1993ءکی شام تھی ہم اسلام آباد
کے ایک بڑے ہوٹل میں بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے اُس دن راجہ صاحب اور چودھری
صاحب میرے ساتھ متفق نہیں تھے‘ اُن کا کہنا تھا میرے والد صاحب کو کسٹم کی
نوکری نہیں چھوڑنی چاہیے تھی‘ اُن کا پرکشش اور منافع بخش نوکری چھوڑنے کا
فیصلہ غلط تھا اگر وہ کسٹم کی ملازت نہ چھوڑتے تو آج کروڑ پتی ہوتے ‘ اُن
کی کئی کوٹھیاں اور کئی گاڑیاں ہوتیں‘ آپ سب اعلیٰ سکولوں میں تعلیم حاصل
کرتے اور والد صاحب کی سفارش سے آپ کو اچھی ملازمتیں مل جاتیں‘ اپنے اور
پرائے آپ کے پیچھے پیچھے پھرتے‘ سب آپ کو جھک جھک کر سلام کرتے اور ہر طرف
آپ کی واہ واہ ہوتی!! لیکن چودھری صاحب میرے والد صاحب نے کسٹم کی نوکری
اِس لئے چھوڑی تھی کہ وہاں رشوت عام تھی اور وہ رشوت کو گناہ کبیرہ سمجھتے
ہیں لہٰذا وہ اپنے آپ کو اس ماحول میں ایڈجسٹ نہ کر سکے‘ اِس لئے اُنہوں نے
نوکری سے استعفیٰ دے دیا ۔چودھری صاحب نے پہلو بدلا ‘ ٹانگ پہ ٹانگ رکھی ‘
چائے کا کپ اٹھا کر چسکی لی‘ ٹشو سے منہ صاف کیا اور قدرے ترُش لہجے میں
گویا ہوئے‘ یار پتہ نہیں آپ لوگ کون سی دنیا میں رہتے ہیں، جس ملک میں
پٹواری سے کمشنر تک‘ کلرک سے سیکرٹری تک‘ ممبر یونین کونسل سے ایم این اے
تک اور چوکیدار سے لے کر سربراہ مملکت تک ہر کوئی دونوں ہاتھوں سے مال بٹور
رہا ہو‘ جائیدادیں بنا رہا ہو‘ رشوت اور کمیشن کو اپنا حق سمجھتا ہو‘ اُس
ملک میں آپ اپنی شرافت ‘ اپنی ایمانداری اور اپنے اصولوں کو لے کر بیٹھے
رہیں گے تو آپ کو سوائے معاشی بدحالی‘ پریشانی اور دھکے کھانے کے کچھ نہیں
ملے گا!کیوں راجہ صاحب ایسا ہی ہے نا؟ جی ہاں چودھری صاحب آپ کی بات درست
ہے، آج کے دور میں حلال حرام اورجائز ناجائز کے چکر میں پڑنے والا بے وقوف
سمجھا جاتا ہے، اِس دور میں جو شخص مالی لحاظ سے سٹرانگ نہ ہو اُسے پرائے
تو کیا اپنے بھی نہیں پوچھتے آج ہر کوئی پیسے کو سلام کرتا ہے، آپ کے پاس
پیسہ ہے تو سب آپ کے ہیں اگر پیسہ نہیں تو پھر کوئی آپ کا نہیں نہ دوست نہ
رشتہ دار!راجہ صاحب آپ اور چودھری صاحب نے جو کچھ کہا وہ اپنی جگہ، بہر کیف
میں سمجھتا ہوں میرے والد صاحب نے جو فیصلہ کیا تھا وہ ایک بروقت اور صحیح
فیصلہ تھا۔
چودھری صاحب اور راجہ صاحب نے مسلسل تین گھنٹے میرے ساتھ بحث کی اور بے
شمار دلائل دے کر اُنہوں نے مجھے قائل کرنے کی کوشش کی کہ میرے والد صاحب
جائز وناجائز ،حلال وحرام میں نہ پڑتے تو آج مارکیٹوں اور پلازوں کے مالک
ہوتے اگر ہم بھی جائز ناجائز اور حلال حرام کے چکر میں پڑے رہے تو مقابلے
کی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے رہ جائیں گے‘ یعنی اگر ہم نے مال نہ بنایا تو
