبرداری کرکے تو دیکھو جیسے انہوں نے کھایا جیسے انہوں نے پیا جیسے
انہوں نے معاشرت و معملات رکھے یعنی وہ لوگ جو مکہ کی گلیوں میں چادر
بچھاکر سامان بیچا کرتے تھے انہیں دنیا میں معیشت کا رہنما بنادیا یعنی آج
اگر کسی استاد سے اس کی کلاس میں جاکر یہ پوچھا جائے کہ کیا یہ آپ کے شاگرد
ہیں تو کہے گا کہ ہاں وہ دیکھو وہ ہے نہ بڑا نالائق ہے وقت پر آتا ہی نہیں
ہے اور کام بھی پورا نہیں کرتا یعنی کوئی انگریزی میں اچھا ہے تو کوئی
سائنس میں تو کسی کو حساب آتا ہی نہیں ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لیکن سرکار علیہ وآلیہ وسلم کی تربیت
دیکھیں آپ علیہ والیہ وسلم کے جو شاگرد تھے انہیں ہم صحابہ کرام علیہم
الرضوان کہتے ہیں اور ان کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے اتنی
بڑی کلاس اور ان سب کا لیول کیا تھا کیا اہمیت تھی کیا قابلیت تھی تو حضور
صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان میں سے کسی کی بھی پیروی
کرلو یہ ستاروں کی طرح تمہاری رہنمائی کے لیئے کافی ہیں دنیا کا کوئی استاد
یہ دعویٰ کرسکتا ہے کبھی نہیں اب ان صحابہ کے پاس کیا تھا صرف عشق رسول صلی
اللہ علیہ وآلیہ وسلم لیکن عشق میں دو کیٹیگری ہوتی ہیں ایک شخصیت پرستی
اور دوسری سچی عقیدت دونوں میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دفعہ بانئی پاکستان قائد اعظم کا کسی
نے ہاتھ چوم لیا تو انہوں نے اس کو بلایا ادھر آئو تم نے میرا ہاتھ کیوں
چوما تو اس نے کہا کہ میں آپ سے بڑی عقیدت رکھتا ہوں آپ میرے آئیڈیل ہیں
کیونکہ آپ ایک دیانت دار انسان ہیں وقت کی پابندی کرتے ہیں آپ کے قول و فعل
میں تضاد نہیں ہے آپ ایک پڑھے لکھے آدمی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑے
وکیل ہیں آپ اپنی قوم سے مخلص ہیں آپ نے جو کہا وہ کرکے دکھایا جب وہ اپنی
بات پوری کرچکا تو قائد اعظم نے کہا کہ اگر مجھ میں تمہیں یہ ساری خوبیاں
دکھائی دیتی ہیں تو تم نے ان میں سے کتنی باتوں پر عمل کیا ہے وہ قائد اعظم
کی یہ بات سن کر ہکا بکا رہ گیا کہ یہ کیا ہوا تو یہ ہے شخصیت پرستی جس کے
اندر انسان سامنے والے کی خوبیاں بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے لیکن ان میں سے
کسی ایک پر بھی عمل نہیں کرتا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جبکہ سچی عقیدت رکھنے والا انسان جب اپنے
آئیڈیل کو دیکھے گا تو سوچے گا کہ مجھے اب اپنے اندر تبدیلی کس طرح لانی ہے
میں اپنے آئیڈیل کی اعمال کو اپنے اندر کس طرح لاگو کروں حضور صلی اللہ
علیہ وآلیہ وسلم نے جب صحابہ کو دیکھا کہ وہ وضو کے پانی کو زمین پر نہیں
گرنے دیتے تو آپ صلی علیہ والیہ وسلم نے پوچھا کہ تمہیں کون سی چیز ایسا
کرنے پر آمادہ کررہی ہے تو عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم آپ
ہمارے نبی ہیں ہم محبت کرتے ہیں عقیدت رکھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ
وسلم سے تو ارشاد فرمایا کہ اگر ایسا ہے تو سن لو جو اللہ تعالیٰ اور اس کے
رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے محبت کرتا ہے تو جو بات کرے سچ کرے جب
امانت رکھوائی جائے تو اچھا آمین بنے عقیدت ایسی نہ ہو کہ عمل میں سستی ہو
جائے کیونکہ صحابہ کرام کی عقیدت جتنی بڑھتی اتنا ہی عمل میں تیزی آجاتی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب دیکھیں آج ہم میں سے ہر کوئی عاشق رسول
صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن عمل کا جذبہ کتنوں
میں نظر آتا ہے اور عمل کا جذبہ کیا ہوتا ہے ؟۔ حضرت محمد بن اسلم رضی اللہ
