موت ایک اٹل حقیقت

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
جس طرح ہم زندگی کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی بڑی نعمت تصور کرتے ہیں بالکل اسی طرح ہر اہل ایمان مسلمان کے لئے موت پر یقین رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے کیونکہ دنیا کی ہر چیز آخر کار فانی ہے جو آیا ہے اسے واپس جانا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ
كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ
( ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے )
موت برحق ہے اور موت پر یقین نہ کرنے اور اسے تسلیم نہ کرنے والا اسلام سے خارج ہوجاتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ المنافقون کی آیت نمبر 9 10 اور 11 میں ارشاد فرمایا کہ
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(9)
ترجمعہ کنز العرفان :
اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کرے گاتو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔
وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنِیْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍۙ -فَاَصَّدَّقَ وَ اَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(10)
ترجمعہ کنز العرفان:
اور ہم نے تمہیں جو رزق دیا اس سے اس وقت سے پہلے پہلے کچھ (ہماری راہ میں ) خرچ کرلو کہ تم میں کسی کو موت آئے تو کہنے لگے، اے میرے رب !تو نے مجھے تھوڑی سی مدت تک کیوں مہلت نہ دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالحین میں سے ہوجاتا۔
وَ لَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَاؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(11)
ترجمعہ کنز العرفان :
اور ہرگز اللہ کسی جان کو مہلت نہ دے گا جب اس کا مقررہ وقت آجائے اور اللہ تمہارے کاموں سے خوب خبردار ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ان آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صاف اور واضح طور پر یہ فرمادیا کہ "میں نے تمہیں جو مال اور اولاد عطا کی ہیں وہ تمہیں میرے ذکر اور میری عبادت سے نہ روکے میں نے جو مال دیا اس میں اپنے گھر والوں کے ساتھ میری راہ میں بھی خرچ کرو تاکہ برکت پاسکو بعد میں جب موت کا وقت آئے گا تو کہوگے کہ یارب ہمیں تھوڑی مہلت دیدے تو سن لو کہ اللہ کسی نفس کو مہلت نہیں دیتا جب اس کی اجل اجائے گی جب وقت پورا ہوگا تو تمہیں مہلت نہیں دی جائے گی اور بیشک اللہ خوب جانتا ہے اور وہ خبردار ہے جو تم کرتے ہو".
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں امام ترمذی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ
" لذتوں کو توڑنے والی چیز یعنی موت کو کثرت کے ساتھ یاد کیا کرو "
کیونکہ موت روزانہ تمہیں پکارتی ہے یہ یاد رکھو حضرت امام بخاری علیہ الرحمہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے میرا کندھا پکڑا اور فرمایا کہ " دنیا میں ایسے رہ کہ جیسے پردیسی یا مسافر ہو اور اپنے آپ کو مرے ہوئوں میں شمار کرو یعنی دنیا کی طرف مائل نہ ہو اس دنیا کو اپنا وطن نہ بنا اپنے نفس کو زیادہ عرصہ ژندہ رہنے اور دنیا پر بھروسہ کرنے کا خیال نہ آنے دے اور اس چیز سے تعلق پیدا نہ کر جس سے پردیسی تعلق پیدا نہیں کرتے اور اس چیز میں مشغول نہ ہو جس میں گھر جانے والا مسافر مشغول نہیں ہوتا " ۔(بخاری).
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں موت ایک اٹل حقیقت ہے بڑے بڑے مالداروں کو مال جمع کرتے ہوئے دیکھا لیکن جب اجل آئی تو سب کچھ چھوڑ کر چلے گئے بالکل خالی ہاتھ ساتھ کچھ بھی نہ گیا جیسے ایک بادشاہ تھا اس نے بہت سارا مال جمع کیا ہوا تھا روپے پیسے کی بڑی ریل پیل تھی اور دنیا کی ہر نعمت سے وہ مالامال تھا تاکہ ان کے ذریعے اپنے نفس کو خوش کرے اور جمع شدہ دولت کا استعمال کرکے چین اور سکون کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرے اس نے بہت سی خوشحالیوں کو سمیٹتے ہوئے ایک بہت ہی شاندار خوبصورت عظیم الشان اور بلند وبالا ایک محل تعمیر کروایا جو بادشاہ ،امراء اور اعلی لوگوں کے شایان شان تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بادشاہ نے اس محل کے دو مظبوط دروازے لگوائے اور ان پر اپنی مرضی کے جلاد ، پہرے دار ، غلام اور سپاہی کھڑے کروائے اور نوکروں کو حکم دیا کہ بہترین اور اعلی قسم کا کھانا تیار کریں پھر اس نے اپنے اہل و عیال ، دوستوں اور خادموں کو کھانے کی دعوت