سر اگر خم ہوتو بس خم ہو خدا کے آگے

یہ ایک بہت بڑی سچائی ہے کہ کلامِ ربانی کاکسی بھی زبان میں ترجمہ ممکن تو ہے لیکن آسمانی عربی کے پیغام کو اس کی تمام تر انقلاب آفرینیوں کے ساتھ کسی دوسری زبان میں منتقل کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو عرشِ اعظم کی عربی کے قریب ہی رکھیں اوراِن پر تدبر کی عادت اپنے اندر پیدا کریں،نہ کہ کسی ترجمے پر غورو فکر کو قرآن فہمی کا واحد ذریعہ سمجھیںیا یہ کہ تفسیری حواشی میں غوطہ زن ہو کر یہی سمجھتے رہیں کہ ہم نے قرآن فہمی کے مرحلے طے کر لئے ہیں۔ترجموں اور تفاسیر کی اہمیت اپنی جگہ ضرور ہے جو ہمارے علم میں اضافہ کرتے ہیں، مترجم کے فہمِ قرآنی سے واقف کراتے ہیں، لیکن ہدایت سے فیض یاب ہونا ہے تو، ہدایت کا اصل منبع وہ عربی ٹکسٹ ہے جوبہ شکلِ وحی کتاب اللہ میں موجود ہے۔یہ اپنے اندر سمندر کی طرح عمیق گہرائی رکھتی ہے، معانی و مفاہیم کی یہی وہ گہرائی ہے جس سے نا آشنائی، قرآن کی حامل قوم کو اپنی ذلت و نکبت پر شرمسار تک ہونے نہیں دیتی، اُس کے دل میں کبھی احساسِ زیاں کی لہر تک نہیں اُٹھتی ۔سیدھی سی بات ہے،جن آباءو اجداد کی دنیاوی سرخروئی اورعالمگیر غلبے کے ہم گن گاتے نہیں تھکتے ، وہ دراصل قرآن کے ترجمے نہیں بلکہ وہ وہی مصحف پڑھتے تھے جو اُن کے پا س عربی زبان میں موجود تھا،جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم، اُن کے ہاتھوں تھما گئے تھے۔ظاہر ہے اگر اُن کے عروج اور غلبے کا راز یہی رہا ہوگا (بلکہ یقینا رہاتھا)تو پھر ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہم قرآن کو چھوڑ کر اپنی زبانوں کے ترجموں کو قرآن سمجھ لیں اوراِنہیں ہدایت کا ذریعہ سمجھتے ہوئے دنیا پر غلبے کے خواب دیکھیں۔

ہم اپنے مضمون میں آیات کا اردو ترجمہ پیش کرنے کی صرف اِ س لئے کوشش کرتے ہیں کہ کتاب اللہ سے ہماری اپنی خودکی بنائی ہوئی دوری اوراجنبیت کورفتہ رفتہ کم کیا جائے ۔اِس حقیقت کے مکمل شعور کے ساتھ یہ مضمون سپردِ قلم ہے۔ اٹہترویں سورة کی اکتیسویں تا سیتیسویں آیات کے قریب ہونے کی ایک کوشش یہ ہے:”....ِانَّ لِلمُتَّقِینَ مَفَازاً (....(۱۳) حَدَائِقَ وَاَعنَاباً ....(۲۳)وَکَوَاعِبَ اَترَاباً ....(۳۳)وَکَاساً دِہَاقاً ....(۴۳)لَّا یَسمَعُونَ فِیہَا لَغواً وَلَا کِذَّاباً ....(۵۳)جَزَاء مِّن رَّبِّکَ عَطَاء حِسَاباً ....(۶۳)رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالاَرضِ وَمَا بَینَہُمَا الرحمَنِ لَا یَملِکُونَ مِنہُ خِطَاباً ....(۷۳)”بے شک متقین کے لیے فوز ہی فوز(اور حتمی کامیابی) ہے،گھنے باغات اورانگورکی طرح کے پھل ہیں، مکمل طور سے ہم مزاج جوڑے ہیں(Perfectly Matched Partnersہیں)،چھلکتے جام ہیں،(یہ ایسا مقام ہوگا جہاں)کسی لغو اور ناپسندیدہ کلام کانوں میں بھی نہیں پڑنے والا۔(نہ کسی حکم کی تکذیب،نہ کوئی غیر شریفانہ گفتگوہی ہوگی)۔تیرے رب کی جزائ، عطائے بے حساب (کی شکل میں تیرے سامنے ہوگی)، اُسی رب(کریم) کی طرف سے جو آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان موجود ہر شے کا رب ہے ۔ (اُس دن)اُس سے مخاطبت کی کوئی بھی جرت نہیں کر سکے گا۔“

