جانور ، پرندے اور کیڑے کیوں پیدا کئے گئے(چوتھا حصہ)

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
جانوروں ، پرندوں اور کیڑوں کے بارے میں معلومات کے حوالے سے اس مضمون کے اب تک ہم تین حصے پڑھ چکے ہیں آج کے اس چوتھے حصے میں ہم کچھ اور دلچسپ اور اہم جانوروں ، پرندوں اور کیڑوں کا ذکر کریں گے آج کی تحریر میں ہم سب سے پہلے جس جانور پرندے کا ذکر کریں گے وہ ہے " ہد ہد " جی ہاں ہدہد سب سے پہلے کچھ معلومات ہد ہد کے بارے میں آپ سبھی نے سن رکھا ہوگا یہ ایک بہت نایا ب اور خوبصورت ترین پرندہ ہے اس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہ پرندہ نہایت وفادار محبت کرنے والا اور وعدہ پورا کرنے والا ہوتا ہے اس کے سر پر موجود تاج ہدہد کے حسن کی رعنائیوں میں مزید اضافے کا باعث بنتا ہے اس وقت دنیا میں ہدہد کی سات انواع کو دریافت کیا گیا ہے کیڑے مکوڑوں چھوٹے مینڈکوں اور چھوٹے جاندار وں کو اپنی خوراک باآسانی بنا لیتا ہے اس کام میں اس کی لمبی تیز اور مضبوط چونچ بخوبی ساتھ نبھاتی ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب حضرت سلیمان علیہ السلام کے بادشاہت کا ڈنکا بجا تو تمام جانور اور پرندے جمع ہوگئے اور جب انہیں یہ علم ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ان کی بولیوں سے واقف ہیں تو سارے آپ علیہ السلام کے دربار میں حاضر ہوکر گفتگو کرنے لگے اور جب باری ہدہد کی آئی تو اس نے عرض کیا کہ میں اپنی ایک خاصیت آپ علیہ السلام تک پہنچانا چاہتا ہوں تو فرمایا بولو تو ہدہد نے کہا کہ جب میں اونچائی پر ہوتا ہوں تو زمین میں موجود پانی کو دیکھ لیتا ہوں کہ وہ زمین کی کتنی گہرائی میں ہے اس کا رنگ کیا ہے کیا وہ زمین سے نکل رہا ہے یا کہیں اور سے یہ سب مجھے معلوم ہوتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ اچھا بے آب و گیاہ اور خطرناک ریگستانوں میں تو ہمارے ساتھ رہا کر۔ تو ہماری ہمراہی بھی کر اور پیش روی بھی تاکہ ہمارے لیے پانی کا کھوج لگا تا رہے ۔ہدہد حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ بلقیس کے اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید کی سورہ النمل میں بڑی تفصیل کے ساتھ موجود ہے ضرور پڑھئے گا المختصر یہ کہ ہدہد کی وجہ سے ایک پوری قوم مسلمان ہوگئی یہ شرف ہدہد پرندے کو حاصل ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب ہم ذکر کریں گے " چیونٹی " کا جی ہاں چیونٹی سے بھی ہماری زندگی کا بڑا گہرا تعلق ہے چیونٹی ایک عام معاشرتی مکوڑا ہے، جو تقریباً دنیا کے ہر حصے میں پائی جاتی ہے۔ یہ حشرات الارض کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے، بھڑیں اور مکھیاں بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں۔ چیونٹیاں تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ یا ایک کروڑ تیس لاکھ سال قبل بھڑ نما اجداد سے تعلق رکھتی ہیں اور آج ان کی 12،000 (بارہ ہزار) سے زائد اقسام موجود ہیں۔ ان کو ان کے سر پر لگے دو اینٹیناز اور مخصوص جسمانی ساخت کی بدولت بآسانی پہچاناجا سکتا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں چیونٹیوں سے متعلق سورۃ نمل کی آیت نمبر 17 اور 18میں ذکر آیا ہے کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام اپنی فوج جس میں انسان جن اور جانور تھے کو لیکر جب وادی نمل سے گزررہے تھے جو چیونٹیوں کی وادی تھی اور نمل کے معنی چیونٹی کے ہیں تو ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹی سے کہا کہ اپنے اپنے گھروں میں چلی جائو ورنہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کے پائوں تلے کچلی جائو گی لیکن جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس چیونٹی کی بات سنی تو آپ علیہ السلام مسکرائے اور اپنے لشکر کا رخ وہاں سے موڑ کر دوسری جانب کردیا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ بارش سے پہلے چیونٹیاں اپنے گھر کے باہرگول چکر لگانا شروع کر دیتی ہیں اور مٹی کے پہاڑ بنا لیتی ہیں،تاکہ بارش کا پانی ان کے گھر میں نہ آسکے۔انہیں وقت سے پہلے بارش کا اس لئے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان میں قدرتی طور پر سنسر موجود ہوتا ہےجسےہائیڈروفولک کہتے ہیں۔جب ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہوجاتا ہےتو چیونٹیوں میں موجود یہ سنسر اسے محسوس کرتا ہےاور چیونٹیوں کے دماغ کو بارش کے متعلق پیغام پہنچاتا ہے۔اس لئے چیونٹیاں بارش سے پہلے ہی اپنے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام لر لیتی ہیں۔جبکہ محکمہ موسمیات بھی اس سلسلے میں چیونٹیوں سے رہنمائی لیتے نظر آتے ہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ نے چیونٹیوں کی لمبی قطاریں دیکھی ہوں گی جوخدا کی اس مخلوق میں پائی جانیوالی منظم معاشرت کو ثابت کرتی ہے اور کہیں نہ کہیں انسان نے یہ قطاربندی کاسلیقہ اسی مخلوق سے حاصل کیاہے مگر ایک اہم سبق یہ لینابھول گیاکہ یہ نظم بندی صرف قطارکی حدتک نہیں بلکہ تمام عمرمطلوب ہے۔
چیونٹیوں میں منظم زندگی اس لیے بھی ہوتی ہے کہ ان میں اتحاد کا عنصر پایا جاتاہے،کسی بڑی چیز کواٹھاناہو،کسی مشکل سے لڑناہو یاکوئی اہم کام انجام دیناہو تو چیونٹیاں آپس میں متحد ہو کر اپنا مطلوب حاصل کرتی ہیں جس میں ہم انسانوں کیلئے اتحادکی اہمیت اور افادیت کاپیغام بھی ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں محنت اورخوداعتمادی:دیگرکیڑے مکوڑوں کی بہ نسبت چیونٹیوں میں محنت کاعنصرغالب ہوتاہے،یہ محنت سے کام لیتی ہیں اور جلد ہار نہیں مانتیں،ایک جگہ سے دوسری جگہ کسی چیزکے نقل وحمل میں کبھی کبھی تنہاایک چیونٹی گھنٹوں مصروف رہتی ہے یہ اس مخلوق میں محنت کشی اور فعالیت کیساتھ خوداعتمادی کی موجودگی کی دلیل ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب ہم ذکر کریں گھروں میں اکثر گھونسلہ بناکر رہنے والے پرندے کا جس کو ہم " چڑیا " کہتے ہیں چڑیا، ایشیا، یورپ اور افریقہ میں پایا جانے والا پرندہ ہےچڑیا، دنیا کے سارے براعظموں میں پائے جاتے ہیں۔ ہاں ان کی اقسام مختلف ہیں۔ برصغیر میں چڑیا ایک عام پرندہ ہے، جسے گھریلو چڑیا بھی کہتے ہیں، جس سے ہرکس و ناکس واقف ہے۔
آئیے چڑیا کے متعلق ایک پڑھنے کا شرف حاصل کرتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ”ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک بار اپنے صحابہ کے ساتھ سفر فرما رہے تھے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی غیر موجودگی میں کچھ صحابہ کو ایک درخت پر چڑیا کے دو بچے بیٹھے دکھائی دئیے، صحابہ نے انہیں اٹھا لیا۔ وہ چڑیا نبیِّ کریم کے سامنے آ کر پر پھیلا کر زمین پہ گرنے لگی۔“ ہمارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو ساری مخلوقات کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے ہیں تو آپ نے یہ دیکھ کر فوراً صحابہ سے پوچھا : کس نے اس چڑیا کو اس کے بچے چھین کر غمگین کیا ہے ؟ صحابہ کے بتانے پر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں حکم دیا کہ بچے واپس وہیں رکھ دو تو صحابہ چڑیا کے بچے واپس وہیں رکھ آئے۔“
