ہمارے ہاں عمومی طور پر پوری دنیا کے مسلمانوں میں اور
خصوصی طور پر برصغیر پاک و ہند میں یہ بات عقیدے اور کسی قدر ایمان کی حد
تک مسلمہ ہے کہ مرد، عورتوں پر حاکم ہیں ۔
اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ قرآن مجید کی سورۃ النساء کی آیت نمبر 34 میں
ہے کہ:
"مرد، عورتوں پر قوّام ہیں، اس بنا پر کہ اللّٰہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے
پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ پس جو صالح
عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللّٰہ کی حفاظت و
نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا
اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور مارو، پھر
اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے
تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اوپر اللّٰہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے"۔
سورۃ النساء کی اس آیت کے صرف ترجمے کو ہی اگر غور سے پڑھا جائے تو صاف پتہ
چلتا ہے کہ مرد، صرف اور صرف اپنی عورتوں (بیویوں) پر حاکم ہیں ناکہ صنفی
حیثیت سے ساری دنیا کی عورتوں پر (اور وہ بھی صرف اور صرف شوہر و بیوی کی
حیثیت سے ان کی اپنی گھریلو زندگی کے معاملات کی حد تک، ناکہ بیوی کی ذاتی
اور سابقہ گھریلو زندگی و رشتوں کے معاملات تک، کہ وہ اب ان کو شوہر کے حکم
مطابق نبھانے یا بالکل ختم ہی کر دینے کی پابند ہو گی)، کیونکہ شرف انسانیت
اور اللّٰہ کے ہاں جوابدہی میں مرد و عورت بالکل برابر ہیں اور ان میں بال
برابر فرق نہیں.
اس آیت میں بیویوں کا "صالح" ہونا اس بات سے مشروط کر دیا گیا کہ وہ اپنے
شوہر کی اطاعت کریں گی اور اس کی غیر موجودگی میں اس کے حقوق کی حفاظت کریں
گی۔
جبکہ ان سے متعلق شوہروں کو یہ اجازت دی گئی کہ اگر وہ سرکشی پر آمادہ ہو
جائیں تو انہیں سختی سے سمجھائیں، باز نہ آنے کی صورت میں اپنی رہائش الگ
کمرے میں رکھ لیں اور پھر بھی ہٹ دھرم رہیں تو مار بھی سکتے ہیں (لیکن یہ
صرف ڈراوے کے لیے ہوگا، تشدد کی اجازت ہرگز کسی کو نہیں، حتیٰ کہ باپ کو
اولاد پر بھی نہیں)۔
پھر اگر وہ اس سب کے نتیجے میں باز آجائیں تو نہ بلا وجہ یہ سب دہرانا ہے
اور نہ اس کے لیے بہانہ ڈھونڈتا ہے۔
کیونکہ ساتھ ہی متنبہ بھی کر دیا گیا کہ میں تم سب کے اوپر "بڑا" اور نگران
موجود ہوں اور حد سے بڑھنے و زیادتی کرنے والوں سے ضرور بالضرور نپٹ کر
رہوں گا۔
اس شرط اور دی گئی اجازت کی وجوہات یہ بتائی گئیں کہ ایک تو یہ اللّٰہ پاک
کی مرضی ہے کہ اس نے بعض رشتوں کو بعض پر فضیلت دی ہے (تاکہ خاندان کے
ادارے کے نظام میں ڈسپلن قائم رہے) اور دوسرے مرد "شوہر" اپنا مال اپنی
عورتوں "بیویوں" پر خرچ کرتے ہیں (یعنی حفاظت، کفالت اور عزت کرنے و کرانے
کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں).
