علم حدیث اورمحدثین عظام - قسط 5

امام ابوعیسیٰ محمدبن عیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ:
حدیث کے سب سے مقبول اور مستند ترین مجموعے”صحاح ستہ“ میں چوتھا درجہ امام ترمذی کی تصنیف کردہ کتاب ”جامع ترمذی“ کا ہے ۔اس کتاب کو بعض خصوصیات کی وجہ سے تدریسی طور سے بہت اہمیت حاصل ہے ۔کتاب کے تعارف سے قبل صاحب کتاب سے کچھ واقف ہوجانا بہتر ہے ۔

امام ترمذی کا نام محمد اور ابوعیسیٰ کنیت ہے ،قبیلہ بنو سلیم سے تعلق رکھتے تھے ،آپ کا پورا نسب یوں بیان کیا جاتا ہے:محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن موسیٰ بن ضحاک سلمی ترمذی بوغی۔بوغی: بوغ کی جانب منسوب ہے جو ترمذ کاایک گاؤں تھااور بعض روایتوں کے مطابق امام ترمذیؒ کی وفات بھی وہیں ہوئی اور اسی میں آسودہ خواب ہیں، یہ گاؤں ترمذ سے چھ فرسخ کی مسافت پر واقع ہے۔

امام موصوف205ھ میں مقام ترمذہی میں پیدا ہوئے ،یہ ترمذ ایک قدیم شہر ہے جو دریائے جیحون (دریائے آمو)کے ساحل پر واقع ہے اس کا تلفظ تِرمذ، تَرمذاور تُرمذتینوں طریقوں سے ہے لیکن عام طور سے تِرمذ (زیر کے ساتھ)ہی مشہور ہے۔

امام ترمذی بھی اسی خوش نصیب دور میں پیدا ہوئے جس میں علم حدیث شہرت کے درجے کو پہنچ چکا تھا،دنیائے اسلام میں علم حدیث ، محدثین اور طلبہ حدیث کا خوب چرچا تھا اور ہر بڑے شہر میں درس حدیث کے وسیع حلقے قائم تھے ۔حجاز ،شام ، مصر ،بصرہ وکوفہ کے علاوہ خراسان اور ماوراءالنہر کے علاقے بھی علم حدیث کا مرکز بن گئے تھے اور یہی وہ دور تھا جس میں امام بخاری جیسے جلیل القدر محدث کے درس حدیث کی شہرت دنیائے اسلام کو متاثر کررہی تھی ۔اس دور میں امام ترمذی نے جونہی شعور کی آنکھیں کھولیں ،انہیں علم حدیث کے حصول کا شوق دامن گیر ہوگیا،چنانچہ امام ترمذی نے اس زمانے کے عام معمول کے مطابق حصول علم کے لئے دوردراز شہروں اور کئی ملکوں کا سفر کیا اور اپنے زمانے کے ہر خرمن حدیث سے استفادہ کیا اس لئے ان کے اساتذہ حدیثکا مکمل شمار دشوار ہے۔ علامہ ذہبیؒ نے امام بخاری،امام مسلم،محدث علی بن حجر مروزی ، محدث ہناد بن سری،شیخ قتیبہ بن سعید اور محدث محمد بن بشاروغیرہ کو ان کے ناموراساتذہ میں شمار کیا ہے۔ امام ابوداﺅدؒ بھی ان کے شیوخ میں سے ہیں۔البتہ امام بخاریؒ سے امام ترمذی کو زیادہ استفادہ کا موقع ملا ،علامہ ذہبی فرماتے ہیں”تفقہ فی الحدیث بالبخاری“ یعنی امام ترمذی کو حدیث میں فقاہت اور گہری سمجھ بوجھ امام بخاری کے تلمذ سے ہی حاصل ہوئی ۔آپ کاامام بخاریؒ کے مایہ ناز تلامذہ میں شمار ہے ۔ امام حاکم نے موسیٰ بن علک کا یہ مقولہ نقل کیا ہے :”مات البخاری فلم یخلف بخراسان مثل ابی عیسیٰ فی العلم والحفظ والورع والزہد“یعنی امام بخاری کی وفات کے بعد انہی جیسا علم ،قوت یادداشت اور زہد وتقویٰ رکھنے والا کوئی عالم ومحدث ،امام ترمذیؒ کے علاوہ خراسان میں نہیں تھا۔