( دلائل النبوۃ للبیہقی، 6 / 32- ابو داؤد، 3 / 75، حدیث : 2675 )۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ بات تو ہر اہل ایمان مسلمان جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ ساتھ اپنی ہر مخلوق سے انتہائی محبت کرتا ہے اب وہ چاہے اس کی مخلوق میں جانور ہوں پرندے ہوں کیڑے ہوں یا کوئی اور مخلوق اس کی مثال اس واقعہ سے سمجھئے اب دیکھئے ایک دفعہ ایک چڑیا نے تنکا تنکا جمع کرکے ایک درخت پر اپنا گھونسلہ بنایا اور جب وہ گھونسلہ بن گیا تو چڑیا آرام کی غرض سے گھونسلے میں جاکر لیٹ گئی ایک دم ایک طوفان آیا اور ہوا کے ایک جھونکے سے وہ گھونسلہ ختم ہوگیا اور وہ پریشان ہوکر اٹھی اور وہاں سے اڑ گئی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نے پھر اللہ تعالیٰ سے شکایت کی کہ اے اللہ میں نے بڑی مشکل سے اپنا گھر بنایا تھا اور تو نے طوفان بھیج کر میرا گھونسلہ ختم کردیا کیوں ؟ تو میرے خالق کائنات نے فرمایا کہ تیری آنکھ لگ گئی تھی اور وہاں اچانک ایک خطرناک سانپ تجھے کھانے کے لئے پہنچ گیا تھا اس لئے میں نے طوفان بھیجا تاکہ تم جاگ جائو اور وہاں سے نقل مکانی کرلو ۔چڑیا میں ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ فجر کی نماز کے بعد چہچہانا شروع کرتی ہیں اور سورج نکلنے سے پہلے تک بولتی رہتی ہیں۔ غروب آفتاب سے پہلے بھی خوب چہچہاتی ہیں اور جونہی آفتاب غروب ہو جاتا ہے، خاموش ہو جاتی ہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب ہم ذکر لیتے ہیں گھریلو اور پالتو پرندے کا جس کا نام ہے
" طوطا " طوطا ایک پرندے کا نام ہے۔ اِس کی اب تک تقریباً 398 اقسام دریافت ہو چکی ہیں ۔ یہ بے شمار رنگوں اور مختلف جسامت میں پائے جاتے ہیں۔ یہ درختوں میں بل بنا کر اُس میں رہتے ہیں۔ یہ جوڑے میں رہنے والا پرندہ ہے ، جو انڈے دیتا ہے۔ یہ زیادہ تر گھنے درختوں والے علاقوں یا جنگلوں میں پایا جاتا ہے۔ اِس کی خوراک درختوں کے پھل اور بیج ہوتے ہیں۔ مختلف اقسام کے طوطے انسانوں کی زبان میں بولے جانے والے مختلف جملے یاد کر کے انھیں بول سکتے ہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں طوطا ایک حلال پرندہ ہونے کے ساتھ ساتھ بولنے کی صلاحیت بھی رکھتا مطلب اگر آپ اس کو کچھ سکھائیں گے تو یہ فورا سیکھ جاتا ہے اور جب اللہ تعالٰی نے حضرت نوح علیہ السلام کو اپنے لوگوں کے ساتھ کشتی پر سوار ہونے کا حکم دیا تو سب سے پہلے آپ علیہ السلام کی کشتی میں سوار ہونے والا بھی ایک طوطا ہی تھا طوطا دنیا کا واحد پرندہ ہے جو اپنے پائوں سے پکڑ کر کھاتا ہے طوطے کا شمار ان جانوروں میں ہوتا ہے جس کے بارے میں بچوں کے لئے کئی قسم کی کہانیاں بھی بنائی گئیں جسے سن کر بچے بہت خوش ہوتے تھے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں شیخ سعدی علیہ الرحمہ کی طوطے کی ذہانت پر ایک حکایت پڑھئیے جس میں ہم انسانوں کے لئے بھی بہت اہم سبق ہے ایک تاجر تھا اس کے پاس ایک طوطا تھا جو انسانوں کی طرح باتیں کرتا تھا۔ تاجر کا دل اس کی باتوں سے خوش ہوتا تھا وہ طوطا اس کو بہت پیارا تھا۔ ایک روز وہ کاروبار کے سلسلے میں کہیں باہر جانے لگا تو اس نے طوطے سے پوچھا کہ میں کاروبار کے سلسلے میں ملک سے باہر جارہا ہوں واپسی میں تمہارے لئے کیا تحفہ لاؤں۔ طوطے نے کہا کہ اگر تمہارا گزر کسی جنگل میں سے ہو اور تمہیں وہاں طوطوں کا کوئی غول نظر آئے تو انہیں میرا سلام کہہ دینا اور کہنا کہ تمہارا ایک ساتھی جو قفس میں بند زندگی کے دن گزار رہا ہے تمہیں سلام کہتا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سوداگر سفر پر چلا گیا۔ اس کا گزر ایک باغ سے ہوا تو اس میں بہت سارے طوطے ٹیں ٹیں کرتے موجود تھے ، طوطوں کا غول دیکھ کر اسے یاد آیا کہ طوطے کا پیغام پہنچانا ہے۔ سوداگر نے طوطوں کو مخاطب کرکے پنجرے میں قید طوطے کا پیغام دیا ، پیغام کا سننا تھا کہ ایک طوطا پٹ سے زمین پر گرا اور مر گیا۔ تاجر کو اس بات کا بہت افسوس ہوا۔ واپسی پر اس نے سارا ماجرا طوطے کے گوش گزار کردیا۔ اتنا سننا تھا کہ وہ طوطا بھی پنجرے میں گرا اور مر گیا۔ تاجر کو اس کا بہت ہی افسوس ہوا۔ اس نے پنجرے سے مردہ طوطا نکالا اور باہر پھینک دیا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آناً فاناً مردہ طوطے نے حرکت کی اور اڑ کر ایک اونچی شاخ پر جا بیٹھا۔ تاجر نے جب یہ دیکھا تو حیران ہوا اور طوطے سے پوچھا کہ بھئی یہ تم نے کیا حرکت کی ہے ؟ طوطے نے جواب دیا کہ وہ طوطا جو پیغام سن کر گرا اور مر گیا اس نے مجھے پیغام بھیجا ہے کہ مر کر ہی آزادی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایک حدیث میں بھی ہے کہ” مرنے سے پہلے مر جاؤ۔حضورعلیہ الصلوة والسلام کی حدیث مبارکہ مر جاؤ مرنے سے پہلے کا بھی یہی مفہوم ہے کہ جب تک تمہیں اپنے نفس کا عرفان نصیب نہیں ہوگا، جب تک تم اپنی انا اپنی ذات کی نفی نہیں کرو گے زمان و مکان سے آزاد نہیں ہوسکتے۔ بندہ جب اپنے شعوری علم کی نفی کر دیتا ہے تو اس پر لاشعوری دنیا کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ جب تک تم اپنی انا میں ابلیسیت کو مار نہیں دو گے تمہیں قید و بند کی زندگی سے آزادی نہیں ملے گی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب ہم ذکر کرنے جارہے ہیں گھریلو اور پالتو جانور کا جسے ہم " مرغا یا مرغی" کہتے ہیں مرغا یا مرغ ایک نر پرندہ ہے جس کی مادہ کو مرغی کہا جاتا ہے۔ اس کی پہچان اس کے سر پر موجود تاج نما سرخ کلغی ہوتی ہے، جو مادہ کی نسبت تھوڑی بڑی ہوتی ہے۔ یہ عموماً اونچی جگہوں پر بیٹھنا پسند کرتا ہے تاکہ اپنی مادہ کی حفاظت کرسکے۔ اگر دوسرے مرغے اس کی حدود میں آنے کی کوشش کریں تو یہ اُن پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ یہ عام انسانی آبادی میں پایا جانے والا پرندہ ہے جو طلوعِ آفتاب کے وقت بانگ دینے کی وجہ سے بہت شہرت رکھتا ہے۔ اس کی افزائش بھی انسانوں کے لیے منافع بخش کاروبار ہے۔ اس کی افزائشِ نسل کے لیے باقاعدہ مرغی خانے بنائے جاتے ہیں۔ اس کے بچوں کو چوزہ کہا جاتا ہے۔ یہ انسانی غذائی ضروریات کو پورا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم مرغ کی آواز سنو تو اللہ سے اس کا فضل طلب کرو کیونکہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے۔ اور جب گدھے کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ کے ذریعے سے شیطان کی پناہ مانگو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے۔‘‘
( البخاری 3303)
ایک اور حدیث میں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ " سفید مرغ رکھا کرو اس لئے کہ جس گھر میں سفید مرغ ہوگا تو نہ شیطان اس گھر کے قریب ہوگا اور نہ جادوگر اس گھروں کے قریب ہوگا جو ارد گرد موجود ہیں
( المعجم الاوسط ج1 ص201 حدیث 677).