ہم کاروں‘ کوٹھیوں اور بنگلوں کے مالک نہیں بن سکتے یوں ہماری زندگی ٹھاٹھ
باٹھ والی نہیں ہوگی تو ایسی صورت میں سوسائٹی کے اندر ہماراکوئی مقام و
مرتبہ نہیں ہوگا خاندان کے امیر لوگ ہمیں لفٹ نہیں کرائیں گے مال دار لوگ
ہم سے دوستی نہیں رکھیں گے اور پبلک ہمیں جھک کر سلام نہیںکرے گی لہٰذادنیا
وی اعتبار سے ہم ناکام لوگ تصور ہوں گے۔
چودھری صاحب اور راجہ صاحب نے جو کچھ کہا یقیناً اخلاص سے کہا ہو گا مگر
اُن کی باتیں میری سوچ نہیں بدل سکیں اُن کے دلائل سے میری رائے تبدیل نہیں
ہوئی ‘ میں سمجھتا ہوں حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں‘ برائی کتنی ہی عام
کیوں نہ ہو جائے، اندھیرا کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو‘ انسان کو حالات بدلنے‘ا
چھائی کو عام کرنے اور اندھیرے کو ختم کرنے کی جدوجہد ترک نہیں کرنی چاہیے‘
نیکی کا بدی سے‘ اچھائی کا برائی سے اور روشنی کا اندھیرے سے سمجھوتا نہیں
ہو سکتا‘ جب برائی کی آندھیاں چل پڑیں اور بدی کا اندھیرا چھا جائے تو
آنکھوں والے بھی دھوکہ کھا جاتے ہیں اورعقل والوں کو بھی ٹھوکر لگ جاتی ہے۔
آج ہر طرف لالچ‘ خود غرضی‘ لوٹ مار اور کرپشن کا دور دورہ ہے تو بڑے بڑے
عقلمند بھی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اُن کی سوچوں پر بھی پردہ پڑ گیا ہے لہٰذا
وہ نقل کو اصل اور سراب کو حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں وہ سمجھتے ہیں دنیا کی
زندگی ہی اصل زندگی ہے اور دولت کا مل جانا ہی اصل کامیابی ہے۔
میرے والدِ محترم نے 1951ءمیں کسٹم جوائن کیا مگر 1954ءمیں اِس وجہ سے
استعفیٰ دے دیا کہ وہاں اوپر سے لیکر نیچے تک رشوت ہی رشوت تھی وہاں
ایماندار آدمی کا گزارہ مشکل تھا‘ کسٹم سے استعفیٰ دے کر وہ سہگل ماڈل ہائی
سکول سہگل آباد میں کلرک بھرتی ہو گئے، 80 روپے ان کی تنخواہ مقرر ہوئی‘
اُنہوں نے محنت کی اور آخرکار وہ اسی ہائر سیکنڈری سکول میں پرنسپل کے عہدے
پر پہنچ کر ریٹائر ہوئے‘ اُنہوں نے 40 سال تعلیم کے شعبہ میں خدمت کی‘ اُن
کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے‘وہ ریٹائرڈ ہوئے تو اُن کے شاگردوں نے
ان سے الیکشن لڑنے کی درخواست کی مگر انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ
میں عوام سے اپنی خدمات کا صلہ نہیں چاہتا، حالانکہ اگر وہ الیکشن لڑتے تو
شاید بلامقابلہ منتخب ہو جاتے۔والد صاحب نے کبھی ٹیوشن نہیں پڑھائی‘ اُن کا
کہنا ہے جو استاد اپنے ہی شاگردوں کو ٹیوشن پڑھاتا ہے وہ استاد نہیں تاجر
ہے ،وہ اپنی نالائقی پر خود مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ ہمارے والد صاحب نے جو
کمایا وہ ہم پر خرچ کیا کچھ بچا کے نہیں رکھا اُنہوں نے ہمیں اچھی تعلیم
