ہماری زندگی پر احادیث کا اثر ( گیارہواں حصہ)

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا اداب
ہماری زندگی پر احادیث کا اثر کے عنوان سے جو سلسلہ ہم نے شروع کر رکھا ہے اج اس سلسلے کی گیارویں تحریر یعنی حدیث نمبر 11 کے بارے میں ہم پڑھیں گے اج کی اس حدیث میں دیانت داری اور ایمانداری پر بیان کیا گیا ہے حدیث مبارکہ ہے کہ " حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا“۔
( جامع ترمذی حدیث نمبر 1209)

ایمانداری میں لفظ ایمان شریعت کی ایک اہم اصطلاح ہے جس کے لغوی معنی تصدیق کرنے یعنی سچا ماننے کے ہیں جبکہ دوسرے لغوی معنی امن دینا کے ہیں لہذہ اصطلاح شرع میں ہر وہ بات جو ضروریات دین کے متعلق ہوں ان کی تصدیق کرنا ایمان کہلاتا ہے ایمان کا الٹ یعنی ضد کفر ہے ایمانداری جسے انگریزی میں Honesty کہا جاتا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص ایمان اور اخلاص قلب سے کسی بھی طرح کی بددیانتی کے احساس کے بغیر اپنے فرائض کو بخوبی انجام دے اس کو ایمانداری کا نام دیا جاتا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اکثرو بیشتر ہمیں ہمارے بڑے ایمانداری اور دیانتداری کے قصے ، واقعات اور کہانیاں سناتے آئے ہیں جبکہ ہم جب تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتا ہیں تو ہمیں کئی انبیاء کرام علیہم السلام ، صحابہ کرام علیہم الرضوان تابعین بزرگ ، اولیاء کرام ، بزرگان دین اور عام لوگوں کے بارے میں ایمانداری اور دیانتداری کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں اور انہیں پڑھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ایمانداری اور سچائی کے سبب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کتنے اور کیسے اجر سے نوازتا ہے اور اپنی نعمتوں کے ذریعے انہیں کیسے کیسے انعام و اکرام سے نوازتا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ایک نام ملتا ہے خسرو اول، جس کو عرب کسریٰ کہتے ہیں، خاندان ساسان کا سب سے نامور بادشاہ گذرا ہے۔ اسے نوشیرواں کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کے عہد میں عدل و انصاف کو عالمگیری شہرت حاصل ہوئی۔ نوشیروان عادل کے نام سے عدل اب تک ضرب المثل ہے۔ فتوحات اور سیاسی طاقت کے لحاظ سے بھی اس کے عہد کو اہمیت حاصل ہوئی۔ نوشیرواں عادل اکثر راتوں کو بھیس بدل کر اپنی رعایا کا حال احوال دیکھا کرتا تھا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دن باشاہ اسی طرح رات کے گشت پر تھا کہ اس کا گزر ایک زمیندار کے گھر کے قریب سے ہوا بادشاہ نے دیکھا کہ وہ زمیندار مہمان نوازی میں مصروف تھا بادشاہ نوشیرواں عادل ایک سوداگر کے روپ میں وہاں پہنچا اور دروازے پر دستک دی حالانکہ دروازہ کھلا تھا وہ زمیندار آیا اوروہ ایک مسافر سمجھ کر بادشاہ کو اندر لے گیا بادشاہ کی خوب خدمت کی اور مہمان نوازی پر بادشاہ کا دل جیت لیا لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ جس کی خدمت میں لگا ہوا ہے وہ بادشاہ وقت ہے کھانا کھلانے کے بعد اس نے بادشاہ کی خدمت میں