سانپ خود کو کھا کر اپنے ہی منہ سے دوبارہ نکل رہا ہے (یہ
واقعی ایک عنوان ہے)
انسان کا شعوری طور پر غم سے ہمکنار ہونا آرزو خداوندی کا مراد پانا ہے۔
افلاکی شعور کا خود آشنا ہو کر تکمیل کی جانب بڑھنا رنج و الم کا دوسرا نام
ہے۔ اقبال اپنے مشہور خطبہ الہ آباد میں کہتے ہیں:
"... matter is spirit itself realizing in space and time".
مادہ، روح کا زمان و مکان میں ظہور پذیر ہونا ہے۔
خود آگاہی، شعور کا باشعور ہونا ہے، خودی کا خود نگر ہونا اس کی ابتدا و
انتہا ہے۔ خود نگاہی سے یہ خود گر ہو کر خود گیری تک جا پہنچتی ہے۔
جیسا کہ رومی نے کہا ہے:
خود کوزہ و خود گر و خود گل کوزہ خود رند سبو کش
خود بر سر آں کوزہ خریدار برآمد بشکست رواں شد
"وہ خود ہی کوزہ ہے، خود ہی کوزہ بنانے والا اور خود ہی کوزہ کی مٹی اور
خود ہی کوزہ توڑ دیا اور چل دیا۔ خود وہ اس پیالے کا خریدار بن کر آتا ہے،
اور اسے توڑ کر چلا جاتا ہے۔"
مزید کہتے ہیں:
نے نے كہ ہمی بود كہ می آمد و می رفت، ہر قرن كہ ديدے
"وہی تھا جو ہر زمانے میں آتا رہا اور جاتا رہا ہر زمانے نے دیکھا"۔
اگلا مصرع پڑھا تو مجھے اپنے موحد دوستوں کو وضاحتیں دینا ہونگی، میں اسے
یہیں چھوڑتا ہوں۔
اور جان لیجئے کہ تمام شعور غم اور غم کا عرفان ہے کیونکہ قید حیات و بند
غم اصل میں دونوں ایک ہیں۔ میں اسے یوں کہوں گا:
Self-consciousness is consciousness being conscious of itself and all
consciousness is the consciousness of suffering.
شعور کا یہ سفر فرد اور نوع دونوں کیلئے یکساں ہے۔ انسان اس زمین پر لاکھوں
برس سے ہے لیکن اس عرصے کے بیشتر حصی میں شعور، لاشعور ہی رہا ہے اور اسی
وجہ سے بیخود بھی۔ شعور کا خودی کی صورت میں ظہور نسبتا ایک جدید حادثہ ہے۔
قدیم انسان تین لاکھ سال پرانا ہے اور انسانی تہذیبیں سات ہزار سال سے
زیادہ پرانی نہیں۔ اگر ہم تین لاکھ برس کو ایک دن تصور کریں تو خود شعوری
کا سورج نکلے ابھی صرف آدھا گھنٹہ ہوا ہے۔ نفس انسانی کا لاکھوں سال پرانا
اجتماعی ورثہ جسکا اکثر حصہ جبلی اور لاشعوری ہے، ہر انسان کو نسل در نسل
منتقل ہوتا رہتا ہے۔ شعور کے ظہور اور پھر شعورِ انانی (ego-consciousness)
کے اس سے الگ ہونے اور اپنی الگ شناخت قائم کرنے کے مراحل جو اربوں سالوں
میں طے ہوئے، اب وہی مراحل رحم مادر سے شروع ہو کر بلوغت اور پھر موت تک طے
ہوتے ہیں۔ یعنی جو حادثہ "phylogenetic" سطح پر ہوا تھا اب وہ ہر لمحے
"ontogenetic" سطح پر آشکار ہو رہا ہے۔ کائنات کا آغاز مادے کا آغاز تھا جو
کہ 13.7 ارب برس پرانا ہے۔ اسی مادے سے حیات وجود میں آئی، نامیاتی
(organismic) حیات 3.7 ارب برس پرانی ہے۔ شعور تو جمادات میں بھی ہوتا ہے
لیکن اگر انسان کو شعور کے برتر درجے کا ظہور سمجھیں تو انسان تین لکھ سال
پرانا ہے اور انسان کی خود شعوری چند ہزار برس پرانی ہے۔ اگر کائنات کی عمر
کو ایک سال شمار کریں تو حیات سوا تین ماہ پہلے پیدا ہوئی، اور انسان گیارہ
