اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے
بوسیلہ مصطفےٰ ﷺاکیسویں صدی عیسوی کا آغاز ہو چکا ہے اور بیسویں صدی الوداع
ہو چکی ہے ۔گذشتہ صدی کے محیر العقول انکشافات نے پوری دنیا کے دانشوروں کو
آنے والی صدی کے متعلق بیقرار کر رکھا تھا اور ان امکانی چیلنجز کا مقابلہ
کرنے کے لئے دنیا بھر میں کانفرنسیں اور میٹنگیں ہوئیں کہ آنے والی صدی کے
چیلنج کا مقابلہ کس طرح کیا جائے ؟زمین کی سطح پر بیٹھ کر سیاروں کے مخفی
راز جاننے کی نئی تدبیر یں کی جا رہی ہیں ۔چاند پر زندگی کو ممکن بنانے کے
لئے بنائے زندگی کی تلاش جاری ہے ۔اب وہاں آکسیجن ،ہوا اور پانی کی تلاش کا
کام شروع ہو چکا ہے ۔ایک خبر کے مطابق سطح چاند پر کسی برفیلے مقام پر پانی
کے کسی ذخیر ے کا سراغ بھی مل گیا ہے ۔زمین سے چاند تک کی مسافت کو طے کرنے
اور درمیان میں استراحت کے لئے خلائی اسٹیشن کا کام تقریبا مکمل ہو چکا ہے
۔
اکیسویں صدی عیسویں کا مقابلہ کرنے کے لئے عالمی سطح پر کچھ مذہبی تنظیموں
نے بھی کام شروع کر دیا ہے اور اس میں وہ مذہبی جماعتیں بھی ہیں جو اپنے
اعتبار سے بہت کچھ کر رہی ہیں تاکہ مستقبل کے سامنے بے دست و پانہ رہ سکیں
۔مگر بر صغیر ہند و پاک کے دینی مدارس میں ایسی کوئی سرگرمی سنائی پڑی ہے
نہ دیکھی جا رہی ہے ۔برصغیر اپنے علمی اور مذہبی اقدار کے لحاظ سے پوری
دنیا میں گزشتہ کئی صدیوں سے ایک امتیازی مقام رکھتا چلا آ رہا ہے ۔جس کے
علمی فیضان سے عالم اسلام کا ہر خطہ مستفیض ہوا ہے ۔ مگر ادھر کچھ برسوں سے
جمود کی شدت اتنی بڑھ گئی ہے کہ بقول شاعر
سر پر ہوائے ظلم چلے سوجتن کے ساتھ
اپنی کلاہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ
حیرت بالائے حیرت یہ ہے کہ ہمارے مدارس نے ہجری اور عیسویں دونوں صدیوں میں
سے ہر ایک کا خیر مقدم کیا مگر اس وقت کوئی عملی سر گرمی ظاہر ہوئی اور نہ
اب اس پر کوئی آواز آ رہی ہے ۔آج سے 32 سال پہلے ہم نے چودہویں صدی ہجری کو
خدا حافظ کہہ کر ایک نئی صدی کا آغاز کیا تھا اور پندرہویں صدی ہجری میں
داخل ہوئے تھے۔ لیکن ہمارا سر رشتہ عمل ایک مخصوص دھڑے پر چل رہا ہے جس سے
ایک انچ بھی اِدھر اُدھر ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔درس نظامی کی جامعیت
سے کس کو انکار ہو سکتا ہے ؟ ایک ایسا مکمل نصاب تعلیم ہے کہ جو اپنی مثال
آپ ہے ۔مگر اس پورے عرصے میں اس نصاب سے بھی خاطر خواہ استفادہ نہ ہو سکا
اور اس کو مزید ترقی دینے کی بجائے ہم نے اس میں کمی ہی کی ہے ۔علم ریاضی
،فلسفہ قدیمہ اور حکمت(طبابت) کو خارج از نصاب ضرور کیا ہے لیکن کچھ اضافہ
نہیں کر سکے ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاضی سے ناواقفیت کے سبب علم المیراث
