کشمیر سے متعلق پاکستان اور بھارت کے بیانات
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
|
اطہر مسعود وانی
بھارت کی طرف سے 5اگست2019 کو آئینی ترمیم کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے براہ راست دارلحکومت نئی دہلی کے زیر انتظام علاقے قرار دینے کے باوجود عالمی سطح پہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت پہ کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔بھارت کے اس اقدام کے باوجود اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے اور ممالک مقبوضہ جموں وکشمیر کو اب بھی بھارتی زیر انتظام خطہ کہتے اور لکھتے ہیں۔بھارت کے اس اقدام سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ظلم اور جبر کی پالیسی میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی، بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمدآصف نے انہی دنوں ایک بیان میں کہا کہ دفعہ370اور 35Aکے معاملے میں انڈین کانگریس اور مقبوضہ جموں وکشمیر کی نیشنل کانفرنس پاکستان کے ساتھ'' ایک پیج'' پہ ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے19ستمبر کو مقبوضہ جموںو کشمیر اسمبلی الیکشن کے حوالے سے جموں کے علاقے کٹہرا اورسرینگر میں ' بی جے پی' کے انتخابی جلسوں میں تقریر کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس بیان کے حوالے سے کہا کہ ، جموں وکشمیر میںکانگریس،نیشنل کانفرنس اتحاد کا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ 'مشترکہ ایجنڈے' کا اشتراک ہے، ا نیشنل کانفرنس اورکانگریس اتحاد کشمیر میں پاکستان کا ایجنڈا مسلط کرنا چاہتا ہے۔
مقبوضہ جموں وکشمیر سے متعلق بھارت کے5اگست 2019کے اقدام کے وقت سے پاکستان کے ارباب اختیار نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اسی کو اپنا موضوع بنا لیا۔ اس وقت کی تحریک انصاف کی عمران خان حکومت کی طرف سے ایسے تعدد بیانات سامنے آئے جن میں نیشنل کانفرنس سمیت مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز سیاسی جماعتوں کی اس حوالے سے تعریف کی گئی کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی الگ ریاستی حیثیت کے خاتمے اور اسے بھارت کے مرکز کے زیر انتظام خطہ قرار دینے کے اقدام کی مخالفت کر رہی ہیں۔اب مسلم لیگ ن کی سربراہی میں قائم اتحادی حکومت کی طرف سے بھی وہی انداز اپنایا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز سیاسی جماعتوں کی حمایت میں بیانات دیئے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی تمام حریت پسند جماعتوں کے رہنما اور سنیئر کارکن بھارتی جیلوں میں قید رکھے گئے ہیں، جو اکا دکا جیل میں نہیں، انہیں بھی روزمرہ کی سخت ترین پابندیوں میں مقید رکھا گیا ہے۔گزشتہ پانچ سال سے بھارت نے یہ حکمت عملی اختیار کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کسی کو بھارت کے خلاف بات بھی نہ کرنے دی جائے، جو بھی بات کرے یا جس سے متعلق بات کئے جانے کا امکان بھی ہو، اسے گرفتار کر کے جیل میں قید کر دیا جاتا ہے۔
گزشتہ تیس سال سے زائد عرصے سے پاکستان کی ہر حکومت مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے انسانیت سوز مظالم اور مسئلہ کشمیر سے متعلق سرگرم سفارتی مہم شروع کرنے کے اعلانات کئے گئے لیکن عملی طور پر ایسا کیا نہیں گیا۔پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر ، جس کا قیام تحریک آزادی کشمیر، کشمیر کاز کے حوالے سے ہی وجود میں آیا، وہاں کی حکومتوں نے بھی پاکستانی حکومتوں کی پیروی میں خود کو بے عمل بیانات میں ہی محدود رکھا۔ آزاد کشمیر میں بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں کمی پہ تو بھر پور عوامی تحریک چلائی گئی لیکن کشمیر کاز کے حوالے سے حکومتی ، سیاسی اور عوامی سطح پہ کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آ سکی۔آزاد کشمیر کی حکومت اور سیاسی جماعتیں بیانات میںمسئلہ کشمیر کو اپنی اولین ترجیح تو قرار دیتی ہیں لیکن عملا ان کی دلچسپی اور سرگرمیوں کا محور ومرکز اضلاعی اور قبیلائی سیاست میں ہی محدود نظر آتی ہے۔
