ناک کی ٹاک

ناک انسانی جسم کا انتہائی اہم حصہ ہے۔ اردو ادب میں ناک کے حوالے سے موجود محاورات و ضرب الامثال پر مشتمل ایک دل چسپ مضمون
ناک انسان کے جسم کا انتہائی اہم حصہ ہے۔انسان کے چہرے کی دل کشی، خوب صورتی اور جاذبیت میں ’’ ناک ‘‘ کا کردار انتہائی ہے۔ اسی لیے سمجھ دار مائیں بیٹوں کے رشتوں کے وقت لڑکیوں کی رنگت کی بہ جائے ’’ ناک نقشے‘‘ کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ البتہ نادان ہیں وہ لوگ جو انسانوں کو رنگت کے پیمانے میں ناپتے ہیں۔،لڑکیوں کی مائیں بھی بعض اوقات رشتہ مانگنے والوں کو ’’ناک رگڑوا‘‘ دیتی ہیں ناک کی کئی اقسام ہیں جیسے کہ کھڑی ناک، پچکی ناک، موٹی ناک، پتلی ناک وغیرہ۔ اس کے علاوہ بھی کئی قسم کی ناکیں ہیں جیسے افسوس ناک، خطرناک، عبرت ناک، خوف ناک، ہیبت ناک وغیرہ ۔
ایک ناک وہ بھی ہوتی ہے جو چاہے کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو لیکن اس کو اونچا رکھنے کی ہمیشہ کوشش کی جاتی ہے ۔ عام طور سے یہ ناک شادی بیاہ اور تقریبات کے موقع پر سامنے آتی ہے۔ پھر چاہےیہ ’’ناک اونچی ‘‘ رکھنے کے لیے قرضہ لینا پڑے اور بعد میں ساری زندگی قرضہ چکانے میں گزر جائےلیکن اس وقت تو رشتہ داروں میں ناک اونچی رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ اس ناک کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کو اونچا رکھنے کے لیے ہمہ وقت تگ و دو اور جدو جہد کرنی پڑتی ہے ورنہ ’’ناک نیچی ‘‘ ہوجانے کا ڈر رہتا ہے۔ مثلا،ذرا کوئی رشتہ دار آگے نکلا اور ’’ ناک نیچی ہوگئی ‘‘، دیورانی، جیٹھانی کی اولاد مہنگے تعلیمی ادارے میں پڑھنے گئی اور’’ ناک نیچی‘‘ ہوگئی ۔ رشتہ داروںمیں کوئی متوسط آبادی سے نکل کر نسبتاً مہنگے علاقے میں منتقل ہوا اور ناک نیچی ہوگئی ۔پھر وہی ہوتا ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا یعنی اب اپنی’’ ناک اونچی کرنے‘‘کے لیے پائوں چادر سے باہر پھیلانے پڑیں، قرضہ لینا پڑے، کمیٹیاں ڈالنی پڑیں لیکن ناک تو اونچی رکھنی ہے نا بھئی !
ایک اہم بات اور بتائیں ، یہ جو اونچی ناک والے ہوتے ہیں نا یہ عام طور سے بہت ’’ ناک چڑھے ‘‘ ہوتے ہیں، اپنی ’’ ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھنے ‘‘ دیتے۔ ہمیشہ کچھ لیے دیے، کچھ غصیلے سے اور ماتھے پر تیوریاں ڈالے رہتے ہیں،ان کی ’’ ناک پر غصہ دھرا‘‘ ہوتاہے۔ ذرا ذرا سی بات پر ’’ناک بھوں‘‘ چڑھا لیتے ہیں۔ان کی ناک بھی بہت نازک اور کم زور ہوتی ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر ناک کٹ جاتی ہے مثلا کوئی غریب رشتہ دار، کوئی پرانا محلہ دار، بچپن کا کوئی لنگوٹیاں جو معاشی طور پر ان سے پیچھے رہ گیا ہو اور ان سے ملنے آجائے تو اونچی ناک والوں کی تو ’’ ناک کٹ ‘‘ جاتی ہے۔لاکھ سمجھانے بجھانے کے باوجود معصوم بچے انگریزی کی بجائے قومی زبان میں کوئی بات کرلیں تو ’’ناک کٹ گئی ‘‘۔ بچے تعلیمی کارکردگی میں رشتہ داروں کے بچوں سے پیچھے رہ گئے تو ’’ناک کٹ گئی ‘‘وغیرہ اس لیے یہ لوگ ہر وقت یہی دعا مانگتے رہتے ہیں کہ الٰہی! ہمیشہ ہماری ’’ ناک بنی رہے‘‘ اور کبھی کسی کے سامنے ’’ناک نیچی ‘‘ نہ کرنی پڑے۔
