جانور ، پرندے اور کیڑے کیوں پیدا کئے گئے(پانچواں اور آخری حصہ)

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
جانوروں پرندوں اور کیڑوں کی معلومات اور اسلامی نقطئہ نظر سے ان کے کردار پر ہمارے اس مضمون کو ہم چار حصوں میں مختصر طور پر بیان کر چکے ہیں اور آج ہم اس کا پانچواں اور آخری حصہ لیکر حاضر خدمت ہیں ہم نے اب تک جن جن جانوروں پرندوں یا کیڑوں کا ذکر کیا ہے وہ انتہائی مختصر طور پر لیکن جامع انداز میں ان کے بارے میں ان کے متعلق کچھ نہ کچھ معلومات آپ تک فراہم کرنے کی کوشش کی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج کی تحریر کا آغاز ہم ایک پالتو جانور سے کریں گے جو ہمارے یہاں ہر وقت ہر جگہ چاہے کوئی گلی ہو یا چوراہا شہر ہو یا دیہات ہمیں دکھائی دیتی ہے اور خاص طور بڑی عید یعنی بقر عید کے موقع پر جی ہاں میرا مطلب ہے " گائے " ہم گائے کا ذکر کریں گے
گائے ایک ممالیہ جانور کا نام ہے اس کا مذکر بیل ہوتا ہے۔ گائے کی بہت سی اقسام ہوتی ہیں اِس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں یہ ایک پالتو جانور ہے اور سبزہ گھاس چارہ کھاتی ہے گائے زیادہ تر ہر بھرے سبزہ زاروں میں پائی جاتی ہے اِس کا دودھ باقی تمام دودھ دینے والے جانوروں سے خوش ذائقہ اور غذائیت سے بھرپور تصور کیا جاتا ہے۔ گائے کو مختلف مذہبوں میں پاکیزہ اور متبرک مانا جاتا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورہ البقرہ کی آیت 67 سے 70 تک میں فرمایا ۔
ترجمعہ کنز العرفان:
اوریاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا: بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو تو انہوں نے کہا کہ کیا آپ ہمارے ساتھ مذاق کرتے ہیں ؟ موسیٰ نے فرمایا، ’’میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں بتادے کہ وہ گائے کیسی ہے؟ فرمایا: اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایک ایسی گائے ہے جو نہ توبوڑھی ہے اور نہ بالکل کم عمربلکہ ان دونوں کے درمیان درمیان ہو۔ تو وہ کرو جس کا تمہیں حکم دیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا: آپ اپنے رب سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں بتادے، اس گائے کا رنگ کیا ہے؟ فرمایاکہ اللہ فرماتا ہے کہ وہ پیلے رنگ کی گائے ہے جس کا رنگ بہت گہرا ہے۔ وہ گائے دیکھنے والوں کو خوشی دیتی ہے۔ انہوں نے کہا: آپ اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمارے لئے واضح طور پر بیان کردے کہ وہ گائے کیسی ہے؟ کیونکہ بیشک گائے ہم پر مشتبہ ہوگئی ہے اور اگراللہ چاہے گا تو یقینا ہم راہ پالیں گے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قربانی کے جانوروں میں سب سے زیادہ اہمیت گائے کو ہی دی جاتی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے گائے کے گوشت کو کھانوں کا سردار قرار دیا ہے اور یہ بھی حدیثوں میں ملتا ہے سرکار علیہ وآلیہ وسلم کو گائے کا گوشت بہت پسند تھا سورہ البقرہ کی ان آیتوں میں اس واقعہ کی پوری تفصیل موجود ہے ضرور پڑھئے گا بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں صحیح مسلم شریف اور بخاری شریف دونوں میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ انہوں نے ایک نیل گائے کو دیکھا اور اسکا شکار کیا تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس اس میں سے کچھ ہے تو انہوں نے اسکے پاۓ آپکی خدمت میں پیش کئے جو آپ نے تناول فرمائے۔گوشت جنتیوں کا اعلی کھانا ہے امام شافعی فرماتے ہیں : گوشت کھانا عقل کو بڑھاتا ہے۔ابو الشیخ بن حیان فرماتے ہیں میں نے علماءکرام سے سنا وہ فرماتے ہیں : کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پسندیدہ ترین کھاناگوشت تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب ہم قربانی کے ہی ایک اور جانور کا ذکر یہاں کرنے جارہے ہیں جی ہاں وہ ہے " دنبہ" جسے قربانی کے جانوروں میں قربانی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے دنبہ ایک چربیلا بھیڑ کی نسل کا نر جانور ھوتا ھے جس کی پشت پر ایک موٹی چکی ھوتی ھے اور عموماً سینگوں کے بغیر ھوتا ھے جبکہ مینڈھا بھی بھیڑ کی نسل سے یا نر بھیڑ ھوتا ھے اور اس کے خمدار سینگ بھی ھوتے ھیں اور کچھ بغیر سینگوں کے بھی ھوتے ھیں اور پشت پر چکی کی بجائے چھوٹی سی دُم ھوتی ھے.