کے جانکار ناپید ہوتے جا رہے ہیں ۔فلسفہ و منطق کا علم نہ ہونے کے سبب بہت
سارے عصری مسائل کا جواب خاموشی ہوتا ہے اور فن طب کو درس نظامی سے خارج کر
کے غیروں کو دیدیا گیا اب اس سے ہمارا کوئی سرو کار نہیں۔
بیسویں صدی کے آخری پانچ عشرے یہ وہی ہیں کہ جس وقت پوری دنیا ایک نئی کروٹ
لے رہی تھی اور فضائے دہر میں قدرت الہٰی کے نئے کرشمے ظہو ر پذیر ہو رہے
تھے ۔ہر گز رتا لمحہ کسی نئی تحقیق و تلاش کا ضامن تھا اور پھر پچاس سال
گزرتے گزرتے پوری دنیا کی تاریخی حیثیت ایک چونکا دینے والے عمل کی شکل میں
ظاہر ہوئی ۔جن لوگوں نے ان اوقات کو سمجھا اور ان پر اپنی گرفت مضبوط کی
،وہی آج دنیا کے ہیرو کہے جا رہے ہیں ۔حالانکہ اسلام نے اس سارے امور کو
کہیں اجمالی اور کہیں تفصیلی طور پر بیان کر دیا ہے ۔کائنات میں یہ تبدیلی
اگر مثبت رہی ہوتی تو آج تیسری دنیا بھوکوں نہ مرتی اور ہر چھوٹا بڑے کو
نگلنے کے خواب نہ دیکھتا ۔مثبت کی شرح کا تناسب چند فیصد ہے۔ جب کہ منفی
تناسب ہی غالب ہے ۔تبدیلی ماحول و کائنات کا حیرت انگیز تازہ عمل کوئی یک
بیک وجود میں نہیں آگیا ۔بلکہ مسلسل پچاس سال پر محیط ہے مگر اس پورے عرصہ
میں ہم نے اس کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا اور قدروں پر غلط اقدامات ہوتے
رہے حالانکہ امت مسلمہ اور خصوصاً علمائے دین و مدارس اسلامیہ اس کے زیادہ
ذمہ دار تھے ۔آج ”اکیسویں صدی عیسوی“ کی آمد مدارس اسلامیہ کے دروازوں پر
دستک دے رہی ہے اور عصر حاضر میں اسلامی نظریات کے خلاف اگلے جانے والے ہر
زہر کے تریاق کا مطالبہ کر رہی ہے ۔مگر کیا اس زہر کا جواب ہمارے پاس ویسا
ہی ہے جیسے کی ضرورت ہے ؟ جواب نفی میں ہے کیونکہ مدارس عربیہ ان اسلحوں سے
خالی ہیں جن سے یہ جنگ جیتی جا سکتی تھی ۔کیونکہ اس دور جدید میں وہ طرز
محاربت بالکل ناکام ہے جس کو کبھی کامیابی کا ضامن قرار دیا جا سکتا تھا
۔ہر دور اپنے عہد کے چیلنج کو اسی طرز و طریقہ پر قبول کرتا ہے جو اس وقت
کے داعی ہوتے ہیں ۔اسی لئے لازم ہے کہ ایسے علوم کو بھی حاصل کیا جائے جن
سے دفاع تو کم از کم ممکن اور پائیدار ہو سکے ۔حضور ﷺ نے خود ایسی تدابیر
کو اپنایا اور دشمن کی چالوں کو ناکام بنایا ۔روایات سے پتہ چلتا ہے کہ
حضور ﷺ نے سیدنا حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ آپ یہود
کی کتابت اور خط سیکھیں اور ان کی زبان و لغت سے آگاہی حاصل فرمائیں ۔تو یہ
گویا حضور ﷺ نے یہود کے مکرو فریب اور دھوکہ سے نجات کی تدبیر فرمائی اور
ان کے دغاو فریب سے چھٹکارے کی سبیل نکالی ۔
آج کا دور دو بدو مناظروں اور ہزاروں ازدھام میں دلیل دینے یا سننے کا نہیں