ایک چارپائی پیش کی اور کہا کہ آرام کر لیجئے اور یوں اس نے بادشاہ کو سلادیا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں صبح ہی صبح اٹھ کر مہمان یعنی بادشاہ چلنے کی تیاری کرنے لگا تو زمیندار نے کہا کہ کچھ اور چاہئے تو فرمائیں تاکہ حاضر کرسکوں بادشاہ نے دیکھ لیا تھا کہ اس کے گھر ساتھ ایک بہت وسیع ، عمدہ اور خوبصورت انگوروں کا باغ ہے لیکن اسے حیرت تھی کہ اس زمیندار نے مہمان کو انگور نہیں پیش کئے تو کہا کہ مجھے انگور بہت پسند ہیں اگر ہوسکے تو کھلا دیجئے تو اس زمیندار نے اسی وقت اپنے نوکر کو بلاکر کہا کہ فلاں زمیندار کے پاس جائو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ ایک دو سیر اچھے اور پختہ انگور ادھار کے طور پر دے دے تو بادشاہ نے اس کی بات سن کر کہا کہ تم اپنے باغ کے انگور کیوں نہیں کھلاتے ہیں ؟ تو زمیندار نے کہا کہ ابھی سرکاری آدمی انہیں دیکھ کر سرکاری حصہ (مالگزاری) نہیں لے گیا اور جب تک وہ اپنا حق نہ لے لے مجھے ایک دانہ بھی کھانا اور کھلانا حرام ہے۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بادشاہ تو اس کے برتاؤ سے پہلے ہی متاثر اور خوش تھا اب یہ ایمانداری اور دیانت داری جو دیکھی تو اور بھی خوش ہو گیا اس نے واپس آکر اس زمیندار کی مالگزاری ہمیثہ ہمیشہ کے لئے معاف کردی اور بادشاہ یعنی نوشیرواں عادل کو اطمینان ہوگیا کہ اس کی رعایا میں ایمانداری ، سچائی اور دیانتداری کا جذبہ موجود ہے ایمانداری کے ایسے جذبہ سے اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوکر اپنے بندوں کو کسی نہ کسی وسیلے سے انعامات سے نوازتا ہے جس کی مثالیں ہمیں قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں جگہ جگہ نظر آتی ہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں البخاری شریف کی ایک حدیث کے مطابق کی جب ایک بدو نے سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ جب سچ کا خاتمہ ہوگا اور دنیا میں سب نہیں رہے گا پھر پوچھا گیا کہ سچ کیسے ختم ہوگا ؟ تو فرمایا کہ جب جھوٹے لوگ حکمران بنیں گے ۔گویا معلوم یہ ہوا کہ سچ اور ایمانداری کا خاتمہ قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ہیں وجہ یہ کہ ہر معاشرے میں ایمان داری اور سچائی انسانی تعلقات میں خشت اول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں ایمان داری نہ رہے‘ تو پھر وہ جھوٹ و مکاری کانشانہ بن کر زوال پذیر ہو نے لگتا ہے۔ مفکرین کے نزدیک بھی عقل و دانش کا پہلا باب ایمان داری ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آئیے اب میں آپ کو ایمانداری پر ایک نہایت ہی دلچسپ اور حیرت انگیز معلومات بتاتا ہوں غور سے پڑھئے گا 2013 میں گوٹلیب ڈٹ ویلر انسٹی ٹیوٹ کے کچھ ماہرین نے ایک میٹنگ کی جس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ کسی معاشرے کی ترقی میں ایمانداری کا کتنا رول ہے معلوم یہ ہوا کہ جس معاشرے میں ایمانداری کا عنصر موجود ہے تو وہی معاشی طور پر ترقی بھی کرے گا اور اس کے باقی ماندہ پرزے بھی صحیح طور پر کام کریں