باضمیر مقصد ِ حیات!

از سالک محبوب اعوان
ایڈون پر سی وپل کہتا ہے:”وقت کے لامحدود سمندر میں کتابیں روشنی کا مینار ہیں“ کتاب ذہن کو توانائی اور خلوت کو بالیدگی عطا کرتی ہے۔جارج برنارڈ شا تو کتب بینی کے حوالے سے یہاں تک کہہ دیتا ہے کہ جو شخص اچھی کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں رکھتا، وہ معراج انسانیت سے گرا ہوا ہے۔

خدا تعالیٰ نے خود انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے پیغمبروں پر کتابیں نازل فرمائیں اور خدا کے پیغامات کا یہ سلسلہ برابر جاری رہا۔ حتیٰ کہ اس نے اپنے پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کے ذریعے آخری پیغام بھی قرآن مجید کے ذریعے ہی ارسال فرمایا۔ قرآن مجید،جو دنیا کے لیے آفاقی پیغام پر مبنی ہے، اس کی ابتدا ہی لفظ ”کتاب“ سے ہوتی ہے۔

کتابیں ایک کاغذی پیراہن ہی نہیں لئے ہوتیں بلکہ ان کا پیغام آفاقی ہوتا ہے۔ کتابیں کسی معاشرے کے افراد کی تربیت اور تعلیم میں جو کردار ادا کرتی ہیں آج کا متمدن معاشرہ اس کی افادیت اور اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا، کتابیں فرقہ واریت، علاقائیت اور قومیت جیسے محدود جذبوں سے ہٹ کر معاشرے کو انسان دوستی، بھائی چارہ اور روحانی قدروں کو جلا بخشتی ہیں،جس سے قاری اور اس کے ارد گرد رہنے والے افراد پوری طرح مستفید ہوتے ہیں۔ کتاب اپنے قاری کو ایک جذباتی پیغام ہی نہیں دیتی بلکہ اس کی شخصیت کو پوری طرح معاشرے کے لیے زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی سکھاتی ہے اور دوسروں کے لیے اس کی شخصیت کو جاذب نظر اور پرکشش بھی بناتی ہے، آج کی ترقی میں کتاب نے جو مفید کردار ادا کیا ہے اس کی بدولت انسان نے تسخیرِ کائنات کیلیے کمندیں ڈالنی شروع کر دیں۔

حصول علم کا بنیادی ذریعہ کتاب ہے، کتب خانے کتابوں کا ذخیرہ کہلاتے ہیں جو اپنے دامن میں عقل و دانش کے صدیوں پرانے جواہرپارے سمیٹے وقت کے دھارے کے ساتھ ساتھ بدلنے والی قوموں اور حالاتِ زمانہ کے حقیقی خدوخال کی امین بن کر آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کافریضہ ادا کرتے ہیں۔ دورِ جدید میں عوامی کتب خانے قوم کے عمرانی، اقتصادی، سیاسی، مذہبی، ادبی، سائنسی اور فنی ارتقا میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ معاش ہو یا معاد، دین ہو یا دنیا سب کا دارومدار علم پر ہے اور علم کے حصول کا اہم ذریعہ کتاب ہے۔ قلم، تحریر اور کتاب نے انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا میں ہمیشہ تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے۔

ہر چند کہ عصرِ حاضر میں کتاب بینی سے دوری بڑھتی جا رہی ہے؛ تاہم اس مطالعاتی قحط کے عالم میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس بجھتی لو کو وقت کی ڈیجیٹل آندھیوں سے نہ صرف بچانے میں سرگرم ہیں بل کہ ضمیر کی آواز پر اپنی تحریری کاوشوں سے اسے خوب ایندھن بھی فراہم کر رہے ہیں تاکہ یہ علمی لو امتدادِ زمانہ کا مقابلہ کر سکے۔ میری مراد کشمیر کے اُس ضمیر سے ہے جو اپنے آغاز میں عابد ہے اور اختتام پر ہاشمی۔