دی تاکہ وہ اس محل میں آکر اس کی نعمتوں کا استعمال کرتے ہوئے کھانا کھائیں اور خوش ہوں اور خود تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہوگیا اور تکیہ کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ اے نفس میں نے دنیا کی ہر نعمت سے اپنے آپ کو مالامال کردیا ہے صرف تیرے لیئے اب ان کا مزہ لے ساری عمر اور وہ بڑی مقدار کے ساتھ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ابھی وہ خود گوئی سے فارغ ہوا تھا کہ دروازے پر کسی نے اتنی زور سے دستک دی کہ پورے محل پر جیسے زلزلہ آگیا ہو اور تخت بھی ہلنے لگا دیکھا تو ایک شخص جس نے بوسیدہ سے کپڑے پہنے ہوئے ہیں یوں لگ رہا تھا کہ جیسے کھانا مانگ رہا ہو نوکر اس پر چیخنے لگے کہ بابا صبر کر ایسی بھی کیا ہرص اور لالچ ہے ابھی ہم کھانے سے فارغ ہو جائیں پھر جو بچے گا وہ تجھے دے دیں گے تو اس نے کہا کہ اپنے مالک کو یہاں بلائو میں اس سے ملنے آیا ہوں مجھے اس سے ضروری کام ہے تو نوکروں نے کہا کہ تو ہے کون ہم بادشاہ کو کیا کہیں تو اس نے کہا کہ جیسے میں نے کہا ویسے ہی کہدو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب نوکروں نے بادشاہ کو اس کے بابت بتایا تو بادشاہ نے نوکروں کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تم نے اسے ابھی تک بھگایا نہیں اسے دھکے دیکر یہاں سے نکال دو تو اس شخص نے پہلے سے زیادہ گرجدار آواز میں دروازہ بجایا تو نوکر ڈنڈے اور لاٹھیاں لیکر پہنچ گئے تب اس نے زور سے چلا کر کہا کہ سب لوگ وہیں ٹھر جائو اور بادشاہ کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا کہ میں ملک الموت ہوں اور تجھے لینے آیا ہوں سب کے ہوش اڑ گئے سب کے سب چپ چاپ کھڑے ہوگئے تو بادشاہ کے پائوں کے نیچے سے جیسے زمین ہی نکل گئی اور بولا تم میرے عوض جو چاہو لے جائو لیکن مجھے چھوڑ دو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ کہنے لگا کہ میں ان نعمتوں کو تجھ سے الگ کرنے آیا ہوں جو تو نے سمیٹ کر جمع کی ہوئی ہیں تو وہ مال دیکھ کر کہنے لگا کہ لعنت ہو اس مال پر جس کو میں نے سمجھا کہ میرے کام آئے گا لیکن یہ تو میرے کسی کام نہ آیا مجھے اللہ کی عبادت سے روکا اور میں یہ گمان کرتا رہا کہ یہ میرے کسی کام آئے گا مگر اس نے مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور آج اس کو مجھ سے محروم کرکے اسے میرے دشمنوں کے لئیے چھوڑ دیا جائے گا اللہ رب العزت نے مال کو قوت گوئی بخشی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مال کہنے لگا کہ مجھے کیوں ملامت کرتا ہے ؟ اپنے آپ کو دیکھ اللہ نے مجھے تیرے پاس اس لئیے بھیجا تھا تاکہ تو اپنی آخرت سنوار سکے مجھے غریبوں میں صدقہ کرے زکوٰۃ کے حقدار کو زکوٰۃ دے میرے ذریعے مساجد سڑکیں اور پل تعمیر کرے تاکہ آخرت میں تیرے لئے میں مددگار بن جائوں لیکن تو نے صرف مجھے اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے استعمال کیا میرا حق جو تجھے اللہ نے دیا وہ تو نے ادا نہ کیا تو نے شکر ادا نہ کیا اور ناشکرا رہا اور اب مجھے اپنے دشمنوں کے لئے چھوڑے جارہاہے اب آج جب تو آزمائش میں گھرا ہوا ہے تو مجھے لعن طعن کیوں کررہا ہے ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بس اس کے بعد وہ عظیم الشان کھانا جس کا اہتمام بادشاہ نے بڑی شان و شوکت کے ساتھ کیا تھا اسے تناول کرنے سے پہلے ہی ملک الموت نے بادشاہ کی روح قبض کرلی اور وہ تخت سے اسی حالت میں نیچے گر گیا یہ ہے وہ زندگی جس کو ہم سب کچھ سمجھتے ہیں اور اس پر امیدیں لگا کر ناجانے کیا سے کیا کرجاتے ہیں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
" ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے زمین میں ایک لکڑی گاڑدی اس کے پہلو میں دوسری لکڑی اور اس کے کچھ فاصلے پر تیسری لکڑی گاڑدی اور فرمایا کہ تم جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں تو ارشاد فرمایا کہ پہلی لکڑی انسان ہے دوسری لکڑی موت ہے اور تیسری اس کی امید ہے انسان اپنی امید کی طرف لپکتا ہے لیکن اس سے پہلے اس کی موت اسے آلیتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ نے سورہ العمران کی آیت 185 میں ارشاد فرمایا کہ
" كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَاِنَّمَا تُـوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الـدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ"
ترجمعہ کنزالایمان:
