بھوکا گدھ اور مٹھو میاں (پہلی قسط)

ایک دن گِدھ نے اچانک طوطے کو دھر دبوچا تو وہ حیران رہ گیا۔ اس نے سوال کیا ’بھیا آج مجھ پر کیوں مہربان ہوگئے ؟‘‘۔
گِدھ بولا اچھا تو اب مجھے کسی پر مہربانی کرنے کے لیے تم سے اجازت لینی ہوگی؟ تم آخر اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو؟
طوطا گھبرا گیا ۔ وہ بولا گستاخی معاف حضور میں کون ہوتا ہوں آپ کو اجازت دینے یا روکنے والا لیکن یہ کسی اور کا نہیں میرا اپنا معا ملہ ہے ۔
تمہارا ہے تو کیا ہوا ؟ میں مہربانی ہی تو کررہا ہوں کوئی ایذارسانی تھوڑی نا کررہا ہوں ؟
جناب عالی اگر اس طرح دھردبوچنا ایذا رسانی نہیں تو اور کیا ہے؟
یار تم کمال کی مخلوق ہو۔ ابھی ابھی تو تم نے خود کہا تھا مجھ پر مہربان کیوں ہورہے ہو؟ اور اب اسے ایذارسانی کہنے لگے ۔ یار تم تو جنگل کے راجہ زعفرانی سمراٹ شیر ببر سے بھی بڑے جھوٹے لگتے ہو ۔
دیکھو بھیا کسی اور سے موازنہ کرکے مجھے گالی نہ دو ۰۰۰۰کیا سمجھے؟
اچھا توتم ہمارے عظیم شہنشاہ کو گالی دے رہے ہو؟ میں تم کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کروا دوں گا ۰۰۰کیا سمجھے ؟
طوطا اس دھمکی سے کر ڈر گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے باغی بھیڑیوں اور کتوں کا انجام گھوم گیا ۔ وہ بولا بھائی نہ تو میں نے کسی کو گالی دی اور نہ بغاوت کی ۔ تم میرے منہ میں اپنے الفاظ کیوں ڈال رہے ہو؟
میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔ مجھے تو لگتا ہے تم نے ظل ِ الٰہی کی جو تو ہین کی ہے اس کا علاج کرنا پڑے گا ؟
بھیا دیکھو اول تو میں نہ بیمار ہو ں اور نہ تم حکیم ہو اس لیے مجھے چھوڑو اور اگر خدمتِ خلق کا اتنا ہی شوق ہے تو کسی مریض کو پکڑ کر علاج معالجے کے لیےڈاکٹر شاہ کے پاس لے جاو۔
اچھا تمہاری یہ مجال کہ مجھے یہ سکھا رہے ہو کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے؟ تم آخر اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو؟
طوطے کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر آج اس مردہ خور گدھ کو ہوکیا گیا ہے؟ وہ ہر بات کا الٹا مطلب نکال لیتا ہے۔کہیں یہ غلط سنگت میں تو نہیں پڑگیا ۔ اس نے سوال کیا کہ بھیا یہ بتاو کہ آج کل تم کن لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہو؟
گِدھ بولا اس سے تمہیں کیا غرض ؟ تمہارا تعلق سی بی آئی سے ہے؟
جی نہیں ! میں تو ایک شریف آدمی ہوں۔ میرا کسی سی بی آئی یا ای ڈی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اچھا تو کیا ان موقر اداروں میں سارے بدمعاش بھرے پڑے ہیں ۔ میں یہ سب ان کے گرو گھنٹال کو بتا دوں گا ۔ تب جاکر تمہیں دال آٹے کا بھاو پتہ چلے گا ۔
طوطا زچ ہوکر بولا میرے بھائی یہ بتاو آخر تم چاہتے کیا ہو؟ مجھ پر اپنی گرفت ڈھیلی کیوں نہیں کرتے ۔
گدھ نے کہا میرے عزیز طوطے سچ بتاوں مجھے بہت بھوک لگی ہے۔تین دن سے ایک بوٹی اگر پیٹ میں گئی ہو حرام ہے ۔ اب برداشت نہیں ہوتا۔
طوطے نے کہالیکن بڑے بھائی میں تو ابھی زندہ ہوں ۔ تمہاری جگہ کوئی بلی ہوتی تو میں حفظِ ماتقدم کے طور پر پہلے ہی پھُر ہوجاتا لیکن تم کوئی درندے تھوڑی نا ہو اسی لیے بے فکر بیٹھا رہا ۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ ۰۰۰۰
گِدھ بولا اچھا تو مجھے بھیگی بلی سے بھی زیادہ بے ضرر سمجھتے ہو؟ میں آسمان کا بادشاہ ہو ۔ تم نے بلی سے موازنہ کرکے میری توہین کی ہے ۔
