دنیا کے پاس اس قدر وسیع علم کے خزانے موجود ہیں کہ ہر
کوئی اپنے علم سے دوسرے کو مغلوب کرنے دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش میں
لگا ہوا ہے ۔ یہ وہ دنیا ہے جس میں حوصلہ افزائی کرنے والوں کی تعداد اتنی
سی ہے جسے انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے. جب کہ وہ لوگ جو ہمیشہ حوصلہ شکنی
اور دوسروں کو گرانے کے در پہ ہوتے ہیں، کثرت میں پائے جاتے ہیں. یہ ہر
زمانے کا قصہ رہا ہے ۔ ہر طرف ایک بے ہنگم شور شرابا برپا ہے ۔ ہمیں لگتا
ہے کہ ہماری گروتھ ہو رہی ہے ہم روز نت نئی چیزیں سیکھ رہے ہیں۔ آج کل کے
بچوں کو ہم سے زیادہ وہ سہولیات میسر ہیں جن کا ہمیں علم بھی نہیں ہوتا تھا
۔ ہم پھر بھی کوئی شکایت زبان پر نہیں لاتے تھے ۔ ہم تو بہت چیزیں برداشت
کر لیتے تھے۔ لیکن نجانے کیوں آج کی نوجوان نسل پھر بھی اتنی آزادی اور
سہولیات کے باوجود مطمئن اور پر سکون نظر نہیں آتی ۔ بظاہر چھوٹی چھوٹی
چیزیں ہمارے اندر بہت بڑی تبدیلیاں لانے کا سبب بن رہی ہیں ، ہماری آنے
والی نسلیں ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہوتی جا رہی ہیں ۔ موذی بیماریاں
بڑھتی جا رہی اور عمریں کم ہوتی جا رہی ہیں ۔ نیندوں کی جگہ بے سکونی اور
ٹینشن نے لے لی ہے ۔ ہم نے اپنے ساتھ وقت گزارنا چھوڑ دیا ہے دوسروں کو
اتنا قدر سنا ہے کہ اپنی سننا بھول گئے ہیں۔ ہم تو سچ میں غلام ہوتے جا رہے
ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دراصل بات کچھ یوں ہے کہ..۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہم دو احساسات کے درمیان جھول رہے ہیں ؛؛ کبھی کبھی.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں
محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک بلندوبالا پہاڑ ہیں جو ہوا کا مقابلہ کرتے ہیں.
اور کبھی کبھی............................. ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک
نازک شاخ ہیں جسے ہلکی سی نسیم بھی ہلا دیتی ہے...
پھر................................
ہماری حالت خاموشی کے اس گمنام گوشے میں کئی کھو سی جاتی ہے جہاں احساس
ہمیں اس بے نام جگہ لے جا کر قید کر دیتا ہے یہاں سے رہائی ممکن نہیں ہے .
سوشل میڈیا کے اس پر اسرار دور میں وائرل ہونے کے چکر میں لہجوں کی مٹھاس
کڑواہٹ میں بدل گئی ہے ۔ حسنِ ذوق اور شخصیت بھی کھو گئی ہے۔ ماضی سے لے کر
اب تک بدلتے رنگوں ، بدلتی فضاوٗں ، بدلتے رویوں کو دیکھ لیجیے اس وقت کی
کتابیں دیکھ لیجیے۔ تب ہر طرف پھر بھی محبت تھی۔ اب بے چینی ، بے سکونی کا
دور دورہ ہے۔ لٹریچر گواہ ہے کہ ٹیکنالوجی بڑھتی جا رہی اور سکون رفع ہوتا
جا رہا جو وقت ہم اپنے ساتھ گزارتے تھے اب دوسروں کے اشاروں کی مرہونِ منت
ہو کر رہ گیا ہے اور ہم کٹھ پتلی ۔ وہ ہمارا وقت نہیں ہے۔
یقین کیجیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دنیا کے جھمیلے ہم سے سب کچھ چھین کر لے گئے ہیں ۔۔۔۔۔
مگر زندگی کی تلخیوں کے ساتھ لڑتے ہوئے جینا ہی اصل امتحان ہے، رو ، چیخو،
چلاؤ مگر لڑو اور جیو۔۔۔..........
|