ہر جان کو موت چکھنی ہے ، اور تمہارے بدلے تو قیامت ہی کو پورے ملیں گے ، جو آگ سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچا، اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں موت کیا ہے ؟ اگر ہم اس کے جواب کو تلاش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ موت بندوں کو ہلاک کرنے والی، بچوں کو یتیم کرنے والی، عورتوں کو بیوہ بنانے والی، دنیاوی ظاہری سہاروں کو ختم کرنے والی، دلوں کو تھرانے والی، آنکھوں کو رلانے والی،بستیوں کو اجاڑنے والی، جماعتوں کو منتشر کرنے والی، لذتوں کو ختم کرنے والی، امیدوں پر پانی پھیرنے والی، ظالموں کو جہنم کی وادیوں میں جھلسانے والی اور متقیوں کو جنت کے بالاخانوں تک پہنچانے والی شہ ہے۔ موت نہ چھوٹوں پر شفقت کرتی ہے، نہ بڑوں کی تعظیم کرتی ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ہی نہیں بلکہ موت نہ دنیاوی چوہدریوں سے ڈرتی ہے، نہ بادشاہوں سے ان کے دربار میں حاضری کی اجازت لیتی ہے۔ جب بھی حکم خداوندی ہوتا ہے تو تمام دنیاوی رکاوٹوں کو چیرتی اورپھاڑتی ہوئی مطلوب کو حاصل کرلیتی ہے۔ موت نہ نیک صالح لوگوں پر رحم کھاتی ہے، نہ ظالموں کو بخشتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے والوں کو بھی موت اپنے گلے لگا لیتی ہے اور گھر بیٹھنے والوں کو بھی موت نہیں چھوڑتی۔ اخروی ابدی زندگی کو دنیاوی فانی زندگی پر ترجیح دینے والے بھی موت کی آغوش میں سوجاتے ہیں اور دنیا کے دیوانوں کو بھی موت اپنا لقمہ بنالیتی ہے۔ موت آنے کے بعد آنکھ دیکھ نہیں سکتی، زبان بول نہیں سکتی، کان سن نہیں سکتے، ہاتھ پیر کام نہیں کرسکتے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں موت نام ہے روح کا بدن سے تعلق ختم ہونے کا اور انسان کا دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے کا جب انسان دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کا اعمال نامہ بند کردیا جاتا ہے بس صرف وہ ہی اعمال اس کے کام آتے ہیں تو اس نے صدقہ جاریہ کی نیت سے کئے ہوں اب دیکھیں اگر ہم قرآن کی آیتوں کی طرف نظر دوڑاتے ہیں یا احادیث مبارکہ کی طرف دیکھتے ہیں ہمیں ہر جگہ دنیا میں اتنی دلچسپی لینے کی جیسے ہمیں یہیں رہنا ہے منع کیا گیا ہے اس کی لذتوں میں اتنا مد ہوش ہونا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل ہو جائیں منع کیا گیا ہے اور یہ ہی احکامات نظر آتے ہیں کہ یہاں اس طرح رہو جیسے کوئی مسافر پردیس میں نہ جانے کب جانا ہو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں زندگی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن صرف ان کے لئے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر اس کی ان نعمتوں کی قدر کرتےہیں رب تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں بھی خرچ کرتے ہیں غریبوں مسکینوں کا خیال کرتے ہیں
تو پھر موت بھی ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت بن جاتی ہے تحفہ بن جاتی ہے اور موت کی تکلیفیں راحت میں تبدیل ہوجاتی ہیں زندگی ضرور گزاریئے یہ ایک امتحانی پیپر ہے اور یہ سوچ لیجیئے کہ اس کا رزلٹ ہمیں جب آخرت میں ملے تو ہمیں اچھے نمبروں سے پاس کردیا جائے بس یہ ہی ہمارا انعام ہوگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں زندگی کے ہر وقت ہر لمحہ میں موت کو یاد رکھیئے بس یاد رکھیئے کہ جب حضرت حسن علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ آپ اپنا کرتہ دھوتے کیوں نہیں تو فرماتے تھے کہ " موت اس سے بھی پہلے آگئی تو"
حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم فرماتے تھے کہ "مجھے نہیں معلوم کہ اپنی آنکھیں جھپکاسکوں گا یا نہیں یعنی نیچے کرنے کے بعد دوبارہ اوپر لانے سے پہلے اجل اجائے".
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں چلتے پھرتے کھاتے پیتے اٹھتے بیٹھتے موت کو یاد رکھیں ہر دن کو اپنی زندگی کا آخری دن اور رات کو آخری رات سمجھ کر سوئیں اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے احکامات پر عمل پیرا ہونے اور اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے والی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم آخر میں اپنی یہ تحریراس شعر پر ختم کروں گا شاعر نے کہا ہے کہ
موت کو تم بھی اپنی یاد رکھو اے یوسف
کب بلاوہ آجائے اور کب ہو تم کو جانا
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 166 Articles with 133695 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.