فلسطین: ارضِ مقدس، مسلمانوں کی وراثت

فلسطین دنیا کے قدیم تہذیبی علاقوں میں سے ایک ہے۔جو کہ ملک شام کا مغربی جنوبی حصہ کہلاتاہے۔یہ علاقہ بر اعظم ایشیا کے مغرب میں بحر متوسط کے ساحل پر واقع ہےجس سے دنیا کے تین عظیم ترین مذاہب کا توسل ہے۔اس سے اسلام ،عیسائی، یہودی اور دیگر قوموں کا بھی نسلی رشتہ رہا ہے۔پیش نظر فلسطین کئی سنگین حالتوں سےگزر رہا ہے۔ فلسطینیوں سے بے رحمی ان پر قتل اور بمباری طعام و شراب کی پابندی جیسی بلاؤں سے انہیں دو چار کیا جارہا ہے۔آج فلسطین کوہتھیانے کے مختلف منصوبے بنے جارہے ہیں ۔اگر تاریخ کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس نظر اجاۓگی کہ فلسطین کے حقیقی وارثین مسلمان ہی ہیں۔ یاد رہے مسئلہ فلسطین فقط دو تین سال پرانا مسئلہ نہیں بلکہ صدیوں سے اس کی خاطرجنگیں ہوتی آئی ہیں۔1914ءمیں عثمانیہ سلطنت کی جنگ عظیم میں ہزیمت کے بعد
1917ء میں بیت المقدس برطانویوں کے قبضے میں اگیا تھا۔حکومت برطانیہ نے کئی ملکوںکواپنےقبضے کر لیا تھا۔ انہوں نےعثمانیہ افواج کا نام و نشان تک باقی نہیں رکھا اور چن چن کے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔لہذا یہودیوں نے اس موقع کو پا کربرطانیہ کے تحت رہ کر فلسطین جیسی مقدس ترین جگہ کو اپنے کافرانہ پاؤں سے روندا۔فلسطین میں جبرا گھس کر وہاں کے رہائشی فلسطینیوں پر بے انتہا ظلم کیا ان کو بے گھر کیا ،گھروں کو ہتھیا لیا اور یہاں آکر بس گئے۔لہذا اب ان کا دعوی ہے کہ وہ فلسطین کے حقیقی وارثین ہیں۔مگر تاریخ کے تمام پنے اس بات کا زعم کرتے ہیں کہ یہودیوں کا یہ دعوی سراسر غلط ہے۔کیونکہ جہاں تک فلسطین کی بات ہے توتاریخی محققین کے نزدیک یہاں بیشتر آموری آباد تھے۔ان کے بعد کنعانی آبسے کچھعرصے دراز بعد وہ لوگ مشرف بالاسلام ہو گئے پھر مختلف قوم اس خطے سے وابستہ رہی اور الگ الگ قوم یہاں پر اپنی نسلوں کو آباد کیا۔موجودہ یہودیوں میں سے 80 فیصد یہودی خود یہودیوں کی تحقیقات کے مطابق تاریخی طور پران کا فلسطین سے کوئی رشتہ نہیں اگرچہ یہاں یہودیوں کی مقدسات ہیں۔یاد رہے فقط یہودیوں کی نہیں عیسائیوں کی بھی مقدسات ہیں اسی جگہ مسلمانوں کا بھی قبلہ اول رہا جسے مسجد اقصی کے نام سے جانا جاتا ہےجو شہر قدوس میں واقع ہے۔اس کی تعمیر تیس ہزارہ قبل از حضرت عیسی علیہ السلام بوسی عربوں کے ہاتھوں سے ہوئی۔ یہ شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد مسلمانوں کے نزدیک روئے زمین پر سب سے مقدس ہے۔اس کے مقدس ہونے کے کئی اسباب ہیں۔مگر اب سے اہم وجہ یہاں مسجد اقصی کا پایا جانا ہے۔یہ وہی مقام ہے جہاں سے مدینے کے تاجدار حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں گگن کی اور پرواز کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تمام انبیاء کی امامت بھی کی تھی جس کا تذکرہ قران پاک کی سورہ اسراء میں صریح الفاظ میں موجود ہے;إلي المسجد الاقصى الذي باركنا حوله لنريه من آيتنا;(الاسراف/١)ـ
ترجمہ: مسجد اقصی تک جس کو گھیر رکھا ہے ہماری برکت نے؛تاکہ دکھلائے اس کو کچھ اپنی قدرت کے نمونے۔
مسجد اقصی کے مغرب میں جبل سیون اور جبل مور یا ہے .دعوی دار یہودی کا ماننا ہے کہ یہ دو جگہ ان کے لیے متبرک اور عزیز ترین ہے یہیں پہ تخت سلیمانی اورمقبرہ داؤد علیہ السلام رہے ہیں ۔بنسبت دو چار دلیل کے وہ اپنے اپ کو اس کے وارثین مان بیٹھے ہیں مگر ان کی قدسیات کی دلیل ناقابل قبول ہےکیونکہ جن نبیوں کی وہ دلیل دیتے ہیں اول تو اس کے ایمان لانے والے ہم مسلمان ہیں۔لہذا ارشاد تورات کے مطابق اس جگہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی اب بھلا اس سے بالا تر شے ان کے لیے کیا ہو سکتی ہے۔ اگر تاریخی نگاہوں سے قدسیات کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ برکتوں سےبھری سرزمین مسلمانوں کے حق میں آتی ہے۔خدا نے اپنے کلام میں ارشاد فرمایا ہے کہ ; واورثنا القوم الذين كانوا يستضعفون مشارق الارض ومغاربها التي باركنا فيها;(الاعراف/١٣٧)