منٹ پہلے، اور انسان کی خود آگاہی تو اس پیمانے پر کچھ وقعت نہیں رکھتی۔
میں آپ سے مادے کی بات کر رہا ہوں۔ مادہ ایٹم سے بنا ہے۔ میرا جسم بھی مادی
ہے اور ایٹموں کا نامیاتی مظہر ہے، سو جب میں ایٹم کو دیکھتا ہوں تو اسکا
مطلب ہے کہ ایٹم خود کو دیکھ رہا ہے میری آنکھ سے اور شعور باشعور ہو رہا
ہے میرے ذہن کے ذریعے سے۔ کائنات کی تاریخ کا منتہا کمال شعور کی خود بینی
ہے اور اس شعور کا منتہا کمال غم کا احساس ہے جو انسان کو اپنے آپ سے اور
پھر اپنے رب ہمکنار کر دیتا ہے۔
میں سراپا مخزنِ راز ہوں، میں رہا ہوں مدتوں راز میں
تیرا شوقِ دید کشاں کشاں، مُجھے کھینچ لایا مجاز میں
مادے کیلئے لفظ "matter" بولا جاتا ہے جو کہ یونانی اور لاطینی زبان کے لفظ
"mater" سے نکلا ہے جسکے معنی ماں کے ہیں۔ یہی لفظ فارسی میں "مادر"،
سنسکرت میں "ماتا" یا "ماتر" انگریزی میں "mother" ہو گیا۔ ان تمام زبانوں
سمیت دنیا کی چھیالیس فیصد زبانیں "انڈو یورپی" خاندان سے تعلق رکھتی ہیں
جنہیں دنیا کی تقریبا نصف آبادی بولتی ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ
تمام زبانیں ایک ہی زبان سے نکلی ہیں جو تقریبا ساڑھے چھ ہزار سال پہلے
یوکرائن اور شمالی روس کے علاقے میں آباد "یمنایا تہذیب (Yamnaya Culture)"
کی زبان تھی، یہی قوم بتدریج ہجرت کرتے کرتے دنیا بھر میں پھیل گئی اور اب
حال یہ ہے کہ آٹھ ہزار کلو میٹر کا فاصلہ ہونے کے باوجود آئس لینڈک
(Icelandic) اور اردو زبان میں بیشمار الفاظ مشترک ہیں۔
جب انسان غیر تہذیب یافتہ تھا، وہ صرف اپنی جبلتوں کے طابع لاشعوری زندگی
بسر کرتا تھا۔ اسکی کوئی مرتکز ذاتی انا (ego) نہیں تھی اور وہ خود شناس
نہیں تھا، اس میں "میں" نہیں تھی بلکہ اسکے شعور کے دائرے میں اسکا اپنا
قبیلہ اور ارد گرد کا ماحول شامل تھا۔ مثلا جیسے آج میرے ہاتھ اور میرا پیر
ایک کی نامیے (organism) کا حصہ ہیں، اسی طرح یہ لاشعوری انسان اپنے سامنے
بہنے والی کسی ندی اور اس میں موجود مگر مچھ کو اپنی ذات سے الگ نہیں
سمجھتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ تمام "مادی" چیزیں مادہ (دھرتی) سے نکلتی ہیں،
بیج دھرتی کی کوکھ میں پرورش پا کر درخت بنتا ہے، یہ دھرتی ہی تمام زندگی
کو اپنا دودھ پلاتی ہے، مردہ جسے کوئی رکھنے کیلئے تیار نہیں ہوتا، زمین
اسکو دوبارہ حیات جاوداں بخشنے کیلئے اپنے رحم میں سمو لیتی ہے۔ لہذا یہ
دھرتی "ماں" یا "mater" کہلائی جو "مادہ" ہے اور تمام مادے (matter) کی
ماں، "مادر عظمیٰ (Great Mother)" ہے۔ زمین یا "کھیتی" عورت (مادہ) کی طرح
نہیں ہوتی بلکہ عورت زمین کی طرح ہوتی ہے۔ انسان لاکھوں سال اسی رحم مادر
میں تھا اور اسکا شعور لاشعور تھا، قدرت اسکا اور وہ قدرت کا حصہ تھا، کوئی
چیز بھی اچھی یا بری نہیں تھی، سب باغ، باغ عدن تھا۔ انسان ہمیشہ رحم میں
رہنے کیلئے نہیں بنا تھا اسلئے اسکی "آنول نال (placenta)" کٹی، اس نے شعور
