خوبصورت مینی کیور ہوئے ہاتھوں میں انگوٹھی
پہناتے ہوئے وہ مردانہ ہاتھ اس کو یکلخت کسی اور ہی دنیا میں لے گئے جہاں
وہ تھی اور ایسے ہی محبت بھرے ماحول میں ایسی ہی انگوٹھی پہناتا ہوا اس کا
مسیحا۔
’’ ہیپی ویلنٹائن ڈے، بانو آج آپ نے ریڈ کلر نہیں پہنا لیکن گلاب ضرور سجا
لئے‘‘ قریب سے گزرتے کسی مرد کولیگ نے شوخی دکھاتے ہوئے اس کے سوٹ پرنٹ پر
تبصرہ کیا تو اس کی سوچوں کا سلسلہ ایک دم سے ٹوٹ گیا۔ بے اختیار اس نے
نگاہ اپنے کپڑوں پر ڈالی۔ٹی پنک کلر کے جارجٹ سوٹ پر چھوٹے چھوٹے سے سرخ
گلاب۔گلاب جیسے لمحات کا تصور کرتے ہی اس کے آس پاس جیسے دھیمی دھیمی خوشبو
پھیلتی ہوئی اس کے گھرد گھیرا ڈالنے لگی۔آس پاس جیسے ایک دم اجالا سا ہوگیا
ہو اور کانٹوں سے بھرا کوئی خیال بھی نہ پھٹکا۔ایس ایم ایس سے کال ریسیو
کرنے میں اس نے خاصی مزاحمت کی تھی لیکن کال کے بعد ملاقات کا مرحلہ کچھ
ایسا مشکل نہ ہوا، یہ ایسے ہوا جیسے یہ تو ہونا ہی تھا۔ پوش کالونی کے اعلیٰ
ریسٹورینٹ میں ویلنٹائن ڈے کے لئے اہتمام سے بنایا گیا ماحول انسانوں کے
سنگین اقدام کو رنگین بنانے کے لئے ترتیب دیا گیا تھا۔آتش نفسانی کو
بھڑکانے کے تمام تر لوازمات اور اس پر انداز بانو کی خیر حسین سے پہلی
ملاقات سب کچھ جیسے خوابناک سا تھا ۔انداز بانو نے ارد گرد بیٹھے تمام بے
خود ہوتے انسانوں پر نظر ڈالی اور ہاتھ میں پکڑی گلاب کی ٹہنی کو احتیاط سے
بیگ کی سائیڈ میں اٹکا لیا۔تجدید محبت کے ان خوبصورت لمحات کا انجام بھی
یقیناً اسی طرح حسین ہوتا ہوگا جیسے گلاب کی یہ دلکش کلی، اس نے گھر آکر
جسے بڑی احتیاط سے اپنی کتابوں کے درمیان رکھ دیا تھا۔ویلنٹائن ڈے نے خیر
حسین سے رابطے کو بڑا ہی مختلف موڑدیدیا تھا۔پہلی ملاقات،دوسری
ملاقات،دوسری ملاقات اور پھر تیسری اور پھر ملاقاتیں جیسے معمول میں شامل
ہوتی گئیں جیسے آدھی رات کی کالز۔مگر خیر حسین کو انداز بانو سے شکایت تھی
کہ وہ ملتے وقت بھی دل کے جذبات غالب نہیں آنے دیتی تھی۔ نہ کوئی شوخی نہ
شرارت نہ من کو چھوتی کوئی ادا نہ ترنگ۔
’’تم تو ایسے ملتی ہو جیسے میں تمہارے بینک کا کوئی ’’عام ‘‘ سا کلائنٹ
ہوں‘‘۔ خیر حسین کے لفظ عام پر زور دینے سے وہ چونکی ضرور لیکن چپ
رہی۔دسویں ملاقات میں انداز بانو اُس کی کسی جسارت پر ایسے بِدک کر پیچھے
ہوئی جیسے کوئی خوفزدہ ہرنی شکاری کو دیکھ کر فرار کی راہیں تلاش کرتی ہے۔
اس وقت پارک خاصا سنسان ہوچلا تھا اور خیر حسین بد مزہ ۔
’’تم مجھے سے شادی کرلو خیر حسین‘‘
’’کیا ؟‘‘اب وہ بِدک کر بولا۔
’’ہاں خیر حسین شادی کرلو۔خفیہ ہی کرلو‘‘ ۔وہ رو سی پڑی تھی۔کیوں میرے اِرد
