مولا امام حسین علیہ السلام کا فرمانِ عالی شان ہے۔ "وطن
سے وفاداری مومن کی نشانی ہے۔"
مجھے پنجاب کے میدانوں سے محبت ہے، تو بلوچستان کے باوقار پہاڑوں سے بھی
عشق ہے۔ سندھ کی ہریالی پیاری لگتی ہے۔ تو کے۔پی۔کے کی ندیاں بھی دل میں
اترتی ہیں۔ بلتستان کی برف پوش وادیاں حسین لگتی ہیں۔ تو کشمیر کی جنت بے
نظیر لگتی ہے۔
پاکستان کا وجود قدرت کا ایک معجزہ ہے ۔ تاریخ کے اوراق دیکھے جائیں۔ تو
تحریکِ پاکستان سے قیام ِ پاکستان و بقائے پاکستان تک ہر چیز معجزاتی عمل
نظر آتی ہے۔
14اگست 1947ء کو قیام پاکستان کے بعد نوزائیدہ ریاست کو جہاں ایک طرف اپنے
پاؤں پہ کھڑا ہونے اور بے گھر و کسمپرسی کا شکار مُحبِ وطن شہریوں کی حالت
بہتری کی جانب رواں کرنے کے لئیے بہت سے انتظامی و مالی مسائل سے کا سامنا
تھا۔ تو دوسری طرف شہہ رگِ پاکستان کشمیر کو انڈیا میں شامل کر کے ایک
مسلسل تنازعہ و خارجی ڈپلومیٹک سیاست کا آغاز کر دیا گیا۔ ہندو لیڈران یہ
تو چاہتے تھے۔ کہ انگریز بھارت سے چلیں جائیں ۔ مگر ان کو یہ کسی صورت
گوارہ نہ تھا۔ کہ ایک ہزار سال سے زائد حکمرانی کرنے والے مسلمان حقِ آزادی
حاصل کر سکیں ۔ پاکستان کا وجود روزِ اول سے ہی ان کے لئیے ناقابلِ قبول
تھا۔ اور ان کے دل میں اکھنڈ بھارت کی مکرہ خواہش ان کو مختلف شازشیں کرنے
پہ اکساتی رہی۔
6 ستمبر 1965ء کی صبح دشمن اپنے انہی ناپاک عزائم کے تحت اپنی بزدلانہ فطرت
کے عین مطابق چھپ کر حملہ آور ہوا۔ مگر اسُے علم نہ تھا۔ کہ وہ کسی ملک کے
لوگوں سے نہیں۔ بلکہ "ایک قوم" سے ٹکرا رہا ہے۔ دشمن بظاہر پاکستان سے تین
گنا زیادہ طاقت ور تھا۔ اور اسی طاقت نشے میں بے خبر تھا۔ کہ مسلمان جنگیں
ہمت و حوصلے سے لڑا کرتے ہیں۔ جس کا تاریخی ثبوت غزوہِ بدر ہے۔
جنگِ ستمبر میں پاکستانیوں کے پاس اپنے دشمن کی ظاہری طاقت کے برابر جنگی
ہتھیار تو نہ تھے ۔ مگر جذبہ ِحبُ الوطنی اور مصمم عزم کے ہتھیاروں سے لیس
و معمور تھے ۔ ہر شخص جو جہاں تھا ۔ وہیں پہ اپنے اپنے محاذ پہ اپنے وطن کے
لئیے لڑ رہا تھا۔ ہر دل اپنے وطن پہ جاں نثار ہونے کو بے تاب تھا۔ ہر ہاتھ
اپنی پاک سرزمین کے ایک ایک انچ کا دفاع کر رہا تھا۔ اگر ڈاکٹر تھا۔ تو
اپنے محاذ پہ کھڑا تھا، سویلین تھا۔ تو اپنے محاذ پہ ، صحافی تھا تو اپنے
محاذ پہ، لکھاری و شاعر تھا ۔تو اپنے محاذ پہ اور موسیقار تھا تو اپنے محاذ
ڈٹا ہوا تھا۔ 6 ستمبر کی صبح انٹرنیشنل بارڈر پہ پاکستان کی فوج ہی نہیں ۔
بلکہ پاکستان کا ہر فرد اپنی ہمت و ہنر کے مطابق مادر وطن کی حفاظت دفاع
میں سرگرمِ عمل تھا۔ اِک لہر تھی ۔ جس نے اِک عزم دے دیا۔ اِک ہوا تھی، جس
نے مقصدِ حیات بتا دیا۔ اِک نظریہ تھا، جس نے یکجان بنا دیا۔ اک ناپاک
للکار تھی۔ کہ جس کے جواب نے جذبہِ حبُ الوطنی جاگا دیا۔ ایک پختہ ارادہ
تھا۔ کہ دشمن کو اس کی ناپاک جسارت کا بھرپور جواب دینا ہے۔ اسے بتانا کہ
؎
اے دشمنِ دیں! تو نے کس قوم کو للکارا
لے ہم بھی ہیں صف آراء!!
