حضرت ربیع بن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں حج
کے لیے جا رہا تھا، میرے ساتھ میرے ساتھی بھی تھے... جب ھم کوفہ پہنچے، تو
وہاں ضروریاتِ سفر خریدنے کے لیے بازاروں میں گھوم رہا تھا1
کہ دیکھا... ایک ویران سی جگہ میں ایک خچر مرا ہوا تھا اور ایک عورت جس کے
کپڑے بہت پرانے بوسیدہ سے تھے، چاقو لیے ہوئے اُس کے گوشت کے ٹکڑے کاٹ کاٹ
کر ایک زنبیل میں رکھ رہی تھی...
مجھے یہ خیال ہوا کہ یہ مردار گوشت لے جا رہی ہے، اس پر سکوت ہر گز نہیں
کرنا چاہیے، شاید یہ عورت لوگوں کو یہ ہی پکا کر کھلاتی ہو... سو میں چپکے
سے اس کے پیچھے ہو لیا، اس طرح کہ وہ مجھے نہ دیکھے... وہ عورت ایک بڑے
مکان میں پہنچی جس کا دروازہ بھی اونچا تھا...
اس نے جا کر دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے آواز آئی کون ہے...؟
اس نے کہا کھولو میں بد حال ہوں، دروازہ کھولا گیا اور گھر میں چار لڑکیاں
نظر آئیں، جن کے چہرے سے بد حالی اور مصیبت کے آثار ظاہر ہو رہے تھے، وہ
عورت اندر آ گئی اور زنبیل اُن لڑکیوں کے سامنے رکھ دی
میں کواڑوں کی درزوں سے جھانک رہا تھا میں نے دیکھا اندر سے گھر بلکہ برباد
اور خالی تھا
اُس عورت نے روتے ہوئے لڑکیوں سے کہا :
” اِس کو پکا لو اور اللہ کا شکر ادا کرو “
وہ لڑکیاں گوشت کاٹ کاٹ کر اُس کو آگ پر بھوننے لگیں... مجھے بہت تکلیف
ہوئی...
میں نے باہر سے آواز دی...
اے اللہ کی بندی! اللہ کے واسطے اِس کو نہ کھا...
وہ کہنے لگی تُو کون ہے...؟
میں نے کہا : میں ایک پردیسی آدمی ہوں...!
اُس نے جواب دیا :
” تُو ھم سے کیا چاہتا ہے... ؟ 3 سال سے نہ ھمارا کوئی معین اور نہ کوئی
مدد گار ہے، تو کیا چاہتا ہے... ؟“
میں نے کہا : مجوسیوں کے ایک فرقہ کے سِوا مردار کا کھانا کسی مزہب میں
جائز نہیں...!
وہ کہنے لگی : ” ھم خاندانِ نبوت کے شریف (سید) ہیں... اِن لڑکیوں کا باپ
بڑا شریف آدمی تھا، وہ اپنے ہی جیسوں سے اِن کا نکاح کرنا چاہتا تھا...
لیکن نوبت نہ آئی،
اُس کا انتقال ہو گیا، جو ترکہ اس نے چھوڑا تھا، وہ سب ختم ہو گیا... ھمیں
معلوم ہے کہ مردار کھانا جائز نہیں، لیکن اضطرار میں جائز ہوتا ہے... ھمارا
چار دن کا فاقہ ہے... “
ربیع کہتے ہیں... اس کے حالات سُن کر میں بے چین ہو گیا اور اپنے ساتھیوں
سے آکر کہا :
” میرا تو حج کا ارادہ نہیں رہا “ سب نے سمجھایا، لیکن میں نے کسی کی نہیں
سنی... میں نے اپنے کپڑے اور احرام کی چادریں اور جو سامان میرے ساتھ تھا،
وہ سب لیا اور نقد چھ سو درہم تھے وہ لیے اور ان میں سے سو درہم کا آٹا
خریدا اور باقی درہم آٹے میں چُھپا کر اُس بڑھیا کے گھر پہنچا اور یہ سب
سامان اور آٹا وغیرا اس کو دے دیا...
” اس نے شکریہ ادا کیا اور کہنے لگی ...
اے ابنِ سلیمان! اللہ تیرے اگلے پچھلے گناہ معاف کرے اور تجھے حج کا ثواب
عطا کرے اور اپنی جنت میں تجھے جگہ عطا فرمائے اور ایسا بدل عطا فرمائے جو
تجھے بھی ظاھر ہو جائے... “
ربیع کہتے ہیں... حج کا قافلہ روانہ ہو گیا، میں اُن کے استقبال کے لیے
کوفہ ہی رُکا رہا تاکہ اُن سے اپنے لیے دعا بھی کرواؤں... جب حجاج کا ایک
قافلہ میری آنکھوں کے سامنے سے گزرا تو مجھے اپنے حج سے محروم رہ جانے پر
بہت افسوس ہوا اور رنج سے میرے آنسو نکل آئے...
جب میں اُن سے ملا تو میں نے کہا...
” اللہ تعالٰی تمہارا حج قبول کرے اور تمہارے اخراجات کا تمہیں بدلہ عطا
فرمائے... “
اُن میں سے ایک نے کہا کہ یہ کیسی دُعا ہے...؟
میں نے کہا : اُس شخص کی دعا جو دروازہتک کی حاضری سے محروم ہو... وہ کہنے
لگے بڑے تعجب کی بات ہے، اب تُو اِس سے بھی انکار کرتا ہے کہ تُو ہمارے
ساتھ عرفات کے میدان میں نہ تھا...؟
تُو نے ھمارے ساتھ رمی جمرات نہیں کی...؟
تُو نے ہمارے ساتھ طواف نہیں کیے...؟
میں اپنے دل میں سوچنے لگا : یہ اللہ کا لُطف ہے... اتنے میں میرے شہر کے
حاجیوں کا قافلہ آ گیا...
میں نے کہا : اللہ تعالٰی تمہاری سعی مشکور فرمائے، تمہارا حج قبول
فرمائے...
وہ بھی کہنے لگے : تُو ہمارے ساتھ عرفات میں نہیں تھا...؟ رمی جمرات نہیں
کی تُو نے ہمارے ساتھ...؟ اب تو انکار کر رہا ہے...
اُن میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور کہنے لگا :
بھائی انکار کیوں کرتے ہو...؟
تم ہمارے ساتھ مکہ میں نہیں تھے یا مدینہ میں نہیں تھے...؟
جب ھم قبر اطہر کی زیارت کر کے بابِ جبرئیل سے باہر کو آ رہے تھے، اُس وقت
اژدھام کی کثرت کی وجہ سے تم نے یہ تھیلی میرے پاس امانت رکھوائی تھی...”
جس کی مہر پر لکھا ہوا ہے... مَن عَاملَنَا رَبَحَ (جو ہم سے معاملہ کرتا
ہے، نفع کماتا ہے )“
اس نے کہا یہ لو اپنی تھیلی واپس...
ربیع رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، میں نے اُسی وقت اللہ کے حضور سجدہ شکر ادا
کیا کہ اس نے مجھ سے ایک ایسی نیکی کروائی۔…..
|