قیام پاکستان کے وقت جہاں بہت سے مسائل ریاست پاکستان کو
ورثہ میں ملے وہیں پرانگیریز سرکار کی سرپرستی میں بنایا گیا فتنہ قادیانیت
بھی پاکستان کے حصہ میں آیا۔ فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لئے وقفہ وقفہ سے
پُرامن تحاریک چلائی جاتی رہیں مگرکلمہ طیبہ کے نام پر بننے والی ریاست کی
سرکار کی جانب سے ختم نبوت ﷺ کے مجاہدین کو ریاستی جبر ظلم و ستم برداشت
کرنا پڑا۔ سال 1953 میں مولانا عبدالستار خان نیازی اور مولانا مودودی ایسے
کئی جید علماء کرام کو پھانسی کی سزائیں سنائی گئیں۔ فتنہ قادیانیت کے
برخلاف تحاریک کو عروج اس وقت ملا جب 29مئی 1974 صوبہ پنجاب کے شہر ربوہ
میں اسلامی جمعیت طلبہ کے طلبہ پر قادیانیوں نے حملہ کرکے نہتے طلبہ کے ناک،
کان اور جسم کے دیگر اعضا ء بے دردی سے علیحدہ کردیئے ۔اس سانحہ کو سانحہ
ربوہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس بربریت کے خلاف شدید مظاہرے، احتجاج
اور ہنگامے شروع ہوگئے۔ اس پرفتن موقع پر پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے
پُرامن وعصر حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق پارلیمینٹ کا رُخ کیا اور جمعیت
علماء پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے قومی اسمبلی میں
30 جون 1974 کو قادیانیت کی دونوں شاخوں یعنی احمدی اور لاہوری گروہ کے
خلاف اک قرارداد پیش کی، جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ یہ گروہ مرزا
غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں جبکہ حضرت محمد ﷺ اﷲ کے آخری نبی اور
رسول ہیں لہٰذا اس باطل عقیدے کی بنا پر احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار
دیا جائے۔قرارداد کو بعد ازاں آئینی ترمیمی بل میں بدل دیا گیا۔اسمبلی ہال
میں بیٹھے اکثر سیاست دان اس مسئلہ کو فرقہ وارانہ مسئلہ سمجھتے تھے؛ جب
اسمبلی ہال میں مفتی محمود اور مولانا شاہ احمد نورانی ایسے جید علماء کرام
نے احمدیوں کے باطل عقائد کو نمایاں کیا ممبران اسمبلی کی آنکھیں کھُلی کی
کھُلی رہ گئیں۔ آئین میں ترمیمی بل کو پاس کرنے سے پہلے پوری پارلیمنٹ کو
کمیٹی روم کا درجہ دیا گیا اور قادیانی مذہب کے اکابرین باوجود کہ وہ
پارلیمنٹ کے ممبر نہ تھے انکو اس کمیٹی روم میں کھل کر اپنے عقائد کے دفاع
کا موقع فراہم کیا گیا۔تاکہ قادیانیت کے پیروکار پارلیمینٹ کاروائی کو اپنے
خلاف تعصب، غیر منصفانہ قرار دینے کا ڈھونگ نہ رچائیں۔ رد قادیانیت میں
علما ء کرام کے علاوہ دیگر سیاست دانوں نے بھرپور حصہ لیا جن میں نوابزادہ
نصر اﷲ خان کا نام بہت نمایاں ہے۔ ایک ماہ سے زائد عرصہ بحث و مباحثے ہوتے
رہے؛ کئی کئی گھنٹے کیمرے کے سامنے بیانات و دلائل و جرح کا سلسلہ جاری رہا۔
یاد رہے اس پوری کاروائی میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا کردار انتہائی
اہمیت کا حامل تھا، انہوں نے ملک میں پائی جانے والی بے چینی کو محسوس کرتے
ہوئے اسے فوری حل کرنے کے لئے اپنا مثبت اور قائدانہ کردار ادا کیا۔بہت سے
سیاست دان اس تحریک سے قبل اس مسئلے کی سنگینی سے ناواقف تھے، لیکن جب
انہیں احمدی نمائندوں (مرزا ناصر وغیرہ) کے قول و اقرار سے اصل صورتحال کا
علم ہوا تو وہ بھی اپنے ایمان کی حفاظت کے سلسلہ میں سنجیدہ ہو گئے، بالآخر
مرزا ناصر سے ایک سوال ہوا کہ اگر کبھی دنیا میں کہیں تم لوگوں کی حکومت
