کیا ہم تصور کر سکتے ہیں کہ یہ
وہ و سیع سرزمین ہے جو آج سے پا نچ ہز ار سال قبل علم وادب کا گہوارہ ہوا
کر تی تھی ما رگلہ سے سوات کی پہا ڑیوں تک یہاں ایک ایسی قوم آبا د تھی جو
تہذیب و تمد ن میں اپنی مثا ل آپ تھی جس کو تا ریخ میں ساری دنیاٹیکسلا ،
بد ھا اور گند ھا را کے نا م سے جا نتی ہیںیہاں عظیم الشان درس گا ہ تھی
دنیا کے بہترین دانشور،فلاسفر عالم وفاضل اسا تذہ یہاں تعلیم دیا کرتے تھے
نا یاب اور قیمتی کتا بوں کے نسخے موجود تھے ہر سال دس ہزار سے زیا دہ طا
لب علم ،علم کی پیاس اس بجھا نے اس درس گاہ میں آتے تھے اس درس گا ہ کے
عالم و فا ضل اسا تذہ دنیا کے ہر علم کو سانئس کی حیثیت سے پڑھا یا کر تے
تھے داخلے کے لیے با قا عدہ ایک عملی ٹیسٹ سے گزر کر اس عظیم ادارے میں دا
خل ہو سکتے تھے اس درس گاہ میں دا خلے کے لیے اٹلی ، عرب ، چین ،با بل اور
ہندوستا ن سے لوگ آتے تھے بڑے بڑے امراﺅ روساءاور با دشاہ اپنے بچوں کو
یہاں علم کی دو لت حا صل کر نے کے لیے بھیجتے تھے اسی درس گا ہ کے عظیم اسا
تذہ نے آریو ویدک طریقہ علا ج کے با نی ، فن سیا ست و سفا رت کا ری کی شاہ
کار کتا ب ” ارتھ شا ستر“ کے منصنف کو ٹلیہ اور یو نا نی سنسکرت کے بانی
جیسے لو گو ں کو علم کی رو شنی عطا کی ۔آج اسی جگہ وہ شہر اقتدار ہے جہا ں
ہما رے اکثر انگھو ٹھا چھا پ امرائ، وزرا ءکے دولت کدے ہیں جو ہما ری
قسمتوں کے فیصلے کر تے ہیں جو علم کو مذاق اور اسا تذہ کو ملا زم سے زیا دہ
کو ئی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں اور بھاری معاوضے دے کر اسکول اور ٹیچرز
کو گویا اپنا زرخرید غلام سمجھ لیتے ہیں۔
اسا تذہ عمارت سازوں کی ایک قسم ہیں جوکسی بھی معا شرے میں نئی نسل کو
مستقبل میں ملک کا بہترین شہری بنا نے کے ذمہ دار ہو تے ہیں وہ علم وفنون
کی تعلیم سے لے کر آداب زندگی اور طرز عمل سکھا تے ہیں۔کہا جا تاہے کہ والد
تین قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ والد ہوتا ہے جس کے خون سے انسان پیدا ہو تا ہے
ایک والد وہ ہوتا ہے جو اپنی بیٹی دے کر بیٹا بنا تا ہے ایک والد وہ ہے جو
اپنے علم کی روشنی سے انسان کی صلا حیتوں کو اجا گر کر کے اس کے دل دما غ
کو روشن کر تا ہے اور دولت علم سے اسے مالامال کر دیتا ہے اس لیے استاد رو
حانی وا لدین کا در جہ رکھتے ہیں شا گرد ان کی رو حا نی اولا د ہو تے ہیں
شا گرد اپنے استاد کا جتنا بھی احترام کر یں کم ہے کیونکہ استاد کے احترام
کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا ۔سرور کا ئنا ت حضور ﷺ نے خوشامد کو سخت نا
پسند فرما یا ہے مگر حصول علم کی خا طر استاد کی خوشامد کو بھی روا رکھا جا
سکتا ہے گو یا استاد کا احترام خوشامد کی حد تک بھی کیا جا سکتا ہے ۔ ہمارے
مذہب میں علم کی بہت اہمیت ہے اسے مومن کی معراج کہا گیا ہے علم کے حصول کے