خود امام بخاریؒ کو بھی اپنے اس لائق شاگرد پر ناز تھا،انہوں نے ان کے کمال علم کی ان الفاظ میں سند عطا فرمائی تھی:” ماانتفعت بک اکثر مماانتفعت بی“یعنی میں نے تم سے جو فائدہ حاصل کیا ہے وہ اُس سے زیادہ ہے جو فائدہ تم نے مجھ سے حاصل کیا ہے ۔مولانا انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اس کا مطلب یہ ہے کہ ذہین شاگرد جب استاد سے سوال کرتا ہے تو اس کی وجہ سے استاذ کی نگاہ دیگر علوم کی طرف جاتی ہے“(اور یوں بسا اوقات شاگرد کے ایک سوال کی وجہ سے استاذ کو کئی فوائد علمی حاصل ہوجاتے ہیں)

اوپر گزر چکا ہے کہ امام بخاری ؒ کے انتقال کے بعد امام ترمذیؒ کے ہم پلہ خراسان میں کوئی محدث نہیں تھا اس لئے ان کی ذات مرجع خلائق بن گئی، ان کے تلامذہ میں خراسان وترکستان کے علاوہ دنیائے اسلام کے مختلف گوشوں کے اہل علم ملتے ہیں ۔چند ممتاز تلامذہ کے نام درج ذیل ہیں:

ابو حامد احمد بن عبد مروزی،ہیثم بن کلیب شاشی،ابوالعباس محمد بن احمد بن محبوب المروزی جنہوں نے جامع ترمذی کو امام موصوف سے روایت کیا ہے ،احمد بن یوسف نسفی،عبدبن محمد النسفی،محمد بن محمود اور داﺅد بن نصر بن سہل بزدوی وغیرہ۔

اللہ جل شانہ کا قانون فطرت یہ ہے کہ جب کسی سے کوئی بڑا کام لینا ہوتا ہے تو اس کے مناسب اوصاف وکمالات سے بھی اسے خوب نوازا جاتا ہے ۔ محدثین عظام سے علم حدیث کی دیانت دارانہ روایت و حفاظت کا عظیم کام لینا تھا تو اسی کے مناسب ان حضرات کو مضبوط اور قابل رشک حافظہ اور قوت یادداشت سے سرفراز کیا گیا ، جس کے واقعات سن کر عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے ۔امام ترمذی بھی اسی قافلے کے رکن رکین تھے تو اللہ تعالٰی نے انہیں بھی اس کمال سے حظ وافر عطاءفرمایا تھا، اہل علم نے فرمایا ہے کہ امام ترمذی کی قوت حفظ اپنے زمانے میں ضرب المثل کا درجہ حاصل کر گئی تھی ۔

ان کا ایک حیرت انگیزواقعہ سبھی سوانح نگاروں نے نقل کیا ہے جس سے ان کی قوت حفظ کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے ۔واقعہ یوں ہے کہ انہوں نے ایک شیخ سے دو جزءکے بقدر بواسطہ حدیثیں سنیں اور قلم بند کیں۔ حسن اتفاق سے کچھ دنوں کے بعد ان شیخ سے ملاقات ہو گئی، انہوں نے شیخ مذکور سے سماع حدیث کی درخواست کی، شیخ نے سنانی شروع کیں اور امام ترمذیؒ سے فرمایا کہ لکھ لو، ترمذی بیاض لے کر بیٹھ گئے، مگر قلم میں روشنائی نہیں لی تھی یوں ہی بیاض پر قلم چلاتے رہے ،شیخ کوشبہہ ہوا کہ یہ لکھ نہیں رہے ہیں بلکہ یوں ہی قلم پھیر رہے ہیں ، اٹھ کر دیکھا تو بیاض سادہ تھی ، بے حد خفا ہوئے اور فرمایا: تم مذاق کرتے ہو، امام ترمذیؒ نے عرض کیا، آپ گھبرائیے نہیں! جتنی حدیثیں آپ نے سنائیں ہیں، سب مجھے یاد ہیں، سن لیجئے، چنانچہ تمام حدیثیں فرفر سنادیں، شیخ کو خیال ہوا کہ شاید ان کو پہلے سے یاد تھیں، انہوں نے باور نہیں کیا، امام ترمذیؒ نے عرض کیا، آپ دوسری حدیثیں سنائیے میں ان کو بھی سنا دوں گا، چنانچہ شیخ نے اپنے غرائب الحدیث سے چالیس حدیثیں سنائیں جس کو امام ترمذیؒ نے فوراً دہرادیا، شیخ کو ان کی قوت حافظہ کا یقین ہوا۔