ہے ۔آج ہر تحریک زمین دوز ہو چکی ہے اور بے آواز وہ سب کچھ کہہ دیا جاتا ہے
جس کو کہنے کے لئے پہلے بہت بلند آواز آلہ جات کا سہارا لینا پڑتا تھا ۔آج
خاموشیوں میں اس غضب کا شور ہے کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی پڑ رہی اور بند
کمروں کی تحریک بغیر کسی شور ہنگامہ کے گھر گھر پہنچ رہی ہے ۔بولنے والے کا
چہرہ نظر آتا ہے ،نہ کہنے والے کی زبان ! مگریہ کیسا تلا طم ہے کہ فضا در
فضا زہر پھیلا ہوا ہے اور پوری فضا زہر سے موسوم ہو ئی جا رہی ہے ؟ اب ایسا
نہیں ہے کہ گھر کے دروازے بند ہوں گے تو سلامتی ہو گی ،بلکہ اب تو یہ حال
ہے کہ گھر کا دروازہ قفل در قفل کر دیجئے جب بھی اندر دشمن اپنے زہریلے
ہتھیار کے ساتھ موجود ملے گا۔
یہ فتنوں کا دور ہے اور روئے زمین کا کوئی بھی گوشہ ان فتنوں سے محفوظ نہیں
۔بد عقیدگی و بد عملی کا فتنہ ۔۔۔بد اخلاقی اور دہریت کا فتنہ ۔۔۔ اسلام
دشمن عناصرکا فتنہ ۔۔۔ اور خود اسلام کا نام لے کر اسلام کا استحصال کرنے
والوں کا فتنہ ۔۔۔ایمان کی آزمائش کا ایسا شدید دور اگر چہ تاریخ میں پہلے
بھی رہا ہے ۔مگر ان خوفناک اسلحوں کے ساتھ نہیں ۔مخبر صادق نبی غیب داں ﷺ
نے ارشاد فرمایا ، جب کہ وہ مدینہ منورہ کے ایک ٹیلہ پر چڑھ کر لوگوں سے
فرما رہے تھے : ”میں جو کچھ دیکھتا ہوں کیاتم بھی دیکھتے ہو؟ لوگوں نے کہا
نہیں ! تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں فتنوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ تمہارے
گھروں کے درمیان اس طرح گر رہے ہیںجیسے بارش برستی ہے ۔“(بخاری)
صدا قتوں کی یہ تعبیر کتنی واضح ہے اور آج کا یہ دور اس پر کس طرح پورا
اُتر رہا ہے کہ کسی حرف سے انحراف کی گنجائش نہیں ۔ آج کے سارے فتنوں کا
یہی حال ہے کہ گھروں میں برس رہے ہیں اور ہر امکانی حفاظت تدابیر بھی ناکام
ہوتی جا رہی ہیں۔
بیسویں صدی نے جو تغیرات کا انقلابی ذہن دیا تھا ،اس کو سمجھنا چاہےے تھا
کہ یہی کیا کم ہے کہ ہم غیر محفوظ ہو گئے ؟ اس پر مزید کسی ہلاکت کا انتظا
ر کتنا کٹھن ہو گا ۔عصر حاضر کے مواصلاتی نظام ٹیلی فون ،کمپیوٹر ،ٹی وی
،وی سی آر، ریڈیو ،کیبل ،موبائل اور انٹرنیٹ جیسی چیزوں کے وجود نے پوری
دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔مسیحیت ،یہودیت اور اشتراکیت نے ان پر اپنی
گرفت مضبوط کی تھی ،پھر ان کی خیرات اداروں کو ملی اور دیگر لوگ بھی اس
میدان میں کود پڑے ۔آج صورت حال یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر گمراہیوں کا سمندر
انگڑائیاں لے رہا ہے ۔ہر شخص اپنے اپنے مقصد کی چیز اپنے اعتبار سے گھر کے
بند کمرے میں بیٹھا حاصل کر رہا ہے ۔اس کو باہر جانا ہے نہ دروازہ کھولنا