دلوائی اور ہر طرح سے ہمارا خیال رکھا۔ آج ہم سب بھائی الحمد اللہ ایک با
عزت زندگی بسر کر رہے ہیں‘ ہم سمجھتے ہیں ہمارے والد صاحب نے جس راستے کا
انتخاب کیا تھا وہی راستہ صحیح تھا‘ اُن کے وہ ساتھی جو کسٹم اور دیگر”
اوپر کی کمائی “والے محکموں سے ریٹائرڈ ہوئے ‘اُنہوں نے بڑی دولت کمائی مگر
زندگی کے آخری لمحات میں وہ افسوس کرتے تھے۔وہ کہتے تھے ہائے اُن کی دولت
نے اُنہیں سوائے دکھوں اور پریشانیوں کے اور کچھ نہ دیا، وہ کہتے تھے ہماری
اولاد کو ہم سے نہیں بلکہ ہماری دولت سے پیار ہے، لوگ ہماری دولت کی وجہ سے
منہ پر ہماری تعریف کرتے ہیں اور پیٹھ پیچھے برائیاں کرتے ہیں، اپنے اور
پرائے ہمیں نہیں بلکہ ہماری دولت کوسلام کرتے ہیں، ہم مر جائیں گے تو
ورثاءہمیں بھول کر جائیداد کی تقسیم میں لگ جائیں گے، کاش ہم حرام نہ
کماتے‘ کاش ہم رشوت نہ لیتے‘ کاش ہم غفلت کی زندگی نہ گزارتے اور یہ کاش
کاش کرتے اُن میں سے اکثر اِس دنیا سے چلے گئے!میں نے سوچااور غور کیا تو
مجھے یہی بات سمجھ آئی کہ انسان کو غلط کام نہیں کرنے چاہئیں،حرام مال اور
سود سے ہر صورت اجتناب کرنا چاہیے،رشوت کبھی نہیں لینی چاہیے ‘برے کاموں سے
دور رہنا چاہیے، اِس لئے کہ برائی کا نتیجہ کبھی اچھائی کی صورت میں نہیں
نکلتا،کیکر کے درخت پر کبھی آم نہیں لگا کرتے۔جی ہاں اگرکوئی شخص سانپ کے
منہ میں انگلی دے یا بجلی کی ننگی تاروں کو ہاتھ میں پکڑ کر زندگی کی دعا
مانگے تو اس سے بڑھ کر بے وقوف کون ہوگا؟
ہم اپنے کو خوش قسمت اور خوش نصیب سمجھتے ہیں ہمارے والد محترم نے نہ حرام
کمایا اور نہ ہمیں حرام کھلایا‘ انہوں نے رشوت لے کر ہماری ضرورتیں پوری
نہیں کیں، ہماری خواہشات کو پورا کرنے کی خاطر دوسروں کے مال پر ڈاکہ نہیں
ڈالا‘ انہوں نے ہمیں خود داری سکھائی‘ ہمیں سچ بولنا سکھایا‘ جرات مندی اور
بہادری سے جینے کا درس دیا اور محنت کا عادی بنایا‘ ہم سمجھتے ہیں ہمارے
والد صاحب نے جوکچھ ہمیں دیا اِس سے بڑھ کر کوئی والد اپنی اولاد کو اور
کیادے سکتا ہے؟ آج ہم دل کی گہرائیوں سے اپنے والد صاحب کےلئے دعا گو ہیں،
ہم اُن کے احسان مند اور شکر گزار ہیں اُنہوں نے ہمیں وہ کچھ دیا جس کاآج
کے دور میں تصور بھی دشوار ہے ہمارے والدِ محترم نے جیسی زندگی گزاری ہمیں
اُس پر ناز ہے‘ اُنہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا آج کے دور میں بھی شرافت
اور ایمانداری سے زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ہمارے والدِ محترم اِس دنیا میں
اپنی زندگی کا سفر مکمل کر کے 14رمضان المبارک 1432ھ بمطابق 15اگست
2011ءبروز پیر ہم سے جدا ہو گئے،اللہ رب العزت انہیں جنت الفردوس عطا
فرمائے!کاش ہم بھی ان جیسی زندگی بسر کرسکیں!!! |