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک حدیث کے مطابق حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قربانی میں ایک سفید دنبہ دو سیاہ دنبوں سے افضل ہے ۔
( احیاء العلوم مترجم ج1 ص778)
جب حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم ہوا اور آپ علیہ السلام کو آپ کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ میں اور آپ علیہ السلام دونوں آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں تاکہ ہمارے جذبات قابو میں رہیں اور پھر جب حضرت ابراھیم علیہ السلام نے چھری کو اوپر کی طرف اچھالا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ اللہ تعالیٰ نے ایک دنبہ بھیج دیا اور وہ چھری اس کی گردن پر چل گئی اور یوں اللہ تعالیٰ کے اس امتحان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی مقبول و منظور ہوگئی اور رہتی قیامت تک لوگ اس سنت پر عمل کرتے رہیں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے جن پانچ جانوروں کو جنتی قرار دیا ہے ان میں ایک یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا دنبہ بھی شامل ہے ایک حدیث کے مطابق
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھوں کی قربانی کی جو سفید اور سیاہ ،سینگ دار تھے۔ میں نے آپ کو اپنے دست مبارک سے ذبح کرتے ہوئے دیکھا اور یہ کہ (ذبح کے وقت) آپ اپنا پاؤں ان کی گردن پر رکھتے ہوئے اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے( ذبح کے وقت)بسم اللہ واللہ اکبر کہا۔
(۔ صحیح مسلم 1256).
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جو لوگ گوشت کھانے شوقین ہیں اور خاص طور پر دنبہ کا گوشت تو ان سے پوچھئے کہ دنبہ کا گوشت کتنا خوش ذائقہ اور لذیذ ہوتا ہے کیونکہ یہ میرے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پسندیدہ کھانوں میں سے ایک ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب ہم جس جانور کا ذکر کریں گے اسے بھی لوگ بڑے شوق سے پالتے ہیں اور یہ بھی انسانوں سے بہت جلدی مانوس ہوجاتا ہے جی ہاں " خرگوش " تو آئیے پہلے اس کے بار میں کچھ معلومات سمیٹتے ہیں خرگوش(Rabbit) فارسی زبان کا لفظ ہے اور یہ دو الفاظ کا مجموعہ ہے " خر " اور " گوش "، خر گدھے کو کہا جاتا ہے اور گوش کان کو ، اس کا مجموعی معنی یہ ہوا ' گدھے کے کان والا' ۔اس کے کان لمبے ہوتے ہیں اس لیے اس کو گدھے کے کان والا کہا جاتا ہے۔ یہ چھوٹے پستانیہ (ممالیہ) جانوروں میں سے ایک ہے۔ اس کی کئی اقسام ہیں جو دنیا کے مختلف حصوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا جانور ہے جو بلی کے مشابہ ہوتا ہے، جس کے دونوں ہاتھ چھوٹے اور پیر لمبے ہوتے ہیں۔ اور یہ پچھلی ٹانگوں کی مدد سے ہی چلتا پھرتا ہے۔ اس کا گوشت ہلکا نمکین اور لذیذ ہوتا ہے۔ یہ حلال جانور ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو بھی خرگوش کا گوشت بہت پسند تھا اس سلسلے میں ایک حدیث کے مطابق خرگوش حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ہم نےمَرّالظَہران پر ایک خرگوش کو دیکھا وہ بھاگ رہا تھا ہم اس کے پیچھے ہولئے اور میں اسے پکڑ کر ابو طلحہ کے پاس آیا انہوں نے اسے ذبح کیا اور اس کی سرین اور دونوں رانیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجیں جو آپ نےقبول کر لیں۔
(مراٰۃ ج ۵ ص ۱۰۰۲)
