ارشاد ربانی ہے:’’قسم ہے فجر کی‘‘۔ ہر دن طلوع فجر گواہی
دیتی ہے کہ ’لمبی ہے غم کی رات مگر رات ہی تو ہے‘ اورشب کاتاریکی بالآخر
صبح کی روشنی سے دور ہوجاتی ہے۔ آگے فرمایا’’ اور دس راتوں کی‘‘۔ قمری ماہ
کے ہر عشرے میں چاند کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ پہلے میں چاند عروج کی جانب
رواں دواں ہوتا ہے۔ وزیر اعظم مودی کے لیے یہ 2014 کے بعد کا زمانہ تھا ۔
اس کے بعد والے دس دنوں میں تبدیلی کی رفتار گھٹ جاتی ہے اس لیے ٹھہراو
محسوس ہوتا ہے لیکن پہلے5 دنوں میں جاری عروج کا سلسلہ غیر محسوس طریقہ پر
روبہ زوال ہوجاتا ہے ۔ یہ 2019 کے بعد کا دور تھا ۔ تیسرے عشرے میں چاند
اچانک غائب نہیں ہوجاتا بلکہ تیزی سے زوال پذیر ہوتا ہے جسے بہ آسانی
محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ یہ دور 2024 کے انتخابی نتائج سے شروع ہوگیا ہے۔
چاند کے عروج و زوال کے بعد ’’ جفت اور طاق کی‘‘ قسم کھائی گئی یعنی انہیں
مسلسل تبدیلی کی علامت کے طور پر گواہ بناکر پیش کیا گیااور پھرشب کی رخصتی
کو حتمی شہادت بناکر فرمایا گیا ’’ رات کی جبکہ وہ رخصت ہو رہی ہو‘‘ اس طرح
گویا نوید صبح سنا دی گئی۔
قرآن حکیم میں ان نشانیوں کو پیش کرنے کے بعد سوال کیا جاتا ہے :’’ کیا
اِس میں کسی صاحب عقل کے لیے کوئی قسم ہے؟ ‘‘ یقیناً ہے مگر اس سے استفادہ
کرنے والوں کی بابت دیگر مقام پر ارشادِ قرآنی ہے:’’ (اِن نشانیوں سے) سبق
صرف وہی شخص لیتا ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہو۔ (پس اے رجوع کرنے
والو) اللہ ہی کو پکارو اپنے دین کو اُس کے لیے خالص کر کے، خواہ تمہارا یہ
فعل کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو ‘‘۔ اہل ایمان کے لیے یہ وقت اپنی شیخی
بگھارنے کے بجائے عبرت پکڑ کر رب کائنات کی طرف رجوع کرنے اور شکر بجا لانے
کا ہے ۔ سورۃالفجر میں آگے ماضی کی تین قوموں کو مثال کے طور پر پیش کیا
گیا۔ فرمانِ قرآنی ہے:’’ تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیا
اونچے ستونوں والے عاد ارم کے ساتھ جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں
پیدا نہیں کی گئی تھی؟‘‘حضرت ہودؑ کی بے مثال قومِ عاد کے دادا کا نام ارم
ہے۔ وہ قوت وطاقت اور دراز قامتی کے لیے مشہور تھے نیز فن تعمیر میں مہارت
کے سبب عظیم الشان عمارتیں تعمیر کرتے تھے۔
آگے چل کر حضرت صالح ؑ کی قوم کو مثال بناکر فرمایا گیا :’’ اور ثمود کے
ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں؟‘‘ قوم ثمود نےپہاڑوں کے تراش
کرگھر بلکہ شہر بنا رکھے تھے۔ مدینہ اور تبوک کے راستہ میں وادی القریٰ کے
اندران کی نشانیاں اب بھی موجود ہیں۔ اللہ واحد القہار نےانہیں بغاوت کے
سبب زلزلے اور چیخ کے عذاب سے تباہ کردیا۔ ان کے مکان کھنڈر بن گئے اور وہ
خود ہلاک گئے۔ان کےبعد بڑے لاولشکر والے نہایت طاقتور حکمراں فرعون کا ذکر
کیا گیا:’’ اور میخوں والے فرعون کے ساتھ؟ جس نے ’انا ربکم الاعلیٰ‘ کا
نعرہ بلند کیا تھا ۔ اس کے بعد ان تینوں قوموں کی مشترکہ صفات یہ بتائی
گئیں کہ :’’یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی اور
