انٹرنیٹ کی سست رفتار پر حکومت اور متاثرین ک ارد عمل

وزیر مملکت آئی ٹی و ٹیلی کمیونی کیشن شزہ فاطمہ خواجہ نے کہا ہے کہ ملک میں حکومتی سطح پر انٹرنیٹ بند کیا گیا اور نہ ہی اسے ’سلو ڈاؤن‘ کیا گیا ہے بلکہ انٹرنیٹ پر دباؤ کی وجہ بڑی تعداد میں صارفین کی جانب سے ’وی پی این کا استعمال ہے جس کی وجہ سے انٹرنیٹ سروسز متاثر ہوئیں‘ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شزہ فاطمہ کا کہناتھاکہ حال ہی میں انٹرنیٹ کی رفتار کو لے کر سوشل میڈیا اور میڈیا پر ایک پریشانی ظاہر کی گئی مگر یہ سراسر غلط ہے کہ انٹرنیٹ کو تھروٹل کیا گیا ہے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں وزیر تجارت جام کمال نے اعتراف کیا کہ فائروال اور نیٹ رفتار سست روی کا شکار ہونے کے باعث آئی ٹی کی برآمدات متاثر ہوئی ،چین اور سعودی عرب کی طرف سے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری سے برآمدات بڑھیں گی۔

کمیٹی ارکان نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فائروال اور نیٹ سست ہونے کے باعث آئی ٹی کی برآمدات متاثر ہوں گی جس کا وزیرتجارت نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ فائروال اور نیٹ رفتار کم ہونے کے باعث آئی ٹی سیکٹر کی برآمدات متاثر ہو رہی ہیں، آئی ٹی سیکٹر کی برآمدات متاثر ہونے سے برآمدات کا ہدف متاثر ہو سکتا ہے، آئی ٹی سیکٹر کی برآمدات متاثر ہونے کا ایشو وفاقی کابینہ میں اٹھایا جائے گا۔وفاقی وزیر برائے بحری امور قیصر احمد شیخ نے کہا ہے کہ حکومت شہباز شریف کی قیادت میں بندرگاہوں کی استعداد کار کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں، انٹرنیٹ متاثر ہونے سے جہاں ملک بھر میں کاروبار متاثر ہوا ہے اس کے اثرات کراچی پورٹ اورپورٹ قاسم پربھی پڑے ہیں

مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ انٹرنیٹ سست کرنے کے غیرآئینی اقدام سے عوام رل رہے ہیں۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر سیف نے کہا کہ سلو انٹرنیٹ سے آن لائن کاروبار کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔انہوں نے کہا کہ ملک میں سلو انٹرنیٹ نے ای کامرس ، ڈیجیٹل اور آئی ٹی سیکٹر کو تباہ کر دیا۔بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ دوسرے ممالک اپنے شہریوں کو فائیو جی اور جدید انٹرنیٹ سروس فراہم کر رہے ہیں، نااہل وفاقی ٹولے نے ملک کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان میں فائر وال اور انٹرنیٹ سست کرنے کے خلاف آواز بلند کریں۔

سینئر وائس چیئرمین پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن علی احسان نے بتایا ہے کہ ملک میں انٹر نیٹ میں خلل سے آئی ٹی انڈسٹری کو 30 کروڑ ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے۔ایک مارننگ شومیں گفتگو کرتے ہوئے ’ سینئر وائس چیئرمین پاکستان سافٹ ویئر ہاو?سز ایسوسی ایشن علی احسان نے یہ بات بتائی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ آئی ٹی سیکٹر میں بڑی کمپنیوں کی شکایات ہیں کہ ان کی لائنیں متاثر ہوئی ہیں، فائر وال سے متعلق ہم سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔علی احسان کا کہنا ہے کہ ہم مشاورت کرنا چاہتے ہیں، کام کرنا چاہتے ہیں، ہم ملک میں ڈالرز لے کر آتے ہیں۔سینئر وائس چیئرمین پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن نے مزید کہا کہ کل تک تو انٹر نیٹ کا مسئلہ حل نہیں ہوا تھا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاید کوئی تنصیب کی جا رہی ہے جو ٹھیک طریقے سے اینٹی گریٹ نہیں ہو رہا

سماجی کارکنوں اور تاجررہنماؤں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا گلا گھونٹ رہی ہے جبکہ وہ اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے نئے کنٹرولز کا تجربہ کر رہی ہے جس سے ملک کی معاشی بحالی خطرے میں پڑ رہی ہے۔

ایک آئی ٹی ایسوسی ایشن کے مطابق، جولائی کے بعد سے، انٹرنیٹ نیٹ ورک معمول سے40فیصد تک سست رہے ہیں جبکہ واٹس ایپ پر دستاویزات‘ تصاویر اور صوتی نوٹس میں خلل پڑا ہے، جسے لاکھوں لوگ استعمال کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل حقوق کے ماہرین کا خیال ہے کہ ریاست ایک فائر وال ٹیسٹ کر رہی ہے جو ایک حفاظتی نظام ہے جو نیٹ ورک ٹریفک کی نگرانی کرتا ہے لیکن اسے آن لائن جگہوں کو کنٹرول کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ڈیجیٹل حقوق کے ماہر اور کارکن اسامہ خلجی نے اے ایف پی کو بتایا کہ انٹرنیٹ کی سست روی ریاست کیجانب سے قومی فائر وال اور مواد فلٹرنگ سسٹم کی تنصیب کی وجہ سے ہے جس کا مقصد نگرانی کو بڑھانا اور سیاسی اختلاف رائے کو سنسر کرنا ہیبالخصوص سیاست میں مداخلت سے متعلق سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر ہونیوالی تنقید کو روکنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکام واٹس ایپ کو اس کی اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن صلاحیتوں کی وجہ سے نشانہ بنا رہے ہیں، جو صارفین کو کسی تیسرے فریق کے ذریعے اس تک رسائی حاصل کیے بغیر معلومات کو محفوظ طریقے سے شیئر کرنے کے قابل بناتی ہے۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے فائر وال کی مبینہ تنصیب کی وجہ سے انٹرنیٹ کی روانی میں مسلسل رکاوٹوں پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی بحالی کا مطالبہ کردیا۔ایچ آر سی پی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ انٹرنیٹ کی سروس متاثر ہونے سے نہ صرف لوگوں کے معلومات کے حق اور اظہار رائے کی آزادی سمیت کئی شہریوں کے روزگار بھی متاثر ہورہے ہیں۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ انٹرنیٹ سروس کے متاثر ہونے کی وجہ سے بالخصوص چھوٹے کاروبار چلانے یا فری لانسنگ سے وابستہ نوجوانوں کا کام بہت زیادہ متاثر ہوا کیونکہ انہیں متواتر موبائل انٹرنیٹ کنیکشن پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ایچ آر سی پی کا ماننا ہے کہ رابطے کا حق کوئی رعایت نہیں بلکہ ایک بنیادی حق ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں لاکھوں نوجوان انٹرنیٹ تک رسائی کو اپنے شہری، سیاسی، اقتصادی اور سماجی حقوق کے لیے استعمال کرتے ہوں، وہاں حکومت معلومات کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔کمیشن نے کہا کہ ’پہلے فروری 2024 میں پلیٹ فارم ایکس کی بندش، پھر ایک‘فائر وال’کی تنصیب اور اس کے بعد‘ویب مینجمنٹ سسٹم’کے ذریعے انٹرنیٹ ٹریفک کی نگرانی کرنے کی کوشش اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کی تفصیلات اب تک پوشیدہ ہیں‘۔حکومت نے ڈیٹا پرائیویسی کی خلاف ورزیوں سے متعلق پائے جانے والے جائز خدشات کے باوجود ڈیجیٹل حقوق کے کارکنوں کے ساتھ شفافیت اور واضح مشاورت سے مسلسل گریز کیا، درحقیقت، ریاست سوشل میڈیا صارفین کے کچھ حلقوں کو ’ڈیجیٹل دہشت گرد‘ تک قرار دے چکی ہے۔’’حکومت کا یہ دعویٰ ناقابل یقین ہے کہ انٹرنیٹ کی بندش اور سست روی کی وجہ ورچوئل پرائیویٹ نیٹورکس (وی پی اینز)کا بڑھتا ہوا استعمال ہے، حالانکہ خود حکومتی اراکین اور ریاست وی پی اینز کا استعمال کررہے ہیں۔‘‘ایچ آر سی پی خاص طور پر ان لاکھوں کم اور درمیانی آمدنی والے جُز وقتی ملازمین (گِگ ورکرز) کے لیے فکر مند ہے جن کا کام، خدمات کی فراہمی اور صارفین کو راغب کرنے اور برقرار رکھنے کی صلاحیت انٹرنیٹ کی سست روی کے باعث بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ جُز وقتی ملازمین مکمل طور پر اپنی دستیاب آمدنی پر انحصار کرتے ہیں اور انہیں کسی قسم کا ملازمتی تحفظ حاصل نہیں۔ مہنگائی کے بحران، خاص طور پر ایک کمزور معیشت کے دوران، ان کے لیے انٹرنیٹ کی بندش اور سست روی کا سامنا کرنا ناقابل قبول ہے۔حکومت سائبر سیکیورٹی کی مبہم بنیادوں پر ایسے اقدامات کو ضروری یا متناسب ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے اور اسے فوری طور پر مجوزہ فائر وال کو ہٹانا چاہیے اور یقینی بنانا چاہیے کہ تمام شہریوں اور رہائشیوں کو سستی اور قابل اعتماد انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہو۔

انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ کوئی بھی ہواوراس بات پربھی بحث نہیں کرتے کہ یہ سست رفتاری کس کی طرف سے ہورہی ہے ۔اس بات پرتوسب کااتفاق ہے کہ انٹرنیٹ کی اس سست روی سے زندگی کے مختلف شعبے متاثرہورہے ہیں اوران میں سب سے زیادہ معیشت متاثرہورہی ہے۔ حکومت پاکستان ایک طرف معیشت کوبحال کرنے ،اس کی رفتاراورمعیارکوبہترکرنے اورملک میں آئی ٹی کوفروغ دینے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔ آئی ٹی پارک بنارہی ہے ۔دوسری طرف انٹرنیٹ کی سست رفتاری نے سب کوپریشان کررکھاہے۔اگرنیٹ کی سست روی اس وجہ سے ہے کہ ایساسسٹم لایاجارہاہے جس کے استعمال سے انٹرنیٹ پرریاست مخالف سرگرمیاں کرنے والوں پرنظررکھی جاسکے اورانہیں قانون کے کٹہرے میں لایاجاسکے تویہ ملک وقوم کے لیے بہتر ہورہاہے۔ اب ریاست کادفاع سرحدوں کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ میں کرنابھی ضروری ہوگیاہے۔حکومتی وزراء بھی انٹرنیٹ کی سست رفتاری کی وجہ سے نقصانات کااعتراف کررہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی سست رفتارسے معیشت کی رفتاربھی مزیدسست کردی ہے۔انٹرنیٹ حکومتی اموراورمعیشت میں جسم میں خون کی طرح اہمیت رکھتا ہے۔ جس طرح جسم میں خون کم ہوجائے توانسان کمزورہوجاتا ہے وہ روزمرہ کے اموربھی معمول کے مطابق نہیں نمٹاسکتا۔ اسی طرح انٹرنیٹ بندہوجائے یااس کی رفتارسست ہوجائے توحکومتی اورکاروباری امورمتاثرہوتے ہیں۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ انٹرنیٹ کی رفتارمیں جلدبہترآئے گی۔ انٹرنیٹ کے جواستعمال کنندگان کسی ریاست مخالف سرگرمی میں ملوث نہیں ان کے لیے اس کی رفتاربحال ہوجانی چاہیے اور ان کے لیے بھی جواس کواستعمال کرنے قومی معیشت کی ترقی میں اپنااپناکرداراداکررہے ہیں۔ امیدکی جانی چاہیے یہ مسائل جلدہوجائیں گے۔اگرانٹرنیٹ کی سست رفتاری وی پی این کے زیادہ استعمال کی وجہ سے ہے تووی پی این جہاں تک ہمیں معلوم ہے ایکس کوچلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایکس کوبحال کردیاجائے تووی پی این کا استعمال اگرختم نہیں توکم ضرورہوجائے گا۔ ایکس کے جن اکاؤنٹس سے ریاست یاریاستی اداروں کے خلاف سرگرمیاں پائی گئی ہیں ان اکاؤنٹس کو بند کردیاجائے یاان کے خلاف کوئی بھی کارروائی کی جائے تاہم ایکس کے جواکاؤنٹس ایسی کسی بھی سرگرمیں میں ملوث نہیں ہیں ان کے لیے تواس کی سروس بحال ہوجانی چاہیے۔ چندلوگوں کے کیے کی سزاپورے ملک اورپوری قوم کودینامناسب نہیں ہے۔
 

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 351006 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.