ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی: ایک محقق و دانش ور

15رمضان المبارک 16اگست2011ءکی شام ممبئی سے سرگرم دینی شخصیت الحاج محمد سعید نوری نے اطلاع دی کہ : ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی کا بریلی شریف میں آج صبح وصال ہو گیا۔ لب سے بے ساختہ وہ الفاظ ادا ہوئے جس کا بدل اور کوئی الفاظ نہیں۔ انا للّٰہ و انا الیہ رٰجعون۔

گزشتہ تین دہائیوں سے ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی کا قلم سیال رقم علم و فن کے گُہرِ آب دار لٹا رہا تھا۔ بہت سے دینی و علمی موضوعات پر انھوں نے کام کیا۔اپنے کام کی بنیاد پر شہرت حاصل کی۔ان کی قلمی کاوشات کو درج ذیل گوشوں اور جہتوں میں سمیٹا جا سکتا ہے:
(۱) سیرت و عقاید
(۲)تصوف و ادب
(۳)سماجیات و معاشیات
(۴) دعوت و اصلاح
(۵)احوال و تذکار
(۶)علماے بریلی کی دینی و علمی خدمات
(۷)دینی وکتب و مقالات کے تراجم....وغیرہ وغیرہ

دینی و علمی اور ادبی افق پرآپ کے مقالات و مضامین ہندو پاک کے علاوہ یورپ و امریکہ میں شایع ہوتے رہے۔ بالخصوص امام احمد رضامحدث بریلوی کی دینی و ادبی اور تحقیقی خدمات کے درجنوں جہات پر آپ کے مقالات کی تعداد سو کے لگ بھگ ہے۔ جن میں اکثر مطبوعہ ہیں۔نیز آپ کا ایک اہم کارنامہ ”رضویات“ کے حوالے سے محققین کی رہ نمائی ہے۔ نصف درجن کے قریب اسکالرز نے آپ کی رہ نمائی و معاونت میں ملک کی مختلف یونی ورسٹیوں سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کا مخلصانہ تعاون ہمیشہ ارباب قلم کے ساتھ جاری رہا۔ جو آپ سے رجوع کرتا اسے مایوس نہیں فرماتے، اخلاق و کردار میں بڑی یکسانیت تھی۔ زندگی سادہ اور تکلف و تصنوع سے عاری تھی۔ دکھاوہ اور ریا سے دور و نفور تھے۔ معاملے کے صاف اور مزاج کے نیک تھے۔

راقم نے اکیسویں صدی کے آغاز میں قلم تھاما۔ کمسنی کا عالم تھا۔ مختلف رسائل وجراید میں ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی کی تحریریں پڑھتا۔ ذہن و فکر میں بالیدگی آتی اور جلد ہی اس ذوقِ مطالعہ نے قلم سے وہ تعلق ہم وار کیا جو روز افزوں ہے۔ راقم نے اس کم سنی میں ہی عزیزی صاحب کو خط لکھ کر رابطہ کیا۔ رہ نمائی چاہی۔ تحریر و تحقیق کے شغف کو دیکھ کر آپ نے رہ نمائی اور حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ کتابوں کے تحائف سے بھی نوازنا شروع کیا۔ راقم نے جس کتاب کی فرمائش کی وہ ڈاک سے حاضر کر دی۔ ہم نے طلبا میں اسلامی فکر پروان چڑھانے کی غرض سے ”نوری مشن“ کے نام سے اشاعتی کام کا آغاز کیا۔ اس سلسلے میں ایک مقصد تھا کہ صالح لٹریچر کی اشاعت امام احمد رضا کی تحقیقات کے حوالے سے کی جائے اور انھیں طلبا و اساتذہ، علما و مصنفین میں بلا قیمت پیش کیا جائے۔ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی ہمارے سرپرست اول تھے۔ انھیں کی تحریر ”امام احمد رضا اور الجبرا“ سے 2002ءمیں اشاعتی سفر کا آغاز کیا۔ کتاب مقبول ہوئی جس میں اسلام کے غلبہ کے لیے امام احمد رضا کی تحقیقات کی جھلک دکھائی گئی تھی اور یہ بتایا گیا تھا کہ جب جرمن ریاضی داں جارج کینٹرنے Set Theoryاور Topologyکا نظریہ پیش کیا تو دنیا نے اسے ان علوم کا موجد تسلیم کر لیا جب کہ مشرق کے ایک ملک ہندوستان میں امام احمد رضا نے ”علم الٰہی“ کی لامتناہی شان اجاگر کرنے کے لیے ان علوم کے جلوے دکھائے جب کہ اس وقت یورپ ان سے واقف بھی نہ تھا۔ اس طرح عہدِ غلامی میں اسلام کے ابتدائی دور کے ان اساتینِ علم کی یاد تازہ کر دی جن کی علمی و سائنسی صلاحیت کا لوہا اغیار نے بھی مانا اور جن پر عالمِ اسلام کو فخر ہے۔

ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقش بندی(م2008ئ) کا قول ہے: ”مطالعہ و مشاہدہ نیک و بد اور خیرو شر کی پہچان کا بہترین ذریعہ ہے۔ پروپیگنڈے سے کچھ وقت کے لیے خیر کو شر اور نیک کو بد بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے مگر ہمیشہ کے لیے نہیں.... مطالعہ کے بعد جب جہل ولا علمی کے پردے اٹھتے ہیں تو مطلع صاف نظر آنے لگتا ہے....“ (گناہ بے گناہی، المجمع الاسلامی مبارک پور 1993ئ، ص4)

تحقیق و تدقیق کی صاف و شفاف روشنی میں ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی نے قلمی کام کیا تو امام احمد رضا کی علمی خدمات کا ایک جہان سامنے آیا اور ارباب علم و دانش متاثر ہوئے۔ دنیا کی عظیم دانش گاہوں کے اساتذہ و محققین کو ڈاکٹر عزیزی نے امام احمد رضا کی تحقیقات و تصنیفات کی طرف متوجہ کیا۔آپ کا یہ کام عقیدت کا غماز نہیں بلکہ حقیقت کا آئینہ دار تھا۔ سچ ہے کہ شخصیات کی خدمات کا جائزہ حقیقت کے آئینے میں لیاجانا چاہیے تب مطلع صاف نظر آنے لگتا ہے اور جہل کے دبیز پردے چاک ہونے لگتے ہیں۔ اہلِ علم حیران رہ جاتے ہیں کہ کیا بتایا گیا تھا اور سچ کیا ہے۔جس نے سنت کی راہ واضح کی اسے اتہام کی بنیاد پر کیا کہا گیا تھا، گویا حق آفتاب عالم تاب کی طرح ظاہر ہو کر رہتا ہے۔

چھ سال پیش تر سال نامہ یادگاررضا ممبئی کی ذمہ داری الحاج محمد سعید نوری نے راقم کو دی۔مقالات کی فراہمی کا مسئلہ درپیش ہوا۔ ڈاکٹر عزیزی سے مشورہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ نت نئی جہات پر مقالے لکھوائے جائیں اور ارباب علم سے رابطے کے لیے پتے بھی مہیا کروائے۔ خود بھی مقالات لکھے۔ اس طرح راقم کی فرمائش پر آپ کے آٹھ نئے مقالات یادگاررضا کے مختلف شماروں کی زینت بنے۔ اور بعد میں ہندوپاک کے دیگر رسائل وجراید میں بھی ان کی اشاعت ہوئی۔

چند سال قبل داعی اسلام مولانا محمد ارشد مصباحی(خطیب وکٹوریہ پارک کی مسجد،مانچسٹر) مالیگاؤں تشریف لائے۔ شمالی ہند کے علمی سفر کی منصوبہ بندی ہوئی۔ ہم اس درمیان بریلی بھی گئے۔ ڈاکٹر عزیزی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ یہ پہلی ملاقات تھی۔ اس سے قبل خط اور فون سے ہی رابطہ تھا۔ انھیں قریب سے دیکھا، مخلص پایا، مہمان نوازی کی، سچ ہے غریبوں کے دل بڑے وسیع ہوئے ہوتے ہیں، آپ نے اپنی نگرانی میں بریلی کی دانش گاہوں کی سیر کروائی۔ کافی دیر علمی گفتگو رہی۔ پھر18جولائی2009ءمیں دوبارہ بریلی حاضری ہوئی تب بھی بڑی محبت سے ملے۔ علمی باتیں ہوئیں۔ وہ علیل تھے لیکن ہمیں ریسو کرنے آئے اور پر تکلف ناشتہ کا انتظام کیا۔ اسی سفر میں علی گڑھ بھی جانا ہوا جہاں مسلم یونی ورسٹی کے سابق صدر شعبہ عربی ماہر مخطوطات پروفیسر ڈاکٹر مختارالدین احمد(م 30جون2010ئ) سے ملاقات رہی۔ علم و تحقیق کے حوالے سے ڈاکٹر مختارالدین نے کہا کہ اس وقت سنجیدہ انداز میں امام احمد رضا پر علمی کام انجام دینے والی شخصیات میں ڈاکٹر عبدالنعیم عزیز ی کا پایہ بلند ہے۔ میں ان کی خدمات سے متاثر ہوں۔ ان کا قلم بڑا رواں دواں ہے۔ آپ جب بھی پی۔ایچ۔ڈی کریں تو مجھ سے اور ان(ڈاکٹر عزیزی) سے ضرور مشورہ کریں۔