انسان اپنی تمام تر ترقیات اورتمدنی پیش رفت کے باوجود، موت کے بعد کے حالات یااُخروی زندگی کی کیفیات کے سلسلے میں توہمات Superstitionsکا مستقل شکار رہا ہے ۔حقیقتاً موت کے بعد کے حالات انسانی تصورمیں کبھی سما ہی نہیں سکے۔ یہ صرف کتاب اللہ ہے جو ہمیں زندگی بعد موت، جزا اور سزا، جنّت اور جہنم کی خبر دیتی ہے۔اِس سلسلے میںیہ جتنی بھی اور جیسی بھی معلومات ہمیں فراہم کرتی ہے وہ کہیں کسی اور کتاب میں موجود نہیں۔ ہمیں لامحالہ اسی معلومات پر انحصار کرنا اور ایمان رکھنا ہے،جو جہنم کے ضمن میں کتاب اللہ کی آیتوں میں درج ہیں اور ان سے بچنے کی ہمیں فکردامن گیر ہو۔اِسی طرح جنت کی نعمتوں کی جو خبر کتاب اللہ فراہم کرتی ہے اِن کے حصول کی ترغیب ہمیں رب کی رضا کے کاموں پر آمادہ کرے۔

قرآن مجید کا یہ وصف ہے کہ وہ صحیح اور غلط ، حق اور باطل ، سفید و سیاہ کوایک دوسرے سے بالکل ممتاز کرکے پیش کر تا ہے۔ ایک بصارت یافتہ فرد کے لئے یہ ایک ایسی دوربین ہے جو آئندہ آنے والے کل کو اور اُس تک پہنچنے والے راستے کو فی زمانہ نہایت روشن دکھا دیتی ہے،تاکہ ہم اُس راہ کے راہی بن جائیں جو فلاح کی منزل پر پہنچا دینے والی ہے۔!!یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہماری بصیرت ہمیں بتا دے کہ قرآن جسے صحیح کے مقابلے میں غلط کہتا ہے، حق کے مقابلے میں باطل کہتا ہے اورسفید کے مقابلے میں جسے سیاہ کہتا ہے،اُس کی پیروی ہمیں برے انجام سے دوچار کرو ا دے گی۔کیا ہم ایسی بصیرت آشنا بصارت سے فیض یا ب ہیں؟کیاآج بلکہ ابھی، اِسی لمحے ہم اپنے اندر تقویٰ کا احساس پیدا کرنے کے لیے تیار ہیں، کیا ہم ڈر ڈر کر زندگی گذارنے کاحوصلہ رکھتے ہیں؟کیاہم اپنی سرگرمیوں کو رب تعالےٰ کی موکدہ سرگرمیوں سے ہم آہنگ کرانے کو تیار ہیں جس کی لسٹ ہمیں دوسری سورة کی ایک سو ستہترویں آیت میں ملتی ہے اور جسے ساری انسانیت کے لیے فراہم کیا گیا ہے؟:” نیکی ہر گز یہ نہیں کہ تم اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف پھیر لو۔نیکی کا معیا ر تو یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ ایماندار ی کا تعلق استوار کیاجائے،(نکو کار کے لیے ضروری ہے کہ) یوم آخرت کے حساب کے تئیں حساس ہو،فرشتوں پر اُس کا ایمان ہو، الکتاب پر اور تمام نبیوں پر بھی۔ اوردیتا رہے اپنا مال اپنے قریب والوں ،رشتہ داروں، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں ، سوال کرنے والوں اور لوگوں کی پھنسی ہوئی گردن کو چھڑانے کو محض اللہ کی محبت اور رضا کی خاطر۔ اورنماز اور عبادات قائم کرے اورزکوٰة (چیریٹیبل سرگرمیوں میں اپنا حصہ) ادا کرے اور نیکو کار وہ ہوں گے جو اپنے معاہدوں Commitments کو پورا کرنے والے ہوں جوکسی معاہدے میں (کسی کے ساتھ بندھ چکے ہوں) اورپریشانی،تکلیف ، جنگ کے ایام میں صبرکرنے والے۔(نیکیوں کی اِس فہرست پر عامل لوگ ہی) نکوکار کہلائے جانے کے مستحق ہو ں گے، جنہوں نے اپنے دعویٰ ایمان کو سچ کر دکھایااور یہی وہ لوگ ہیں جو تقویٰ والے (کہلائے جا سکیں گے)۔ “

