پاکستان میں نرسنگ کالجز کو درپیش مسائل

دؔنیا بھر میں نرسیں شب و روز خدمت کے جذبے سے سرشار معا لجین کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں اوسطاً چالیس مریضوں پر ایک نرس تعینات ہوتی ہے۔ پاکستان میں میڈیکل تعلیم کے ساتھ نرسنگ کی تعلیم میں بھی کئی دشواریاں ہیں۔ پاکستان کے نرسنگ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں ڈپلومہ کورس سے لیکرایم ایس سی تک تعلیم و تدریس کی سہولتیں مہیا کر رہی ہیں۔ بیشتر اسپتالوں میں نرسنگ کے شعبے میں مرد اور خواتین دونوں ہی خدمات سرانجام دیتے ہیں، جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے ذوق و شوق سے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر سیکھتے ہیں۔ پاکستان میں رجسٹرڈنرسنگ کالجوں سے طلبا کی بہت کم تعداد فارغ التحصیل ہوتی ہے۔ ملک کے رجسٹرڈ نرسنگ کالجوں میں دی جانے والی تعلیم کا موازنہ کیا جائے تو صورتحال اتنی تاریک نہیں جتنی تصور کی جاتی ہے۔ جنرل نرسری، پیوپل مڈوائفری اور نرس وائفری میں ڈپلوما کورس کے ساتھ ،پوسٹ آر این ،بی ایس این اور نرسنگ میں بی ایس سی / ایم ایس سی/ڈاکٹریٹ کی اسناد اور کئی دیگر اسپیشل خدمات میں تربیت حاصل کی جاسکتی ہے۔مگر دیگر ممالک کی نسبت پاکستان کو بھی نرسوں کی کمی کا سامنا ہے ۔ نرسنگ کالجز میں انسانیت کا جذبہ لیے چند ایک عناصر ہے جنہوں نے اپنے جینے کا مقصد ہی انسانی خدمت کے ساتھ جوڑ رکھا ہے ،جن میں ایک بڑا نام ڈاکٹر ثانیہ کھیڑا کا ہے ،محترمہ پاکستان میں تمام نرسنگ کالجز پرائیوئیٹ ایسوسی ایشن کی جنرل سیکر ٹری کے عہدہ رکھتی ہے ۔اور عوامی ،سماجی خدمت میں ایک بڑا نام رکھتی ہے اور مختلف این جی اوز چلا کرعوامی خدمت میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آ تی ہے ۔چند سال قبل ڈاکٹرثا نیہ کھیڑا سے سنئیر صحافی سید ذاہد حسین شاہ کے ہمراہ ملاقات کا موقع ملا ،محترمہ نے کاہنہ جیسے گاوں میں نرسنگ کالج کی بنیاد رکھی تھی۔جہاں پر بچے اور بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے گھر سے گھنٹوں کا سفر طے کر کے جانا پڑتا تھا،ملاقات میں ڈاکٹر صاحبہ سے گفتگو میں ان کے خیالات اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ دیکھ کر دلی خوشی ہوئی اور انکو نیک دعاوں سے نوازا،مگر کچھ عرصہ بعد ہی انکو ایک عورت ہو کر عوامی خدمت کرنے کی سزا ملنا شروع ہو گئی ،انکا کا لج اسلامیہ کالج سے منسلک ہے ،کالج وزٹ کرنے آنے والے یونیورسٹی افسران نے ان سے ناجائز مطالبے پورے نہ ہونے کی بابت مختلف طریقوں سے نقصان پہچانا شروع کر دیا ،حالیہ چند دن قبل طالبات نے نامعلوم افراد کے ہمراہ کالج پر دھاوا بول دیا، کالج اونرسمیت سٹاف کو شدید تشدد کا نشانہ بنا ڈالا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آگئی ہے۔ سی سی ٹی وی میں دیکھا جا سکتا ہے نامعلوم افراد نے طالبات کے ہمراہ خواتین کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ واقعہ کی ویڈیو بنانیوالی سٹاف سے نامعلوم افراد نے موبائل بھی چھین لیا۔ ڈاکٹر ثانیہ کیمطابق حملہ آور 15 لاکھ نقدی، زیورات اور موبائل فون بھی لے اڑے۔ طالبات اور ان کے ساتھیوں کے تشدد سے شدید چوٹیں آئیں ہیں۔ایک سوال کے جواب ڈاکٹر ثانیہ کھیڑا کا کہنا تھا کہ اس دن مجھے بہاولپور کالج کیس کے سلسلے میں حاضر ہونا تھا،ہمارا کالج اسلامیہ کالج کے ساتھ منسلک ہے اور وہاں کے افسران کیساتھ تنازعہ چل رہا ہے مجھے لگتا ہے کہ آج والا معاملہ اسی کیس کی کڑی ہے۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز اساتذہ اور داروں کو تحفظ فراہم کریں،کاہنہ نر سنگ کالج میں طالبات و غنڈہ عناصر کیطرف کئے گئے حملے پر انصاف ڈلوایا جائے ،کالج میں موجود اساتذہ اور طالبات نے انصاف کے کارڈ اٹھا ئے احتجاج ریکارڈ کروایا،کسی بھی معاشرے میں استاد کا ایک اہم مقام ہوتا ہے۔اگر آج میرے کالج میں ایسا ہوا ہے تو کل کسی اور کیساتھ بھی ہو سکتا ہے ،میرا قانون نافذ کرنے والے اداروں اور محترمہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز صاحبہ سے اپیل سے کے سخت کاروائی عمل میں لاتے ہوئے ملزمان کیخلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے۔مگر تاحال انصاف فراہم کرنے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکام دکھائی دیتے ہے ،اس کی سب سے بڑی وجہ حکومتی عہدیداروں کا بروقت اور سنجیدہ اقدام نا اٹھانا ہے ۔کیا کوئی مذہب یا معاشرہ استاتذہ کے ساتھ بدسلوکی کی اجازت دیتا ہے؟استاتذہ کو دھمکانا ، ان پر ہاتھ اٹھانا اور ان پر گھٹیا الزامات لگانا کون سی اخلاقیات کے زمرے میں آتا ہے؟ ٹی ایل سی نرسنگ کالج میں پرنسپل اور اساتذہ کے ساتھ حالیہ دنوں بربریت سے لبریز جو واقعہ پیش آیا پوری استاتذہ کمیونٹی کی جانب سے اس کی مذمّت کی جاتی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ کہاں ہیں انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں ، کہاں ہیں وہ عورتوں کے حقوق کا نعرہ بلند کرنے والے افراد۔ ٹی ایس سی میں پیش آئے واقعے پر اتنی خاموشی کیوں ہے؟آج اگر ٹی ایل سی میں یہ واقع پیش آیا ہے تو کل کو کسی بھی دوسرے کالج میں بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ استاتذہ کے ساتھ بدسلوکی کسی طور پر منظور نہیں۔ ہم اپنے ساتھ ہوئی اس زیادتی کیلئے ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Sajjad Ali Shakir
About the Author: Sajjad Ali Shakir Read More Articles by Sajjad Ali Shakir: 133 Articles with 144721 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.