اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حج ایک مشقت انگیز عبادت ہے اس
لیے اس عبادت کی انجام دہی کے واسطے جس طرح مالی استطاعت کی ضرورت ہے وہیں
پر جسمانی استطاعت بھی شرط ہے ۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا
کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر
پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں قبیلہ خشعم کی ایک عورت آئی۔ فضل رضی اللہ
عنہ اس کو دیکھنے لگے اور وہ فضل رضی اللہ عنہ کو دیکھنے لگی۔ اس لیے نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیرنے لگے، اس عورت نے کہا
کہ اللہ کا فریضہ (حج) نے میرے بوڑھے والد کو اس حالت میں پا لیا ہے کہ وہ
سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے تو کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں، آپ
نے فرمایا کہ ہاں۔ یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔(صحیح بخاری:1855)
اس حدیث کی روشنی میں واضح طور پر ہمیں رہنمائی ملتی ہے کہ جس پر حج فرض ہو
گیا ہو لیکن اسے حج کرنے کی جسمانی استطاعت نہ ہو تو ایسا آدمی حج کے لیے
نہ آئے بلکہ وہ اپنی طرف سے کسی اور کو حج کرنے کے لئے بھیجےجبکہ ہم دیکھتے
ہیں کہ بہت سارے ممالک کے لوگ بطور خاص ہندوستان، پاکستان ،بنگلہ دیش اور
نیپال وغیرہ سے حج کرنے والوں میں بڑی تعداد بوڑھوں کی ہوتی ہے یعنی جن میں
جسمانی کمزوری ،بڑھاپا، بیماری اور ضعیفی و لاغر پن ہوتا ہے ایسے لوگ بڑی
تعداد میں حج کو آتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر سال ایسے لوگوں میں
سے کتنے سارےحجاج کی دوران حج مکہ ومدینہ یا پھر سفر میں ہی وفات ہو جاتی
ہے۔امسال ہم لوگوں نے بعض ویڈیو زمیں حاجیوں کی بعض لاشیں دیکھی ہیں اس کا
ہرگزیہ مطلب نہیں ہے کہ صرف امسال ہی حجاج میں سے بعض کی وفات ہوئی ہے بلکہ
ہر سال کچھ نہ کچھ حجاج کی وفات ہوتی ہےجن کی معلومات ہر ملک والے اپنے
سفارتخانہ سے حاصل کرسکتے ہیں ۔
وفات کی مذکورہ بالا مرکزی اسباب کے علاوہ امسال گرمی کی شدت بھی ایک بڑی
وجہ رہی خصوصا ان لوگوں کے حق میں جو بغیر پرمٹ حج کررہے تھے ۔ ظاہر سی بات
ہے کہ جو بغیر پرمٹ حج کرتے ہیں وہ غیرقانونی ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ چوری
چھپے حج کرتے ہیں ۔ ان کے پاس کھانے پینے ، چلنے پھرنے اورنیندو آرام حاصل
کرنے کی کوئی سہولت نہیں ہوتی ہے وہ چھپتے چھپاتے اور جیسے تیسے حج کرتے
ہیں ۔ ایسے لوگ زیادہ پریشان ہوتے ہیں اور دوسرے حجاج کے لئے بھی پریشانی
کا سبب بنتے ہیں اور انتظامی امور میں یہ بڑا خلل ہوتا ہے اس وجہ سے بغیر
پرمٹ حج کرنے والوں کے لئے قانونی سزا متعین ہے ۔
موت تو اللہ کی طرف سے اٹل ہے، جس کے مقدر میں جب اور جس جگہ موت لکھی ہوئی
ہو وہ ا س کے حق میں وہاں آکر رہے گی ، اس بات پر ایمان رکھتے ہوئے ہمیں یہ
نہیں بھولنا چاہئے کہ اللہ رب العالمین نے ہمیں ہلاکت میں اپنے آپ کو ڈالنے