اور نہ ہی کسی سے کچھ کہنا ہے ۔سیاسی امور ہوں یا میدان جنگ کی ہدایات سبھی
کچھ ان کے ذریعہ عمل میں آ رہی ہیں اور دوسری طرف جنس زدگی اور اخلاقی
تخریب کاری کے جالوں میں جوان نسل اس بری طرح پھنسی جا رہی ہے کہ بیان سے
باہر ہے اور جو کچھ باقی بچا ہے وہ مذہبی تصورات دے کر مذہب کے نام پر ہی
اسلام کا استحصال ہو رہا ہے ۔
سلمان رشدی ملعون نے شیطانی آیات لکھیں ،تسلیمہ نسرین نے اسلام اور حضور ﷺ
کے خلاف بکواسیں کیں ،برصغیر چیخ اٹھا اور انہیں برطانوی سامراجوں نے تحفظ
دیدیا۔ان کی کتابیں ضبط کر دی گئیں کہ لوگ نہ پڑھ سکیں مگر اب تو ہر گھر
میں رشدی ملعون اور تسلیمہ جیسی شیطانی صفات رکھنے والی ڈائن موجود ہے ۔گھر
کا دروازہ بند بھی ہے اور زہر گھر میں پھیلتا جا رہا ہے ۔اس وقت انٹر نیٹ
پر اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺکے خلاف جو بکواس ہو رہی ہے اور اتنی زہریلی ہے
کہ کم علم شخص اس سے زہر ناک ہو جائے گا۔ اور طرفہ تماشہ یہ کہ جو لوگ اس
کا جواب دے رہے ہیں ان کی مذہبی معلومات سطحی اور نہ ہونے کے برابر اور جن
کو جواب دینا چاہیے تھا وہ اس میدان سے ناواقف ۔تو اب خود سوچا جا سکتاہے
کہ اس جوابداہی کا اثر کیا ہو گا ؟ اور صحیح جواب نہ مل سکنے پر نتیجہ
کیانکل سکتا ہے ؟
عصر حاضر کے آزمائشی دور کی نشاندہی فرماتے ہوئے مخبر صادق نبی غیب داں ﷺ
نے کس صراحت سے ارشاد فرمایا ؟ اس کو سنتے چلیں ۔
”حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا کہ
عنقریب کئی فتنے ہوں گے جن میں انسان صبح کو مسلمان ہو گا اور شام کو کافر
ہو گا۔ ہاں جسے اللہ تعالیٰ علم کے ذریعے محفوظ رکھے ۔“(ابن ماجہ)
اس فرمانِ اقدس کی روشنی میں اس دور کی آزمائش اور اس کا تر یاق دونوں کا
پتہ چلتا ہے ۔فتنوں کا یہ ہنگامی دور جس میں لاشعور میں کفر کا تسلط ہو
جائے اور اس سے نجات کی راہ کا پاکیزہ عمل علم کی ضمانت کے ذریعے واضح ہے
۔آج کا یہ دور کہ گلی گلی ، کوچے کوچے اور گھر گھر میں آزمائشوں کی بساط
بچھی ہوئی ہے ،علم سے محروم حضرات فتنوں کے جال میں گھر کر تباہ ہو رہے ہیں
۔پھر خود سوچا جا سکتا ہے کہ اب مدارس اسلامیہ اور علماءحق کی ذمہ داریاں
کتنی بڑھ گئی ہیں ؟ کفر اپنی پوری توانائی کے ساتھ حملہ آور ہے اور جنگ کی
صورت حال یہ ہے کہ اندرون خانہ یہ مشق جاری ہے ۔اک ذرا سی غفلت ہوئی اور
لمحے بھر میں آدمی شکار ہو گیا ۔ ایک طرف اسلام دشمن عناصر اپنی پوری قوت
سے حملہ آور ہیںاور دوسری طرف اسلام کا نام لے کر اس کا استحصال کرنے والے
بھی اپنا پور ازور اسی پر صرف کر رہے ہیں ۔انٹر نیٹ پر پایا جانے والا زہر
اتنا خطر ناک ہے کہ اس کا زخمی جاں بلب ہو جائے ۔غور کریں کہ ناپاک حملوں
کا سلسلہ کتنا مربوط مضبوط اور منظم ہے !