تعالیٰ عنہ بڑی عمر کے ایک صحابی تھے بازار سے تھکے ہارے گھر آئے تو اچانک
اٹھکر جانے لگے پوچھا کیا ہوا ابھی تو آئے ہیں تو کہنے لگے کہ مجھے حضور
صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا فرمان یاد آگیا کہ جب بھی بازار سے گھر جائو
پہلے مسجد میں دو رکعت نماز پڑھ کر پھر اپنے گھر جانا اب میں مسجد جاکر دو
رکعت نماز ادا کروں گا اور پھر گھر واپس آئوں گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب سوچیں کہ جب انسان شام کو تھکا ہارا گھر
لوٹے تو کس کا دل کرتا ہے کہ گھر سے باہر جائے لیکن یہ ہے سچی عقیدت اب
دیکھیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وضو کرتے ہیں اور پھر مسکراتے
ہیں لوگ حیران کہ وضو کے بعد مسکرانا تو پوچھا کہ اے عثمان رضی اللہ تعالیٰ
عنہ وضو کے بعد آپ مسکرا رہے تھے کیون ؟ فرمایا کہ میں ایک دفعہ حضور صلی
اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو اس طرح وضو کے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا تھا مجھے
یکدم یاد آگیا سوچا کیوں نہ یار کی ادا کو ادا کرتا چلوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک صحابی ایک جگہ سے گزرے سامنے کچھ بھی
نہ تھا لیکن پھر بھی سر نیچے کرکے گزرے پوچھنے پر بتایا کہ بہت عرصہ پہلے
لشکر کے ساتھ یہاں سے گزرا تھا نبی رحمت کی صحبت حاصل تھی تو یہاں ایک شاخ
نکلی ہوئی تھی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اپنا سر عقدس جھکایا
تھا تو بس میں نے بھی آج کی سنت ادا کی ہے عشق میں صرف محبوب کی ادائوں کو
دیکھا جاتا ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی شان و عظمت کو اگر
انسان پڑھتا جائے تو پڑھتا ہی چلاجائے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میرے سرکار علیہ وآلیہ وسلم پر تیرہ سال جو
مکہ میں گزرے وہ شدید آزمائشوں کے ساتھ گزرے آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم
کو بہت تکلیفیں پہنچائی گئیں لیکن میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلیہ
وسلم کی شان دیکھئیے کہ سب کو معاف کردیا آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے
ایک اصول دے دیا معاشرے کی ترقی کا ایک صحابی کو ایک بڑی سی ککڑی کسی فصل
سے ملی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردی آپ صلی
اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اس کو سونا عطا فرمایا کہ تم میرے لیئے میری پسند
کی ککڑی لائے ہو کہیں سے ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو اتنی
بکریاں ملی کہ سارا جنگل بکریوں سے بھر گیا کسی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے
بہت عطا کردیا آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم تو مالدار بن گیئے تو حضور صلی
اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مالداری کیا ہوتی ہے ان بکریوں کی
وجہ سے کہ رہے ہو تو جا یہ ساری بکریاں میں نے تجھے دی وہ بھاگا بھاگا
قبیلے والوں کے پاس گیا اور کہا کہ ان کا کلمہ پڑھ لو وہ تو اتنا دیتے ہیں
کہ کوئی انسان فقیر ہی نہ رہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی تعلیمات
یہ ہی ہیں کہ ہم شریعت اسلام کے ساتھ مظبوط رشتہ قائم رکھیں حضرت عبداللہ
بن عباس فرماتے ہیں کہ رسول پاک نے مجھے دو بات ارشاد فرمائی نمبر ایک
فرمایا عبداللہ سارے دنیا دار مل کر بھی تمہارا کچھ بگاڑنا چاہیں تو بگاڑ
نہیں سکتے جب تک رب نہ چاہے اور سارے دنیا دار مل کے تجھے سنوارنا چاہیں تو
سنوار نہیں سکتے جب تک رب نہ چاہے ۔
|