سے منع فرمایا ہے۔اور جب ہمیں معلوم ہے کہ حج مشقت انگیز عبادت ہے تو ایسی
صورت میں جو لوگ بیماری یا ضعیفی کے سبب حج کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں حج
پر نہیں آنا چاہئے اور اسی طرح سعودی عرب کا مقیم یا باہری ملک سے آنے والا
بغیر پرمٹ کے ہرگز ہرگزحج نہیں کرے ۔
جو لوگ آج الکٹرانک میڈیااور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ بعض حجاج کرام کی وفات پر
سعودی حکومت کو انتظامی حیثیت سے کوس رہے ہیں ان کی یہ تنقید بے جا ہے
کیونکہ سعودی حکومت جس طرح حجاج کی خدمت پر توجہ دیتی ہے شاید دنیا کی کوئی
حکومت ایسی توجہ کسی طرف نہ دیتی ہو۔سڑک، رہائش، بجلی، اے سی ، آمدورفت ،
پانی، دوا ، خوراک ، پولس وسکوریٹی اور انتظامی امورمیں حاجیوں کو جن جن
چیزوں کی ضرورت پڑھ سکتی ہے اور سعودی حکومت کی طرف سے ان ضرورتوں کی تکمیل
کے لیے جس حد تک سہولت اور جدید ٹکنالوجی دستیاب ہے ان تمام حیثیت سے حجاج
کی خدمت کی جاتی ہے۔ جس کی بنا پر ہم یہ یقینی حد تک کہہ سکتے ہیں کہ سعودی
حکومت حجاج کی خدمت میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ زمانہ
جاہلیت ہی سے حجاج کے تئیں اہل عرب کی خدمت کا جذبہ رہا ہے جو آج تک چلا
آرہا ہے اور انشاءاللہ قیامت تک حجاج کی بہترین خدمت کا سلسلہ چلتا رہے گا۔
اسلام نے حجاج کی خدمت کی طرف بہترین رہنمائی کی ہےاس وجہ سے حاجیوں کی
خدمت کرنا ایک بڑے شرف کا کام ہے اس لئے ہرکوئی حج میں ایک دوسرے کی مدد
بھی کرتا ہے اور کھلانے پلانے والے لوگ گاڑی بھربھرکر حاجیوں کو کھلاتے
پلاتے ہیں ۔ انتظامی کمیٹی والے پل پل ایک ایک حاجی پر اپنی جان نچھاور
کرتے ہیں ۔ سعودی حکومت خصوصی اہتمام کے ساتھ حجاج کی تمام تر نقل وحرکت پہ
نظر رکھتی ہےبلکہ حج کے دنوں میں حکومت کی پوری توجہ حج پر ہی مرکوز ہوتی
ہے اس لئے آپ نے دیکھا ہوگا کہ جہاں ملک کا حاکم، شاہ سلمان اپنے لیڈروں کو
حاجیوں کی خصوصی خدمت کی تاکید کررہے ہوتے ہیں وہیں شہزادہ محمد بن سلمان
نے اس جانب توجہ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ انہوں نے حج کی اہمیت
کے پیش نظر اٹلی میں ہونے والی جی 7 کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے ۔ یہ اپنے
آپ میں سعودی عرب سمیت تمام مسلمانوں کے لئے بڑے فخر کی بات ہے ۔
امسال تقریبا دو ملین کے قریب لوگوں نے حج کیااور اس مرتبہ گرمی کی شدت بھی
اپنے شباب پر تھی ایسے میں کچھ جانی نقصان ہونایا کچھ لوگوں کا کچھ دیر کے
لئے گم ہوجانا زیادہ حیرتناک نہیں ہے ۔پھربھی مسلمانوں کے بعض طبقات میں اس
بات پر سعودی حکومت کو کوسا جارہا ہے اور بدانتظامی کی شکایت کی جارہی ہے ۔
پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ دوران حج وفات پانا ایک بڑی سعادت ، باعث اجروثواب
اور حسن خاتمہ کی علامت ہے ، ایمان والے ایسی موت کی تمنا کرتے ہیں ۔ میدان
عرفات میں سواری سے گر کر ایک صحابی کی موت ہوگئی تو آپ ﷺ نے ان کے تعلق سے
