غریبوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر
قدغن لگانا بھی حکومتوں کا پرانا وطیرہ ہے۔ جب بھی جدید ٹیکنالوجی کی مدد
سے غریب اپنی زندگی میں کچھ فرحت کا سامان کرتے ہیں، حکومتیں راہ میں دیوار
بن کر یہ ثابت کرنے پر تُل جاتی ہیں کہ غم اور پریشانی ابدی اقدار ہیں اور
یہ کہ زندگی میں اگر رنج و الم نہیں تو کچھ بھی نہیں! لاکھ سمجھائیے کہ
جناب! غریب جن باتوں میں خوشی محسوس کرتے ہیں اُن پر کوئی قدغن نہ لگائی
جائے۔ اچھا ہے کہ وہ اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں مصروف رہیں۔ وقت ملے گا
تو حکومتی کارکردگی کے بارے میں سوچنا شروع کریں گے اور اُن کے ذہنوں میں
سوالات بھی اُبھرنے لگیں گے! مگر حکومتیں کہاں مانتی ہیں؟
بھارتی حکومت نے اپنے غریبوں کو آن لائن کلچر کے ایک اہم سُتون ایس ایم ایس
سے محروم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹیلی کام ریگیولیٹری اتھارٹی آف انڈیا نے
کسی بھی موبائل نمبر سے دن بھر میں 100 سے زائد ایس ایم ایس بھیجنے پر
پابندی عائد کردی ہے۔ اِس اقدام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آج کل بھارتی حکومت
کو اعلیٰ درجے کے، باصلاحیت مُشیر میسر نہیں۔ جب پاکستان اور بھارت کے
درمیان کرکٹ روابط عمدہ خطوط پر اُستوار تھے تب دونوں حکومتیں سُکون کے
سانس لیتی رہتی تھیں کیونکہ عوام کرکٹ کے گورکھ دھندے میں گم رہتے تھے اور
کسی کو بظاہر اِس بات سے کچھ غرض ہی نہ ہوتی تھی کہ اُن کی حکومتیں کیا
خرید رہی ہیں اور کیا بیچ رہی ہیں!
کرکٹ نہ سہی، ایس ایم ایس سہی۔ لوگ کسی دھندے سے تو لگے ہوئے ہیں۔ ماہرین
اور مبصرین جس مثالی صورت حال کی بات کرتے ہیں وہ یہی تو ہے۔ حکومت کا کام
بھی چل رہا ہے اور عوام مستقل دردِ سر یعنی غور و فکر کی زحمت سے بھی بچے
ہوئے ہیں! ایسے میں ایس ایم ایس کی حد متعین کرنا بظاہر ایک ایسی حماقت ہے
جس کی کوئی حد مقرر نہیں!
لیجیے، اب غریب کیا کریں گے؟ کرنے کو کچھ ہے نہیں اور وقت پہاڑ کی طرح سر
پر سوار رہتا ہے۔ غریبوں کے پاس وقت ہی واحد دولت ہوتی ہے۔ اب کیا وہ اپنی
واحد دولت کو بھی اپنی مرضی سے خرچ یا ضائع نہ کریں؟ بھلا ہو ٹی وی چینلز
اور موبائل فون کمپنیوں کا کہ اُن کی خدمات سے مستفید ہوکر غرباءوقت کو
اچھی طرح ”قتل“ کرنے میں کامیاب تو ہوتے ہیں۔ دن بھر میں 100 سے زائد ایس
ایم ایس بھیجنے پر پابندی عائد کرکے بھارتی عوام کے لیے پھر یہ اُلجھن پیدا
کردی گئی ہے کہ وقت کو کس طور ٹھکانے لگایا جائے! وہ دن بھر ٹی وی تو دیکھ
نہیں سکتے کیونکہ اِس صورت میں اُن کے حواس مکمل طور پر مختل ہوسکتے ہیں!