قائم ہو جائے تو تم (احمدی/مرزائی) غیر احمدی کلمہ گو مسلمانوں کو کس درجے
میں رکھو گے تو اس نے جواب دیا کہ ہم انہیں اقلیت سمجھیں گے، یوں انہی کے
کلیہ کے عین مطابق احمدیوں کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ بعد
ازاں احمدیوں نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اس آئینی ترمیم کو چیلنج
کیا۔لیکن احمدی اعلی عدالتوں میں بھی خود کو مسلمان ثابت نہ کر سکے۔ آئین
کے آرٹیکل 106ا ور آرٹیکل 260 میں واضح ترامیم کی گئیں۔ 7ستمبر 1974کو
منظور کی گئی دوسری آئینی ترمیم کے بعد آئین پاکستان میں لفظ مسلمان یا
مسلم میں پائے جانے والے ابہام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ جیسا کہ :
آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 (3) (a) کے مطابق:
مسلمان کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
’’مسلما نـ‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو اﷲ تعالیٰ کی وحدت و توحیدقادر مطلق اﷲ
تبارک تعالیٰ اور خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر
مشروط طور پر ایمان رکھتا ہواور ایک نبی یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے
شخص پر نہ ایمان رکھتا ہواور نہ اسے مانتا ہوجس نے حضرت محمد ﷺ کے بعد اس
لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبرہونے کا دعویٰ کیا
ہو یا جو دعویٰ کرے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 (3) (b) کے مطابق :
غیر مسلم کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
’’غیر مسلم‘‘ سے ایسا شخص مراد ہے جو مسلمان نہ اور اس میں عیسائی، ہندو،
سکھ،بدھ یا پارسی فرقے سے تعلق رکھنے والا شخص، قادیانی گروپ یا لاہوری
گروپ کا (جو خود کو ’احمدی‘ یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں) کوئی شخصی
یا کوئی بہائی، اور کسی درج فہرست ذاتوں سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص شامل
ہے۔
آئین پاکستان میں ختم نبوت ﷺ اور مسلمان کی واضح تعریف کے بعد کس بھی قسم
کے غیر آئینی اقدام کی روک تھام کے لئے مجموعہ تعریزات پاکستان کے سیکشن
298 میں 1984 میں ایک آرڈیننس کے تحت ترامیم کی گئی ۔
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 (B) (1) کے مطابق:
قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا کوئی بھی فرد جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں
یا کسی دوسرے نام سے جو الفاظ کے ذریعے، یا تو بولے یا لکھے، یا ظاہری
نمائندگی کے ذریعے درج ذیل افعال کرے:
(الف) حضرت محمد ﷺ کے خلیفہ یا صحابی کے علاوہ کسی بھی شخص کو ''امیر
المومنین''، ''خلیفۃ المومنین''، خلیفۃ المسلمین''، ''صحابی'' یا ''رضی اﷲ
عنہــ'' کے طور پر منسوب یا مخاطب کرے۔
(ب) حضرت محمد ﷺ کی کسی زوجہ محترمہ کے علاوہ کسی ذات کو ''ام المومنین''
کے طور پر منسوب یا یا مخاطب کرے۔
(ج) حضرت محمد ﷺ کے خاندان ''اہل بیت'' کے کسی فرد کے علاوہ کسی بھی فرد کو
''اہل بیت'' کے طور پر منسوب یا مخاطب کرے۔
(د) اپنی عبادت گاہ کو ''مسجد'' کے طور پر منسوب کرے یا موسوم کرے یا
پکارے۔
درج بالا جرائم کی صورت میں اس شخص کو قید کی سزا دی جائے گی جو کہ تین سال
تک ہو سکتی ہے اوراسکے علاوہ جرمانہ بھی عائد کیاجائے گا۔
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 (B) (2) کے مطابق:
قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا کوئی بھی فرد (جو اپنے آپ کو ''احمدی'' یا
کسی اور نام سے پکارتا ہے) جو الفاظ کے ذریعے، یا تو بولے یا لکھے، یا
ظاہری نمائندگی کے ذریعے ، اپنے مذہب میں عبادت کے لئے بلانے کے طریقے یا
صورت کو اذان کے طور پر منسوب کرے یا اس طرح اذان دے جس طرح مسلمان دیتے
ہیں۔ اسے دونوں میں سے کسی ایک صورت میں قید کی سزا دی جائے گی جو کہ تین
سال تک ہو سکتی ہے اوراسکے علاوہ جرمانہ بھی عائد کیاجائے گا۔
تعزیرات پاکستان کی دفعہ298 (C) کے مطابق:
قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ کا کوئی فرد (جو اپنے آپ کو 'احمدی' یا کسی
اور نام سے پکارتا ہے)، جو بالواسطہ یا بلاواسطہ خود کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک
مسلمان کی حیثیت سے، یا اپنے عقیدے کو اسلام کہتا ہے، یا اپنے عقیدے کی
تبلیغ کرتا ہے یا اس کی تبلیغ کرتا ہے، یا دوسروں کو اپنے عقیدے کو قبول
کرنے کی دعوت دیتا ہے، الفاظ کے ذریعے، یا تو بولے یا تحریری، یا ظاہری
نمائندگی کے ذریعے، یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح
کرنے کی صورت میں کی قید کی سزا دی جائے گی جس کی مدت تین سال تک ہو سکتی
ہے اور جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔
آج سے ٹھیک پچاس سال پہلے7ستمبر 1974پاکستان کی پارلیمینٹ نے منہ زور فتنہ
قادیانیت کے آگے آئینی و قانونی بند باندھ دیا۔ اب پاکستان کے مسلمان غیر
سرکاری طور پر 7 ستمبر کو یوم ختم نبوت ﷺکے طور پر مناتے ہیں۔اور سال
2024کو گولڈن جوبلی سال کے طور پر منایا جارہا ہے۔
پچاس سال پہلے آئین پاکستان میں واضح ترمیم کے باوجود فتنہ قادیانیت کے
پیروکاروں نے اس قانون سازی کو ابھی تک قبول نہیں کیا۔ گاہے بگاہے فتنہ
قادیانت کے پیروکار آج بھی سازشوں میں مصروف عمل ہیں۔عقیدہ ختم نبوت ﷺ
درحقیت اتحاد بین المسلمین کی ضمانت ہے یعنی یہ مسلمانوں کے مشترکہ اور
متفقہ عقائد میں سے ایک ایسا عقیدہ ہے کہ جس نے تمام مسلمانوں کو ایک پلیٹ
فورم پر اکٹھا کیا ہواہے، ورنہ ہم مسلمان کم بلکہ سنی، شیعہ، دیوبندی،
حنفی، بریلوی، وہابی زیادہ ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح سے رد
قادیانیت کے موقع پر تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے اپنے اپنے مسلکی و
فروعی مسائل کو پس پشت ڈال کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی سنت
پر عمل کرتے ہوئے عقیدہ ختم نبوت ﷺ پر پہرہ دیا، اسی طرح ہم سبکو چھوٹے
چھوٹے مسلکی و فروعی مسائل کو پس پشت ڈال کر اتحاد بین المسلمین کا شاندار
عملی مظاہرہ کرنا چاہئے اور محراب و ممبر سے دوسرے مکاتب فکر کے مسلمانوں
کیخلاف کفریہ، مشرک، بدعتی، گستاخ وغیرہ کے فتووؤں کو چھوڑنا ہوگا، اسی میں
مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس میں بسنے والے مسلمانوں کی بقاء ہے۔
اﷲ کریم ہم سب کو پکا سچا مسلمان بنائے اور زندگی کے آخری سانس تک عقیدہ
ختم نبوت ﷺ پر قائم دائم اور اس عقیدہ کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اﷲ کریم کی لاکھوں کروڑوں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں آقا تاجدار ختم نبوت
ﷺ پر اور آپکے اہل بیت اور اصحاب پاک رضوان اﷲ تعالی علیھم اجمعین پراور
عقیدہ ختم نبوت کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں پر اور
1974 میں دوسری آئینی ترمیم کروانے والے جید علماء کرام اور سیاستدانوں پر۔
آمین ثم آمین
|