کیا نیکیوں کی یہ فہرست ہماری نظر میں ہے؟نیکیوں کی اِس فہرست پر ایک نظر ڈالئے اور اُسوہ رسول کو پیش نظر رکھ کر دیکھئے کہ اِس میں سے کیسا متوازن اورمثالی کرداراُبھرنے کی اُمید بندھتی ہے اور کس طرح اُسوہ رسول میں اِن نیکیوں کاعکس ملتا ہے۔ اِنسانیت کے لیے کس قدر ثمر آور ہوتا ہے یہ کرداراور کس طرح وہ اُخروی کامیابی کا اُمیدوار بننے کے قابل بن جاتا ہے۔اپنے خود ساختہ یا کسی اور کی عطا کردہ رسومات کی پاسداری کے بجائے پوری دینی سپرٹ کے ساتھ اِن نیکیوں پر عمل آوری اور اِس کے ساتھ اِلٰہی طریقہ کارDivine Line of Actionکی پابندی،ہمیں اپنے کردار کو اُس رول ماڈل یا اُسوہ حسنہ سے ہم آہنگ کر سکتی ہے جسے خاتم النبین صلی اللہ علیہ و سلم نے ساری دنیا کے لیے چھوڑا ہے۔

اپنے رب کی فراہم کردہ نیکیوں کی اِس لسٹ سے ہم آہنگ زندگی لے کر ہم اپنے رب کے حضور حاضر ہوں گے توانعامات و اکرامات کے ساتھ ایک ایسی کامیابی ہمارے قدم چومے گے ، جسے کسی ذہن نے نہ کبھی سوچا ہوگا ، نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا اور نہ کسی کان نے سنا ہوگا۔محدودانسانی عقل کے پیشِ نظر رب تعالےٰ نے انعامات کی لسٹ میں بہ ظاہرکچھ علامتی اجناس کا ذکر ضرور کیا ہے ، جیسے انگور، انار، میوے، شہد ، دودھ اور فرحت آفریں مشروبات ، گھنے باغات، اونچے مکانات، نفیس صوفے اور قالین، ظروف اورچھلکتے جام و مینا۔سامانِ آسائش کی یہ علامتیں انسانی دنیا کے لئے بطورِ تمثیل ہیں ، جوانسانی سمجھ کی سہولت کے لیے ہوں گی جوظاہر ہے اپنے اِظہار کے اعتبار سے محدود ہی ہوں گی، ورنہ حقیقت اس سے بالکل جدا ہوگی، یعنی کوالیٹی کے اعتبار سے اِس قدر ارفع و اعلیٰ کہ جس کا انسان تصور بھی نہ کر سکے۔اللہ کے ساتھ ایمانداری کا رویہ اختیار کرنے والوںکو عطا کی جانے والی نعمتوں میں ایک نعمت ”ہم مزاج مثالی جوڑوں کی نعمت“ہوگی،(یعنی زندگی کے Perfectly matched Partners) اور یہ نعمت اُس کی عین فطری خواہش کے مطابق ہوگی جو دنیوی زندگی میں کسی صورت پوری نہیں ہو سکی ہوگی۔یہاں جن جوڑوں کے ساتھ ہم نے زندگی گزاری ہے ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہر معاملے میں ہماری خواہشات کے معیار پرپورے پورے اُترنے والے ہیں۔اِ س دنیا میں اِن کے ساتھ زندگی بسر کرنا ہمارا فرض ہے۔ان آیات میں اِس اہم نعمت کا تذکرہ موجود ہے جس کے مستحق اللہ کے وہ کامیاب بندے ہوں گے جنہوں نے ایک ایماندارانہ زندگی گزار کر آخرت میں رب تعالےٰ کے روبرو پہنچے ہوں گے اور وہ نعمت ہوگی:”کَوَاعِبَ اَترَاباً“ یعنی جنت میں ا ن کو” مثالی اور ہر طرح سے ہم مزاج جوڑے “ فراہم کیے جائیں گے۔ یہ جوڑے ہر اعتبار سے مکمل Perfectly Matched Spouses ہونگے۔ عمر کے اعتبار سے بھی اور حسن و جمال کے لحاظ سے بھی۔ ذہانت کے لحاظ سے بھی اور مزاج کے اعتبار سے بھی۔سلیقہ شعاری کی رُو سے بھی اور باہمی اُلفت و آداب کے اعتبار سے بھی۔لیکن اسکی ایک شرط ہے اور یہ وہی شرط ہوگی جو جنت کے حصول کی شرط ہے۔ جسے مختصر طورپر سورة العصر یعنی ایک سو تیسری سورة کی تیسری آیت میںبیان کیا گیا ہے:”صرف وہ لوگ(خسران سے بچیں گے اور فلاح سے ہم کنار ہوں گے) جو ایماندار ہونگے،جنہوں نے عملِ صالح کئے ہوں گے اور(یہ حق پرست لوگ) حق کی تلقین کرتے رہے ہونگے اور(یہ خوگرِصبراِنسان دوسروں کو) صبر کی تلقین کرتے رہے ہونگے۔ “