وہ ادیب بھی تھے۔ نعتیہ ادب پر بڑا عمدہ کام کیا۔ درجنوں مقالے لکھے۔ انھیں کئی ایوارڈز اور اعزازات بھی ملے، نعت کے حوالے سے ان کی شناخت بڑی منفرد تھی۔ برصغیر کے ادبی حلقے میں انھیں لایق اعتبار مقام حاصل تھا۔ کتابی سلسلہ نعت رنگ میں ان کی تحریریں شایع ہوتی رہیں۔ ان کی ژرف نگاہی کا یہ حال تھا کہ نعت رنگ کے مقالہ نگاروں میں کسی کے قلم سے معمولی بھی لغزش ہوتی یا تعصب کی بنیاد پر کوئی قلم کار نعت کی ادبی فضا میں جنبشِ لب کشائی سے ادب کا دامن مجروح کرتا تو آپ کا تنقیدی قلم مدلل انداز میں تعاقب کرتا اور حزم و احتیاط کے تئیں جذبہ اصلاح عود کر آتا۔ نعت رنگ کے قارئین اس وصف سے واقف ہیں۔

رہی بات زبان و بیان کی اور اسلوب کی رنگینی کی تو اس میں علی گڑھ کی مٹھاس، لکھنو کی رنگینی، دہلی کی شفافیت اور روہیل کھنڈ کی ملاحت کی آمیزش تھی۔ اس لیے بھی کہ ان ادبی دبستانوں سے انھوں نے گل چینی کی تھی۔ ان کی تحریر کی شگفتگی ایسی تھی کہ جو پڑھتا مسحور ہو جاتا لیکن یہ جمالیاتی حسن کے بہ طور اسلوب کا لازمہ بنا، ورنہ قلمِ عزیزی کے نزدیک تحقیق عزیز تھی، اور تحقیق کا رنگ ہی ان کے اسلوب پر غالب رہا۔

مئی2011ءکے اخیر میں اپنے احباب کے ہم راہ بریلی و علی گڑھ اورشمالی ہند کے متعدد شہروں کا علمی سفر ہوا۔ بریلی حاضری ہوئی۔ ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی سے ملاقات ہوئی۔ موصوف سخت علیل تھے اس کے باوجودروایتی مہمان نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرتکلف ظہرانے کا انتظام کیا۔ علمی گفتگو ہوئی۔ اس دوران بتایا کہ میں متعدد گوشوں پر کام کر رہا ہوں۔ میری تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے پہلے سیرت سید کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر ایک کتاب تصنیف کردوں۔ جس کے اب تک تقریباً 450صفحات لکھ رکھے ہیں۔ اسی درمیان بتایا کہ جدید تحقیقی تقاضوں کے مطابق امام احمد رضا کی ایک سوانح حیات کا خاکہ بھی بنایا تھا جو کئی ہزار صفحات پرمحیط ہوگا جس کے ڈیڑھ ہزار سے زیادہ صفحات لکھ چکا ہوں۔ دعا کریں کہ میں اپنے ان عزائم میں کام یاب ہو جاؤں....آپ کے دولت کدے پر ایک خوب صورت ایوارڈ پر راقم کی نظر پڑی جس پر خوب صورت خطاطی میں لکھا تھا ”عالمی نعت ایوارڈ“ راقم کے دریافت پر بتایا کہ 1980ئ(یا1985ء) میں کراچی میں نعت اکیڈمی نے عالمی سطح پر پروگرام منعقد کیا جس میں میں بھی مدعو تھا اور نعتیہ ادب پر میری خدمات کے حوالے سے مجھے ایوارڈ سے نوازاگیا۔ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کراچی نے امام احمد رضا پر تحقیق کے لیے آپ کو ”گولڈ میڈل امام احمد رضا ری سرچ ایوارڈ“ بھی پیش کیا تھا۔ اسی سال 27فروری2011ءکو میرا روڈ ممبئی کے امام احمد رضا سمینار و کانفرنس میں آپ کو ”امام احمد رضا ایوارڈ“ سے نوازا گیا۔اور غالباً اسی سیمی نار تھا میں عزیزی صاحب نے آخری بار مقالہ خوانی کی۔پھر وہ وصال تک علیل رہے۔