کی آنکھ کھولی، وہ گھونسلے سے باہر نکلا، اس سے "میں" کہا اور اور ماں
(mater-matter) کے علاوہ اسے ایک الگ دنیا نظر آئی، جس میں مگر مچھ اسکا
بھائی نہیں تھا، وہ اکیلا تھا، اسے غم کا احساس ہوا اور شعور نے اونچی اڑان
بھری۔ اسنے اسی آسمان کی طرف دیکھا جسے وہ اپنا باپ جانا کرتا تھا اور
"dyeus-pater" یعنی "Sky-Father" کہا کرتا تھا۔ اسی لفظ سے "pater" کا
لاحقہ گرا تو یہ "dyeus" رہ گیا اور یونانی میں "Zeus" ہو گیا۔ لاطینی میں
پورا لفظ ہی بگڑ کر "Jupiter" ہو گیا۔ یہ "dyeus" فارسی اور سنسکرت میں
"دیو" ہو گیا اور "pater"، "پدر" اور "پِتر/پِتا" ہو گیا۔ یہ انسان کا سخت
گیر باپ تھا جو اسی بجلی کی گرجتی ہوئی آواز میں ڈانٹا اور جلا کر راکھ بھی
کر سکتا تھا۔ مرتے وقت جسم کو دھرتی ماں اپنی گود میں لے لیتی تھی اور روح
اپنے "باپ" کی جانب اونچی اڑان بھرتی رہی۔ آسمان زمین کو ڈھانپ لیتا اور یہ
ابر قطرہ نیساں سے اسکے صدف کو گوہر سے بار آور کرتا، جس سے تمام قسم کے
جاندار زمین کی کوکھ سے اسکے بچوں کی صورت میں حیات پا کر باہر آتے اور
انکا مادی جسم ماں میں دوبارہ جذب ہو جاتا اور روح ملکوتی دوبارہ باپ کی
جانب پرواز کر جاتی۔ ہندو فلسفے کے مطابق عدم سے وجود ہوا اور پھر معدوم
ہوا اور یہ سلسلہ ازلی ہے۔ کسی بات کی خوبصورتی کو سراہنے کیلئے اس سے
اتفاق ضروری نہیں۔ اس فلسفے کو انہوں نے صرف ایک لفظ "اوم" سے بیان کر دیا
ہے۔ اس لفظ میں تین حروف صدائی (vowels) ہیں یعنی آ(a)، او(o)، اٙو (u) اور
آخر میں م (m)۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ مکمل خاموشی بھی اس لفظ کا ایک
رکن تہجی (syllable) ہے جو شروع میں آتا ہے۔ یعنی لفظ کا آغاز غیر ملفوظ
حرف یعنی خاموشی سے ہوا۔ اس وقت آپ کا منہ بند اور ہونٹ ملے ہوئے ہیں۔ یہ
عدم ہے۔ پھر آپ نے "آ" کہا تو منہ کھلا اور اس سے آواز آئی۔ یہ وجود ہوا۔
اور پھر آپ نے واؤ ادا کیا تو ہونٹ قریب آئے۔ اور جب آپ نے میم کی آواز
نکالی تو ہونٹ آپس میں مل گئے، اور اسکے بعد پھر خاموشی آئی۔ وجود کا قطرہ
پھر عدم محض کے سمندر سے جا ملا۔ اور اب عدم کی اس خاموشی سے وجود کی آواز
نکلے گی اور پہیہ چلتا رہے گا۔ قدیم لوگ اس بات کو "ouroboros" کی علامت سے
بیان کرتے تھے جس میں ایک سانپ خود اپنی دم کو نگل رہا ہے: ⥀
یہ علامت انسان کے اجتماعی لاشعور (collective unconcious) کا حصہ ہے اور
بینزین (benzene) کی ساخت بھی اس وقت دریافت ہوئی کب کیکیولے (Kekulé) نے
یہی "ouroboros" اپنے خواب میں دیکھا۔
ماں میں صرف ممتا ہی نہیں ہوتی، اسکا ایک دوسرا بھیانک پہلو بھی ہے۔ ہر چیز
کی طرح مادر عظمیٰ کی بھی ایک ضد ہے، ماں کے اس روپ کو "Terrible Mother"
کہتے ہیں۔ جس طرح خود شعوری حاصل کرنے کیلئے ہزاروں سال پہلے انسان کو اپنی
ماں، جو کہ اسکے لاشعور کی علامت ہے سے الگ ہونا پڑا ، اسی طرح آج بھی ہر
انسان کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر اپنی ماں سے الگ ہونا پڑتا ہے جو کہ