بھارتی حکومت کے اقدام سے متعلق خبر پڑھ کر ہماری تو ہنسی چھوٹ گئی۔ ہمیں
خیال آیا کہ دِلّی سرکار ”ابھی“ سے گھبراگئی۔ دُنیا کیا کہے گی؟ چمکتے
دمکتے، جمہوری بھارت میں اب بھی لوگوں کو اِتنا اختیار حاصل نہیں کہ دِل کی
بات پوری شرح و بسط کے ساتھ بیان کرسکیں، کسی سے اپنے ”پاکیزہ“ خیالات شیئر
کرسکیں! کوئی بھارتی حکومت کو بتائے کہ اہل پاکستان نے ایس ایم ایس سے کیسے
کیسے کام لیے ہیں۔
جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام اور اِن میں شرکت دردِ سر سے کم نہیں۔ ایسے میں
ایس ایم ایس کے سَستے پیکیجز غنیمت ہیں کہ اِن کی مدد سے بہت کچھ بیاں اور
عیاں ہو جاتا ہے! اور کبھی کبھی تو کچھ زیادہ ہی عیاں ہو جاتا ہے! جو لوگ
حکومت کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے وہ کم از کم ایس ایم ایس کے ذریعے تو دِل کی
بھڑاس نکال ہی سکتے ہیں! اور دِل کی بھڑاس نکالنے کے نام پر یاروں نے کیسے
کیسے گل کِھلائے ہیں، کچھ ہم پاکستانی ہی جان سکتے ہیں اور جانتے ہیں۔ اِس
معاملے میں کوئی بھی بُخل سے کام نہیں لیتا۔ اہل اقتدار کے خلاف دِل کی بات
بیان کرنے کے لیے ایسے ایسے نکات سوچے جاتے ہیں کہ قدیم یونان کے فلسفی بھی
جان پائیں تو شرمندہ اور اپنی ”کم فہمی“ اور ”بے دماغی“ پر ماتم کناں ہوں!
سرکاری بیانات کو نہلا قرار دیتے ہوئے اُس پر دہلا مارنے کے لیے خاصی دُور
کی کوڑیاں لائی جاتی ہیں۔ اب عالم یہ ہے کہ اخبار کی دس بارہ خبریں پڑھنے
سے بھی تشفی نہیں ہو پاتی مگر ”کام کے“ دو تین ایس ایم ایس پڑھنے سے کلیجے
میں ٹھنڈک سی پڑ جاتی ہے! ایس ایم ایس کرنے یا پڑھنے کے بعد لوگ خود کو
ویسا ہی ہلکا محسوس کرتے ہیں جیسا واش روم سے نِکلنے پر محسوس کرتے ہیں!
اہل اقتدار بھی پریشان تو ہیں کہ لوگوں کو ایس ایم ایس کے ذریعے جلسہ گیری
اور مظاہرہ بازی سے کیسے روکیں؟ مگر کسی پر بس نہیں چلتا۔ بس چلے بھی تو
کیسے؟ فیشن یہ ہے کہ جس چیز پر قدغن لگانے کی بات کی جائے اُس کی مقبولیت
میں دِن دُگنا، رات چُگنا اضافہ ہونے لگتا ہے! اگر کبھی یہ عندیہ دیا جاتا
ہے کہ کسی حکومتی شخصیت کے بارے میں ایس ایم ایس کرنے والے کو سزا کا سامنا
کرنا پڑے گا تو اُس شخصیت کا ”مرتبہ“ ایس ایم ایس کرنے والوں کی نظر میں
کچھ اور بڑھ جاتا ہے اور وہ نئے جذبے کے ساتھ ایس ایم ایس کی موجوں میں
بہنے لگتے ہیں!
ہمارے ہاں تو یہ حال ہے کہ لوگ دن بھر میں چار پانچ سو ایس ایم ایس نہ
کرلیں تو زندگی میں کچھ کمی سی محسوس ہونے لگتی ہے، جیسے کچھ کیا ہی نہیں!