ارشاد فرمایا: پانی اور بیری کے پتوں سے اسے غسل دو اوراحرام ہی کے دو
کپڑوں کا کفن دو لیکن خوشبو نہ لگانا نہ اس کا سر چھپانا کیوں کہ اللہ
تعالیٰ قیامت میں اسے لبیک کہتے ہوئے اٹھائے گا۔( صحيح البخاري:1849)
اگر حج کرتے ہوئے کسی کی وفات ہوجائے تو اس پہ افسوس کرنے کا مقام ہی نہیں
ہے ، یہ تو رشک کرنے والی بات ہے ۔ جیسے کوئی نماز پڑھتے ہوئے، سجدہ کرتے
ہوئے، تلاوت کرتے ہوئے اور دعا کرتے ہوئے وفات پاجائے تو ایسی موت پر رشک
کرتے ہیں ۔ بر صغیرکے بہت سارے حجاج اپنے ساتھ کفن تک لاتے ہیں پھر بھی
امسال بعض حجاج کی وفات کی وجہ سےکچھ لوگ سعودی حکومت پر تنقید کیوں کررہے
ہیں ، اس کی اصل وجہ کیا ہے؟
اس پہلو پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ تقلید کرتے ہیں ، تصوف کی
راہ چلتے ہیں اور شرک وبدعت میں ملوث ہیں ان کو اہل توحید سے دشمنی ہے ۔
ایسے لوگ ہمیشہ تاک میں لگے رہتے ہیں اور جب بھی موقع ملتا ہے اہل توحید کو
بدنام کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ سعودی عرب کے دشمن چینلوں اور باطل تحریکوں
نے جب اس حکومت کو بدنام کرنے کے لئے حج سے متعلق بدنظمی اور اموات کی
جھوٹی خبریں نشر کرنا شروع کیا ، فوراصوفی جماعت ، اخوانی وتحریکی کارندے
اور بدعتی ٹولوں کو موقع مل گیا اور یہ بھی سعودی حکومت کے انتظام وانصرام
پر سوال کھڑے کرنے لگے ۔ ان لوگوں کو حاجیوں کی مشقت اور اموات سے تکلیف
نہیں ہے بلکہ ان کو خالص توحید پر قائم سعودی حکومت سے تکلیف ہے ۔کب سے ان
لوگوں کی خواہش ہے اور ناروا کوشش بھی کررہے ہیں کہ سعودی حکومت کا خاتمہ
ہوجائے اور حرمین شریفین پر بدقماشوں اوربدعتیوں کا قبضہ ہوجائے ۔ ہمیں
اللہ کا شکر بجا لانا چاہئے کہ اللہ نے خانہ کعبہ کی چابھی، حجاج کی خدمت
اور حرمین شریفین کی حفاظت اہل توحید کے ہاتھ میں سونپی ہے جن کی کوشش سے
سعودی عرب میں توحید کا بول بالا ہے ۔ اگر یہ مملکت اہل بدعت کے ہاتھوں میں
چلی جائے تو یہ لوگ یہاں پر شرک وبدعت کے اڈے قائم کردیں گے اور اللہ کے
گھر میں ہی اللہ کو چھوڑ کر عبدالقادر جیلانی اور معین الدین چشتی وغیرہ کو
پکارنے لگیں گے ۔ الحمد للہ جن اہل توحید کے ہاتھوں میں حرمین کی سیادت
وقیادت ہے ان کے ذریعہ ہمارا ایمان وعقیدہ محفوظ ہے ۔ اور اللہ سے دعا کرتے
ہیں کہ اہل توحید اور مملکت سعودی عرب کی حفاظت فرما اور اس جانب اٹھنے
والی میلی نظر پھوڑ دے ۔ آمین
آئیے امسال کے حج سے کچھ سبق لیتے ہیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں
تاکہ آئندہ ہمارے لئے آسانی رہے ۔
٭جو لوگ معمروضعیف ہیں ، جسمانی طور پر سفر کرنے اورمناسک حج ادا کرنے کی
طاقت نہیں رکھتے ایسے لوگ قطعا حج پر نہ آئیں وہ اپنا حج دوسرے سے کروالیں
۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جن لوگوں پر حج جوانی میں ہی فرض ہوجاتا
ہے اور بڑھاپے میں حج کرتے ہیں وہ حج کی ادائیگی میں غفلت برتتے ہیں انہیں
