نادرا سہولت یا عوام کیلئے دردسر

نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کا قیام پاکستان میں شہریوں کی شناخت اور دستاویزی امور کو آسان بنانے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ اس کا مقصد ایک ایسا نظام فراہم کرنا تھا جو ہر شہری کی شناخت کو محفوظ رکھے اور بنیادی سہولیات کی فراہمی میں معاون ثابت ہو۔ تاہم، آج نادرا کا نظام اپنی اصل روح سے دور ہو چکا ہے اور عوام کے لیے سہولت کے بجائے درد سر بن چکا ہے۔ نادرا دفاتر میں لمبی قطاریں اور بے ترتیبی سب سے بڑی اور اہم شکایت ہیں۔ شہری شناختی کارڈ اور دیگر سرٹیفکیٹس کے لیے گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں، خاص طور پر بزرگ، خواتین، اور معذور افراد کے لیے یہ صورتحال ناقابل برداشت ہے۔ اس کے علاوہ، نظام کی سست روی اور تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے بھی عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نادرا کے عملے کی پیشہ ورانہ خدمات بھی ناکافی ہیں۔ عوام کو پیشہ ورانہ سلوک کے بجائے سخت رویے اور بدتمیزی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات کے اجراء میں غیر ضروری تاخیر نے بھی عوامی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ پاک آئی ڈی ایپ کے آغاز پر عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی، لیکن جلد ہی یہ سہولت ایک اور عذاب ثابت ہوئی۔ ایپ کے ذریعے اکثر کیسز نادرا دفاتر کو ریفر کیے جاتے ہیں، جو نادرا کی طرف سے عوام کے ساتھ دھوکہ دہی کے مترادف ہے۔ میں نے اپنی بیوی کے شناختی کارڈ کی تجدید کے لیے پاک آئی ڈی ایپ سے اپلائی کیا تاکہ نادرا آفس کے چکروں سے بچ سکوں۔ تمام ضروری دستاویزات کے باوجود، پانچ دن بعد جواب ملا کہ آپ کی بیوی اور ان کے بہن بھائیوں کو نادرا آفس میں حاضری دینی ہوگی۔ قبائلی رنجشوں کی وجہ سے یہ ممکن نہ تھا، مگر پھر بھی کیس نادرا آفس کو ریفر کر دیا گیا۔ اگلے دن صبح 6 بجے ہم نادرا فیمیل آفس چمن پہنچے، جہاں ہمیں ساڑھے دو گھنٹے انتظار کے بعد 17 نمبر کا ٹوکن ملا۔ تین گھنٹے بعد جب ٹوکن لینے گئے تو عملے نے غیر ضروری مطالبات شروع کر دیے۔ ٹوکن لینے کے لیے بھائی کی حاضری لازمی قرار دی گئی جو کہ انتہائی پریشان کن تھا۔ اگلے دن ہم سیکورٹی میں بھائی کی حاضری اور والدین کی 1975 کی شناختی دستاویزات کے ساتھ آئے، پھر بہن کی حاضری بھی ضروری قرار دی گئی۔ انچارج آفیسر صاحبہ بھی تین دن سے غیر حاضر تھیں، جب آئیں تو انٹرویو لیتے وقت غیر متعلقہ سوالات پوچھتے تھے۔ تمام سوالات کے جوابات کے باوجود، مطلوبہ اصل ڈاکومنٹس کے ساتھ فارم جمع کروایا گیا، لیکن ہمیں پھر بھی فارم کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے کیونکہ نادرا کے عملے نے اکثر غریب عوام کے شناختی کارڈز بلاک کر کے کمیٹی کی طرف دھکیل دیا ہے، جو کاروبار کے لیے راہ ہموار کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ نادرا فیمیل آفس چمن میں ہمیں غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑا، اور عملے کی نااہلی نے عوامی مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔ نادرا آفس کے موجودہ حالات قابل تشویش ہیں، اور ہم ان کے خلاف پاکستان یوتھ پارلیمنٹ میں قرارداد پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے پلیٹ فارمز سے احتجاج بھی ریکارڈ کریں گے۔ نادرا پاکستان میں واحد ادارہ ہے جب اس کے سامنا پڑے تو انسان اپنے ہی ملک میں پرائے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ ہمارے خاندان اور سسرال خاندان پاکستان بننے سے پہلے یہاں آباد ہیں ہمارے دادا محترم حاجی کرم خان کاکوزئی جوکپڑوں کے ایک معروف شخصیت تھی پاکستان بننے کے وقت تجارت کے سلسلے میں بمبئی کو کپڑا خریدنے گئے تھے جو وہاں پاکستان آزاد ہونے کی خبر ملی تھی لیکن افسوس کہ اب تک ہم اپنے ہی ملک اور اپنے ہی زمین پر آبادپرائے محسوس کرتے ہیں۔ حکومت کو نادرا کے نظام میں بہتری لانے کے لیے سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ عوام کی سہولت کے لیے بنائے گئے ادارے کو ان کی مشکلات کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔ شفافیت، عملے کی مناسب تربیت، اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نادرا کو عوام کے لیے حقیقی سہولت بنا سکتا ہے۔ چمن شہر میں فیمیل نادرا آفس میں عملے کی من مانیوں کی وجہ سے عوام نے شناختی کارڈ بنوانا چھوڑ دیا ہے۔ چمن نادرا نے لاقانونیت کی انتہا کر دی ہے۔ موجودہ نادرا افسران چمن کے عوام کو بے جا تنگ کرتے ہیں، جس کے باعث چمن کے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور کئی شہریوں نے ان کے خلاف عدالتوں میں کیس دائر کیے ہیں۔ اسی طرح چمن کے شہری ایکشن کمیٹی، سیاسی پارٹیوں، اور پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے احتجا ج کیے ہیں، مگر پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ حکومت عوام دشمن نادرا عملے کی پشت پناہی کر رہی ہے، جو ہم انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ چمن میں نو لاکھ آبادی پر مشتمل شہر کے لیے صرف ایک ہی فیمیل نادرا آفس ہے جس میں امیر اور بااثر لوگوں کے لیے سہولیات میسر ہیں، جبکہ غریب طبقے کے افراد کے لیے مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ چمن کے عوام کو کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ نادرا کا عملہ درخواست گزاروں کو جان بوجھ کر تنگ کرتا ہے، اور یہ لوگ اتنے دیدہ دلیر ہیں کہ انہیں کسی باز پرس کی پرواہ نہیں۔ آج کے جدید دور میں شناختی دستاویزات کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ نادرا کا قیام اسی مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا کہ عوام کو قومی شناختی کارڈز، پاسپورٹس، اور دیگر دستاویزات کے اجرا میں آسانیاں فراہم کی جائیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نادرا کی کارکردگی عوام کے توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ نادرا کے نظام میں فوری اصلاحات کی جائیں۔ عوام کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں جو ان کے لیے شناختی دستاویزات کے حصول کو آسان بنائیں۔ نادرا دفاتر میں عملے کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ عوام کے ساتھ بہتر رویہ اختیار کیا جا سکے اور تیزی سے کام کیا جا سکے۔ آن لائن درخواستوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور عوامی آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ لوگوں کو نادرا کے پروسیس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہو سکیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نادرا کی موجودہ کارکردگی کا جائزہ لے اور عوام کے مسائل کا فوری حل فراہم کرے۔ عوام کا حق ہے کہ انہیں شناختی دستاویزات کے حصول میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ نادرا کی بے جا تنگیوں کا خاتمہ اور عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
 

Hafiz Mohammad Siddiq Madani
About the Author: Hafiz Mohammad Siddiq Madani Read More Articles by Hafiz Mohammad Siddiq Madani: 61 Articles with 62666 views Mohammad Siddiq Madani from Chaman Pakistan .
Columnist and Writer of Pak
Chief Editor.
Monthly Albahr Chaman
office Weternary Hospital Road P.O B
.. View More