دین اسلام کا علم کی حصول کے حوالے حکم ہے کہ ”علم حاصل
کرو چاہے چین تک جانا کیوں نہ پڑے“دوسرا حکم ہے کہ ”علم حاصل کرو مہد سے
لحد تک“ اور تیسرا حکم ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مرد وعورت پریکساں فرض ہے ،
اب دیکھتے ہیں کہ ہم اس پر کتنا عمل کرتے ہیں ۔تاریخی طورپر بتایا جاتا ہے
کہ ماضی میں عراق اور بغداد سمیت دنیا کے بیشتر ممالک جو مسلمانوں کے زیر
تسلط رہے وہاں علم کا چرچا تھا ، تحقیقی میدانوں میں مسلمانوں کا طوطی
بولتا تھا ، حکمت کا میدان ہو یا ریاضی کا فلکیات کا علم ہو یا زندگی کے
کسی دوسرے شعبے کا ہر شعبہ میں مسلمان علماءاور سائنسدان چھائے رہے ۔
ادیان کے لحاظ سے دیکھا جائے تو کوئی مذہب ہمیں آدم ؑ سے لے کر حضرت محمد
تک کوئی بھی اس دورانئے کا حال نہیں بتاتا سوائے مذہب اسلام کے جو اس کی
حقانیت کو واضح کرتا ہے کہ یہی حقیقی مذہب ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا
ثبوت پیش کرنے کے علاوہ آخرت کے حوالے سے جو بھی بتاتا ہے وہ حقیقت پر مبنی
اور سچ ہے ۔بات شروع ہوئی تھی علم کے حصول سے تو پھر سے اپنے موضوع کی طرف
آتے ہیں چند دن قبل سوشل میڈیا پر ایک تصویر نظروں کے سامنے آئی جس میں
لاہور میں کسی علم کے شیدائی نے مغرب کی نقالی کرتے ہوئے ایک پارک میں
کتابوں کا ایک باکس لگایا تھا جس میں ایک جانب کتابیں رکھی ہوئی تھیں اور
دوسری جانب وہ کتاب پڑھنے کے بعد واپس رکھنے کی جگہ تھی ،تفصیل میں بتایا
گیا تھا کہ اب وہ کتاب باکس تو موجود ہے لیکن کتابیں غائب ہیں ۔
ایسی ہی ایک اور خبر چند دن قبل سوشل میڈیا ہی کے ذریعے ایک صاحب نے شیئر
کی تھی کہ اسلام آباد میں ایک معروف بک شاپ سے کچھ کتابیں خریدیں جو اصل
قیمت سے دُگنی قیمت میں دی گئیں اور اس بات کاپتہ اس طرح چلا کہ ایک کتاب
اس معروف شاپ میں نہ ہونے کی وجہ سے اس دُکان کے بالکل سامنے سڑک کی دوسری
جانب ایک غیر معروف بک شاپ سے وہی کتاب ملی اتفاقیہ دیگر خریدی گئی کتب کے
بارے میں جب دُکاندار سے معلوم کیا تو وہ بھی ان کے پاس موجود تھیں ، قیمت
کا پوچھا تو اس نے معروف کتب شا پ کے مقابلے میں آدھی قیمت بتائی جس کے بعد
مذکورہ شخص کے مطابق جب وہ دوبارہ معروف شاپ میں حساب کتاب یا کتابیں واپس
کرنے کیلئے گئے تو جو احوال اس نے بتایا ہے اس کا نہ ہی پوچھیں تو بہتر
ہوگا کیونکہ دکان مالک نہ کتابیں واپس کررہے تھے اور نہ اصل قیمت کے علاوہ
باقی رقم واپس کرنے پر تیار ہورہے تھے ۔
دو نوں واقعات کے علاوہ تیسری بات یہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے
سیاسی قائدین جب حکمران بن جاتے ہیں تو تعلیمی ترقی ملک کے لئے نہایت ہی
ناگزیر قرار دیتے ہوئے تعلیمی ترقی کے بہت بڑے دعوے کرتے ہیں اور اپنی ہر
تقریر میں یہ باور کراتے ہیں کہ ماضی کے حکمرانوں نے تو نااہلی دکھائی ہے