انسان کی نفسانی (psychic) نشو نما کیلئے بیحد ضروری ہے۔ انسان ہمیشہ اپنی
ماں کی گود میں رہنے کیلئے نہیں بنا۔ اگر ایک ماں اپنے بچے کو محبت اور
حفاظت سے پال پوس کر، "باپ" کے سائے تلے، مشکلات کے عفریتوں کا سامنا کرنے
کیلئے دنیا میں اتار دیتی ہے تو اس بڑی بیغرضی اور شفقت کوئی نہیں، یہ مادر
عظمیٰ کے آرکیٹائپ (archetype) کا ظہور ہے۔
لیکن اگر ماں بچے کو اپنے سے نفسیاتی طور پر الگ نہیں کرتی اور اسکی مشکل
آسان کرتی چلی جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ دنیا کے خطرات سے ٹکرانے کا حوصلہ
نہیں رکھتا، اور اسکو اپنے ہی وجود کی توسیع سمجھنے لگتی ہے، وہ شعوری طور
پر تو خود کو بیغرضی کا مجسمہ سمجھتی ہے لیکن در حقیقت لاشعوری میں اس بچے
کیلئے اس سے زیادہ خود غرض اور کوئی نہیں ہوتا، وہ اسکو بڑا ہونے کے بعد
بھی اپنا ہی ایک عضو سمجھتی ہے جس پر صرف اور صرف اسکا حق ہے۔ وہ بظاہر
چاہتی ہے کہ اسکا بچہ پھلے پھولے، کامیاب ہو اور پروان چڑھے لیکن اس رویے
میں حقیقی طور پر بچے کی کامیابی مقصود نہیں، بلکہ اپنی ہی کسی لاشعوری
خواہش، جو کسی دکھ یا کمی کا نتیجہ ہے، کی بجا آوری مطلوب ہے۔ اسکی اپنی
الگ سے کوئی پہچان نہیں ہوتی اور نہ وہ اپنے بچے کوئی اپنی ماں سے الگ ایک
شناخت قائم کرنے دیتی ہے۔ یہ چیز فرائیڈ کے تصور "penis-envy" سے ملتی جلتی
ہے لیکن فرائیڈ کا مسلہ یہ ہے کہ اس نے جنس کو تمام نفسیاتی حرکیات کی اصل
سمجھ کر باقی تمام جبلتوں کو اس کے تابع کر کے انسانی فطرت کے تمام داعیات
کو صرف اس ایک دائرے تک محدود کر دیا۔ اور نام بھی ایسے واہیات رکھے کہ عام
آدمی کیلئے جنس سے مجرد کر کے اس تصور کی تعمیم تقریبا ناممکن ہو جائے۔ تو
میں کہہ رہا تھا کہ جس طرح ہزاروں سال پہلے انسانیت کا اپنی لاشعوری ماں
(قدرت/فطرت) سے الگ ہونا ضروری تھا، آج بھی ایک بچے کیلئے یہ اتنا ہی ضروری
ہے۔ بچہ ماں کے پیٹ میں جب صرف ایک خلیے (monozygotic cell) کی صورت میں
ہوتا ہے تب بھی وہ روح و جسم کا امکان کامل (potentially whole psychosoma)
ہوتا ہے اور اور جب اس طرح اسی ایک لوتھڑے سے اعضاء ایک دوسرے سے تفریق پا
کر اس امکان کو حقیقت میں بدلتے ہیں، تفریق و تخصیص کا یہ سلسلہ نفسیاتی
طور پر بھی جاری رہتا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، بچے کا اپنی ماں پر
انحصار کم ہوتا جاتا ہے وہ جسمانی طور پر ماں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے، اسی
کے ساتھ ساتھ اسکا اتھلا شعور خودی (ego-consciousness) لاشعور کے عمیق و
تاریک ترین سمندر سے الگ ہوتا جاتا ہے جسکی آفاقی علامت "ماں" ہے۔
جیسا کہ خلیل جبران کہتا ہے:
"And his soul cried out to them, and he said: Sons of my ancient mother,
you riders of the tides, How often have you
sailed in my dreams. And now you come in my awakening, which is my
deeper dream."