1965ء کی جنگ میں عسکری نکتہِ نگاہ سے پاکستان کی جانب سے جراتمندی و
بہادری کے کئی ریکارڈز قائم ہوئے۔ جن کو عالمی عسکری تجزیہ کار بھی سراہنے
پہ مجبور ہو گئے۔ پاک فضائیہ کے ائیر مارشل نور خان ،ائیر کموڈور
ایم۔ایم۔عالم ، فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چوہدری ، سکوارڈن لیڈر سرفراز احمد
رفیقی شہید ، سکواڈرن لیڈر محمد اقبال شہید و پاک فضائیہ کے کئی جوانوں نے
اپنی شجاعت ، بہادری اور بہترین حکمت ِعملی سے دشمن کو زیر کیا۔ ایئر
کموڈور ایم۔ ایم۔عالم نے ایک منٹ میں دشمن کے پانچ جنگی طیارے مار گرانے کا
ناقابل تسخیر عالمی فضائی رکارڈ قائم کیا۔ 7 ستمبر کو پاک فضائیہ کے شہیدوں
اور غازیوں کی یاد میں یومِ فضائیہ منایا جاتا ہے۔
بری فوج نے بھی دشمن کے لاہور کے جم خانہ میں گھسنے کے ناپاک عزائم کو خاک
میں ملا ۔ میجر راجا عزیز بھٹی شہید نشانِ حیدر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی
دیوار بن کے کھڑے ہوگئے۔ اور محاذِ لاہور پہ وطن عزیز کا بھرپور دفاع کرتے
ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ چونڈہ کے محاذ پہ ٹینکوں کی عالمی جنگ لڑی گئی۔
وطن کے بہارد سپوتوں نے اپنے جسموں کیساتھ بم باندھ کر اسے بھارتی فوجیوں
اور ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔جہاں 14 بلوچ رجمنٹ نے ملکی دفاع جراتمندانہ
انداز میں کیا۔ اور چونڈہ بٹالین کا خطاب پایا۔
پاک نیوی نے بھی ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔
اور کراچی و دیگر ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ گشت کرتے ہوئے دشمن کو آگے بڑھنے
کا موقع نہ دیا۔ پاکستانی آب دوز پی۔این۔ایس غازی نے بھارتی دوارکا کے قلعے
پی حملہ کر کے دشمن کے دانت کھٹے کئے۔
جنگِ ستمبر میں عوام ِ پاکستان میں انفرادیت کی جگہ اجتماعیت کا جذبہ اُبھر
کر سامنے آیا ۔ وطنِ عزیز کے دفاع کے لئیے قربانی و ایثار کی لازوال تاریخ
کہیں سیالکوٹ محاذ پہ نظر آئی۔ تو کہیں لاہور کی بی ۔آر۔بی نہر کے کنارے
رقم ہوئی۔ کہیں ماؤں نے بھوکا رہ کر اپنے جوانوں کے لئیے کھانا محاذ پہ
بھیجا۔ تو کہیں جوانوں نے محاذ پہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ماؤں کے
سر فخر سے بلند کر دیئے ۔ قوم کے سپوتوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے
مادرِ وطن کے دفاع کو مضبوط تر بنا دیا۔
یومِ دفاعِ وطن درحقیقت یومِ تجدیدِ عہد بھی ہے۔ کہ ہمارے لئیے اپنے وطنِ
عزیز کی سلامتی مقدم ترین ہے۔ اور ہم اس کی حفاظت زندہ قوموں کی طرح کرنا
جانتے ہیں۔
؎
میرے محبوب وطن تجھ پہ اگر جاں ہو نثار
میں یہ سمجھوں گا ٹھکانے لگا سرمایۂ تن
|