طوطا پھر پھنس گیا۔ وہ بولا جی نہیں جناب میں نے آپ کی تعریف کی ہے ۔ بلی ّ تو ہم جیسے بے ضرر لوگوں پر ہاتھ صاف کرکے ہمیں اپنا تر نوالہ بناتی ہے۔ اس کے برعکس تم بھیڑئیے جیسے درندے پر بھی نظربد نہیں ڈالتے ۔ میرے بس میں ہوتو میں عالمی امن کا انعام آپ کے نام کردوں ۔
گِدھ اپنی اس قدر تعریف سن کر قدرے پسیج گیا اور بولا طوطے تمہاری چونچ سے پھول برستے ہیں لیکن میں تم کو اندر کی بات بتاوں مردہ بھیڑئیے کا گوشت شیر سے بھی زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔
آپ نے درست فرمایا موت کے بعد بھی بھیڑئیے کے اندر سے اس کی خونخواری نہیں جاتی ۔ اسی لیے اس کا گوشت زیادہ لذیذ ہوتا ہوگا لیکن میں تو ابھی زندہ ہوں ۔ آپ سے گفتگو کا شرف حاصل کررہا ہوں؟
گدھ بولا دوسری مرتبہ تم مجھے یہ اطلاع دے رہے ہو تم نے مجھے بیوقوف سمجھ رکھا ہے کیا؟
جی نہیں سرکار میں ایسی گستاخی کیسے کرسکتا ہوں ۔
تو کیا تم نہیں جانتے کہ زندہ اور مردہ کے درمیان فرق مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔
مجھے پتہ ہے اسی لیے تو پوچھ رہا ہوں ۔ یہی حرکت اگر کوئی الوّ کرتا تو میں اس کو نظر انداز کردیتا ۔
طوطے کی لن ترانی پھر سے اس کو مہنگی پڑ ی۔ گدھ نے کہا تم تفریق و امتیاز کرتے ہو۔ تم نےجنگل میں نافذ مساوات کا قانون توڑا ہے ۔
ارے بھیا بھگتوں کی طرح الوّ کو تو خود اپنے احمق ہونے پر ناز ہے ۔ اس لیے اسے بیوقوف کہنا اس کی تعریف ہے ۔ وہ اسے سن کر اسی طرح خوش ہوجاتا ہے جیسے لومڑی کو شیر کی چمچی کہنے پر وہ خوشی سے جھوم اٹھتی ہے ۔
تم زیادہ باتیں نہ بناو۔ الو ّ کی اہانت کے لیے تمہیں سزا مل کر رہے گی ۔
اچھا تو مجھے بندر کی عدالت میں لے چلو ۔ اس کے انصاف کا ترازو اگر تمہارے حق میں جھُک جائے تو میں ازخود پھانسی کے پھندے لٹک جاوں گا ۔
دیکھو میاں طوطے یہ اگلے زمانے کی باتیں جب ترازو میں دو پلڑے ہوا کرتے تھے اور اِدھر اُدھر جھکا کرتا تھا ۔ اب زمانہ بدل گیا ہے۔
زمانہ بدل گیا ؟ میں نہیں سمجھا ۔ کیا بندر نے اپنا ترازو توڑ دیا ہے؟
جی نہیں اب اس کے ترازو میں صرف ایک پلڑہ ہوتا ہے۔ زمین کے چرندوں اور درندوں کے معاملے میں وہ شیر کی جانب اور آسمان کے پرندوں کی بابت وہ میرے آگے سجدہ ریز رہتا ہے۔
طوطے نے کہا تب تو میں نے غلط پیشکش کردی ۔ ایسا کرو کے بندر کے پاس جانے کے بجائے تم خود ہی میرا فیصلہ کردو ۔
گِدھ خوش ہوکر بولا یہ ہوئی نا بات ! یعنی تم نے ازخود کواپنے آپ کو میرا تر نوالہ بنانے کے لیے پیش کرہی دیا ۔ سمجھدار معلوم ہوتے ہو۔
طوطے نے سر جھکا کر کہا بندہ حاضر ہے لیکن میرے مرنے کا انتظار کرنے کے بجائے کوئی مردہ تلاش کریں تو اس میں آپ کی بھلائی ہے ورنہ ۰۰۰
ورنہ کیا ؟ تم میرا کیا کرلوگے ؟
میں کچھ نہیں کروں ۔ میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ کہیں میری موت سے قبل بھوک سے آپ کے ساتھ کچھ اونچ نیچ نہ ہوجائے ؟
اونچ نیچ کیا ہوتا ہے؟ میں نہیں سمجھا ۔ کھول کر بتاو۔
یہی کہ بھوک سے لوگ مر بھی تو جاتے ہیں ۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کے ساتھ کچھ ایسا ویسا ہوجائے۔
ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔ تمہاری پیشکش کے مطابق پہلے میں تم کو موت کی سزا دوں گا اور پھر چٹ کرجاوں ۔
یہ سن کر طوطے کے چودہ طبق روشن ہوگئے ۔ اسے موت کا تو پورا یقین تھا مگر یہ نہیں سوچا تھا کہ جیتے جاگتے کسی مردہ خور کا تر نوالہ بننا پڑے گا۔
(باقی کل ان شاء اللہ)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2115 Articles with 1368324 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.