مزید کہتا ہے:
"Your children are
not your children. They are the sons and daughters of Life’s
longing for itself."
اگر یہ تفریق (differentiation) صحیح طریقے سے نہ ہو پائے تو انسان نفسیاتی
طور پر ماں کے اس نفسانی تصور یا "عکس مادر (mother-image)" سے جڑا رہ جاتا
ہے اور بہت سے عوارض (neuroses) کا شکار ہو سکتا ہے، ہمجنس پرستی بھی انہیں
میں سے ایک ہے۔ لیکن یہ تصور (image) یکسر برا نہیں، اگر بچے کا تعلق اپنی
ماں سے صحت مندانہ رہا ہو تو ماں کا یہی عکس ایک مرد کیلئے اسکی زوجہ کے
ساتھ صحیح فطری تعلق کا ضامن ہوتا ہے اور اسکے برعکس بھی درست ہے۔
آج بھی جب انسان اس مصنوعی تہذیبی زندگی کے تکلفات سے بیزار ہوتا ہے تو
اپنے آباؤ اجداد کی طرح قدرت ہی میں پناہ لیتا ہے۔ وہ پہاڑوں کو سر کرتا
اور دریاؤں میں تیرتا ہے، جان کی پرواہ کئے بغیر اونچی چوٹیوں سے چھلانگ
لگا دیتا ہے یا کسی بحری جہاز کا ملبہ دیکھنے کیلئے کئی کلومیٹر سمندر کی
گہرائیوں میں اتر جاتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ اسکی جان بھی جا سکتی ہے، لیکن
وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جانا تو اسے اسی ماں کی گود میں ہے جو اس دنیا کے
آلام سے دور راحت کی واحد جگہ ہے۔ جب کبھی انسان اس دنیا کا بوجھ برداشت
نہیں کر پاتا تو موت کا خیال ذہن میں لاتا ہے، وہ خودکشی کرنا چاہتا ہے۔
فرائیڈ کہتا ہے کہ انسان کے اندر یہ داعیہ ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ
لذت حاصل کرے اور پھر مر جائے، خودکشی سے لے کر عالمی جنگیں اسی داعیے کا
ظہور ہیں جسے اس نے "thanatos" یا "داعیہ ممات (death drive)" کہا ہے۔ میرے
نزدیک یہاں بھی فرائیڈ کا یہ نظریہ انتہائی محدود اور سطحی ہے، کیوں کہ یہ
داعیہ ممات اصل میں انسان کے رحمِ مادرِ زمین، جسے قبر کہتے ہیں، میں واپس
جا کر دوبارہ جی اٹھنے کی خواہش کا نام ہے۔ اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ
فرائیڈ کا داعیہ ممات (death-drive) اصل میں داعیہ حیات (life-drive) یا
درست تر طور پر حیات نو ہے۔ اور جنگیں، زمین میں فساد اسی داعیے کی کجی ہے
نہ کہ اصل۔ مردہ بیج زمین سے زندہ درخت بن کر نکلتا ہے، اسی طرح انسان بھی
جبلتاً حیات نو کا خواہاں ہے۔
میں اس خواہش کو کہتا ہوں:
"The uroboric urge to assimilate oneself into the Great Mother
(earth-matter-nature) to be born again."