خرگوش کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ آنکھیں کھول کر سوتا ہے اور رات کے اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے یہ زمین میں بل بنا کررہتا ہے اور زیر زمین پوری سوسائٹی بنا کر رہتے ہیں ایک بل میں دو نر نہیں رہ سکتے نر ایک دوسرے کو اتنا مارتے ہیں کہ ختم ہی کر دیتے ہیں۔ ان میں آپس میں بات کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، ویسے یہ خاموش طبیعت جانور ہے خرگوش کے بارے میں اور بھی کئی احادیث ہمیں ملتی ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب ہم انتہائی اہم اور بہت جانے پہچانے جانور کا ذکر کریں گے جی ہاں اس کو ہم " شہد کی مکھی" کہتے ہیں قرآن مجید فرقان حمید میں ایک پوری سورہ مبارکہ جسے سورہ النحل کہا جاتا ہے وہ موجود ہے کہ مکھی کو عربی میں نحل کہا جاتا ہے اللہ تعالیٰ سورہ النحل کی آیت 68 اور 69 میں ارشاد فرماتا ہے کہ ۔ترجمعہ کنزالایمان :
(68 ) اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتوں میں ،
(69) پھر ہر قسم کے پھل میں سے کھا اور اپنے رب کی راہیں چل کر تیرے لیے نرم و آسان ہیں ، اس کے پیٹ سے ایک پینے کی چیز رنگ برنگ نکلتی ہے ، جس میں لوگوں کی تندرستی ہے ، بیشک اس میں نشانی ہے دھیان کرنے والوں کو۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مختلف پھلوں اور پھولوں کا رس چوسنے کے بعد اپنے منہ میں اسے جمع کرنا اور پھر اسے اپنے گھونسلے تک لیکر آنا اور اس میں شہد جیسی قیمتی اور صحت بخش شہ کا بنانا یہ شہد کی مکھی کے ذریعے ہمارے رب تعالی کی قدرت کا ایک بہترین نمونہ یےکسی نے سوال کیا کہ جب شہد کی مکھی پھلوں کا رس اپنے منہ میں رکھ کر اپنے گھونسلے تک آتی ہیں تو اس شہد میں مٹھاس کیسے پیدا ہوتی ہے ؟ آئیے اس سوال کا جواب پڑھتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تو پڑھئیے
ایک دن آقا ئے دو جہا ں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم اسلامی لشکر کے سا تھ جہاد کے لئے تشریف لے جا رہے تھے را ستے میں ایک جگہ پڑاو کیا اور حکم دیا کہ یہیں پر جو کچھ کھا نا ہے کھا لو ۔
جب کھا نا کھا نے لگے تو صحا بہ کر ام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم !روٹی کے ساتھ سالن نہیں ہے پھر صحابہ نے دیکھا کہ ایک شہد کی مکھی ہے اور بڑے زور زور سے بھنبھناتی ہے عرض کیا یارسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم یہ مکھی کیوں شور مچاتی ہے؟ فر مایا یہ کہہ رہی ہے کہ مکھیاں بے قرار ہیں اس وجہ سے کہ صحابہ کرام کے پاس سالن نہیں ہے حا لانکہ یہاں قریب ہی غار میں ہم نے شہد کا چھتہ لگایا ہوا ہے وہ کو ن لا ئے کیوں کہ ہم تو اسے لا نہیں سکتیں۔پھر فرمایا پیا رے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مکھی کے پیچھے پیچھے جا ئو اور شہد لے آئو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں چنا نچہ حضرت حیدر کرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک چو بی پیالہ پکڑ کر اس کے پیچھے ہو لیے وہ مکھی آگے آگے اس غار میں پہنچ گئے اور آپ نے وہاں جا کر شہد صاف مصفا نچو ڑ لیا اور دربار ر سالت صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم میں حا ضر ہو گئے. سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وہ شہد تقسیم فرما دیا جب صحابہ کر ام کھانا کھا نے لگے تو مکھی پھر آگئی اور بھنبھنانا شرو ع کر دیا ۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم مکھی پھر اسی طرح شور کر رہی ہے تو فرمایا کہ میں نے اس سے ایک سوال کیا ہےاور یہ اس کا جو اب دے رہی ہے میں نے اس سے پو چھا ہے کہ تمہا ری خوراک کیا ہے ؟