حضرت شاہ عبدالعزیز محدثؒ دہلوی لکھتے ہیں :”تورعے وزہدے بحدے داشت کہ فوق آں متصورنیست بخوف الہی بسیار گریہ وزاری کرد ونابینا شد“ یعنی زہد وتقویٰ اس درجہ کا حاصل تھا کہ اُس سے زیادہ کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا اور خوف الٰہی سے بکثرت گریہ وزاری کیا کرتے تھے ،یہاں تک کہ آنکھوں کی بینائی جاتی رہی ۔

یاد رہے کہ ”ترمذی “کی نسبت سے ائمہ میں تین حضرات مشہور ہیں،اس لئے اکثر لوگوں کو مغالطہ ہوجاتا ہے حالانکہ تینوں کے درجات مختلف ہیں۔اس لیے ”ترمذی “ کی ہرنسبت کو امام ترمذی اور ان کی کتاب ”جامع ترمذی شریف“ کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہیے ۔یہ تین حضرات درج ذیل ہیں ،جن کے فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔
(۱)امام ابوعیسیٰ ترمذی ،جو ترمذی شریف کے مصنف ہیں۔
(۲)ابو الحسن احمد بن حسن ،یہ ”ترمذی کبیر“ کے لقب سے مشہور ہیں اور امام احمد کے تلامذہ میں سے ہیں،نیز خودامام ترمذی مولف ترمذی شریف وامام بخاری وابن ماجہ ان کے شیوخ ہیں۔
(۳)حکیم ترمذی صاحب، جن کی ایک کتاب”نوادرالاصول “ معروف ہے ۔حضرت شاہ عبدالعزیز صاحبؒ ”بستان المحدثین “میں فرماتے ہیں کہ: نوادر کی اکثر روایات ضعیف اور غیر معتبر ہیں۔

امام ترمذیؒ نے بکثرت تصانیف کی ہیں، آپ کو فقہ اور تفسیر پر بھی کافی دستگاہ حاصل تھی جو ان کی” سُنن ترمذی“ سے ظاہر ہے۔ ان کی مختلف کتابوں کا تذکرہ ملتا ہے۔(۱) العِلَل(۲) المفرد (۳) التاریخ (۴) الزُہد (۵) الشمائل (۶) الاسماءوالکنی۔ ان میں سے شمائل ترمذی اورعلل صغریٰ دونوں مطبوعہ ہیں، البتہ عِلَلِ کُبریٰ نایاب ہے۔یوں تو ترمذی شریف کی طرح ”شمائل ترمذی“ بھی بہت مقبول اور بابرکت کتاب ہے ۔اس میں خاص نبی کریم ﷺ کے اخلاق و اوصاف اور شمائل و محاسن ، آپ کے حلیہ شریف بلکہ آپ کے جسد اطہر کے جتنے حسین نقوش حضرات صحابہ کرام واہل بیت سے منقول ہیں اور دیگر بھی بہت کچھ ایسا مواد جمع کردیا ہے اور آپ حسن ظاہر وباطن کا ایسا دلکش نقشہ پیش کیا ہے ،جس کے مطالعہ سے یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ گویا ہمارے سامنے ہی نبی کریم ﷺ تشریف فرما ہیں ۔

امام ترمذیؒ کی سب سے مشہور اور مقبول کتاب” جامع الترمذی “ہے۔اس کے نام کے بارے میں قدیم زمانہ سے اختصار سے کام لیا جاتا رہا ہے۔ چنانچہ مصنفین اپنی تصنیفات میں اور علماءاپنے دروس میں اس کتاب کو اس کے وصف کے اعتبار سے ایک دو لفظ سے تعبیر کرتے رہے ہیں چنانچہ کہیں”جامع ترمذی“ اور کہیں”سنن ترمذی“ کے عنوان سے اس کا ذکر ملتا ہے اور بعض مطبوعہ نسخوں پر”الجامع الصحیح“ لکھا ہوا ملتاہے۔