نفسیات کا اصول ہے کہ شعور، لاشعور سے آنے والی ہر چیز کی مخالفت کرتا ہے
کیونکہ وہ اس سے ڈرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان کسی اندھیرے جنگل یا غار
کو دیکھے تو ڈر جاتا، کیونکہ انسان اپنی ان جبلتوں سے ایک لاشعوری رابطہ
قائم کر لیتا ہے جو شعور کیلئے ناقابل قبول ہے۔ ڈراونی فلمیں اسی اصول پر
کام کرتی ہیں۔ چونکہ انسانیت نے ایک طویل عرصہ لاشعوری کے عالم میں اندھیری
جبلتوں کے تابع رہ کر گزارا ہے اور شعور ابھی اتنا پختہ اور نسبتا قدیم
نہیں، تو جو چیزیں انسان کیلئے "باغ عدن" ہوا کرتی تھیں آج وہ اپنی اس اصل
سے ایک خوف سا محسوس کرتا ہے۔ اسی زمین کی کوکھ میں پاتال ہے جہاں سانپ اور
اژدہے (dragon-serpents) ہیں اور انسان ڈرتا ہے کہ کہیں کوئی "آژدہا" اسے
پاتال کا "پھل" نہ کھلا دے کہ جس سے اس کا جسم ایک مرتبہ پھر بے لباس ہو
جائے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ انسان آسمان اور اس "تحت الژیٰ" کو ایک
اتحاد (unity) کی صورت میں دیکھے۔ جب یہ دونوں جمع ہوتے ہیں تو انسان اس
مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا:
واں نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے کوئی
واں نہ مرتا ہے نہ جیتا ہے کوئی
گویا حیات و ممات پگھل کر ایک دوسرے میں یکجاں ہو گئے ہیں۔
لیکن اگر انسان صرف "آسمان" کی طرح دیکھتا رہے اور زمین کو بھول جائے تو
پاتال سے کبھی بھی کوئی "سانپ" چپکے سے موقع پا کر اس پر حاوی ہونے کے بعد
شجر ممنوعہ چکھا کر بے لباس کر کے اسے تنہا نادم ہونے کیلئے چھوڑ دیتا ہے
جیسا کہ اسنے اسکے ماں باپ کے ساتھ کیا تھا۔ تو ایسا کیوں ہوتا ہے کہ رمضان
کے آخری عشرے میں، مسجد کے محراب میں، بحالت روزہ و اعتکاف "متقی" لوگ بچوں
سے بدفعلی کرتے پائے جاتے ہیں؟ اسکی وجہ صرف آسمان کو دیکھنا اور زمین سے
بیگانہ ہو جانا کہ کبھی بھی کوئی سانپ پاتال سے نکل کر ڈس جائے، نفس کو
دیکھنا اور مادے کو بھول جانا، روحانیت پر ارتکاز کرنا اور جبلت کو دبا
دینا یا حقیر جاننا ہی اصل تکبر ہے۔ جو نفس کو حقیر جان کر اسکو قابو کرکے
غلام بنانا چاہتا ہے تو نفس اسکو اپنا غلام بنا لیتا ہے۔ اس پر تفصیلی بحث
شائد میں کسی اگلی تحریر میں کروں۔
مجھے اب سمجھ آ رہا ہے کہ شعراء کی "آمد" کیا چیز ہوتی ہے۔ اب اتنا لمبا
مضمون باندھ کر مجھے یہ راز فاش کرتے ہوئے شرم آ رہی ہے کہ کہ میں نے اس
تحریر کے ابتدائی دو جملے گوئٹے، جسکے بارے میں اقبال نے اپنی نظم 'غَالب'
میں کہا تھا کہ 'گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے'، کے عظیم ڈرامے
"فاوسٹ" کی چند سطروں پر تبصرہ کرنے اور كارل ماركس سے انکا تعلق واضح کرنے
کیلئے صرف ایک چھوٹا سا پیراگراف لکھنے کی خاطر، تمہید باندھتے ہوئے ثبت
کیے تھے۔ فاوسٹ وہ ڈرامہ ہے کہ جس پر گوئٹے ساری عمر کام کرتا رہا اور
