جھکا کے سر اپنی ماں کے قدموں میں

وہ بھی کیا وقت تھا جب صبح کا ناشتہ بنانے کے لیے ماں جی آگ جلانے کے لیے چولہے میں لکڑیاں رکھ کر ان پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ جلاتیں ۔اگر لکڑیا ں گیلی ہوتیں تو پھوکنی سے پھوکیں مار مار کر ان کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں ، سارا گھر دھوئیں سے بھر جاتا اور ہم سب بھائی بغلوں میں ہاتھ دبائے چولہے کے ارد گرد اس انتظار میں بیٹھے ہوتے کہ کب گڑ والی چائے بنے گی اور ہم رات کی پکی ہوئی تندوری روٹیاں کیک سمجھ کھائیں گے ۔ جب ہم ناشتہ کرلیتے تو والدصاحب کے لیے تازہ روٹی پکانے کا اہتما م ہوتا کیونکہ وہ باسی روٹی نہیں کھاتے تھے ۔ جب روٹیاں پکا کر توا الٹا کرکے رکھا جاتا تو اس پر سرخ اور سفید ستارے ٹمٹانے لگتے ۔ اگر میں والدہ کے قریب بیٹھا ہوتا تو خوش کرنے کے لیے کہتی یہ دیکھو میرے اسلم کی بارات جا رہی ہے ۔ اس وقت میں بھی تصورات کی دنیا میں کھو جاتا ۔ میرا یہ تصوراتی خواب اس وقت ٹوٹتاجب ماں کی گرج دار آواز میرے کانوں میں پڑتی۔ اسلم سکول جانے کی تیاری کرو ۔ملیشئے کا شلوار قمیص پہن کر تھیلا بازو میں لٹکا کر ایک ہاتھ میں تختی اوردوسرے ہاتھ میں سیاہی کی دوات پکڑ کر میں سکول پہنچ جاتا ۔ پھر وقت کا پہیہ ایسا گھوما کہ میں جوان ہو گیا اور ماں بڑھاپے کی دہلیز پر جا پہنچی ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ والدصاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد جو تھوڑے بہت پیسے ملے تھے ان پیسوں سے ایک کچی آبادی میں چھ مرلے کا ایک پلاٹ خرید کر اس پر مکان بنالیا گیا ۔ ایک کونے میں تندور بھی لگا لیا گیا کیونکہ میرے والدین کو تندور کی تازہ روٹی بہت پسند تھی ، جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے میں نے انہیں بطور خاص تندور کی روٹی کھاتے ہوئے ہی دیکھا ہے ۔ میرے والدین نہایت غریب تھے لیکن جب بھی کھانے کا وقت ہوتا تو خاصا اہتمام کیا جاتا ۔ کبھی گھر میں گوشت بھنڈیاں پکائی جارہی ہیں کبھی کریلے قیمہ پک رہا کبھی سرسوں کا ساگ گھر کے آنگن میں اتر آیا، کبھی دوپہر کے وقت تندور کی گرم راکھ میں بینگن دباکر اس کا بھرتا بناکر اس سے کھانا کھایا جارہاہے۔ اگر بارش کا موسم ہوتا تو گڑوالے پوڑے بنائے جاتے ۔ چھوٹی عید ہو یا بڑی پہلے دن گوشت پکتا، دوسرے دن زردہ اور پلاؤ کی باری ہوتی ۔ یہ بھی بتا تا چلوں کہ مجھے حضرت شاہ حسین ؒ کی کافی "مائے نی میں کنوں آکھاں "جسے حامد علی بیلا نے کچھ اس انداز گایا تھا کہ سننے والوں کے دل کے تار ہل جاتے تھے ۔ مجھے بھی بہت پسند تھی اور میں اکثر اسے گنگناتا رہتا تھا لیکن جب بھی میں والدہ کے گھر پہنچتا تو بلند آواز میں میری زبان پر حضرت شاہ حسین ؒ کی یہی کافی ہوتی ۔ ماں میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ صوفے پر یہ کہتے ہوئے بیٹھا لیتی ۔پترا میں یہاں بیٹھی ہوں مجھے اپنے دل کی بات سنا ۔۔ گرمیوں کے موسم میں چند منٹ بھی نہیں گررتے تھے کہ شکر اور ستو کا ملا جلا شربت میرے سامنے پڑاہوتا ۔ ماں جی کا حکم تھا بیٹا ایک گلاس اور پی لو ۔ یہ ستو میں نے عارف والا (میری نانی کا گھر ) سے منگوائے ہیں ۔میں خوشی خوشی دو تین گلاس پی جاتا ۔ وقت گزرتا رہا ایک دن جب میں گھر میں داخل ہوا تو والدہ کو درد سے کراہتے ہوئے دیکھا میں انہیں سروسز ہسپتال لے گیا، ڈاکٹر وں نے چیک کرکے بتایا کہ ان کے پتے میں پتھر ی ہے ،درد بھی اسی پتھری کی وجہ سے اٹھ رہا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کوئی ایسی دوائی لکھ دیں جس سے درد ختم ہو جائے۔ میری بات سننے کے بعد ڈاکٹر نے کہا اس کا علاج صرف آپریشن ہے ،آپریشن کے لفظ ہی سے والدہ الرجک تھیں ۔یہ صورت حال میرے لیے بہت تکلیف دہ تھی ۔ مجھے یاد تھا کہ جب مجھے کوئی بیماری یا پریشانی لاحق ہوتی تو ماں سکون سے سو نہیں سکتی تھی ۔ایک نہیں کئی کئی راتیں انہوں نے جاگ کر گزاریں ۔میں کیسے پرسکون ہو سکتا تھا ۔ ایک دوست کے بتانے پر میں والدہ کولیکرسائفن کے قریب لبانوالہ گاؤں جا پہنچا۔لبانوالہ گاؤں کالا خطائی روڈ پر ہمارے گھر سے 45کلومیٹر دور تھا اور سڑک بھی ٹوٹی پھوٹی تھی اور راستے میں کوئی پنکچر لگانے والا بھی نہیں تھا۔مجھے وہاں تین مرتبہ جانا پڑا۔ اس سے والدہ کی تکلیف کسی حد تک ختم ہو گئی ۔سال مہینے گزرتے رہے پھر 10جون 2007ء کا سورج طلوع ہوا جو صبح ہی سے آگ برسا رہا تھا ۔ مجھے چھوٹے بجھائی ارشد کی فون کال موصول ہوئی کہ امی جان کی طبیعت خراب ہے وہ آپ کو یاد کررہی ہیں ۔ میں اسی وقت والدہ کے گھر پہنچا تو انہیں نیم بے ہوشی کے عالم میں دیکھا ۔ فوری طور پر سروسز ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ میں پہنچایا گیا تو ڈاکٹروں نے ڈریپ لگاکر مجھے حوصلہ دیا کہ اب آپ کی والدہ خطرے سے باہر ہیں ۔ والدہ اس وقت ہو ش میں تھیں میں جب ان سے باتیں کررہا تھا تووہ مسکرا کر کہنے لگیں ۔ بیٹا تمہیں ساری باتیں کیسے یاد رہتی ہیں ۔میں نے کہا امی جان یہ سب آپ کی دعا اور میرے رب کا کرم ہے ۔میں والدہ سے اجازت لے کر ایک بجے دوپہر ناشتہ کرنے گھر آگیا ۔ میں جیسے ہی گھر پہنچاشاہد بیٹے کی موبائل پر کال موصول ہوئی کہ دادی جان فوت ہو گئی ہیں ۔یہ سنتے ہی میں زمین پر گر پڑا۔ میری بیگم نے سہارا دے کر کہا اگر آپ ہی ہمت ہار جاؤگے تو امی جان کی تدفین کے انتظامات کون کرے گا،اس لیے اپنے آپ کو سنبھالو۔ والدہ کا جسدخاکی بھی گھر کے اسی صحن میں موجود تھا جہاں کبھی زندگی کی رعنائیاں ہر طرف چہک رہی ہوتی تھیں ۔ نماز جنازہ کا وقت نماز عشا کے بعد رکھا گیا ۔اس شام گرمی اتنی تھی کہ سر سے پاؤں تک پسینہ آبشار ی طرح چل رہا تھا ۔یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ نبی کریم ﷺکا فرمان عالی شان ہے کہ مرنے والوں کی بخشش کے لیے سوا لاکھ کلمہ طیبہ پڑھا جائے ۔میں نے حفظ ما تقدم کے طور پر اپنی بخشش کے لیے دینی مدرسے سے سوا لاکھ کلمہ پڑھوا کے رکھا ہوا تھا ۔ جب میں نماز عشا کی ادائیگی کے لیے قریبی مسجد پہنچا تو نماز سے فراغت بعد دو نوافل والدہ کی بخشش کے لیے پڑھنے کے بعد سجد ے میں سر رکھ کر سوا لاکھ کلمہ طیبہ اپنی مرحومہ والدہ کے ایصال ثواب کے لیے رب العزت کی بارگاہ میں ہدیہ تحفتا پیش کردیا ۔ یہ فریضہ انجام دینے کے بعدجب میں گھر پہنچا تو میں نے اپنے والدہ کا چہرہ دیکھا تو چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا اور ان کے چہرے پر والہانہ مسکراہٹ بھی سب نے دیکھی ۔ مجھے اطمینان ہوگیا کہ میں نے اپنی مرحومہ والدہ کے ایصال ثواب کے لیے کلمہ طیبہ کا جو تحفہ بھیجا ہے وہ ان تک پہنچ گیا ہے ۔ رات ساڑھے دس بجے نماز جنازہ ادا کی گئی ۔امامت کے فرائض حضرت محمد عنایت احمد دام برکاتہ نے انجام دیئے ۔ مجیب الرحمان شامی صاحب بھی نماز جنازہ میں شریک تھے ۔ اس کے بعد والدہ کے جسد خاکی کوسنی ویو قبرستان لے جایا گیا جہاں آدھے گھنٹہ میں تدفین کے تمام مراحل بخیر و خوبی پایہ تکمیل کو پہنچے ۔رات کے گیارہ بج چکے تھے ۔ اس لمحے میں نے بلند آواز سے ماں کی قبر کے پاس کھڑے ہوکر اذان دی ۔ میری آذان سے پورا قبرستان گونج رہا تھا۔ بزرگوں کی زبانی سنا ہے کہ اگر مرنے والا نمازی ہوگا تو اذان کی آواز سن کر وہ قبر میں نماز پڑھنے کی جستجو کرے گا اور فرشتے یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ جائیں گے کہ یہ توپکا مسلمان اور نمازی ہے ۔ اذان کے بعد رات کے اندھیرے میں، میں نے اپنے دونوں ماں کی قبر پر رکھ کر انہیں اس طرح اﷲ کے سپرد کیا جس طرح گھر سے نکلتے وقت وہ مجھے اﷲ کے سپرد کیا کرتی تھیں ۔اس کے باوجود کہ ماں دنیا میں نہیں رہی لیکن جیسے ہی نیند کی گہری وادی میں اترتا ہوں تو میں خود کو اپنے والدین کے پاس دیکھتا ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس دنیا اور آخرت میں ایک باریک سا پردہ ہے ، نیند کی حالت میں وہ بھی ہٹ جاتا ہے ۔زندہ اور مرنے والوں کی روحیں اکٹھی ہوجاتی ہیں ۔ یہ سب کچھ میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785021 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.