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں گائوں ہو یا شہر یا ہرے بھرے دیہات مرغا ہمیں ہر جگہ گھروں میں کھیلتا کودتا نظر آتا ہے اور لوگ بڑے شوق سے اسے پالتے ہیں مرغا بھی ان جانوروں میں شمار ہوتا ہے جن کے بارے میں بچوں کی بیشمار کہانیاں ہمیں ملتی ہیں اور اسکول میں جب کوئی بچہ شرارت کرتا تو اسے مرغا بھی بنایا جاتا تھا ویسے انسان کی زندگی اور حالات پر بھی مرغ پر کافی باتیں اور مختصر کہانیاں مشہور ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب ہم ایک انسان دوست ،انسان کے پرانے اور وفادار ساتھی جانور کا ذکر کریں گے جی ہاں " کتا" جس طرح ہمارے یہاں گائوں اور دیہاتوں میں گائے بکری بھینس اور مرغیوں کو گھومتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں وہیں شہر میں ماڈرن اور پڑھے لکھے لوگوں میں کتے کو گھر کے باہر بندھا ہوا دیکھا جاسکتا ہے کیونکہ لوگ اپنے گھروں کی حفاظت کے لئے اسے پالتے ہیں جبکہ اسلام میں اس جانور کو گھر میں رکھنے کی ممانعت کی گئی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کتا بھیڑیئے کی نسل سے تعلق رکھنے والا پالتو جانور ہے۔ پالتو کتا انسان کا سب سے قدیم ساتھی ہے۔ کتا اس کی نسل کے نر کو کہتے ہیں جبکہ مادہ کو کتیا کہا جاتا ہے۔ کتا پالتو بننے کے فوراً بعد ہی دنیا بھر کی ثقافتوں کا اہم جز بن گیا ہے۔ ابتدائی تہذیبوں میں اسے انتہائی اہم مقام حاصل تھا۔ بیرنگ سٹریٹ کے راستے نقل مکانی کتوں کے بغیر ممکن نہیں مانی جاتی۔ اس کے علاوہ کتے انسانوں کے لیے بے شمار خدمات سر انجام دیتے ہیں جن میں شکار، گلہ بانی، حفاظت، پولیس اور فوج کی معاونت، بطور ساتھی اور حال ہی میں معذور افراد کے لیے خصوصی معاون وغیرہ شامل ہیں۔ انہی فوائد کی بدولت اسے انسان کا سب سے بہترین دوست گردانا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں چالیس کروڑ سے زیادہ کتے موجود ہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس جانور کی وفاداری پر کئی کہانیاں لکھی گئی کئی ڈرامے کئی فلمیں بنائی گئیں اور کئی دلچسپی پر مبنی واقعات بھی ہمیں ملتے ہیں حدیث میں آیا ہے کہ جس گھر میں کتا ہوگا وہاں فرشتوں کا آنا بند ہوجاتا ہے صرف دو وجوہات پر حدیث کی رو سے کتا پالنا جائز ہے ایک تو یہ کہ اگر گھر میں واقعی کوئی ایسی چیز ہو جس کی حفاظت انتہائی ضروری ہو اور جان کاخطرہ ہو تو کتا پالنا جائز ہے اور دوسرا یہ کہ کھیت کی حفاظت کا معاملہ ہو یا وہ شکار جو غذا کی تلاش یا کسی منافع بخش کاروبار کی وجہ سے ہو کتے کو رکھنا جائز ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کتا خود ناپاک جانور نہیں ہے بلکہ اس کے منہ سے نکلنے والی جھاگ ناپاک ہے اس سے بچنا ضروری ہے قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ الکہف میں اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ جو ایک بادشاہ کے خوف سے غار میں چھپ گئے اور وہاں وہ تین سو نو برس تک سوتے رہے ان میں ایک ان کا کتا بھی تھا جس کا نام " قطمیر" تھا علماء نے ولیوں کی صحبت کے سبب اس کتے کو انسان کے زمرے میں شامل کیا ہے حدیث میں جن پانچ جانوروں کو جنتی جانور کا درجہ دیا گیا ہے ان میں ایک یہ قطمیر بھی ہے ۔اصحاب کہف کا واقعہ سورہ الکہف میں موجود ہے ضرور پڑھنے کی سعادت حاصل کریں اور سبق بھی حاصل کریں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے اس مضمون کے یہاں چار حصے مکمل ہوچکے ہیں آج ہم نے ہدہد ،چیونٹی ، چڑیا ، طوطا ، مرغ اور کتے کے بارے میں معلومات سمیٹنے کی کوشش کی ہے اللہ نے چاہا تو اب ہم اس کا پانچواں اور آخری حصہ لیکر حاضر ہوں گے تب تک اپنا خیال رکھئے اور مجھے دعاؤں میں یاد رکھئے ۔


 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 165 Articles with 133477 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.