ترجمہ: اور وارث کر دیا ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور سمجھے جاتے تھے۔ اس زمین کے مشرق اور مغرب کا جس میں برکت رکھی ہے ہم نے ۔اگر مقدسات کا مشاہدہ کیا جائے تواس سرزمین سب سے زیادہ حقدار مسلمان ہی ہیں۔قرآن ا اور مفسرین کی تفسیرات سےعلماء کا اس بات پہ اجماع ہے کہ حضرتابراہیم علیہ السلام کی ولادت شہر عراق میں ہوئی تھی اور وہیں آپ نے توحید کی روشنی پھیلائی ۔ہاں اگر یہودی کے کہے کے مطابق ابرانی ذات ابراہیمی سے ہے توان کا فلسطین پر کسی طرح کا حق نہیں بنتا ۔اس دعوے کا نام جناب عالی باباۓہند مہاتما گاندھی نے بھی اپنے بیان میں کچھ اس طرح سے کیا ہے ;فلسطین اس قدرمسلمان کا ہے جس قدر انگلینڈ انگریزوں کا ہے;۔اس جگہ کے حقیقی وارثین فقط مسلمان ہی ہیں۔انسوس شریعت کی روشنی میں ارض شام کے فضائل بیان کرتے ہوئے ابن تیمیہ لکھتے ہیں۔ارض شام ہی میں مسجد اقصی ہے یہیں انبیاء بنی اسرائیل کی بعثت ہوئی اسی کی جانب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہجرت کی اسی کی جانب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بوقت شب معراج سفر کرایا گیا اور یہیں سے آپ کی معراج ہوئی اور یہی آپ کی سلطنت برپا ہوگی اور آپ کے دین و کتاب کا دارومدار ہوگا اور یہیں آپ کی امت منصورہ پائی جائے گی اور یہیں محشر و معاد قائم کۓ جائیں گےگا جیسا کہ مکہ جائے ابتدا ہے اسی سے اسی کے تحت سے زمین کو پھیلایا گیا جبکہ لوگوں کا حشر ارض شام میں ہوگا۔چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے کہ لأول الحشر; (الحشر /٢) جس سے حشر ثانی کی غمازی ہوتی ہے لہذا مکہ جائے اغاز اور ایلیا (بیت المقدس)خلق و امر دونوں حوالوں سے جائے انجام و معاد ہے اسی لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے ایلیا (بیت المقدس) کا سفر کرایا گیا اور مکہ ہی میں آپ کی بعثت ہوئی اور آپ کے دین کا ظہور ہوا لیکن مہدی علیہ السلام کی سلطنت کے بپا ہونے تک آپ کے دین کا عروج و ظہور اور اس کی تکمیل ملک شام ہی میں ہوگی تو خلق و امر کے متعلق سے مکہ اول اور ملک شام آخر ہے اور یہ تقوینی اور دینی حقائق کی باتیں ہیں۔

بیت المقدس جہاں مسجد اقصی واقع ہے بطور خاص بے حد مقدس سرزمین ہے اس کے چپے چپے پر برکت و تقدس کے نقوش ابدی ثابت ہیں ۔ ابو لیمن علیمی مجیر الدین حنبلی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الانس الجلیل بتاریخ القدوس والخلیل میں مفسر و محدث مقاتل بن سلیمان رحمہ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے:اس شہر کا کوئی چپہ ایسا نہیں جس پر کسی نبی مرسل نے نماز نہ پڑھی ہو یا ملکمقرب نے قیام نہ کیا ہو حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا اللہ پاک نے بیت المقدس ہی میں قبول فرما کر انہیں حضرت یحیی کی تولدکی بشارت دی۔اور انبیاء کرام نے بیت المقدس ہی میں اللہ کے تقرب کے لیے نظر و نیاز پیش کی بیت المقدس ہی میں حضرت مریم علیہ السلام کو بحکم خداوندی جاڑے کے پھل گرمی میں اور گرمی کے پھل جاڑے میں نصیب ہوئے یہیں حضرت عیسی بن مریم کی پیدائش ہوئی اور گود میں تکلم فرمایا اور یہیں سے اللہ تعالی نے انہیں آسمان پر اٹھایا یہی ان پر آسمان سے مائدہ نازل ہوا بیت المقدس ہی تک شب اسرا وہ معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لانے کے لیے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے براق کا انتظام فرمایا تھا شہر قدس کی اسی عظمت کے پیش نظر علماء نے اسی کی فضیلت اور رفعت کے موضوع پر 70 سے زائد کتاب تالیف کی ہے مسلمانوں نے بوقت فتح یہاں ایک قطرہبھی انسانی خون نہیں بہنے دیا۔


 

Faizan Faizy
About the Author: Faizan Faizy Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.