گے جبکہ جس معاشرے میں جھوٹ اور بےایمانی کا عنصر نمایاں ہوگا تو معاشرہ ترقی بھی نہیں کرے گا اور غربت بھی وہاں زیادہ ہوگی۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پھر ان ماہرین نے اپنی تحقیق کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک تجربہ کیا کہ دنیا کے 40 ممالک کے 355 شہروں میں ایک انوکھا تجربہ کیا جائے وہ یہ کہ عوامی مقامات مثلاً سرکاری دفاتر‘ بینکوں‘ دکانوں‘ ڈاک خانوں‘ ہوٹلوں ‘ عجائب گھروں وغیرہ میں نقدی سے بھرے یا پھر خالی بٹوے زمین پر پھینک دیئے جائیں۔بٹووں میں رابطہ نمبر اور ای میل ایڈریس بھی رکھے گئے۔تجربے سے یہ دیکھنا مقصود تھا کہ کتنے لوگ سچائی و ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بٹوے واپس کرتے ہیں۔ جبکہ ایسے کتنے فیصد لوگ ہیں جو مکاری و بے ایمانی دکھاتے ہوئے بٹوے ہڑپ کرجائیں گے۔ ماہرین می اس ٹیم نےاپنے تجربے کی خاطر تمام 40 ممالک میں مقامی سماجی تنظیموں کی خدمات حاصل کر لیں۔ چنانچہ تنظیموں کے کارکنوں کی مدد سے جولائی 2013ء تا دسمبر2016ء، تقریباً ساڑھے تین سال تک یہ تجربہ تین سو پچپن شہروں میں دہرایا گیا۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس تجربے کو لیکر کم و بیش 17 ہزار بٹوے مختلف مقامات پر چھوڑے گئے جس کے نتائج کچھ عرصہ میں آنا شروع ہوگئے جس یہ پتہ چلا کہ انسان کے اندر ہر وقت خیر اور شر کی جنگ جاری رہتی ہے بھرے بٹوؤں میں کم و بیش 14 ڈالر کے برابر مقامی رقم رکھی گئی جبکہ خالی بٹوؤں میں صرف پتے کی تفصیل والا کارڈ موجود تھا۔ ہر شہر میں دوسو نقدی سے بھرے جبکہ دو سو خالی بٹوے عوامی مقامات پر چھوڑے گئے۔ اس کے بعد انتظار کیا گیا کہ بٹوہ اٹھانے والا کب دیئے گئے ٹیلی فون نمبر یا ای میل پتے پر رابطہ کرتا ہے۔اس انوکھے تجربے میں ڈنمارک کے شہریوں نے اول نمبر پایا۔ وہاں بھرے بٹوے اٹھانے والے 82 فیصد مردوزن نے انہیں واپس کردیا۔ جبکہ خالی بٹوے واپس کرنے والوں کی شرح 72 فیصد رہی۔ اس کے بعد سویڈن کا نمبر رہا۔81 فیصد سویڈش شہریوں نے بھرے جبکہ 81 فیصد ہی نے خالی بٹوے واپس کیے۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دیگر پہلے پندرہ ممالک میں یہ تناسب رہا۔ سوئٹزر لینڈ (80 فیصد بھرے اور 73 فیصد خالی)، نیوزی لینڈ (80 فیصد اور 62 فیصد) ناروے (79 فیصد اور 72 فیصد)، جمہوریہ چیک (78 فیصد اور 62 فیصد) ،ہالینڈ (75 فیصد اور 71 فیصد)، پولینڈ (71 فیصد اور 68 فیصد)، آسٹریلیا (71 فیصد اور 53 فیصد)، جرمنی (67 فیصد اور 55 فیصد)، فرانس (61 فیصد اور 55 فیصد)، سربیا (57 فیصد اور 53 فیصد)۔ یہ تمام کے تمام غیر اسلامی ممالک تھے یہ تجربہ 6 اسلامی ممالک میں بھی کیا گیا لیکن بدقسمتی سے وہ سب کے سب آخری صف میں شامل ہوئے اب دیکھئے بے ایمانی کی شرح کیا ہوئی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں 40 ممالک میں پیرو کے باشندے سب سے زیادہ بے ایمان ثابت ہوئے وہاں صرف 13 فیصد لوگوں نے نقدی سے بھرے بٹوے واپس کئے جبکہ خالی بٹوے واپس کرنے کی تعداد 15 فیصد رہی اس کے بعد میکسیکو کا نمبر رہا۔ وہاں17 فیصد شہریوں ہی نے نقدی والے بٹوے واپس کیے جبکہ خالی بٹوے واپس کرنے کی شرح بھی محض 23 فیصد رہیآخری دس ممالک میں شہریوں کی ایمانداری کا تناسب یہ رہا: کینیا (19 فیصد بھرے اور 16 فیصد خالی)، چین (22 فیصد اور 8 فیصد) ،قازقستان (22 فیصد اور 14 فیصد) ،گھانا (23 فیصد اور 19 فیصد)، ملائشیا (24 فیصد اور 18 فیصد)، انڈونیشیا (33 فیصد اور 18 فیصد)، متحدہ عرب امارات (36 فیصد اور 16 فیصد)،چلّی (37 فیصد اور 35 فیصد)، جنوبی افریقہ (39 فیصد اور 29 فیصد)، تھائی لینڈ (41 فیصد اور 22 فیصد) اورترکی (42 فیصد اور 20 فیصد) ۔یہ تجربہ بھارت کے بڑے شہروں مثلاً ممبئی، نئی دہلی، کلکتہ اور بنگلور میں بھی کیا گیا۔ ان نگروں کے 45 فیصد باسیوں نے نقدی سے بھرے بٹوے واپس کردیئے جبکہ صرف 22 فیصد مردوں اور عورتوں نے خالی بٹوے واپس کیے۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب آپ خود سوچ لیجیے کہ اگر پاکستانی شہروں مثلاً کراچی، لاہور، راولپنڈی اور پشاور میں یہ تجربہ اپنایا جاتا تو کیا نتیجہ برآمد ہوتا۔ شاید بھارت کی طرح 45 فیصد پاکستانی ہی بھرے بٹوے واپس کرتے یا پھر اس بھی زیادہ بری حالت سامنے آتی یا پھر دینی جذبہ زیادہ پاکستانیوں کو ایمان داری برتنے پر ابھار دیتا؟ بحرحال گوٹلیب ڈٹ ویلرانسٹی ٹیوٹ کے ماہرین کے اس تجربہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ایک قوم کی معاشی ترقی کا ایمانداری سے بڑا گہرا تعلق ہے آپ دیکھ کیجئیے جن ممالک نے بھرے ہوئے بٹوے زیادہ واپس کئے وہ آج سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور خوش حال ہیں جبکہ پیرو ، گھانا اور میکسیکو جیسے ممالک آج بھی غربت اور مفلسی کا شکار ہیں غربت اور بھوک شیطان کا بہت بڑا اور مظبوط ہتھیار ہے جو ایک ایماندار اور دیانتدار انسان کو بھی کوئی گری ہوئی حرکت کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تجربے میں جو ممالک سرفہرست آئے، وہ ایک اور خاصیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ کہ وہاں قانون کی حکمرانی مضبوط ہے۔ ان ملکوں میں جہاں عوام اپنے حصے کے تمام ٹیکس دیانت داری سے ادا کرتے ہوں حکومتوں کو جو آمدن ہو‘ وہ کرپشن کی نذر نہ ہوتی ہو بلکہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جاتی ہو وہاں بیورو کریسی ہو یا نجی شعبہ‘ ہر کوئی اپنے فرائض ذمے داری سے انجام دیتا ہو غرض ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی اور خوشحالی کا راز یہ ہے کہ وہاں نہ صرف حکومتیں قانون کا سختی سے نفاذ کرتی ہیں بلکہ ہر شہری کو بھی احساس ہے کہ وہ اپنے کام ایمانداری سے کرے۔ اسی واسطے مملکت کی تمام سرگرمیاں بخیر و خوبی انجام پاتی ہیں۔