چاہئے کہ جب حج فرض ہوجائے بلاتاخیر حج کریں ۔
٭حج ایک فریضہ ہے یہ اس کے اوپر فرض ہے جو حج کرنے کی مالی اور جسمانی طاقت
رکھتا ہے لہذا آپ اسی وقت حج کریں جب دونوں حیثیت سے استطاعت حاصل ہو۔ اور
پرمٹ حاصل کئے بغیرحج نہ کریں چاہے آپ سعودی میں رہتے ہوں یا سعودی عرب سے
باہر۔
٭حج کرنے کے لئے حج کی تعلیم بہت ضروری ہے ، بسا اوقات عدم واقفیت اور
لوگوں کی دیکھا دیکھی خود سےخود کو نقصان پہنچتا ہے ۔ حج میں الحمد للہ بہت
ساری سہولیات اور آسانیاں بھی ہیں ، بوقت ضرورت سہولت پر عمل کرنے میں
عافیت ہے مثلا مریض کے لئے یوم النحر کی رمی کےلئے آدھی رات کے بعد مزدلفہ
سے جمرات کی طرف جانا، عذر کے وقت رمی جمار کے لئے دوسرے کو وکیل بنانا،
دوپہر کے وقت رمی باعث مشقت ہو تو عصر کے بعدرمی کرنا حتی کہ مجبوری میں
مغرب یا عشاء کے بعد بھی رمی کرسکتے ہیں ۔یوم النحر کو طواف افاضہ نہ
کرسکیں تو ایام تشریق کے لئے موخر کرلینا اور طواف وداع سے پہلے بھی وقت نہ
ملے تو ایک طواف میں طواف افاضہ اور طواف وداع کی نیت کرسکتے ہیں ۔چل کر
طواف وسعی کرنے کی طاقت نہ ہو تو گاڑی کے ذریعہ طواف وسعی کرلینا۔ ان
سہولتوں کا ہمیں علم ہونا چاہئے۔
٭حج کی ادائیگی میں آپ کے لئے جن سہولت کی اجازت ہے اور جن حفاظتی اقدامات
کی طرف حکومت توجہ دلاتی ہے ان سب باتوں کو عمل میں لانا جیسےعمل کے مناسب
اوقات ، چھتری، ماسک، پانی ، دوا اور حاجت کی دیگر چیزیں وغیرہ ۔
٭ آپ سمجھتے ہیں کہ اکیلے حج پر جانے میں کسی قسم کا خدشہ ہے تو طاقتورمدد
گار کا انتظام کرلیں تاکہ وہ ہرجگہ آپ کا ساتھ دے ۔ کوئی ضروری نہیں ہے کہ
آپ کسی کو پیسہ دے کر ہی حج کروائیں ، مختلف علاقوں سے حج پہ لوگ جاتے ہیں
ان میں سےکوئی ساتھی چن لیں یا دوران حج ہی کسی جانکار کی معانت حاصل کریں
۔
ان باتوں کے علاوہ مزید کچھ باتیں ایسی ہیں جن کی بھی اصلاح کی ضرورت ہے
جیسے جب ہم حج کا پروگرام بناتے ہیں اور ہمارا حج کنفرم ہو جاتا ہے توگاؤں
محلے میں اس دن سے لے کر حج سے واپسی تک ایسی ایسی رسم و رواج اور ایسے
ایسے شہرت اور دکھاوا کے کام کرتے ہیں جو حج جیسی عبادت کے اخلاص میں رخنہ
ڈالنے والے ہیں۔خدارا عبادت کو عبادت ہی رہنے دیں اسے شہرت وریا کا ذریعہ
نہ بنائیں ۔اسی طرح دوران حج تصویروویڈیوکے لئےموبائل اور کیمرے کا اس قدر
استعمال ہوتا ہے گویا ہم عبادت کرنے نہیں ،لوگوں کو اپنا کام دکھانے آئے
ہیں ۔ ایسا حج اللہ کے یہاں مقبول نہیں ہے اس لئے حج میں سیلفی سے پرہیز
کریں ۔نیز حج کرنے والوں کے کچھ ایسے برے مناظر بھی سامنے آرہے ہیں جن سے
حج اور شعائرمقدسہ کی بے حرمتی ہورہی ہےاور حج کی غلط تصویر لوگوں میں پہنچ
رہی ہے اس لئے حج کے ذمہ داروں سے گزارش ہے کہ لوگوں کے دلوں میں حج کی
اہمیت اور شعائرمقدسہ کی عظمت وہیبت بٹھائیں ۔ آئیے ہم عزم کرتے ہیں کہ حج
کے تحفظات اپنائیں گے، اپنی غلطیوں کی اصلاح کریں اور حرمین شریفین کی
سلامتی کے لئے دعا اور دفاع کریں گے ۔
|