بُہتوں کا یہ حال ہے کہ ڈیڑھ دو ہزار ایس ایم ایس کا پیکیج خریدتے ہیں اور
دو تین دن میں ٹھکانے بھی لگا دیتے ہیں۔
جب تک یہ سب نہیں تھا تب تک کسی نے کچھ سوچا بھی نہیں تھا۔ اب مشکل یہ ہے
کہ ایس ایم ایس بھیجنے کی سہولت نہ ہو تو ہم کیا کریں گے؟ دنیا بھر میں سب
سے زیادہ وقت پاکستانی قوم کے پاس ہے اور حکومت کو چونکہ اِس حقیقت کا اچھی
طرح احساس اور ادراک ہے اِس لیے وقت کو ڈھنگ سے ٹھکانے لگانے اور پورے
احترام سے دفنانے کے قابل بنانے کے لیے عوام کو متعلقہ سہولتیں فراہم کرنے
کا بھرپور اہتمام کیا گیا ہے! ٹی وی چینلز کی مہربانی سے اب عوام حکومت کے
خلاف بہت کچھ جان لینے کے بعد بھی اُس کی جان لینے کا خیال تک اپنے دِل میں
نہیں لا پاتے! سبب اِس کا یہ ہے کہ حکومت پر تنقید کرنے والوں کو سُننے،
بلکہ سُنتے رہنے ہی سے فُرصت نہیں! سیاسی رہنما عوام کو سڑکوں پر لانا
چاہتے ہیں اور عوام حقیقی دُنیا سے زیادہ حقیقت نُما دُنیا میں رہتے ہیں!
ٹی وی چینلز کی دست بُرد سے کچھ وقت بچ رہے تو موبائل فون حاضر ہے۔ رات رات
بھر کے پیکیجز دستیاب ہیں۔ رات کی تاریکی میں وقت کو، خاصی آسانی اور عمدگی
سے، جس قدر ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے، لگائیے۔ بلکہ لگاتے رہیے۔
اجازت کے باوجود لوگ چار شادیاں تو نہیں کر پاتے، مگر اِس کمی کو چار چار
سِمیں رکھ کر پورا کیا جارہا ہے! اگر کل کلاں تو ہماری حکومت نے بھی ایس
ایم ایس بھیجنے کی یومیہ حد مقرر کی تو لوگ چار سِموں کی مدد سے کوٹہ پورا
کرلیا کریں گے!
ایس ایم ایس کی بہتات نے بھی عجب گل کِھلائے ہیں۔ بعض ایس ایم ایس تو ہم
دیکھتے ہی ڈیلیٹ کردیتے ہیں یعنی
آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نِکالے بھی گئے!
ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی ایس ایم ایس کو دیکھے بغیر ڈیلیٹ کردیا اور بعد
میں پتہ چلا کہ کام کی بات بس اُسی ایک ایس ایم ایس میں تھی۔ ہمارے ایک
دوست نے رات گئے کال کی اور شِکوہ کیا کہ اُن کی بیگم نے خاصے لذیذ پائے
پکائے تھے اور ہم کھانے ہی نہیں آئے! ہم نے کہا بھائی! ہم نے کبھی ایئر
پورٹ پر ڈیوٹی تو کی نہیں کہ سُونگھتے ہوئے آجاتے! اگر بُلایا ہوتا تو ضرور
آتے۔ اُنہوں نے بتایا کہ ایم ایس ایم بھیجا تو تھا! اب ہمیں خیال آیا کہ
حضرت کے نام سے ایس ایم ایس آیا تو تھا مگر ہم نے ایک نظر ڈالتے ہی یہ سوچ
کر ڈیلیٹ کردیا کہ ہمیشہ کی طرح کوئی بے سر و پا اور انٹ شنٹ بات ہی لِکھ
ماری ہوگی! اب جو پائے کا ذکر چھڑا تو ہم نے (اپنا) سر پیٹ لیا۔ چند لمحات
کے بعد جب حواس بحال ہوئے اور ہم نے ہاتھ نہ آنے والے پایوں پر فاتحہ پڑھ
کر اپنے دوست سے شِکوہ کیا کہ آپ نے ہمیں بر وقت فون کیوں نہ کیا تو جواب
میں محترم کی ہنسی سُنائی دی! فرمانے لگے ”دسترخوان پر پائے کی پلیٹ دھری
ہو تو کون کس کو یاد رہتا ہے!“ ہم نے تاکید کی کہ آئندہ اگر کھانے پر بلانا
ہے تو بروقت بُلانا۔ اور اگر نہ بُلا سکو تو بعد میں فون کرکے ہمارا دِل
ہرگز نہ جلانا!
جب کوئی کھا چکنے کے بعد ہمیں مطلع کرتا ہے تو کلیجے پر ایک کٹار سی لگتی
ہے! اِسی کو تو کہتے ہیں ایک تو سِتم ڈھانا اور اُس پر ظرافت کا مظاہرہ
کرنا! |