قادیانی فتنہ سے کون واقف نہیں ؟ اور اس کے معتقدات کے بارے میں کس کو پتہ
نہیں جو ہماری دنیا کے علماءکے اتفاق سے کافر ہیں ۔
انٹرنیٹ کی دنیا میں پہلا دھماکہ مذہبی امور سے قادیانیوں نے کیا کہ
”اسلام“ لفظ کو اپنے لئے خاص کرالیا ۔۔۔اب دنیا میں یہ نام کسی بھی تحریک
کو نہیں مل سکتا ۔اب اسلام کا نام لے کر اسلام پر جو قہر و جبر ہو گا وہ کس
قدر افسوسناک اور مقام حیرت ہے ۔
دوسری طرف خود اسلام کا نام لے کر جو فرقے اس میں کودے انہوں نے پہلا نشانہ
مسلک حق اہلسنت و جماعت کو بنایا ۔اب اس کا ہدف مسیحیت ،یہودیت ، ہندومت
،کیمونزم ،سوشلزم بعد میں ہو گا ،سب سے پہلا حملہ اسلاف کرام کی ان پاکیزہ
فکر و نظر پر ہوا ہے جہاں سے عظمت رسالت ،محبت رسالت ،عشق رسالت، آداب و
احترام رسالت اور فنافی الرسول ﷺ کے آبشار پھوٹتے تھے ۔سعود ی عریبیہ کی
”مجلس الدراسة العلمیة“ میلاد النبی ،صلوة وسلام ، قیام ،تبرکات کی تعظیم
،ایصال ثواب ، گیارہویں شریف وغیر پر تو انٹرنیٹ میں اپنا زہر بھر چکی ہے
مگر قادیانیت اور یہودیت و ہندومت کے خلاف اس کا ویب سائٹ خالی ہے ۔
کمپیوٹر کی اسکرین پر ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد اس طرح کے گمراہ کن مضامین
پڑھتے ہیں اور پھر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔تحقیق کی گہرائیوں میں
اترنا اور حقیقتوں کی چھان پھٹک کرنا ،اتنا موقع ان قارئین کے پاس نہیں ہے
وہ صرف انٹر نیٹ پر سہل پسند طریقہ سے موجد تحریر کو دیکھتے ہیں اور اسی کو
قبول کر لیتے ہیں ۔ان کو مارکیٹ جاکر کتاب تلاش کرنی ہے نہ ہی اس کی قیمت
دینی ہے اور نہ ہی کسی سے مشورہ لینا ہے ۔کیونکہ انٹر نیٹ کی خاموش فضا اس
زہر کو بآسانی دماغ میں اتار دیتی ہے ۔
غور فرمائیں !کہ وقت کی سہل ترین تبلیغی روش سے اگر آنکھ بچا کر دعوت کا
عمل اختیار کیا جائے تو کیا یہ ممکن ہے کہ اس میں کامیابی ہو گی؟ اور کیا
یہ بھی ممکن ہے کہ اس دور میں دور دراز علاقوں میں جا کر یہ فریضہ سر انجام
دیا جا سکتا ہے ؟ اور کیا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لاکھوں کا سرمایہ خرچ کر کے
کتابوں کی طباعت کرا کے ان کی ترسیل کا محنت کش عمل کیا جائے ؟ اس ترقی کے
دور میں دو سو سال پہلے کا طریقہ عمل اگر اپنایا جائے تو زمانے کی رفتار
سرعت کی بھیڑ میں وہ پیادہ کچل کر رہ جائے گا اور جب اٹھ کر اپنی گرد جھاڑ
کر آگے دیکھے گا تو سو سال کا فاصلہ درمیان میں حائل ہو چکا ہو گا۔