اب زرا اپنے پاک وطن کی حالت پر نگاہ دوڑایئے۔ یہاں بیشتر پاکستانی ایمانداری سے اپنے ٹیکس نہیں دیتے کیونکہ ان کا دعوی ہے‘ حکومت اور بیورو کریسی ٹیکسوں کی بیشتر رقم ہڑپ کر جاتی ہے۔ حکومت کو مطلوبہ رقم نہ ملے تو وہ قرضے لیتی ہے۔ انہی قرضوں نے اب پاکستانی حکومت کو اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ روز مرہ اخراجات بھی قرضے لے کر پورے ہو رہے ہیں۔ اس صورت حال میں کیا پاکستان جدید ترین اسلحہ خرید کر اپنا دفاع مضبوط بنا سکتا ہے؟ جبکہ مملکت کے مستحکم دفاع کی خاطر ہمارا معاشی طور پر طاقتور ہونا لازمی امر ہے۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تجربے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اسلامی معاشروں میں اخلاقیات اور ایمانداری کی کمی ہی امت مسلمہ کے زوال کی اہم وجہ ہے۔ پہلے جب مسلمان سادہ‘ قناعت پسند‘ جفاکش‘ دیانت دار اور معاملات میں کھرے تھے‘ انہوں نے دنیامیں سپر پاور کی حیثیت حاصل کر لی تھی لیکن جب وہ عیش و عشرت کی زندگی میں پڑھئے جھوٹ و فریب اور بے ایمانی میں گرفتار ہوئے‘ تو پستی کے گڑھوں میں جا گرے۔ اور یاد رکھئے کہ زوال سے نکلنے کا ایک بنیادی راستہ یہی ہے کہ اسلامی معاشروں میں دوبارہ ایمان داری‘ خلوص‘ اتحاد‘ بھائی چارے ‘ سادگی جیسی خصوصیات کو پروان چڑھایا جائے۔ اخلاقی طور پر باشعور ہونے اور ایمانداری سے مسلمان خود بخود قانون کا احترام بھی کرنے لگیں گے۔تبھی وہ دنیاوی کامیابی بھی حاصل کرسکتے ہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمیں اپنے غریبان میں بھی جھانکنا ہوگا کہ ہمارے ایک قوم کی حیثیت سے کیا ذمہ داریاں ہیں ؟ کیا ہمارے اعمال شریعت کے مطابق ہیں ؟ کیا ہمارے اندر ایمانداری اور سچائی کا جذبہ ہے ؟ کیونکہ قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا گیا کہ " تمہارے جیسے اعمال ہوں گے ویسے ہی حکمران تم پر مسلط کئے جائیں گے " لہذہ پہلے ہمیں اپنے اعمال درست کرنا ہوں گے جب ہمارا ایمان مظبوط ہوگا تو ایمانداری ہو گی اور جب ایمانداری ہوگی تو ہمارے اعمال بھی درست ہوں گے پھر صحیح حکمران بھی ہمارے اوپر مسلط ہوں گے جیسے ایک حدیث جو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کوئی خطبہ ایسا نہیں دیا جس میں یہ نہ فرمایا ہو کہ اس شخص کا ایمان نہیں جس کے پاس امانت داری نہ ہو اور اس شخص کا دین نہیں جس کے پاس وعدہ کی پاسداری نہ ہو۔
( مسند احمد 12383).

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایمانداری ہمارے لئے دنیا اور آخرت دونوں میں نجات کا ذریعہ ہے ایمانداری اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی نظروں میں عزت و وقار کا ذریعہ ہے ایمانداری دنیاوی لوگوں میں بھی عزت و وقار کا ذریعہ ہے ایمانداری ، دیانتداری اور وعدے کی پاسداری ہمارے لئے جنت کی طرف جانے کا راستہ ہے ۔ہمیں دنیا اور آخرت دونوں جگہ کامیابی کے لئے ایمانداری سے اپنی زندگی گزارنے عادت ڈالنا ہوگی اخر میں دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں اس دنیا میں ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور بروز محشر اس ایمانداری کے اجروثواب سے مالامال فرمائے زندگی میں اپنے احکامات پر عمل کرنے اور اس کے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔

 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 165 Articles with 133473 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.