جن لوگوں نے اس دنیا میں غیر مناسب جوڑوں سے نباہ کیا ہوگا اور اپنے رب کی رضا کی خاطر اِن کے ساتھ صبر و مصالحت کی زندگی گزاری ہوگی،ہر قسم کی کراہت کو انگیز کیا ہوگا،منفی طرزعمل کا مثبت جواب دیا ہوگا۔حتی الامکان اپنے رویہ کو احسن رکھاہوگااور صبر و ثبات کی زندگی گزاری ہوگی تو ان کا رب انکی مغفرت فرمائے گا اور انہیں سدا بہار نعمتوں والی جنت میں داخلہ عنایت فرمائے گاتاکہ انہیں اُخروی زندگی کی ہر مکمل نعمت حاصل ہو جو دنیوی زندگی میں نامکمل رہی تھی، اِن میں مثالی معیاری جوڑے بھی شامل ہوں گے۔کبھی ختم نہ والی خوشیوں کی بہار ہوگی۔ عیش و عشرت کی فردوسی نعمتیں، چھلکتے جام، غیر معمولی امن و امان بلکہ سلامتی ہی سلامتی، خواہشوں کی تکمیل کا ہر ساز و سامان اللہ کے ایماندار بندوں کے لیے آنکھوں کے سامنے حاضر ہوں گے۔دنیوی زندگی کے وہ انفرادی و اجتماعی لٹیرے جنہوں نے زمین پر اپنے مفادات کی آگ بھڑکا رکھی تھی، جہنم کے تحت السریٰ میں اپنی موت کے لیے ترس رہے ہوں گے،طاقت کے نشے میں چوردُنیاوی ٹررزم کے خفی و جلی سر غنے جنہوں نے معاشی وسیاسی دھاک کے ذریعہ دنیا کو جہنم زار بنا کرانسانوں کے قتلِ عام کا سطحِ زمین پرٹھیکہ لے رکھاتھا ،دوزخ کی عمیق ترین گہرائیوں میں اپنے ٹررکی سازشوں کے ساتھ آگ کی لپیٹوں میں ایک بے سود چیخ بلند کر کے اپنے خاتمے کی ناکام آرزو کررہے ہوں گے اور داروغہ جہنم اِن کی بپتا کو سنی ان سنی کر دے گا۔یعنی حشر میں جزا بھی معیاری ہوگی اور سزا بھی ۔