بریلی میں ذاتی کتب خانوں میں عزیزی صاحب کا کتب خانہ سب سے بڑا تھاجہاں ہزاروں نادر و نایاب کتابیں موجود و محفوظ ہیں۔اسی ملاقات میں بتایا کہ میں اپنے تمام علمی اثاثہ جو ہزاروں کتابوں پر مشتمل ہے، کو علامہ اختر رضاخاں ازہری کے قائم کردہ مرکز الدراسات الاسلامیة جامعةالرضا یا امام احمد رضا اکیڈمی کی لائب ریری کو وقف کردوں گا تاکہ استفادہ و تحقیق کا سلسلہ آگے بڑھے، اس طرح کتابیں محفوظ بھی ہو جائیں گی اور میری برسوں کی محنت سے جو کتب خانہ تیار ہوا ہے وہ ضایع ہونے سے رہ جائے گا........عزیزی صاحب سچے عاشق رسول تھے۔ ”نعت“ جیسے پاکیزہ اور البیلے موضوع پر قلم کے جواہر لٹانے والا ”صادق“ و ”ثابت قدم“ جبھی رہتا ہے جب اس کا دل عشق رسول سے معمور ہو اور سینہ علم سے لبریز۔ ڈاکٹرموصوف کو طیبہ کی حاضری کی بڑی تڑپ تھی۔ ملاقات میں میں نے ذکر چھیڑا نسیم بطحا کا، شہر محبت مدینہ منورہ کا، تو ہم نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں چھلک گئیں، ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ ہم بھی آب دیدہ ہو گئے۔ عشق رسول میں وہ وارفتگی کہ بڑی دیر تک مکین گنبد خضرا کا ذکر کرتے رہے، حاضریِ طیبہ کی آرزو میں اپنی زندگی کے ایام ہجر یاد کرتے رہے۔ اور پرعزم لہجے میں کہا کہ لگتا ہے میں طیبہ حاضری کے لیے جلد ہی پابہ رکاب ہوں گا.... کسے معلوم تھا کہ مدینہ امینہ کی پر نور فضاؤں میں کھویا رہنے والا عاشق سفر آخرت پر روانہ ہو جائے گا، لیکن:
آنکھیں کچھ کہتی ہیں تجھ سے پیغام
او درِ یار کے جانے والے

اور یقینا قبر کی منزل میں اپنے عشق صادق کی بدولت وہ ”وصل“ سے ہم کنار ہوئے ہوں گے۔ محبوب رب العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دیدار سے ان کی آنکھیں شاد کام ہوئی ہوں گی۔اللہ کریم ان کی خدمات کو شرف قبول عطا فرمائے۔ ان کی تربت پر ہر آن رحمتوں کا نزول فرمائے۔

اب ارباب علم و دانش کی ذمہ داری ہے کہ ان کے غیر مطبوعہ قلمی اثاثوں کو حاصل کریں اور انھیں طباعت کے مرحلے سے گزار کر تطہیر قلب و نظر کا سامان کریں۔ کسی محقق کو چاہیے کہ ڈاکٹر عزیزی کی قلمی خدمات، آثار علمیہ اور اسلوب تحریر، نثری خوبیاں اور ان کی تحقیقات و تدقیقات کے حوالے سے مقالہ تحقیق قلم بند کرے۔ ہمارے یہاں غیر ضروری مدوں میں خرچ کرنے کا زیادہ رجحان ہے ارباب ذوق کو چاہیے کہ علمی کاموں میں بھی ذوق دکھائیں اس طرح قوم کے لیے تعمیری کام کریں۔ اگر کوئی محقق ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی پر تحقیقی کام کرنا چاہے تو راقم علمی تعاون کے لیے مستعدی دکھائے گا۔

ڈاکٹر صاحب نے اسلام کے تعارف میںبرطانوی نومسلم ڈاکٹر محمد ہارون (م1998ئ) کی متعدد کتابوں کو انگریزی سے اردو میں ترجمہ کر کے شایع کیا۔ ان کی دوبارہ اشاعت کی بھی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں آپ نے ہندی میں بھی درجن بھر کتابوں کو ترجمہ کیا ہے جن میں ایک نہایت اہم کتاب ”دین فطرت“ ہے۔ یہ کتاب غیر مسلموں میں اسلام کا بہتر تعارف پیش کرتی ہے جس کا صرف ایک ایڈیشن شایع ہوا اور عرصہ سے یہ مارکیٹ میں نہیں ہے اس کی Re-printکی ضرورت ہے۔علمی شخصیات کے علمی کام سے قوم کو واقف کروانا ہی ان کی خدمت میں صحیح خراج عقیدت ہوگا۔
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 256826 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.