معاف کردینے کا عمل

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا اداب
قران مجید فرقان حمید کی سورہ حجر کی 85 ویں ایت میں ارشاد باری تعالی ہے کہ

" وَ اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ"(85)
ترجمعہ کنز العرفان:
اور بیشک قیامت آنے والی ہے تو تم اچھی طرح درگزر کرو۔
اسی طرح قران مجید فرقان حمید کی سورہ الشوری کی آیت 42 میں ارشاد باری تعالی ہے کہ

" وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ" (40)
ترجمعہ کنز العرفان:
اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنواراتو اس کا اجر اللہ پر ہے، بیشک وہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والو سورہ الحجر کی اس ایت کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ انسان کی زندگی کے دن بہت قلیل ہیں اور انسان کو سوچنا چاہیے کہ اپنی اس مختصر زندگی میں ہر ایک سے حسن اخلاق کے ساتھ رہے اور اپنا وقت درگزر کے ساتھ گزارے کہ جو لوگ درگزر کرنے والے ہیں ایک دوسرے کو معاف کرنے والے ہیں اللہ ان کے ساتھ ہے اور وہ فرماتا ہے کہ بے شک یاد رکھو قیامت انے والی ہے۔ اسی طرح سورہ الشوری کی اس ایت کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ زندگی میں انسان جب کسی کے ساتھ برائی کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالی کے پاس اس برائی کا بدلہ موجود ہوتا ہے اور وہ جو معاف کرنے والا ہے وہ اپنے کام کو سنوارتا ہے اپنی زندگی کو سنوارتا ہے اس کا بھی اجر اللہ کے پاس محفوظ ہے اور یاد رکھو کہ وہ رب ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میری اج کی اس تحریر کا عنوان ہے معاف کر دینے کا عمل ہمارے اس معاشرے میں یہ عمل بہت کم دکھائی دیتا ہے لیکن میری کوشش ہوگی کہ میں اپنی اس تحریر سے ان لوگوں کے اندر بھی یہ جذبہ پیدا کروں کہ جو لوگ معمولی معمولی باتوں پر ایک دوسرے سے ناراض ہوتے ہیں اور کئی کئی دن کئی کئی ہفتوں اور کئی کئی سالوں تک ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کرتے یا دور دیتے ہیں وہ بھی معاف کرنے کے عمل کو اپنائیں اپنی زندگی کو سنواریں اور اللہ کے احکام پر عمل کر کے بروز محشر اس سے اجر پائیں ایک بہت ہی پیاری حدیث جو حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کیا ہو تو اسے چاہیئے کہ اس سے معاف کرا لے کیونکہ بروز محشر درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کا بدلہ چکانے کے لیے اس کی نیکیوں سے کچھ نیکیاں یا ساری لے لی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں نہیں ہوں گی تو مظلوم کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔“۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی پر ظلم کیا تو بروز محشر درہم یا دینار سے معاملہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس کی نیکیاں دوسروں کو دے دی جائے گی اور اگر اس کے پاس کوئی نیکی نہ ہوئی تو کسی بھی مظلوم کی برائیاں اس کے کھاتے میں ڈال دی جائیں گی اور پھر وہ صرف اور صرف جہنم کا حقدار ہوگا لہذا سرکار علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ زندگی میں ہی یعنی اس دنیا میں ہی دوسروں کو معاف کر دو اور حساب کتاب صاف کر دو تاکہ بروز محشر اللہ تعالی کے سامنے سرخرو ہو سکو۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جیسا کہ اپ جانتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی اپنے بندوں سے 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے اس کی تمام صفات میں سے ایک صفت عفو و درگزر بھی ہےیعنی مجرم، خطاکار اور سزا و عذاب کے مستحق کو معاف کرنے والا اور اس کی نافرمانی، خطاؤں اور گناہوں سے درگزر کرنے والا۔ جرم، غلطی اور نافرمانی کے باوجود سخت برتاؤ کے بدلے نرمی و محبت سے پیش آنے والا۔ اور اس نے اپنی تمام یہ صفات اپنے حبیب کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو عطا کر دی عفو و درگزر کی اپ سرکار مدینہ علیہ الصلوۃ والسلام ایک واضح دلیل تھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ ﷺکو دکھوں، مصیبتوں، پریشانیوں اور مشکل حالات سے دوچار کرنے والے، رنج و غم اور تکالیف میں مبتلا کرنے والے،آپ ﷺ کو ہر طرح کی اذیتیں دینے والے، مارنے پیٹنے والے، گردن مبارک میں کپڑے اور رسیاں ڈال کر بھینچنے اور بَل دینے والے،آپ ﷺ کے مقدس جسم کو تیر و تفنگ، نیزوں اور پتھروں سے لہولہان کرنے والے، ذہنی کوفت دینے والے، ساحر، مجنون اور دیوانہ جیسے ناپاک جملے کسنے والے، آپﷺ کو ہجرت پر مجبور کرنے والے، آل و اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کرنے والے، حتی کہ آپ ﷺ کی جان کے پیاسے اور کھانے میں زہر دینے والے لوگ جب مفتوح، جنگی قیدی اور بے بس ہو کر مکمل طور پر آپ ﷺ کی دست رس میں آئے تو آپﷺ نے انہیں نہ صرف یہ کہ دل و جان سے معاف کر دیا، بلکہ اپنے سینے سے لگایا اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ جو کبھی اسلام کو دیس سے نکال دینا چاہتے تھا اسلام نے خود انہی کے دلوں میں ڈیرا ڈال دیا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ واقعہ صلح حدیبیہ کا واقعہ ہے جو تاریخ اسلام میں سرکار مدینہ علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت سے عفو و درگزر کا بڑا واضح اور کھلا واقعہ ہے اور رہتی قیامت تک انے والے انسانوں کے لیے یہ ایک بہترین مثال ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے قران مجید فرقان حمید میں اور سرکار مدینہ علیہ الصلوۃ والسلام نے کئی احادیث مبارکہ میں انسانوں کو عفو و درگزر کی تلقین کی اور ایک دوسرے کو اپنے زندگی میں ہی اس عارضی دنیا میں ہی معاف کرنے اور درگزر کرنے کی تلقین کی ہمیں بے شمار ایت مبارکہ اور احادیث مبارکہ ملتی ہیں جن میں ان باتوں کی تلقین کی گئی جیسا کہ
"حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی :اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، تیرے بندوں میں سے کون تیری بارگاہ میں زیادہ عزت والا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’وہ بندہ جو بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود معاف کر دے۔"
( شعب الایمان 7974).
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارا دین یہ کہتا ہے کہ اپنے ان بہن بھائیوں عزیز رشتہ داروں اور اور دوست احباب جن سے اگر کوئی غلطی ہو گئی کوئی ناراضگی ہو گئی اب چاہے قصور ان کا ہی کیوں نہ ہو اپ اگے بڑھ کر انہیں معاف کر دیں سرکار مدینہ علیہ الصلوۃ والسلام کی حدیث مبارکہ ہے کہ وہ مسلمان مومن نہیں ہو سکتا جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان یا مومن محفوظ نہ ہو تو اب ذرا سوچیے کہ ہم اگر سامنے والے کو معاف نہیں کریں گے تو پھر ہم مومن کیسے بنیں گے جیسا کہ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی ( مسلمان) کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق کرے دونوں آپس میں ملیں تو یہ اس سے منہ موڑے اور وہ اس سے منہ موڑے اور ان دونوں میں سے بہتر وہ آدمی ہے کہ جو سلام کرنے میں ابتداء کرے۔
( صحیح المسلم حدیث 2031)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی معاملے میں آپ حق پر ہیں اور آپ کا مسلمان بھائی غلطی پر ہے پھر بھی اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جھگڑا چھوڑ دیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے شخص کو جنت میں گھر کی ضمانت دی ہے یاد رکھیے دنیا میں اگر اپ نے کسی کے ساتھ زیادتی کی تو اللہ تبارک و تعالی بھی بروز محشر اپ کو اس وقت تک معاف نہیں کرے گا جب تک وہ انسان اپ کو معاف نہیں کرتا اسی لیے کہا گیا اور دین اسلام نے ہمیں یہی سکھایا کہ زندگی میں اس دنیا میں رہتے ہوئے ہر ایک کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش اؤ غلطی ہو جائے تو فوری طور پر معافی مانگ لو چاہے غلطی سامنے والے کی ہو یا اپ کی معافی مانگ لو اور اسی دنیا میں اس سے چھٹکارا حاصل کر لو کہ بروز محشر اس وقت معافی نہیں ملے گی جب تک سامنے والا معاف نہ کرے معاف کر دینے کا عمل اور غصے کے وقت غصے کو پی جانے کا عمل بہت بڑی بہادری ہے.