کہا گیا ہے :مَن لَّم یَعرِف اَہلَ زَمَانِہ فَھُوَ جَاہِل۔”جو زمانے کی
اقدار کو نہ پہچانے وہ جاہل ہے ۔“
یہ مقولہ اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ حالات زمانہ سے چشم پوشی عقل مندی کی
دلیل نہیں ،بلکہ ناسمجھی کی دلیل ہے ۔ابھی سو سال بھی نہیں گزرے ہیں کہ وقت
کی عظیم عبقری شخصیت مجدد اعظم امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمة اللہ
علیہ نے اپنے زمانہ کی رفتار پر اپنی گرفت کتنی مضبوط رکھی تھی ،یہ کسی سے
پوشیدہ نہیں ۔انہوں نے اپنے دور کی ہر روش کو اپنی نظروں میں رکھا تھا اور
زمانہ جوں جوں کروٹ لے رہا تھا ،آپ کی گرفت اسی طرح اس پر مضبوط ہو تی جا
رہی تھی ۔ان کا دور اتنا ہمہ گیر ،منضبط اور محفوظ محسوس ہوتا تھا کہ غیروں
نے گھٹنے ٹیک دئے ۔دنیا کی وہ کونسی جگہ ہے جہاں ان کی عقابی ،علمی اور
عارفانہ نگاہ نہیں تھی ۔انہوں نے جو خدمات انجام دیں وہ تاریخ کا ایک
تابناک ورق ہے ۔حالانکہ وہ کہیں نہیں جاتے تھے ،اپنے دولت کدے میں قیام
پذیر ہوتے لیکن روئے زمین پر پیدا ہونے والے ہر فتنہ کا دندان شکن جواب آپ
کے برق رفتار قلم سے معرض وجود میں آجاتا تھا ۔
جس طرح فتنوں کے پنپنے اور پھیلنے کے لئے یہ دور بڑا سازگار ہے کیونکہ جدید
تکنیکی ہتھیاروں سے ہر گمراہی کو ذہن و دماغ کی گہرائیوں میں اتارا جا سکتا
ہے ،اسی طرح اسلامی دعوت حق کے لئے بھی یہ دور بڑا موافق اور سازگار ہے
کیونکہ دینی تبلیغ کے لئے جن جاں گسل کیفیات سے گزرنا پڑتا تھا ،اب اس کی
ضرورت نہیں ۔بلکہ ایک جگہ بیٹھ کر ساری دنیا میں اپنی فکر و آواز کو
پہنچایا جا سکتا ہے ۔اگر اس وقت اس سے فائدہ حاصل نہ کیا گیا تو کوئی اور
دوسرا وقت نہ ملے گے ۔
اٹھو و گر نہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑ و زمانہ چال قیامت کی چل گیا
ہونا یہ چاہیے کہ بر صغیر خصوصاً پاک و ہند کے مدارس عربیہ اہل سنت و جماعت
کوئی ایک بورڈ بنائیں اور اس کا ایک مرکزی دفتر ہو جس کی متعدد شاخیں بڑے
بڑے اداروں میں پھیلی ہوئی ہوں اور کمپیوٹر کے چند ماہرین جو عربی ،اردو
اور انگریزی میں دسترس رکھتے ہوں ،ان کو عالمی سطح پر پائے جانے والے گمراہ
کن نظریات پر خصوصی نظر رکھ کر ان کے مواد کو علماءمتبحرین تک پہنچانے کی
ذمہ داری سونپی جائے ۔اور ایک جماعت ان فاسد خیالات کی تردید میں مطالعہ کو
مرکزی نقطہ نظر بنا کر اس کا ترکی بہ ترکی جواب دے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ
صالح اور صحیح افکار و خیالات کو انٹر نیٹ کے سپرد کیا جائے ۔تاکہ دنیا میں
جہاں کہیں بھی اس طرح کے گمراہ کن نظریات جنم لیں ،ان کا فوری سد باب کر
دیا جائے اور اس طرح انٹر نیٹ سے گمراہ ہونے والے اذہان کو صحیح سمت اور
درست مواد مل جائے گا۔ جس سے ان کا ذہنی خلجان دور ہو جائے گا۔ نیز اس پر
سوال و جواب کے کالم میں اپنا کوئی خاص میل بھی دیا جائے تاکہ سائل کے ذہن
میں پیدا ہونے والے خدشات کا بر محلہ جواب مل جائے جس سے وہ گمراہی سے بچ
جائے گا۔ اگر ایسا ہو گیا تو وقت کی دھڑکتی نبض پر گرفت بھی مضبوط ہو گی
اور ماحول و سماج میں پائے جانے والے گمراہ کن جر ثوموں کی تشخیص اور اس کا
علاج بھی ہو جائے گا۔ اگر اس طرف سے صرفِ نظر کر کے فقط اپنے پرانے راستے
پر چلا جائے گا تو اس کا نتیجہ فکر حد درجہ ہلاکت خیز ہو گا۔
ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہہ سکے کہ جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ
مغرب اور امریکہ میں تو پائے جا سکتے ہیں مگر پاکستان میں گمراہیوں کی یہ
شرح اتنی نہیں ہے اور نہ ہی اس قدر تیز ہے اس لئے قدیم طرز تبلیغ اور روش
دعوت سے گریز ممکن نہیں ،تو یہ فکر انتہائی نامعقول ہو گی ۔کیونکہ وقت کی
تیزی کے ساتھ ساتھ عالمی تناظر میں جو تبدیلیاں روز بروز سامنے آرہی ہیں ان
کا دائرہ تنگ نہیں ہو گا۔ بلکہ بڑھے گا۔ تو اس وقت کیا ہو گا جب یہ طوفان
نئی نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہو گا؟ عصری ایجادات و انکشافات کی خوبی
یہ ہے کہ زندگی کا لازمہ بن جاتی ہیں اور ان سے گریز و فرار ممکن نہیں ہو
پاتا اور جو ضروریات زندگی کے روپ میں ابھر کر آئے اس کو ہر شخص اپنا لیتا
ہے ۔اس لئے ٹیکنالوجی کے جتنے بھی سامان اور اوزاراب وجود میں آرہے ہیں وہ
نہ تو ایک جگہ کے پابند ہوتے ہیں اور نہ ہی ایک جگہ رہتے ہیں بلکہ جو بھی
چیز وجود میں آتی ہے وہ چند دنوں میں دانا کی مارکیٹ میں موجود مل جاتی ہے
۔اس لئے اس سے اعراض کیا ہی نہیں جا سکتا۔
عقل کا تقاضا یہ ہے کہ جو کچھ ہو اس کو گرفت میں رکھ کر مصالح دین و امت کے
لئے خیر کے مقصد میں استعمال کیا جائے ۔کاش ایسا ہوتا کہ عصری ایجادات کو
مسلمان بنا کر انہیں استعمال کیا جا تا تو گمراہی کے بہت سارے دروازے خود
بخود بند ہو جاتے اور حالات کی دھڑکتی نبض پر اپنا قبضہ ہوتا ۔کاش ایسا
ہوتا !!!!
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات |