یہ ہونا چاہئے، وہ ہونا چاہئے

دنیا بھر میں طاقتور انسان مختلف قبیلوں، معاشروں، قوموں اور ممالک کی حکمرانی پر مامور ہیں اور مجھ جیسے کمزور انسان اپنی دل کی تسلی کی خاطر محض دوسروں کو لیکچر دے کر بے چینی و اضطرابی کیفیت کی نیند سو جاتے ہیں، گویا ہر انسان دوسرے انسان کو کہتا، کالم و کتابیں لکھتا نظر آتا ہے کہ "یہ ہونا چاہئے، وہ ہونا چاہئے" ایسے آفاقی و ہمہ گیر اصول بدلا نہیں کرتے۔ ہم اپنے طور طریقے، رہن سہن اور خود ساختہ قانون تو بدل سکتے ہیں لیکن خالقِ کائنات کے نظام کا ایک اصول بھی نہیں بدل سکتے۔

دنیا بھر میں طاقتور انسان مختلف قبیلوں، معاشروں، قوموں اور ممالک کی حکمرانی پر مامور ہیں اور مجھ جیسے کمزور انسان اپنی دل کی تسلی کی خاطر محض دوسروں کو لیکچر دے کر بے چینی و اضطرابی کیفیت کی نیند سو جاتے ہیں، گویا ہر انسان دوسرے انسان کو کہتا، کالم و کتابیں لکھتا نظر آتا ہے کہ "یہ ہونا چاہئے، وہ ہونا چاہئے" ایسے آفاقی و ہمہ گیر اصول بدلا نہیں کرتے۔ ہم اپنے طور طریقے، رہن سہن اور خود ساختہ قانون تو بدل سکتے ہیں لیکن خالقِ کائنات کے نظام کا ایک اصول بھی نہیں بدل سکتے۔
انسان پر شیطان کا غلبہ ہونے یا انسان کو ابلیس کی ٹیم میں شامل ہونے کا نہ تو کوئی وقت مقرر کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی عمر۔ایک انسان کی اپنی اندرونی کیفیت اور اس کے اعمال ہی اس بات کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ وہ خالقِ کائنات کی ٹیم کا حصہ ہے یا رفتہ افتہ ابلیس کی ٹیم میں شامل ہو رہا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ انسان کی اندرونی کیفیت کسے کہتے ہیں:
انسان کی ا ندرونی کیفیت اس کی عقل و شور کی آئینہ دار ہوتی ہے کیونکہ یہی وہ اوزار ہے جس کے ذریعے وہ اپنی اندرونی کیفیت کو حسبِ منشاء تراش سکتا ہے ، یہ نہ تو ظاہری طور پر مکمل طور سے عیاں ہوتی ہے اور نہ کوئی دوسرا انسان بتا سکتا ہے کہ اس کی اندرونی کیفیت کیسی ہے اس کو محض وہی انسان جانچ سکتا ہے جو موضوعِ سخن ہے جس کے لئے اس کو اپنے اندر کا جائزہ اپنی سوچ کو اپنے اوپر مرکوز کرکے مکمل جائزہ لینا پڑتا ہے اور وہ بھی مکمل ایمانداری کے ساتھ حق پر مبنی۔
اپنے آپ کو دھوکہ دے کر مطمئن کرنے سے کسی خاطر خواہ مثبت نتیجہ پر نہیں پہنچا جا سکتا۔یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہی انسان کا وہ عمل ہے جو خالقِ کائنات کی منشا کے خلاف اور ابلیس کی ٹیم میں شامل ہونے کا باعث بنتا ہے۔جب انسان کی منفی سوچ مسلط ہوکر اس کو دھوکے کے حصار میں لے لیتی ہے تو وہ غلط سے غلط کام کو بھی جائز و صحیح قرار دے کر اس راستے پر چل پڑتا ہے اور ابلیس کی خالقِ کائنات کی جنگ میں ابلیس کا مضبوط بازو بن جاتا ہے۔ اپنی اندرونی کیفیت کو حسبِ منشاء تراش کر منفی سوچ کے زیرِ اثر اپنے آپ کو دھوکہ دینے پر اس کو اپنے ہر عمل کا مفید نتیجہ ہی نکلتا نظر آتا ہے اس کا تعلق اس کی صحت سے ہو، مالی صورتحال سے ہو ، معاشرتی مقام سے ہو یا اپنے خاندانی تعلقات سے ہو۔ اس کو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ اس کی صحت خراب ہو رہی ہے، مالی حالات کمزور ہو رہے ہیں، معاشرہ میں اس کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اور اس کے خاندان والے اس سے دور ہوتے جا رہے ہیں، ظلم کی اوربے اعتناعی کی انتہا تو یہ ہے کہ اس کو اپنے والدین، سگے بھائی بہن اور بیوی بچے اس کو تھوڑا سا بھی مثبت بات سمجھانے کی کوشش کریں تو وہ اس کو نہائت منفی کہہ کر ان سب کو غلط ثابت کرنے کی کوشش میں رشتوں میں بھی دراڑ آجانے کی پرواہ نہیں کرتا ، حتّیٰ کہ وہ اس دنیا میں اکیلا رہ جاتا ہے ۔ جب منفی سوچ کے منفی نتائج آنا شروع ہوتے ہیں تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ، نتیجتاً اپنے نام نہاد ہمدرد احباب کی مدد کے حصول کے لئے ان کی جانب رُخ کرتا ہے تو وہاں سے بھی ٹکا سا جواب ملنے پر اس کی عقل و دانش جس کو پہلے ہی زنگ لگا ہوتا ہے ، اس کے ماؤف ذہن کواپنی زندگی کے خلاف انتہائی اقدام اٹھانے پر مرکوز ہونا شروع ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنی زندگی ختم کرنے پر تُل جاتا ہے، اگر تھوڑا بہت پیسہ جیب میں ہو یا کہیں سے مل رہا ہو تو وہ نشہ کرکے عارضی آرام حاصل کرتا ہے اور بالآخر مستقل آرام کے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔
اس نکتہ پر پہنچنے کے بعد کسی قسم کی مثبت سوچ آسکتی ہے اور نہ ہی خالقِ کائنات کی ٹیم میں واپس شامل ہونے کے آداب سمجھ میں آتے ہیں بس ایسے انسان کو خالقِ کائنات ہی اپنی ٹیم میں شامل کرنا چاہے تو کسی بھی طریقے سے کر سکتا ہے۔ میری دعا ہے کہ خالق ہم پر رحم کرے اور اپنی ٹیم میں شامل رہنے کی توفیق عطا کرے۔
Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 134 Articles with 127433 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More