بھارتی حکومت اب دس سال کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی کے الیکشن تین مراحل میں کر وا رہی ہے۔ 18ستمبر کو الیکشن کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے جس میںمقبوضہ جموں وکشمیر کے کل 90میں سے24حلقوں میں الیکشن ہوئے۔ الیکشن کا دوسرا مرحلہ25ستمبر اور تیسرا یکم اکتوبر کو ہوگا۔بھارتی حکمران پارٹی ' بی جے پی' مقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنی حکومت بنانے کے لئے پورا زور لگا رہی ہے اور اس کے لئے الیکشن سے پہلے ہی کئی اقدامات بھی کئے گئے ہیں۔مقبوضہ جموں اور مقبوضہ کشمیر میں اسمبلی سیٹوں کے فرق کو کم کیا گیا ہے ۔ مودی حکومت کی پلاننگ یہی ہے کہ مقبوضہ جموں کی تقریبا تمام سیٹوں پہ بی جے پی کو کامیاب کرایا جائے اور مقبوضہ کشمیر میں کسی دوسری پارٹی کو بڑی اکثریت حاصل نہ کرنے دیا جائے تاکہ ' بی جے پی' مقبوضہ کشمیر کے چند گروپوں کو ساتھ ملا کر اپنی حکومت قائم کر لے۔واضح رہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی کو بے اختیار اسمبلی میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں تمام اختیارات بھارتی حکومت کو حاصل ہیں۔مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے یہ الیکشن بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور بھارتی فوج کے انتظامات کے تحت کرائے جا رہے ہیں۔مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی الیکشن کے حوالے سے عالمی میڈیا میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس الیکشن میں ' بی جے پی ' کی مخالف سیاسی جماعتوں کی کامیابی سے عالمی سطح پہ بھارت کی مخالفت کا پیغام جائے گا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکومت نے ایسے انتظامات مکمل کر رکھے ہیںکہ جن سے بھارتی حکومت جبر و دیگر حربوں سے الیکشن سے متعلق اپنے اہداف حاصل کرنے کا یقین رکھتی ہے۔
بھارتی حکومت کے 5اگست2019کے اقدام کے باوجود مقبوضہ جموں وکشمیر اور مسئلہ کشمیر کی عالمی سطح پہ متنازعہ حیثیت میں کوئی فرق نہیں پڑا۔بھارت کشمیر کا مسئلہ اپنی فوجی طاقت کے بھر پور اور ظالمانہ استعمال سے حل کرنے کی پالیسی پہ عمل پیرا ہے۔اس کے ساتھ ہی بھارتی حکومت مقبوضہ جموں وکشمیر میں ڈیموگریفک چینجز کے ذریعے مسلمانوں کی تعداد کم کرنے کے مرحلہ وار منصوبے پر عمل بھی کر رہی ہے۔کشمیر میں شہریوں کے خلاف متعدد غیر منصفانہ، غیر انسانی قوانین اور فورسز کے ظالمانہ استعمال سے بندوق کی نوک پر خاموش اور مجبور کیا جا رہا ہے۔ بھارت جس طرح مسئلہ کشمیر کشمیرکے عوام کی رائے دہی سے حل کئے جانے کے اقوام متحدہ، عالمی برادری سے کئے گئے اپنے عہد سے مکر گیا ۔ پھر بھارت نے کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے ساتھ مزاکرات سے پرامن اور منصفانہ طور پر حل کرنے کا عہد کیا لیکن پھر مختلف بہانے بناتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مزاکرات سے راہ فرار اختیا ر کرتا آ رہا ہے۔عالمی برادری سے بھی بھارت یہی کہتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے ساتھ مزاکرات سے حل کیا جائے گا لیکن بھارت کے اس عہد کو بھی پچاس سال ہو چکے ہیں ۔ حقیقت یہی ہے کہ بھارت ظلم وجبر، قتل و غارت گری، سیاسی و دیگر سازشوں کا ہر حربہ استعمال کرنے کے باوجود کشمیر کو ہتھیانے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔کشمیر کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے لیکن بھارت اپنی بڑی فوجی طاقت کے زعم میں کشمیر کا مسئلہ بندوق کے نوک پر حل کرنا چاہتا ہے۔ آزادی کے لئے کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک عشروں سے ، نسل در نسل جاری ہے۔
موجودہ اسمبلی الیکشن سے بھارتی حکومت عالمی سطح پہ یہ تاثر دینے کی کوشش میں ہے کہ بھارتی زیر انتظام جموں وکشمیر میں جمہوری عمل شروع کیا گیا ہے لیکن عملا الیکشن کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں لوگوں پہ ظلم وجبر کی صورتحال میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے بلکہ بھارتی حکمران پارٹی مقبوضہ کشمیر میں اپنی حکومت قائم کرتے ہوئے کشمیریوں کا '' ڈی این اے'' تبدیل کرنے کے اپنے اعلان میں پیش رفت کی فکر میں ہے۔اس تمام صورتحال میں پاکستان کے پاس کیا آپشن ہیں اور وہ اپنے دائرہ کار میں مسئلہ کشمیر کے پرامن حل سے متعلق کیا کر سکتا ہے؟یہ تلخ حقیقت بھی درپیش ہے کہ پاکستان محض بیانات سے کشمیر کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتا، مسئلہ کشمیر کو محض '' این جی اوز'' کی مختلف سرگرمیوں سے پاکستان کے اندر ہی مسئلہ کشمیر '' اجاگر '' کرنے میں محدود رہنے کی خود فریبی میں محدود نہیں رہ سکتا۔اگر پاکستان کے ارباب اختیار حقیقت میں کشمیر کاز کو اپنی ترجیح قرار دیں تو اس سے ایسے کئی مسائل سے جان بھی چھڑائی جا سکتی ہے جو پاکستان کو کمزور سے کمزورتر کر رہے ہیں۔تاہم اس کے کے لئے ارباب اختیار کو اس حقیقت کا اعتراف و ادراک کرنا ہو گا کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی سلامتی اور بقاء سے مربوط معاملہ ہے۔
|