ہم عام لوگ خاص خواب لیے اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر
یونیورسٹی میں داخلہ کراتے ہیں۔ یہ سوچ کر کہ ہماری زندگی میں تبدیلی آے گی۔
گھروں میں اور ہماری سوچ میں روشنی آۓگی۔
لیکن ہم آنے والے ڈروانے خواب سے بیگانے ہیں کہ یہ سب صرف ہمارے پیسوں کی
بربادی اور وقت کا ضیا ہے۔ 20 سال کی انتھک محنت کے بعد جب ہمارے ہاتھ میں
مایوسی کا سرٹیفیکیٹ تھما دیا جاتا ہے تو گھر میں نا امیدی ، ڈپریشن کے سوا
کچھ نہیں بنتا۔
ہم اپنے آپ کو ساری عمر کھوستے رہتے ہیں کہ جو تعلیم ہم نے سیکھی وہ باہر
کے دیسوں اور آج کی دنیا سے بلکل دور ہے اور میل نہیں رکھتی۔
اس سے اچھا ہوتا کہ ہم بچپن سے پانچویں جماعت کے بعد کوئی ہنر سیکھ کر
گزارا کرتے۔
یہ وہ افسوس ہے جو ہر پاکستانی عوام یا مڑل کلاس اور ایورج انسان کے جزبات
کا آئینہ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر اس دور میں انسان کونسا راستہ اپنانے ؟ کیا ہم غار کے
زمانے یعنی اسٹون ایج کی طرف خود کو دھکیل رہے ہیں؟
یہ وہ سوال ہے جو ہم نے اس نظام سے کرنا ہے۔
کیونکہ ترقی کا پہلا منزل ہی سوال ہے چاہے وہ خود سے ہو یا نظام سے۔ |