ان میں بہت فساد پھیلایا تھا ۔ آخرکار تمہارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا
برسا دیا حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب گھات لگائے ہوئے ہے‘‘ ۔
فرمانِ قرآنی ہے:’’ کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور
جس سے چاہے، چھین لے ‘‘۔ اس کائنات کے اقتدار کا حقیقی مالک و فرمانروا
اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذاتِ والا صفات ہے۔ وہ جب چاہتا ہے جسے چاہتا وقت
مقررہ کے لیے اقتدار عطا کردیتا ہے اور اپنی مرضی سے اسے چھین بھی لیتا ہے۔
بی جے پی نے جب پہلی بارحکومت سازی تو وہ بظاہر لال کرشن اڈوانی کی کوششوں
کا نتیجہ تھا مگر اٹل بہاری واجپائی کو قیادت کا موقع مل گیا اور اڈوانی
دیکھتے کہ دیکھتے رہ گئے۔ دیوگوڑا کا نام ارکان پارلیمان کی فہرست میں سب
سے نیچے تھا مگر حالات نے اسے پہلے نمبر پر پہنچاکر انہیں وزیر اعظم
بنادیا۔ ادھوٹھاکرے نے تو الیکشن تک نہیں لڑا تھا مگر مشیت ایزدی نے ان کے
سر پر وزارت اعلیٰ کا تاج رکھ دیا۔ نریندر مودی ایک زمانے میں وزیر اعلیٰ
کےعہدے سے بھی استعفیٰ دے دیا تھامگر نہ صرف بچ گئے بلکہ آگے چل کر وزیر
اعظم بھی بن گئے ۔ اب پھر وہ اپنا عہدہ بچانے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں
اور جن سے سیدھے منہ بات کرنے کے روادار نہیں تھے ان کی ناز برداری کرنے پر
مجبورہو گئے ہیں ۔ وزیر اعظم مودی کی یہ حالت دیکھ کر ان مخالفین خوشیاں
منا رہے ہیں اور حامیوں کے اندر مایوسی پھیل گئی ہے۔ مودی کو اس بار جو
اقتدار مل رہا ہے اس میں عزت و احترام کا شائبہ تک نہیں ہے۔ اس طرح یہ بات
ثابت ہوگئی کہ اقتدار کے ساتھ عزت کے بجائے رسوائی بھی ہاتھ آسکتی ہے۔
ارشادِ خداوندی ہے:’’ (وہ) جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر
دے‘‘۔ وزیر اعظم مودی اگر ان حالات سے عبرت پکڑکر مائل بہ اصلاح ہوجائیں تو
اس میں ان کے لیے بھی خیرکا پہلو ہے کیونکہ :’’ بھلائی تیرے(یعنی اللہ کے)
اختیار میں ہے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ انتخابی مہم کے دوران کون سوچ
سکتا تھا کہ چار سو پار کا نعرہ لگانے والےتین سوپار بھی نہیں کرپائیں گے
لیکن یہ تو اللہ کی مشیت ہے کہ:’’(وہ) رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے
اور دن کو رات میں، جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے اور بے جان میں سے
جاندار کو اور جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق دیتا ہے ‘‘۔رب کائنات نےمردہ
سیاسی زمین میں جان ڈال دی اور اسے سر سبزو شاداب کرکے موجودہ سنگین حالات
میں اس آیت کی تفسیر پیش کردی ۔ خدائی کا دعویٰ کرنے والے مغرور وزیر اعظم
کا اچانک سبز جاکیٹ پہن کر دن بھر اسے نہ بدلنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں
دال آٹے کا بھاو معلوم ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم کی حالت زار پر یاس یگانہ
چنگیزی کا یہ شعرترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
خودی کا نشہ چڑھا،آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھےنریندر مگر بنا نہ گیا
|