یہ تو ایک قسم کے افراد کا ذکر ہے،کچھ لوگ ان کےبالکل برعکس ہوتے ہیں۔ زندگی کے ہر معاملے پرکچھ سوچنے سمجھنے کی بہ جائے ہمیشہ ’’ناک کی سیدھ میں‘‘ چلتے رہتے ہیں۔ان کی بصارت اور ذمے داری کا حال یہ کہ ان کی ’’ ناک کے نیچے ‘‘ کئی کام ہوجاتے ہیں اور انہیں کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی۔بصیرت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اپنی ’’ناک سے آگے نہیں دیکھ‘‘ سکتے، کھانے پینے کی خوش بو تو سونگھ لیتے ہیں لیکن کبھی کسی خطرے کی بو نہیں سونگھ پاتے ۔جب کہ کام چور اور کاہل اس قدر کہ ’’ ناک پر کی مکھی تک نہیں اڑاتے‘‘ لیکن کھانے پینے کے اتنے شوقین کہ جب کسی دعوت میں جانے کا موقع ملے تو پیٹ تو پیٹ ’’ ناک تک بھر لیتے ‘‘ ہیں۔ایسے لوگوں کواپنے کاموں کی کچھ زیادہ فکر نہیں ہوتی تاہم دوسروں کے معاملات میں اپنی ’’ ناک ٹھونسنا‘‘ ضروری سمجھتے ہیں ، چاہے اس کوشش میں ’’ ناک جڑ سے کٹ جائے ‘‘ لیکن یہ لوگ باز نہیں آتے، بلکہ یہ لوگ اپنی بے عزتی کو بھی عزت افزائی سمجھتے ہیں گویا کہ ’’ ناک کاٹی مبارک کان کاٹے سلامت‘‘۔کچھ نادان قسم کے لوگ بری صحبت میں پڑ کر اپنی اہل خانہ کی ’’ناک اڑا دیتے ‘‘ہیں۔ایسے لوگوں کی وجہ سے خاندان کی ’’ ناک پُچھ جاتی ‘‘ ہے۔یہ ایسے نوجوان ہوتے ہیں جو کام دھندہ تو کچھ نہیں کرتے لیکن عورتوں کی طرح ’’ ناک چوٹی سے درست ‘‘ رہتے ہیں، چاہے گھر والوں کی ’’ ناک چوٹی پر آفت آجائے ‘‘ ان کی بلا سے ۔ایسے لوگوں کی ’’ ناک میں نکیل ڈالنے ‘‘ کے لیے گھر والوں کو ’’ ناکوں چنے چبانے ‘‘ پڑ جاتے ہیں۔پھر یہ لوگ ٹھوکریں، کھا کر نقصان اٹھا کر ’’ ناک چاٹتے‘‘ ہوئے والدین کی بات مانتے ہیں۔البتہ کئی نادان ایسے بھی ہوتے ہیں جو عمر کا بہترین حصہ یعنی جوانی غفلت میں گزار کر آخری عمر میں ’’ ناک سے لکیریں کھینچتے ‘‘ اور ’’ ناک رگڑتے ‘‘ نظر آتے ہیں، ’’ناک لگا کر بیٹھتے ہیں‘‘۔ خیر دیر آید درست آید، اگر اخیر عمر میں بھی توبہ کی توفیق مل گئی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے؛
صاحب نا ک کے ذکر پر یاد آیا یہ بچے بھی اپنی شرارتوں اور سوالات سےبڑوں کی ’’ ناک میں دم ‘‘ کیے رہتے ہیں۔جب کہ نسبتاً چھوٹے بچوں کا تو ’’ ناک پر رونا دھرا ہوتا‘‘ ہے۔ ذرا کوئی بات ہوئی اور رونا دھونا شروع ۔ مرحومہ پروین شاکر صاحبہ شاکی تھیں کہ
؎ جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے
لیکن ہم تو یہ کہتے ہیں کہ بچے چالاک تو ہوگئے لیکن ساتھ ہی جسمانی طور پر انتہائی کم زور بھی ہوگئے ہیں ۔پہلے زمانے میں آپ بچوں سے کشتی لڑیں، ان کو پکڑ کر سر سے اوپر اچھالیں، وہ خوش ہوتے تھے لیکن آج کل کے بچوں کا حال یہ ہے کہ ’’ ناک پکڑتے دم ‘‘ نکلنا شروع ہوجاتا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے بچوں کو اتنا نازک مزاج بنانے میں آج کل کی مائوں کا زیادہ ہاتھ ہے،آج کل کی مائیں تو بچوں کے حوالے سے کوئی بات سننے کو تیار نہیں، بچوں کے معاملے پر تو وہ ’’ ناک سے سپاری توڑتی ہیں‘‘، ذرا کسی نے بچے کی کسی شرارت کی شکایت کی اور انھوں نے ’’ ناک پھلا‘‘ لی۔صاحِب !صرف بچوں پر ہی منحصر نہیں بلکہ شہر بھر میں دندناتے پھرتے ڈاکوئوں ، اچکوں، موبائل چھیننےوالوں نے بھی شہریوں کی ’’ ناک میں دم ‘‘ کررکھا ہے۔ ویسے تو یہ لوگ بہت خطرناک ہوتے ہیں لیکن جب کبھی عوام کے ہتھے چڑھ جائیں توپھر عوام ان سے ’’ ناک سے لکیریں‘‘ نکلواتے ہیں تب کہیں جاکر عوام کی ’’ ناک سیدھی ہوتی ‘‘ ہے۔ یہاں ہم نے پولیس کا ذکر قصداً نہیں کیا کیوں کہ محکمہ پولیس کے اہل کاروں کو آپ کتنی ہی جلدی واردات کی اطلاع دیں عام طور سے یہ ’’ ناک پر دیا جلا کر‘‘ آتے ہیں ا ور لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ ’’ کیا ناک پر دیا بال کر آئے ہیں؟‘‘
قارئین کرام! ناک کے حوالے سے ابھی بہت گفتگو باقی ہے تاہم ناک کا اتنی دفعہ ذکر کرکے اور پڑھ کے خود ہماری ’’ناک میں تیر پڑنا‘‘ شروع ہوگئے ہیں۔ ڈر اس بات کا بھی ہے کہ اگر مضمون آپ کو پسند نہ آیا تو ہماری ’’ ناک نہیں رہے گی۔‘‘اس لیے فی الوقت اتنا ہی کافی ہے۔ بہ شرطِ زندگی ان شاء اللہ اگلی دفعہ بات کریں گے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1474084 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More