جناب عابد ضمیر ہاشمی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے مجھے تلاش کیا اور پھر تحفے کے طور پر اپنی علمی کاوش ”مقصد ِ حیات“کی صورت میں پیش کی۔ کتاب کی ضخامت ہی ان کے کام کا منہ بولتا ثبوت ہے جس کے مکمل مطالعے کے لیے آپ کو وقت نکالنا ہو گا سو ہمیں بھی وقت نکالنا پڑا۔

کتابِ مذکور پر تبصرہ کرنے والی شخصیات پر ہی بات کی جائے تو ایک الگ کتاب مرتب ہو سکتی ہے؛ تاہم عابد صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ کشمیر و بیرونِ کشمیر کی قد آور علمی و ادبی شخصیات نے آپ کے کام پر نہ صرف لکھا بل کہ اسے خوب سراہا۔ معروف کالم نگار اکرم سہیل صاحب کے مطابق یہ تحاریر نہ صرف معلومات کا خزانہ ہیں بل کہ ان میں خوب صورتی کے ساتھ اَدب کی چاشنی کو بھی سمویا گیا ہے۔ ایسی قد آور شخصیات کے سامنے راقم کی کیا حیثیت لیکن جو کچھ محسوس کیا اسے سپردِ قرطاس کرنا اس لیے مناسب سمجھا کہ ہر مصنف کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے کام پر قاری کچھ سطور رقم طراز کرے جن سے ایک تو مصنف کو مزید لکھنے کا حوصلہ بھی ملتا ہے اور کچھ کم زوریوں کو بہتر کرنے کا موقع بھی فراہم ہو جاتا ہے۔

کتابِ مذکور سال 2020ء میں ایچ این ایس پرنٹرز راول پنڈی سے شائع ہوئی جو عمدہ سرورق اور بہترین کتابت کے باعث قاری کو دعوت مطالعہ دیتی ہے۔ لگ بھگ چھے سو صفحات پر مشتمل سفید کاغذ کی حامل کتابِ مذکور مختلف مضوعات کا مجموعہ ہے جس میں تحقیقی‘ سماجی‘علمی اور حب الوطنی کے موضوعات شامل ہیں۔ یہ وہ اخباری اداریے ہیں جو مقامی و قومی اخبارات کی زینت بنے جب کہ تحریر میں کوئی مقصد کار فرما تھا۔ عنوانات کے حوالے سے آپ نمونے کے طور پر اس عنوان ہی کو لے لیجیے ”پیغامِ کربلا سے شعورِ کربلا تک“تو آپ کو کتابِ مذکور کے دیگر مضامین کے علمی پہلو کا اندازہ ہو جائے گا۔ کتابِ مذکور میں تحقیق کا پہلو بھی نمایاں ہے خصوصاً قومی و ملکی موضوعات پر اعدادوشمار کا تڑکا تحقیقی دنیا کا در وا کرتا ہے۔مقصد ِ حیات کے حوالے سے ناز مظفرآبادی یوں رقم طراز ہیں؛”ان کی تحاریر پختہ، موضوع کے لحاظ سے مستند، بامقصد اور مفید ہیں“۔

کتابِ مذکور کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ہر موضوع متنوع ہے یعنی ایک موضوع سلسلہ وار اگلے موضوع سے منسلک نہیں سو قاری اپنی مرضی سے جس موضوع کو چاہے مطالعہ کر لے تاہم راقم کے نزدیک اگر یہ دو جلدوں میں منقسم ہو جاتی تو قاری کو مطالعے میں کچھ سہولت حاصل ہو جاتی مزید یہ کہ ابتدائی صفحات میں الفاظ کا حجم بہت کم ہو گیا لیکن اس سے قاری کے لگاؤ میں کمی کا امکان نہیں۔

کتابِ مذکور کی ضخامت کے مقابلے میں راقم کا اظہارِ خیال شاید بہت محدود ہو تاہم اپنی اس عمدہ علمی کاوش پر عابد ضمیر ہاشمی مبارک باد کے مستحق ہیں اور دعا ہے کہ ان کا قلم یوں ہی رواں رہے اور کاغذ پر لفظی موتی بکھیرتا رہے۔ آمین بجاہ سید الامین ﷺ
 

Abid Hashmi
About the Author: Abid Hashmi Read More Articles by Abid Hashmi: 191 Articles with 161499 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.