لیکن ہم اس کا مداوا کریں گے لیکن جب وفاقی بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو پھر ہر
کوئی دیکھے کہ تعلیمی ترقی ، تعلیمی اداروں کی ضروریات کیلئے بجٹ میں کتنا
فنڈ مختص کیا جاتا ہے ۔
ہم ہر چیز میں مغرب کی مثالیں دیتے ہیں کہ مغرب میں لائبریریاں اس طرح ہوتی
ہیں وہاںکتابیں ا س طرح مہیا ہوتی ہیں ، کتب بین کتنے شوق سے کتابیں خریدتے
ہیں اور اگر لائبریری کا کتاب پڑھنے کیلئے لے جاتے ہیں تو پڑھنے کے بعد کس
اہتمام کے ساتھ دوسرے کے پڑھنے کیلئے واپس کئے جاتے ہیں لیکن اپنا حال کیا
ہے وہ لاہور کے پارک میں رکھے کتاب باکس کی حالت زار سے واضح ہے یہی ہماری
قومی سوچ ہے رہی سہی کسر انٹر نٹ نے پوری کردی ہے جس کی وجہ سے کتب بینی نہ
ہونے کے برابر رہ گئی ہے جسے دیکھو ہر چیز گوگل کرکے دیکھتا ہے اور غیر
مستند معلومات کی بناءپر عقل کل بن کر ماضی کے کتب بینوں اور معلومات کا
خزانہ رکھنے والوںکو چیلنج کرتے رہتے ہیں جو میری نظر میں سورج کو چراغ
دکھانے والی بات کے مصداق ہوتا ہے کیونکہ ایک علم کی بنیاد پر بات کرتا ہے
اور دوسرا محض ہوائی بات پر اُچھل کود کرتا ہے۔
ہماری علمی پستی ہی کی وجہ ہے کہ ہم قومی ترقی نہیں کرپارہے ہیں ، ماضی میں
چنگیز خان نے بغداد اور دیگر مسلم ممالک کو تاراج کرنے کے بعد سب سے پہلے
علمی کتب کو کیوں جلایا اوردریائے دجلہ کے حوالے کیا ؟ کیونکہ وہ سمجھتا
تھا کہ اس قوم کو کتاب سے بیزار کرکے ہی تباہ کیا جاسکتا ہے ، وہی سلسلہ آج
تک چل رہا ہے اور ہم ہیں کہ اس اندھے کنوئیں میں خود گرنے کیلئے ہر وقت
تیار رہتے ہیں، ہماری یونیورسٹیاں علمی استعداد بڑھانے اور وقت کے دھارے کے
ساتھ چلنے کی بجائے صرف ڈگریاں تقسیم کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔اس کے علاوہ
ہر روز نت نئی فیسوں کا اجراءکرکے بچوں کے والدین کی مشکلات بڑھائی جاتی
ہیں اس کے مقابلے میں مغرب کی پالیسیوں کو دیکھیں تو واضح ہوجائے گاکہ
انہوں نے اپنے بچوں کیلئے تعلیمی سہولیات کتنی آسان کررکھی ہیں۔
اگر ہمارے حکمران اپنی پالیسیوں میںحقیقی معنوں میں قومی ترقی چاہتے ہیں تو
ان کو نظرثانی کرنا پڑے گی بجٹ میں تعلیمی ترقی کیلئے خصوصی فنڈز مختص کرنا
ہوگی، سوچنے کی بات ہے کہ ہر سال میڈیکل اور دیگر شعبوں میں مہارت حاصل
کرنے کیلئے کتنے بچے بیرون ممالک کی یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں ملک میں
تعلیمی سہولیات نہ ہونے کہ وجہ سے والدین بھی بچوں کی ڈیمانڈ کے آگے مجبور
ہوجاتے ہیں ،ابھی پچھلے مہینے ہی کا واقعہ ہے کہ کرغزستان کے شہر بشکیک میں
پاکستانی طالب علموں کے ساتھ کیا ہوا یہی ہماری ناکام تعلیمی پالیسیوں کا
نتیجہ ہے جس کے بارے میں ہمارے ارباب اختیار کو سوچنا چاہئے اگر ہم اسی طرح
کوتاہی کے مرتکب ہوتے رہے تو پھر کتب بینی اور علمی مہارتے کے خواب کو خواب
ہی رہنے دیں یہ کبھی بھی حقیقت نہیں بن سکے گا ۔
|