ربِّ ذو الجلال و الاکرام چھپنویں سورة کی پچیسویں اور چھبیسویں آیت میں بندوں کے نام یہ پیغام نشر فرماتا ہے کہ:” کوئی لغو بات نہ کوئی غیر معیاری گناہ آمیز فضول آواز اُن کی سماعت سے ٹکرائے گی ، سوائے اِس کے کہ( ہر ایک کی زبان پر بس)” سلاماً سلاماً“ (کے بول ہوں گے)۔“ آپ کے رب کی جانب سے جزا ہوگی.... عطا ہوگی (Calculationکے اُن معیارات کے مطابق جو) اللہ کے حساب و کتاب(کے ساتھ میل کھانے والے ہوں گے)۔“ Calculationکے اِلٰہی معیارات کیا ہوں گے؟اٹہتر ویں سورة کی چھتیسویں آیت میں یہ الفاظ ایمانداروں کی زبردست دھارس باندھنے والی ہیں:”آپ کے رب کی جانب سے جزا ہوگی،عطاہو گی (ایسی عطا جو) رب تعالےٰ کے حساب اورCalculations کے مطابق ہوگی۔ظاہر ہے جو عطا خود اللہ کی جانب سے ہو اُس کی عظمت کا کیا کہنا۔رہی یہ بات کہ یہ جزا و عطا کس حساب سے ایماندار بندوں کو نصیب ہوگی تو اِس کا اندازہ خود کتاب اللہ سے بندوں کو کرایا گیا ہے۔ستّر ویں سورة کی چوتھی آیت میں ہے:”.... ( وہاں کا)دن....جِس کی مقدارہوگی (دُنیاوی سالوں کے مقابلے میں) پچاس ہزارسال....“اگر وہاں کا ایک دن ہمارے پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا تو ہمارے آلاتِ پیمائش Measuring Scales صرف ایک سال کی پیمائش سے قاصر رہ جائیں گے´۔پھر اگر رب تعالےٰ کہیں” بغیر ِحساب یابے حساب “کا فقرہ استعمال کرتے ہیں تو پھراِس سے مراد Infinity ہو گی جس کے شمار کا ہم تصوربھی نہیں کر سکتے۔ہماری پیمائشوں کا حال تو یہ ہے کہ ہم زمین کی ایک گردش کو چوبیس گھنٹے کہہ لیتے ہیں۔سورج ہمارے علاقے کے مقابل ہوتو دن کہہ لیتے ہیں جو بارہ گھنٹوں کا ہوتا ہے اور مخالف علاقے میں تو ہم تاریکی میں ڈوب جاتے ہیں اوریہی ہماری رات بن جاتی ہے۔ یہ بھی بارہ گھنٹوں کی ہوتی ہے اور اِس طرح ہم دن اور رات کی گنتی پوری کر لیتے ہیں۔صرف زمین کی فضا سے باہر اسپیس میں چاند ، مریخ، عطارد، نیپچون، میں اپنی اپنی گنتی جداگانہ ہوگی سو ہوگی لیکن پوری کائنات میں کروڑوںدیگر نظام ہائے شمسی اپنی کروڑوں کہکشاﺅں کے ساتھ جو مصروفِ گردش ہیں وہ کائنات میں بسنے والوں کو وقت کی پیمائش کا جو تصور Concept دیتے ہیں اُس کی ماہیت و کیفیت سے صرف رب تعالےٰ ہی واقف ہو سکتا ہے ، انسانو ں کی مجال کہاں کہ اِس پر لب کشائی کرسکے۔ یہ محض ہماری سادہ لوحی ہے کہ ہم ایک نیکی کا ساٹھ، ستّر گنا مانگ کر خود کو جیسے روک لیتے ہیں اور ربِ غفور الرحیم کی بے حساب عطاﺅں، بخششوں کو محدودا عداد میں بدل دیتے ہیں۔ اُس کے لطف و کرم اوراُس کی بے پناہ رحمتوں کی طلب کا دامن وسیع تر ہونا چاہیے۔ رب تعالی تو الرّحمن ہیں، عالی شان ہیں، مانگیں اپنے رب سے تو اس کی شان کے مطابق مانگیں۔ اس کے بےشمار فضل اور رحم وکرم کے امیدوار بنیں۔ وہ رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ہے ان کے درمیان۔ وہ رب ہے مشرق اور مغرب کا۔ وہ خالق اور مالک ہے ہر ایک شئے کا ۔

رب ذوالجلال والاکرام، ہم آپ کے بندے ہیں، غلام ہیں۔ آپ داتا تو ہم فقیر، آپ غنی ہیںتو ہم محتاج۔ہم آپ سے بے مثال اور بے انتہا خیر کے سوالی ہیں۔ ہمیں اپنی شان کے مطابق نواز دیجیو نہ کہ ہمارے بے حیثیت دامان کے مطابق۔ہمارا خاتمہ ہو اِس حال میں کہ ہم آپ کے ایمانداربندے بنے رہیں۔ہماری مغفرت اِس طرح ہو کہ ہمارے داغ ہائے داماں دُھل چکے ہوں۔جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ سے ہم آپ کی پناہ چاہتے ہیں۔جنت نعیم کے لیے اُمیدواری پر ہم آپ کے کرم کی نگاہ چاہتے ہیں۔ آمین۔اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ ۔ وارناالباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔ اللہم ارنا الاشیاءکما ھی ....” اے ہمارے رب! حق ہمیں حق ہی دکھائی دے اور اسکی اتباع کی توفیق عنایت فرمائیے۔ اور باطل ہمیں باطل ہی دکھائی دے اور ہمیں اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیے۔ اے ہمارے رب ! ہمیں چیزیں، معاملات اور واقعات ویسے ہی دکھائیے، جیسے کہ وہ ہوں۔ “

میں ڈھونڈتا ہوں کہ وہ لوگ کہاں گیے جو رب کائنات کی آیتوں سے اپنی محبت کا ثبوت اِن سے والہانہ تعلق اُستوار کرکے دیا کرتے تھے اور اپنے عمل سے ثابت کردیتے تھے کہ ہم اللہ کے واقعی ایمانداربندے ہیں اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی حقیقی متبع....؟؟؟
Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 83339 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.