یوں تو "مسلمان" اپنے تمام "عقائد" قرآن کریم سے ہی اخذ کرتے ہیں اور ان پر
عمل، سنت (صحیح احادیث) مطابق کرنے پر ایمان رکھتے ہیں۔
لیکن بد قسمتی سے آج اس بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ تو قرآن حکیم کے مطابق
ہے، مگر اس پر عمل سنت (صحیح احادیث) کے عین مخالف ہے۔
اس کی بڑی وجہ ایک تو فرقان حمید کی اس آیت سے سراسر باطل و خود ساختہ
تشریح اخذ کرنا ہے اور دوسرے تعداد میں اپنے سے چھ سات گنا بڑی ہندوؤں کی
اکثریت کے ساتھ، سات آٹھ سو سال زندگی بسر کرنے کے باعث ان کے عقائد اور
رسم و رواج کو اپنے عقائد میں خلط ملط ہو جانے پر، "اپنے" سمجھ کر اپنا
لینا ہے۔
بدقسمتی سے پچھلے تقریباً ساڑھے چودہ سو سالوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
"مسلمان" ذاتی حیثیت میں دینی تعلیمات (قرآن و حدیث) سے دور ہوتا چلا گیا
اور دین صرف مسجد و منبر اور مدرسوں (مولویوں و علماء) تک محدود ہو کر رہ
گیا۔
جس کی وجہ سے سب نے روز مرہ معاملات زندگی میں دین کی اپنے اپنے حساب سے
تشریح کرنا شروع کر دی۔
یعنی جس کو قرآن کی کسی آیت میں اپنا فائدہ نظر آیا، اس نے صرف اس آیت کو
پکڑ لیا اور جس کو حدیث میں، اس نے اس حدیث کو۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معاملات زندگی کے حوالے سے جب تک قرآن و سنت میں تطبیق
کر کے اس کا Optimal Solution نہ نکالا جائے، اس وقت تک اس معاملے میں
اللّٰہ پاک کی حقیقی منشا کو اس کی اصل روح مطابق سمجھنا قریب قریب ناممکن
ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3331 ہے کہ جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا، کیونکہ عورت پسلی سے
پیدا کی گئی ہے۔ پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اوپر کا حصہ ہوتا ہے۔ اگر
کوئی شخص اسے بالکل سیدھی کرنے کی کوشش کرے تو انجام کار توڑ کے رہے گا اور
اگر اسے وہ یونہی چھوڑ دے گا تو پھر ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہ جائے گی۔ پس عورتوں
کے بارے میں میری نصیحت مانو، عورتوں سے اچھا سلوک کرو".
اگر اس حدیث کی سورۃ النساء کی آیت کے ساتھ تطبیق کی جائے تو یہ بات کنفرم
ہو جاتی ہے کہ شوہر کو صرف اور صرف ناگزیر صورتحال میں بیوی کے سرکش و ہٹ
دھرم ہو جانے پر، کسی قدر سختی کی اجازت تو ہے، لیکن بے حد احتیاط سے،
کیونکہ رسول اللّٰہ ﷺ کی عورتوں سے متعلق وصیت بہر حال اچھے سلوک کی ہے۔
اسی طرح واقعہ "ایلاء" اور "تخییر" :
کہ جس میں
"رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے کچھ ناراضگی کی صورت میں اپنی
ازواج مطہرات سے ایک ماہ کا ایلاء فرمایا، یعنی علیحدگی اختیار کی اور ساتھ
ہی تخییر کا حق یعنی چاہیں تو طلاق لے لیں اور چاہیں تو ان کے نکاح میں ہی
رہیں، بھی دیا"
اگر رسول اللّٰہ ﷺ کی اس سنت کی قرآن حکیم کی اس آیت سے تطبیق کی جائے تو
پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے لئے ایسی صورتحال میں ناراضگی کے طور پر کچھ
وقت کے لیے علیحدگی اختیار کرنے اور انہیں اپنے لیے خود طلاق لینے یا ساتھ
رہنے میں سے، ایک کو چننے کا حق دینا ہی مناسب سمجھا، جو کہ ایک انتہائی
اعلیٰ اخلاق کے مالک انسان کے عین شایان شان تھا۔
اگر تھوڑا سا بھی غور کیا جائے تو آسانی سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اللّٰہ
پاک نے انسانی رشتوں میں بعض کو بعض پر فضیلت "خاندان" کے ادارے میں ڈسپلن
قائم کرنے کے لیے دی ہے جو کہ بنیادی طور پر مرد و عورت کے رشتہِ ازدواج
میں منسلک ہونے سے وجود میں آتا ہے۔
اور شوہر و بیوی کے رشتے میں "شوہر" کو یہ فضیلت، تا عمر بیوی کی حفاظت،
کفالت اور اس کی عزت کرنے و کرانے کی بھاری ذمّہ داری اٹھانے کے وعدے کے
عوض دی گئی ہے۔
یعنی کل ملا کر مرد، عورتوں پر بس اس قدر ہی حاکم ہیں کہ روزمرہ زندگی کے
معاملات میں Conflict کی صورت میں حتمی فیصلہ "شوہر" نے کرنا ہے جبکہ
"بیوی" ان میں مشیر کے طور پر مشاورت دیتی رہے گی۔
اور بس ۔۔۔۔۔
اگر اس سب کے علم میں آ جانے کے باوجود بھی کسی کو اپنے بارے میں کوئی غلط
فہمی ہے، تو اس کا اور اللّٰہ پاک کا معاملہ ہے جو اپنے وعدے کے خلاف نہیں
کرتا اور حد سے بڑھ جانے و زیادتی کرنے والوں سے ضرور بالضرور نپٹ کر رہے
گا۔
|