|
|
فتح سک پیشے کے اعتبار سے کسان ہیں اور انہیں ہر وقت یہی
خدشہ لاحق رہتا ہے کہ زرعی زمین پر ٹریکٹر چلاتے ہوئے کہیں ایسا نہ ہو کہ
وہ کسی گہرے گڑھے میں جا گریں جن سے ان کی موت واقع ہو جائے۔
فتح سک کا تعلق ترکیہ کے زرعی صوبے قونیہ کے ضلع کراپینار سے ہے جہاں ان کی
زمین میں پہلے ہی دو بڑے گڑھے پڑ چکے ہیں۔
فتح کے مطابق زمین کا کوئی بھی حصہ کسی بھی وقت گڑھا بن سکتا ہے۔ لیکن کیا
کروں مجھے کام کرنا ہی پڑے گا، ورنہ میری فیملی کو فاقہ کشی کی صورتِ حال
سے دوچار ہونا پڑے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ترکیہ کے وسطی اناطولیہ میں صدیوں سے گڑھے پڑ رہے ہیں
لیکن حالیہ عرصے کے دوران ان گڑھوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق گڑھے
پڑنے کی وجہ خشک سالی کی وجہ سے زراعت کے لیے زیرِ زمین پانی کا بڑھتا ہوا
استعمال ہے۔
قونیہ کے ہموار علاقے میں جگہ جگہ کئی گہرے گڑھے موجود ہیں، ان میں سے کئی
165 فٹ گہرے بھی ہیں جو دور سے دکھائی نہیں دیتے۔ اگر آپ اس علاقے میں مکئی،
گندم اور دیگر فصلوں کے کھیتوں میں جائیں تو یہ گڑھے نظر آنا شروع ہو جائیں
گے۔ |
|
|
|
قونیہ ٹیکنیکل یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر عارف دیلیکان
کہتے ہیں کہ زمین میں گڑھے پڑنے کی ایک بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ صرف
گزشتہ برس کراپینار میں 20 گڑھے سامنے آئے ہیں۔
عارف دیلیکان قونیہ کے علاقے میں اب تک 640 گڑھے تلاش کر چکے ہیں جن میں سے
600 سے زیادہ ڈسٹرکٹ کراپینار میں ہیں۔
پروفیسر عارف سرکاری ادارے ڈیزاسٹر ایند ایمرجنسی مینجمنٹ پریزیڈنسی آف
ترکیہ [اے ایف اے ڈی] کے ساتھ مل کر 2700 سے زیادہ ایسے مقامات کی نشاندہی
کر چکے ہیں جہاں زمین پر ایسے آثار موجود ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا
ہے کہ وہاں زمین کے دھنسنے کا خدشہ ہے۔ |
|
|
|
زیرِ زمین پانی میں مٹی کی آمیزش کی وجہ سے اکثر زمین میں سوراخ ہو جاتے
ہیں اور ایسا بعض اوقات قدرتی طور پر ہوتا ہے اور کبھی یہ کسی انسانی
سرگرمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
زمین دھنسنے کا عمل بہت سست یا کبھی اچانک بھی ہو سکتا ہے۔ ترکیہ کے فلم
ڈائریکٹر ایمن الپر نے 2022 میں اپنی فلم 'برننگ ڈیز' اس کی عکاسی کی تھی
اسے ترکیہ کے معاشرے سے جوڑا تھا۔
'واقعی خوف ناک ہے'
گزشتہ برس آدم ایکمیی اپنی زمین کا معائنہ کر رہے تھے کہ اس دوران انہوں نے
اپنے خوبانی اور بیری کے اپنے کئی درختوں کو زمین میں دھنستے ہوئے دیکھا۔
ستاون سالہ کاشت کار کے مطابق ان کا پاؤں اچانک پھسلا اور انہوں نے زمین
پر دیکھا تو وہاں کئی دراڑیں موجود تھیں۔ ان کے بقول جب میں گھر واپس آیا
تو متعدد درختوں سمیت زمین دھنس چکی تھی اور یہ منظر بہت ہی خوفناک تھا۔
آدم کی 24 ایکڑ زمین ہے جس پر دو بڑے سوراخ ہیں اور ہر سوراخ لگ بھگ 50
میٹر گہرا ہے۔ ایک گڑھا تو ان کے گھر سے 10 میٹر فاصلے پر ہے۔ |
|
|
|
آدم نے بتایا کہ ان کی زمین پر پہلی مرتبہ 2018 میں
دراڑیں پڑنا شروع ہوئیں تو وہ بلدیاتی ادارے کے پاس گئے جس کے ورکروں
نے زمین کے اطراف پتھر لگا کر اسے بند کر دیا اور دو سال بعد زمین
بالکل دھنس گئی۔
زمین میں پڑنے والے گڑھوں کی وجہ سے علاقے میں اب تک کوئی ہلاکت نہیں
ہوئی ہے۔ لیکن مقامی افراد اس خطرے سے آگاہ ہیں۔
غیر قانونی کنویں
قونیہ میں موسمِ سرما کے دوران اوسط سے 40 فی صد کم بارشیں ہو رہی ہیں
جس کی وجہ سے کاشت کاروں پر پیداوار کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس لیے
وہ غیر قانونی طور پر کنویں کھود رہے ہیں جس کی وجہ سے زمین کی ساخت
متاثر ہو رہی ہے۔
ترکیہ کے اس خطے میں گندم کی ملکی پیداوار کا 36 فی صد اور چقندر کی 35
فی صد کاشت ہوتی ہے۔
کاشت کار یگت اکسل تسلیم کرتے ہیں کہ آئندہ آنے والے دن بہت ہی مشکل
ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ زمین کی کھدائی اور آب پاشی کو کسی طرح حالات
کا ذمے دار قرار دیا جا سکتا ہے۔ |
|
|
|
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 20 برس کے دوران خشک سالی کی
صورتِ حال ہے جس کی وجہ سے کاشت کاروں نے زراعت کے لیے زیرِ زمین پانی
استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خطے میں زیرِ زمین پانی کم
ہو رہا ہے۔
ان کے بقول، کراپینا میں زیرِ زمین پانی کی سطح ہر سال 10 سے 20 میٹر
کم ہو رہی ہے۔
کرانیپار کی لیک میکی کا پانی ایک دہائی کے دوران سوکھ چکا ہے اور وہاں
اب زمین نمک کی تہہ موجود ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خشکی کی شکار زمینوں کے لیے بارش خطرناک ہو سکتی
ہے۔
گڑھے سیاحت کے مقصد کے لیے استعمال
ہونے لگے
ترکیہ کے بعض انٹرپریونر نے زمین میں پڑنے والے گڑھوں کو سیاحت کے مقصد
کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
گزشتہ ہفتے کم کینی نامی شخص نے ملک کے قدیم گڑھے کے قریب 13 کمروں کے
لگژری ہوٹل کا افتتاح کیا ہے جو گڑھے کے قریب ایک جھیل کی طرح دکھتا ہے۔
کینی کہتے ہیں ہمیں گڑھوں کی موجودگی کے خوف کو مثبت لینے کی ضرورت ہے۔
ان کے ہوٹل میں قیام کرنے والے ایک کورین سیاح سینگمو کم گڑھے کے قریب
ہوٹل دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے ہیں جن کا کہنا ہے کہ " میں نے یہ منظر
پہلی دفعہ دیکھا ہے، یہ واقعی بہت حیران کن ہے۔ |
|
Partner Content: VOA Urdu |