مکھی کہتی ہے کہ پہاڑوں اور بیابانوں میں جو پھول ہو تے ہیں وہ ہماری خوراک ہیں میں نے پوچھا پھول تو کڑوے بھی ہو تے ہیں پھیکے بھی بد مزہ بھی ہو تے ہیں تو تیرے منہ میں جا کر نہایت شیریں اور صاف شہد کیسے بن جاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تو مکھی نے جوا ب دیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہمارا ایک امیر اور سردار ہے جب ہم پھولوں کا رس چوستی ہیں تو ہمارا امیر آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی ذات مقدسہ پر درود پاک پڑھنا شروع کرتا ہےاور ہم بھی اس کے ساتھ مل کر درود پاک پڑھتی ہیں تو وہ بدمزہ اور کڑوے پھولوں کا رس درود پاک کی برکت سے میٹھا ہوجاتا ہےاور اسی کی بر کت و رحمت کی وجہ سے وہ شہد شفا بن جا تا ہے ۔
(مقاصد السا لکین ص۵۳)
شہد مکھی کے واقعات اور اس کی ہمت و جرات کے قصے ہمیں اکثر وبیشتر پڑھنے اور سننے کے لئے ملتے ہیں اور کتابوں میں محفوظ ہیں اگر شہد کی مکھی کے چھتے میں قدرت کے شاہکار کا نمونہ دیکھنا یا سمجھنا ہو تو اس کی تفصیل سورہ النحل کی حضرت علامہ مولانا مفتی آصف عبداللہ قادری دامت برکاتہم العالیہ کی بیان کردہ تفسیر ضرور سنئے آپ کا ایمان اور اپنے رب کی قدرت پر بھروسہ اور پختہ اور تازہ ہو جائے گا ان شاءاللہ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب ہم جس جانور کے ذکر سے اپنے اس پانچ حصوں پر مشتمل مضمون کا اختتام کریں گے اسے کم و بیش سارے لوگ جنگل کا بادشاہ کہتے ہیں جی ہاں " شیر" ۔
شیر ممالیہ جانوروں میں بلی کی نسل کا جانور ہے
اپنے مضبوط، طاقتور اور شاندار جسم کی بدولت شیر بہترین شکاری ہوتے ہیں۔ شیر کو بطور علامت طاقتور، بہادر، ظالم اور سنگدل استعمال کیا جاتا ہے۔کرہ ارض پر یہ سب سے بھاری بلی ہے۔ شیر کا جسم چوڑا اور طاقتور ہوتا ہے۔ بالغ نر کا وزن تقریباً 200 سے 320 کلو گرام تک اور مادہ کا تقریباً 120 سے 180 کلو گرام تک ہوتا ہے۔ جسم کی لمبائی 140 سے 280 سنٹی میٹر تک ہوتی ہے۔ ان کا رنگ زردی مائل ہوتا ہے اور اس میں بھوری یا سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں۔ جبکہ سفید شیر کا رنگ سفید اور سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں۔ ان میں دھاریوں کی تعداد تقریباً 100 کے لگ بھگ ہوتی ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں شیر بنگلہ دیش، بھوٹان، کمبوڈیا، ہندوستان، انڈونیشیا، میانمار، ملائیشیا، نیپال، شمالی کوریا، تھائی لینڈ، ویت نام اور روس کے مشرقی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔شیر بہت اچھے تیراک ہوتے ہیں۔ ان کے شکار کرنے کا طریق بالکل بلی کی طرح ہے۔ یہ چھپ کر شکار کرتے ہیں۔ ان کو 50 کلو تک وزن اٹھا کر 2 میٹر اونچی رکاوٹ کو پھاندتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ زیادہ تر شیر انسانوں کا شکار نہیں کرتے۔ ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ شیر اپنی بھوک مٹانے کے لیے انسانوں کا شکار کریں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ نے سورہ المدثر میں شیر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جہنم میں جو لوگ ہوں گے ان کی مثال ایسی ہے جیسے وہ دنیا میں حق بات سے نفرت کرتے تھے اور اس طرح تھے جیسے بدکنے والے گدھے شیر کو دیکھ کر بھاگتے ہیں قرآن میں شیر کو"قَسْوَرَةٍ"کہا گیا اسی طرح شیر سے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی محبت کا ذکر بھی ہمیں کئی جگہ ملتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اور جنگل کے شیر کا دلچسپ واقعہ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں انسان تو حسن کا طالب ہمیشہ سے ہے لیکن اللہ پاک نے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے حسنِ مبارکہ میں وہ رعنائی رکھی ہے کہ جنگل کے پرند چرند جانور بھی حسن مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے دیدار کے طالب ہوتے ہیں بڑی پیاری بات بزرگ لکھتے ہیں ۔جب حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم پرورش فرما رہے تھےاور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی عمر age 3 سال ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا اماں میرے بھائی روزانہ کہاں جاتے ہیں ۔ کہا بیٹا یہ بکریاں چرانے جاتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا اماں میرا بھی دل کرتا ہے میں بھی اپنے بھایئوں کے ساتھ بکریاں چرانے جاوں
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہاں نہیں بیٹا تم بہت نرم و نازک ہو کہی تمہیں دھوپ نا لگ جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی منہ بولی بہین شیما ساتھ کھڑی تھی کہنے لگی اماں تم دھوپ کی بات کرتی ہو ۔جب میں بھائی محمد صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے ساتھ بکریاں چرانے جاتی ہوں تو آسمان سے بادل آکر ہم پر سایا کرتے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے بہت اسرار کیا تو حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اجازت دے دی۔ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم گئے بکریاں چرانے اس طرح چار پانچ دن حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم بکریاں چرانے کےلیے ساتھ جاتے رہے ۔ایک دن حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روک دیا کہا بیٹا محمد صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم آج کے بعد تم نے بکریاں چرانے نہیں جانا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دن بھی گزر گیا دوسرا دن بھی گزر گیا تیسرے دن حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیٹا روتا ہوا آیا ۔ حضرت حلیمہ نے پوچھا بیٹا کیا ہوا کیوں رورہے ہو کہا اماں ہماری بکری کو شیر اٹھا کرلے گیا ہے ۔جب حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ بات سنی تو حضرت حلیمہ کی آنکھوں میں آنسوؤں آگئے ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی نگاہیں کرم حضرت حلیمہ کے رخصار پر پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے دیکھا کہ اماں رو رہی ہے فرمایا اماں روتی کیوں ہو ۔حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا بیٹا محمد صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہماری بکری کو شیر اٹھا کر لےگئے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا اے اماں رو نہیں آئو ہم اپنی بکری کو شیروں سے لے کر آتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی ابھی تین سال کی عمر مبارک تھی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا بیٹا محمد صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ایسا نہیں ہوتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا اماں وہ کسی اور کے کہنے پر نہیں ہوتا جب میں محمد صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کہوں گا تو جنگل کے شیر بکری لے کر آجائیں گے ۔چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اپنی اماں جان کو ساتھ لےکر اپنی بستی سے جنگل کی طرف آتے ہیں تو آقا صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے آواز دی اے جنگل کے شیروں میری ماں کی بکری واپس کردو ۔بس اتنا فرمانا تھا کہ جنگل کے شیر دوڑتے ہوئے حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بکری ساتھ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوجاتے ہیں فوراً قدموں میں اپنا سر رکھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا اے شیروں تمہیں نہیں پتہ تھا کہ بکری ہماری ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا بتائو میری ماں کی بکری کو تم نے کیوں اٹھایا ۔پتہ ہے جنگل کے شیر کیا کہتے ہیں شیروں نے عرض کی اے اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم آپ جب بکریاں چرانے آتے تھے ہم چھپ چھپ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا دیدار کرتے تھے اور یہ حسن و جمال کو دیکھتے تھے کائنات بنانے والے نے اپنا محبوب کیسا بنایا ہے۔پر آقا صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم جب تین 3 دن گزرگئے آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم تشریف نہیں لائے تو ہمیں بڑے شیر نے کہا اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا دیدار دوبارہ کرنا ہے تو ان کے اماں کی بکری اٹھا لو وہ بکری چھڑانے ضرور آئیں گے اسی بہانے دیدار ہوجائے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم بہانہ تو بکری کا تھا اصل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے دیدار کا نشانہ تھا ۔ سبحان اللہ اے لوگوں غور کرو جس نبی کے جلوہ کو دیکھنے کےلیے جنگل کے شیر بھی ترسے پھر مومن کا بھی حق بنتا ہے نا سب محبتوں سے بڑھ کر اپنی آقا صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے محبت کرے۔ اپنی نگاہوں کو حیا سے پرنور کرو اور اپنی نگاہوں میں ہروقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے حسن کی تجلی رکھو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ کائنات بہت وسیع ہے اور اس کرہ ارض پر موجود خالق حقیقی کی مخلوق کا اندازہ لگانا ایک انسان کے بس کی بات نہیں بالکل اسی طرح جانوروں ، پرندوں اور کیڑوں کی تعداد کا اندازہ لگانا انسان کے بس کی بات نہیں اس پوری کائنات میں بسنے والی اللہ تعالیٰ کی اس مخلوق کا ایک پرسنٹ بھی ہم بیان نہیں کرسکے ابھی بیشمار جانور پرندے اور کیڑے ہوں گے جو ہمارے اس مضمون میں شامل نہیں ہے کیونکہ یہ ایک بہت وسیع موضوع ہے جبکہ میرے پاس جو معلومات موجود ہیں میں نے ان میں سے بھی مختصر انداز میں ان کو تحریر کرکے آپ تک پہنچانے کی کوشش کی یے ورنہ ایک ہی جنس پر ہم پانچ حصے بھی لکھ سکتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج کی تحریر میں ہم نے گائے ، دنبہ ، خرگوش ، شہد کی مکھی اور شیر کے بارے میں معلومات سمیٹی لکھنے میں کہیں کوئی غلطی یا اونچ نیچ ہوگئی ہو تو معذرت قبول کیجئے گا میری کوشش ہوتی ہے کہ جو کچھ تحریر کروں قرآن اور حدیث کی روشنی میں ہو تاکہ ہمیں ہر شہہ کی شرعی اور دنیاوی دونوں حیثیت کا علم ہوسکے ان شاءاللہ پھر ایک نئے موضوع کے ساتھ حاضر خدمت ہوں گے تب تک اپنا خیال رکھیئے گا اور مجھے دعاؤں میں یاد رکھیئے گا اللہ نگہبان ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 139 Articles with 102347 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.