لیے فرما یا گیا کہ علم حاصل کرو خواہ اسکے لیے تمھیں چین ہی کیوں نہ جا نا
پڑے۔حصول علم کی خا طر گھر سے نکلنے کو جہاد جیسے عظیم مرتبے کے برابر قرار
دیا گیا یہ علم ہی جس کی بدولت انسان، حیوان سے انسان کی صف میں کھڑا
کیاگیا اور یہ علم وعرفا ن انسان تک کون پہنچا تا ہے یقینا! استاد ہی انسا
ن کو علم وآگہی کی منزلوں تک پہنچا نے کا سبب بنتا ہے اگر ایسے میں اساتذہ
ہی نظر انداز کئے جا ئیں گے ان کی فلا ح وبہبود ،مالی مشکلات کو سنجیدگی حل
کرنے کی جانب تو جہ نہیں دی جا ئے گی تو وہ کیسے اپنا کا م مکمل یک سوئی سے
کر سکیں گے جب وہ ما لی الجھنوں سے آزاد ہوں گے تو ہی وہ یک سوئی کے ساتھ
بچوں کو پڑھا سکیں گے۔
لیکن ! ابد قسمتی سے ہمارے ملک میں تعلیم کی اہمیت کا یہ حال ہے کہ اس سال
ہماری حکومت نے تعلیمی بجٹ میں صوما لیہ جیسے انتہا ئی پسما ندہ ملک سے بھی
کم بجٹ تعلیم کی مد میں رکھا ہے نئے اسکول کھو لنے اور اسا تذہ کی تقرری کے
بارے میں اختیارات کرپشن اور غفلت کا شکار ہیں پر ائمری سطح پر استاد اور
طالب علم کی شرح کے حوالے سے یو نیسکو کی مرتب کردہ 175 ممالک کی فہرست کے
مطا بق کم اساتذہ کے حوالے سے پاکستا ن کا نمبر 23 واں ہے اس فہرست میں
پاکستا ن سے کم تر صرف غریب پسما ندہ افریقی ممالک ہیں جب کہ 121 ممالک میں
سیکنڈری سطح کی تعلیم کے لیے طالب علم استاد کی شرح کے حوالے سے پا کستا ن
104 ویں نمبر ہے وزرات تعلیم ہا ئر ایجو کیشن کمیشن اور پلا ننگ ڈویژن کے
اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ ایک دھا ئی (2000۔ 2011 )کے دوران تما م سطحو ں
پر طا لب علموں کی تعداد 2 کروڑ 5 لاکھ 24 ہزار 144 سے 446 فی صد سے بڑھ کر
19لاکھ 53 ہزار 402 سے 48 فی صد بڑھ 14 لاکھ 12 ہز ار 448 ہو گئی ہے اس پر
مزید اس سال بجٹ کٹوتی اس با ت کو ظا ہر کر تی ہے کہ حکو مت کی تو جہ تعلیم
شعبے کی جا نب کہیں کم ہے یہی وجہ ہے اسا تذہ کی ما لی وسما جی حالت بہت
خراب ہے خا ص کر سیلا ب کی تبا ہ کا ریوں نے اسکولوں کو بھی بہت نقصان
پہنچا یا ہے پہلے ہی سرکاری اسکولوں کی حالت زار سخت مخدوش تھی فرنیچرزنہ
ہونے کے برابر ہے بعض علاقوں میں تو سرے سے اسکول کی عمارت ہی نہیں قوم کے
معمار کھلے آسمان تلے زمین پر بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور ہیں کسی بھی قوم کی
ترقی میں تعلیم کو اولین حیثیت حاصل ہے اگر ہمارے ملک کو ترقی یا فتہ ممالک
کے صف میں شامل ہونا ہے تو حکومت کو اس بارے میں کی جا نے والی زیادتی و لا
پروائی پرتو جہ دینی ہو گی تعلیم کے لیے مزید فنڈز کا اضافہ کر نا ہوگا آج
جب پوری دنیا سمیت پا کستان میں بھی یوم اسا تذہ منا یا جا رہا ہے تو یہ دن
پوری قوم کو سوچنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم کس طرح ایما ندری اور خلوص
نیت سے علم کے نور سے اپنے ملک کا مستقبل روشن کر سکتے ہیں ۔۔ |