لیکن محققین کے نزدیک اس کتاب کا پورا نام یوں ہے:
”الجامع المختصر من السنن عن رسو ل اﷲﷺ، و معرفة الصحیح، والمعلول، وما علیہ العمل“
علامہ ابن خیر اشبیلی(م575ھ) کی ”فہرست مارواہ عن شیوخہ“ میں اور مکتبہ فیض اﷲ آفندی کے قلمی نسخہ پر یہی نام درج ہے، اور شیخ عبدالفتاح ابو غدہؒ نے اپنی کتاب ”تحقیق اسمی الصحیحین وجامع الترمذی“ میں اسی نام کے صحیح ہونے پر بہت سے دلائل اور قرائن قائم کئے ہیں۔یہاں یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ اس کتاب کو”جامع“ کیوں کہا جاتا ہے ؟حدیث کی جس کتاب میں آٹھ کے قسم کے مضامین بیان کئے جائیں اس کتاب کو محدثین کی اصطلاح میں ”جامع“ کہتے ہیں ۔ وہ آٹھ قسم کے مضامین یہ ہیں:
(۱)سِیَریعنی غزوات النبی ﷺ کابیان ہو(۲)آداب (۳)تفسیر(۴)عقائد(۵)فِتَن یعنی نبی کریمﷺ نے جن فتنوں مثلا دجال وغیرہ کا بیان کیا۔(۶)اَحکام ،مثلا نماز ،روزے وغیرہ کے مسائل(۷) اَشراط یعنی علامات قیامت (۸)مناقب یعنی نبی کریم ﷺ نے اپنے اہلبیت وصحابہ کے جو فضائل بیان کئے ۔چونکہ ”جامع ترمذی“ ان آٹھوں مضامین پر مشتمل ہے اس لئے اس کو ”جامع “کہا جاتا ہے اور چونکہ اس کتاب فقہی ترتیب کے لحاظ سے بھی احکام والی کافی احادیث لائے اس لئے اسے ”سُنن ترمذی“ بھی کہاجاتا ہے ۔

اس کتاب میں کچھ ایسی خصوصیات ہیں کہ بعض اہل علم نے ان خصوصیات کے لحاظ سے اسے ”صحیح بخاری ومسلم “ سے بھی بہتر قرار دیا ہے ،اگرچہ مجموعی لحاظ سے ”صحیحین“ کو ہی برتری حاصل ہے ۔ان خصوصیات کا مختصر بیان یہ ہے کہ ایک تو اس کتاب کی ترتیب عمدہ ہے اور تکرار نہیں ہے۔ دوم اس باعث کہ اس میں فقہاءکا مذہب اور اس کے ساتھ ساتھ ہر ایک کی دلیل کو بیان کیا گیا ہے۔ سوم اس وجہ سے کہ اس میں حدیث کے مختلف اَنواع مثلاً صحیح، حسن، ضعیف، غریب اور معلّل وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے۔ چہارم اس وجہ سے کہ اس میں روایوں کے نام، اُن کے اَلقاب اور کنیت کے علاوہ اُن فوائد کو بھی بیان کیا گیا ہے جن کا علم الرجال سے تعلق ہے۔نیز خود امام ترمذی نے یہ فرمایا ہے کہ اس کتاب میں جتنی بھی احادیث ہیں ان سب پراہل علم میں سے کسی نہ کسی کا عمل ضرور ہے ،البتہ صرف دو حدیثیں سے مستثنیٰ ہیں۔

اس کتاب کوتمام اہل علم نے سراہا ہے اور امام صاحب کو داد تحسین دی ہے ۔آپ خود فرماتے ہیں کہ جب میں اس کتاب کی تالیف سے فارغ ہوا توپہلے میں نے یہ نسخہ علماءحجاز کو دکھایا انہوں نے بہت پسند فرمایا، پھر علماءعراق کی خدمت میں لے گیا انہوںنے بھی یک زبان ہو کراس کی مدح فرمائی۔ پھر علماءخراسان کے روبرو پیش کیا تو انہوں نے بھی اپنی رضا مندی ظاہر فرمائی۔ بعد ازاں میں نے اس کی ترویج و تشہیر میں کوشش کی۔آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ جس گھر میں یہ کتاب ہو گویا اُس گھر میں پیغمبر علیہ السلام موجودہیں جوتکلم فرماتے ہیں۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372836 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.