گِرد شعلے جلاتے ہو؟‘‘ انداز بانو جیسے لگتا تھا گِڑ گِڑا رہی ہے۔آنسو اس
کے گال سے بہتے زمین میں گِر کر جذب ہورہے تھے۔سوکھی زمین میں پھر بھی نمی
کے آثار نہیں تھے۔خیر حسین نے ہمدردی سے اس روتے وجود کو دیکھا مگر اس کی
درخواست کو ذرّہ برابر بھی اہمیت نہ دی۔وہ بالکل اس زمین کی طرح بن چکا تھا
جس پر گِرتے آنسو زمین پر کوئی اثر ڈالے بِنا غائب ہورہے تھے۔
اِس ملاقات کے بعد وہ گھر لوٹی تو شاداب کو ماسک لگائے پلنگ پر لیٹا دیکھ
کر اُسے یاد آیا کہ چچا کے ہاں شادی میں جانا ہے۔گوہر نے الماری کے نچلے
خانے سے نازک سی کالے اسٹریپ کی چپل نکالتے ہوئے گردن موڑ کر بہن کو دیکھا
جو نہایت نڈھال لگ رہی تھی۔’’کیا ہوا انداز؟‘کیا آج پھر گاڑی رش میں پھنس
گئی ؟ تم بہت تھکی ہوئی لگ رہی ہو۔کیا دھواں بہت تھا؟ تمہارا آئی لائنز
پھیل گیا ہے‘‘ ماں کا دل تھا ،بیٹی کا شکستہ وجود دیکھ کر تڑپ اٹھا۔ اس کا
دل یکدم جیسے سُکڑ گیا۔بَدقّت مسکراتے ہوئے اُس نے دیوار پر لگے آئینے میں
اپنا عکس دیکھا۔
لمحے بھر خود وہ تھم سی گئی۔کیا واقعی یہ وہ تھی جو ملاقات سے پہلے اِتنی
روشن تھی جیسے ہر خلیہ روشن بلب،رَوم رَوم گنگناتا ہوا اور اب اسی چہرے پر
،اسی وجود پر روشنیوں کے بجائے سائے۔۔۔۔۔۔ گہرے سائے چھائے لگ رہے تھے۔
اس نے ماں کو کتنا بھی مطمئن کرنا چاہا مگر اُن کی آنکھوں میں جمی
افسردگی،درد کے ساتھ بے یقینی کی کیفیت اسے مزید توڑ رہی تھی۔
اپنے مخصوص وقت پر اِس رات بھی خیر حسین کی کال ۔فون اُس کے تکیے کے نیچے
وائبریٹ ہوتا رہا مگر اُس نے ریسیو نہ کیا۔آج پھر وہ تھی،صحرا تھا،ریت کا
طوفان ،تیز ہوا اور اس کی بے بسی۔
’’شادی محبت فنا کردیتی ہے۔مجھے تمہاری اور اپنی محبت امر دیکھنا پسند ہے‘‘
’’تم خود غرض بن رہی ہو انداز بانو۔صرف اپنا مستقبل محفوظ کرنے کے لئے شادی
کرنا چاہتی ہو،کیا ہوئی تمہاری محبت!‘‘ آواز میں تاسّف لپیٹے وہ اُس کو
خودغرض کہہ رہا تھا۔’’خود غرض اور میں ! ‘‘ وہ جیسے سکتے میں تھی۔
’’کیا ضروری ہے کہ ہم علم بغاوت بلند کرکے ایک ایسا معاہدہ کریں جس کا نام
شادی ہے‘‘ اُس کے جملے تھے یا ڈائنامائٹ جو اُس کا وجود ذرّہ ذرّہ کرکے
بکھیر رہے تھے۔وہ درد سے بے حال ہورہی تھی۔’’وہ محبت کی برستی رِم جِھم کیا
تھی آخر؟‘‘ کرب سے اس نے سوچا۔’’وہ قوس وقزح،وہ بدلیاں!‘‘ دل نے سِسکاری
بھری۔
’’واہمہ تھا صرف واہمہ! اصل میں تو وہ خاردار راستہ تھا پگلی‘‘ وجود کی
گہرائیاں بول اٹھیں۔وہ بِکھر رہی تھی،ٹوٹ رہی تھی۔طوفان کو کنارہ سمجھنے کی
غلطی کر بیٹھی تھی۔کوہِ نور جیسے جوہر سے جوہڑ تک کا سفر تکیلف دہ بھی تھا
اور لاحاصل بھی ۔
ختم شد |