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک حدیث کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ مَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ اِلَّا عِزًّا
یعنی اللہ رب العزت انسان کے کسی کو معاف کردینے سے اس کی عزت میں اضافہ کردیتا ہے۔
( مسلم ص 1071 حدیث نمبر 6592)۔
دراصل ہمارے آج کے معاشرے میں انسان یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر ہونےوالی رنجش کا بڑے سے بڑا بدلہ لینا چاہئے یعنی اگر سامنے والا معاشی طور پر آپ سے کمزور ہو تو اسے ذلیل و رسوا کر کے کسی کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑے اور اس طرح اپنی عزت اس معاشرے میں بنالے عزت کے اس معیار کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر گالی گلوچ لڑائی جھگڑا اور بات قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی تیسرا شخص بیچ بچائو کرواکر صلح کروا بھی دیتا ہے تو معاف کرنا صرف زبانی کلامی کی حد تک رہتا ہے دل میں بغض و کینہ باقی رہ جاتا ہے اور اگر یہ سلسلہ باقی رہا تو نہ ہماری کوئی عزت کرے گا اور نہ ہی ہم کرپائیں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو لیکن جب ہم ہمارے پیارے اور میٹھے میٹھے اقا حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی طرف دیکھتے ہیں اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سرکار مدینہ علیہ الصلوۃ والسلام انہوں نے اتنی جنگیں لڑی اور اپنے دشمن فرعون ابو جہل کے بیٹے کو بھی معاف کر دیا جنہوں نے اپ کو شدید تکلیفیں پہنچائی مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت سیدنا عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ دائرہ اسلام میں داخل ہو کر بڑے عظیم اور جاں نثار صحابی بنے اور بالاخر ایک جنگ میں لڑتے ہوئے شہادت کا رتبہ پایا معاف کرنے کی اس سنت مبارکہ کو اگر ہم بھی اپنالیں تو عزت و وقار سے ہمارا بھی مقام بلند ہو جائے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک بزرگ اپنے دینی مدرسے کے لئے چندہ اکٹھا کررہے تھے اس مقصد کے لئے وہ ایک بڑی سی دکان پر گئے جہاں کافی رش تھا سلام دعا کے بعد جب مالک نے ( جو پہلے ہی غصہ میں تھا ) کہا کیا بات ہے ؟ تو ان بزرگ نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو اس دکاندار نے ان بزرگ کے منہ پر تھوک دیا لوگوں کے درمیان اس دکاندار کی اس حرکت کی ان بزرگ کو بالکل امید نہیں تھی لیکن انتہائی صبرو تحمل کے ساتھ جیب سے رومال نکالا اور اپنے منہ کو صاف کیا اور پھر اس دکاندار سے مخاطب ہوکر مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ تحفہ تو میرے لئے تھا اب میرے دینی ادارے کے لئے کیا دیں گے یہ محبت بھرا انداز اور تحمل سے بھرا لب و لہجہ دکاندار پر بجلی بن کر گرا اس کا غصہ اس طر ح بیٹھ گیا جیسے کچھ تھا ہی نہیں وہ شرم سے پانی پانی ہورہا تھا اور اٹھ کر ان بزرگ کے گلے لگ گیا اور کہنے لگا کہ مجھے معاف کردیں مجھے آپ کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا میری غلطی تھی مجھے معاف کردیں اور آپ جتنی رقم بولیں میں دے دیتا ہوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایسے واقعات پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اگر معاف کردینے کا ایک رواج قائم ہو جائے تو اس معاشرے میں کتنا امن و سکون ہو جائے اور یہ معاشرہ امن کا ایک عظیم گہوارہ بن جائے کیونکہ دیکھا یہ ہی گیا ہے کہ بدلہ لینے سے نفرت کی چنگاری اور بھڑک جاتی ہے جبکہ معاف کردینے سے اس کے مثبت اثرات نظر آنے لگتے ہیں یہ ہی وجہ تھی کہ فتح مکہ کے روز عام معافی کے اعلان نے کفار مکہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے جاں نثار اور اطاعت گزار بنادیا ایک مشہور کہاوت ہے کہ " اچھائی کیجئے اچھا محسوس کیجئے " اور یہ کہاوت کتنی حقیقت پر مبنی ہے واقعی جب ہم کوئی اچھا کام کرتے ہیں تو ہمیں قدرتی سکون نصیب ہوتا ہے اور ہمیں سب کچھ اچھا لگنے لگتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ائیے اب ہم معاف کر دینے کے عمل کو غیر مسلم کی نظروں میں دیکھتے ہیں کہ غیر مسلم لوگ معاف کر دینے کے عمل کے بارے میں کیا کہتے ہیں اور کیا سوچ رکھتے ہیں دنیا کے قدیم ترین ہندودھرم میں معاف کرنااہم ترین روحانی صفت ہے، ہندو دھرم کے مطابق جو انسان معاف کرنا نہیں جانتا، وہ دراصل ماضی کی تلخ یادوں کو دماغ میں بسائے اپنی اور دوسروں کی زندگیاں اجاڑتا ہے، بدلے کی منفی خواہش غصہ، مایوسی،حسد اور دیگر ذہنی امراض کا باعث بنتی ہے۔ عیسائیوں کی مقدس کتاب بائبل میں واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ انسانوں کو چاہیے کہ وہ دوسرے انسانوں کی غلطی کو معاف کر دیں کیونکہ رب تعالی جب اپنے بندے کی بڑی سے بڑی غلطی اور خطا کو معاف کر دیتا ہے تو ہم تو اس کے بندے ہیں ہمیں فوری طور پر سامنے والے کی غلطی کو معاف کر دینا چاہیے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جنوبی افریقہ کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں عظیم لیڈر نیلسن مینڈیلا نے نسلی امتیاز کے خلاف اپنی پرامن طویل جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرکے عام معافی اور درگزر کا راستہ اپنایا اوراپنے عظیم کردار سے یہ درس دیا کہ زندگی میں اگر گر کر اٹھنا عظمت کی نشانی ہے، مینڈیلا کہا کرتے تھے کہ عظیم لوگ اعلیٰ مقصد کیلئے معاف کرنے سے کبھی گھبرایا نہیں کرتے، اگر آپ اپنے دشمن کے ساتھ امن چاہتے ہیں تو اس کو اپنا شراکت کار بنا لیں۔
امریکہ کے سولویں صدر ابراہیم لنکن ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ میں اپنے دشمن کو دوست بنا کر دشمنی ختم کرنے کا قائل ہوں۔
امریکہ کے ایک اور عظیم لیڈر ابراہم لنکن نے سیاہ فارم غلامی کے خاتمے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا وہ کہتے تھے کہ میں ہر فورم پر اپنا یہ موقف پیش کرتا ہوں کہ کامیابیوں کے حصول کیلئے ہرمذہب کی اعلیٰ تعلیمات اور تاریخ کے عظیم انسانوں کی زندگیاں ہمارے لئے مشعل راہ ہونی چاہئے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں صبر و تحمل عفو و درگزر اور معاف کر دینے کے عمل کی اللہ تبارک و تعالی نے اپنے بندوں کو قران مجید فرقان حمید میں کئی جگہوں پر تلقین کی نہ صرف اپنے بندوں کو بلکہ اس رب تعالی نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو بھی اس بات کی تلقین کی سورہ اعراف کی 199 ایت میں ارشاد باری تعالی ہے کہ
خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ
ترجمعہ کنزالایمان:
اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔
غلطی ہو یا نہ ہو اگے بڑھ کر ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے معافی مانگنا ہمارے بابا حضرت ادم علی نبینا علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت مبارکہ ہے اور غصے کے وقت غصہ ضبط نہ کر کے بدلہ لینے کی خواہش دل میں کرنا شیطان یعنی ابلیس کی عادت ہے قران مجید فرقان حمید میں رب تعالی کے فرامین ہماری زندگی کو صحیح سمت لے جانے کے لیے بڑے مددگار ثابت ہوتے ہیں جبکہ سرکار مدینہ علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی ہماری زندگی کی کامیابی کے لیے بیش بہا نمونہ ہےحضور نبی اکرم ﷺ کی پوری زندگی جہاں قیامت تک ہمارے لیے مشعلِ راہ اور کامل نمونۂ حیات ہے وہاں آپ ﷺ کی پوری زیست مقدس عفو و درگزر اور رواداری سے عبارت ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں زندگی اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے مگر صرف ان کے لئے جو اس رب تعالی کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر اپنی زندگی گزارتے ہیں اپنی زندگی میں عفوودرگزر صبر وتحمل ، غصہ پر قابو پانا اور ہر حال میں دوسروں کو معاف کردینے کے عمل کو اپناتے ہیں تو دنیا کی یہ عارضی زندگی اور ہمیشہ قائم رہنے والی قیامت کی زندگی بھی ایسے لوگوں کے لیے پھولوں کی سیج سے کم نہیں اور جو ایسا نہیں کرتے وہ اس دنیا میں بھی پریشان رہتے ہیں اور آخرت میں بھی ان کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔لہذہ آپ جسے جانتے ہیں یا نہیں جانتے سب کے لئے اپنے دل کو صاف رکھیں غلطی آپ کی ہو یا سامنے والے کی خود جھکنا اور معاف کرنا سیکھیں عفوودرگزر سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھ کر دوسروں کو گلے لگائیں اور اللہ تعالی کے دوست بن جائیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اپنی زبان سے یہ جملہ ادا کرنا کہ " میں نے تمہیں معاف کیا " بہت مشکل ہے لیکن ہر مشکل کام میں ہی اسانی ہے اپنی زندگی میں معاف کرنے کی عادت کو اپنائے عفو و درگزر سے کام لیں دنیاوی لوگوں میں بھی اپنی عزت بنائیں اور اللہ تبارک و تعالی اور اس کے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی نظروں میں بھی اپنے مقام کو بلند کروائیں اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ اللہ اس معاشرے میں اپنی زندگی کو گزارتے ہوئے ہمیں صبر و تحمل اور معاف کر دینے کے عمل پر اپنی زندگی کو گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور سرکار مدینہ علیہ الصلوۃ والسلام کی سنتوں پر عمل کر کے اپ کی زندگی کو اپنانے کی کوشش کر کے ان پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے امین امین بجاءالنبی الکریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 168 Articles with 135718 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.