اقبال نے اسکے مرکزی کردار فاوسٹ کو "humanity individualized" کہا ہے۔
یعنی انسانیت نے کیا کھویا ہے کیا پایا ہے، خدا کے حضور پیش کرنے کی خاطر
کیا کسب کیا ہے، فاوسٹ اسکا غماز ہے۔ فاوسٹ ساری عمر آسمان کی طرف دیکھتا
رہا، اپنی لاشعوری فطرت سے غافل کتابیں پڑھتا یکطرفہ زندگی گزارتا رہا۔ آخر
جب اسکو تسکین نہ ملی تو وہ بیزار ہو کر خودکشی کرنے لگا لیکن فرشتوں کا
نغمہ سن کر ارادہ ترک کر دیتا ہے۔ پھر وہ اپنی روح ابلیس کو بیچ دیتا ہے
جسکے بدلے میں وہ اسے زمین کی ہر نعمت دیتا اور اسکی ہر خواہش پوری کرتا ہے
لیکن اس شرط پر کہ جب اسکا جی بھر گیا تو اسے اسکے ساتھ ابدی جہنم میں جانا
ہوگا۔ فاوسٹ خوب گناہ کر کے اور لذتوں سے لطف اندوز ہو کر جب تھک ہار جاتا
ہے تو شیطان اسے جہنم کی طرف لے جانے لگتا ہے لیکن اس پر خدا کا کرم ہوتا
ہے اور وہ اسے معاف فرما کر اپنے قریب جنت میں جگہ دیتا ہے۔ نیکی صرف تب
نیکی نہیں کہ آپ کو گناہ کا موقع ہی نہ ملے اور آپ خود کو پارسا سمجھتے
رہیں۔ شیطان نے جب فاوسٹ پر اسکی زمینی جبلتوں کو کھول دیا تو اسے اپنے
حدود کا احساس ہوا اور اسکے آفاق پر اسکے نفس کی حقیقت واضح ہوئی، وہ اپنے
گناہ پر نادم ہوا جس سے خدائی منشاء کی تکمیل ہوئی اور اسے فردوس بریں میں
جگہ ملی۔ فاوسٹ کے درخت کی جڑیں پاتال میں اتنی گہری اور مضبوط ہو گئیں کہ
اسکا درخت آسمانوں کو چیرتا ہوا جنت تک بلند ہو گیا، اسکا گناہ اسے پستی سے
آشنا کر کے بلندی کی طرف لے گیا۔ فاوسٹ کا گناہ آدم کا سا ہے کہ جس پر نادم
ہونے سے خدا راضی ہوا۔
جن سطور پر تبصرہ کرنا مقصود تھا وہ یہ ہیں:
"Mephistopheles: I am the Spirit that denies!
And rightly too; for all that doth begin
Should rightly to destruction run;
'Twere better then that nothing were begun.
Thus everything that you call Sin,
Destruction - in a word, as Evil represent-
That is my own, real element."
ابلیس: میں روح انکار ہوں۔ اور حق بجانب کیونکہ ہر وجود کو معدوم ہونا
چاہیے۔ یہ بہتر تھا کہ کچھ حادث ہی نہ ہوتا۔ سو گناہ، دوسرے الفاظ میں،
تباہی و بدی، یہی میرا جوہر حقیقی ہے۔
یعنی انسان جب زندگی کی مشکلات سے تنگ آ کر پکار اٹھتا ہے کہ 'قید حیات و
بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں' تو شیطان وسوسہ اندازی کرتا ہے کہ 'موت سے
پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں'۔ اب میری اس تحریر کے ابتدائی دو جملوں پر
نظر ڈالیں۔ یعنی ابلیس یہاں کہہ رہا ہے کہ وجود اور شعور صرف غم کا اور
اسکے ادراک کا نام ہے۔ اور خدا کے نزدیک محض "ہونا" ہی اچھا ہے، اور خدا
چاہتا ہے کہ انسان اسکی خاطر غم برداشت کر کے اتنا بلند ہو جائے کہ بندہ
خدا سے ہمسخن ہو جائے لیکن میں شیطان اس کا انکار کرتا ہوں اور خدا کے
اثبات کی نفی، وجود اور نظام ہستی کو معدوم کر کے کرنا چاہتا ہوں۔ یہ گناہ
ہے تو کیا ہوا، صرف اسی خود کشی سے انسان کو راحت مل سکتی ہے اور ان معنوں
میں میں تمہارا نجات دھندہ ہوں مراد یہ کہ خدا اور وجود کی اچھائی کا انکار
کرنے کی برائی ہی حقیقی اچھائی ہے کیونکہ وجود تو محض بے مقصد اور لا یعنی
تکلیف کا نام ہے جس میں کوئی خیر نہیں، جس سے جتنا جلدی ممکن ہو نجات حاصل
کی جائے۔ یہی موقف شاعر ابو العلاء معری اور شوپنہاور کا ہے جسے
"anti-natalism" کہتے ہیں، جسکا مطلب یہ ہے کہ چونکہ وجود میں کوئی خیر
نہیں اسلئے تمام انسانوں کو چاہیے کہ تناسل کا سلسلہ بند کر دیں تا کہ ہم
اس کائناتی روح، جو زمان و مکان میں ظاہر ہو کر خود شعوری چاہتی ہے اور
انسان کا غم (suffering) اسکا ایندھن ہے، کا انکار کریں اور اولاد پیدا نہ
کریں تا کہ کوئی شعور ہماری وجہ سے جنم لے کر دکھ جھیل کر شعور کی خود
شناسی کا آلہ نہ بنے اور انسانیت اپنی موت آپ مر جائے جس سے وجود کا انکار
ہو۔ ابو العلاء معری نے اپنے کتبے پر یہ تحریر کندہ کروائی تھی:
"یہ وہ ظلم ہے کہ جو میرے باپ نے میرے ساتھ کیا لیکن میں نے کسی کے ساتھ
نہیں۔"
شوپنہاور کی زندگی بھی اسی طرح تجرد اور تنہائی میں گزری اور وہ اکیلا ایک
گھر میں اپنے پالتو کتے کے ساتھ رہتا تھا جسکا نام اس نے "آتماں" رکھا ہوا
تھا۔
اسی شیطانی فلسفے کو بائبل میں کتاب ایوب میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
"تب اُس کی بِیوی اُس سے کہنے لگی کہ کیا تُو اب بھی اپنی راستی پر قائِم
رہے گا؟ خُدا کی تکفِیر کر اور مَر جا"۔
لیکن اس پر ایوب علیہ السلام خدا کے بخشے ہوئے شعور سے متعلق خیر کی امید
رکھتے ہوئے اور کفر کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"کیا ہم خُدا کے ہاتھ سے سُکھ پائیں اور دُکھ نہ پائیں؟ اِن سب باتوں میں
ایُّوب نے اپنے لبوں سے خطا نہ کی"۔
كارل مارکس سے اسکا تعلق یہ کہ فاوسٹ میں سے یہ سطور اس کی پسندیدہ ہیں جن
میں ابلیس خدا کے انکار کی بات کرتا ہے۔ مارکس کا بیٹا اسکو ایک خط میں یوں
مخاطب کرتا ہے:
"My dear devil"
كارل مارکس جب اپنا مینیفیسٹو لکھ رہا تھا اسی زمانے میں اس نے کچھ ڈرامے
یا نظمیں وغیرہ لکھیں جس میں وہ خدا کے انکار اور انسانیت کی تباہی کی
باتیں کرتا ہے۔ :مثلا ایک جگہ وہ لکھتا ہے جسکا خلاصہ کچھ یوں ہوگا
"میں جنت کا موقع کھو چکا ہوں اور میری روح جو کبھی خدا کی پرستار تھی، اب
جہنم اسکا مقدر ہے۔ میں بنا چوکے اپنی خون آلود تلوار تمہاری روح کے آر پار
کر دونگا۔ بدی کے دھوئیں نے میرے ذہن کو دھند زدہ کر دیا ہے اور بدی کے
بخارات مجھے پاگل اور میرے دل کو بدل رہے ہیں۔ اس تلوار کو دیکھو، یہ
تاریکی کے بادشاہ شیطان نے خود مجھے دی ہے۔ وہی میری حرکات کو قابو کرتا
اور مجھے احکامات صادر کرتا ہے۔ جیسے جیسے میں موت کا یہ رقص جاری رکھے
ہوئے ہوں، مزید بہادر ہو رہا ہوں۔"
دی پلیئر (The Player)، 1841ء و دیگر
واقعتا بہت ڈراونی باتیں ہیں!
قمر اصغر
|