خیبرپختونخواہ کی نوجوان: مثبت سرگرمیاں ، ڈی سی و ڈی ایس اوز کی ذمہ داریاں



خیبرپختونخواہ میں نوجوانوں کی تعداد آبادی کے تناسب سے 50 فیصدہے سال 2020-21 میں کئے گئے سروے رپورٹ کے مطابق دیہی اور شہری علاقوں میں رہائش پذیر افراد میں 50.57 فیصد مرد جبکہ49.42 فیصد خواتین ہیں یہی تعداد اگر رورل ایریا کے تناسب سے دیکھی جائے تو یہاں پر 84.04 فیصدرہائش پذیر افراد میں میں 42.27 فیصد مرد اور41.77 فیصد خواتین ہیں جبکہ رورل ایریا میں 15.96 فیصد لوگ آباد ہیں جہاں پر مرد وں کی شرح 8.30 فیصد اور خواتین کی شرح 7.65 فیصد ہے سب سے زیادہ عمر کے لوگ دیہی اورشہری علاقو ں میں پانچ سے نو سال کے عمرکے ہیں جبکہ دوسری نمبر پر دس سے چودہ سال کے عمر کے بچے ہیں جبکہ تیسرے نمبر پر پندرہ سے انیس سال کے عمرکے لوگ ہیں.یہ سروے لیبر فورس کے حوالے کیا گیا تھا ان میں مرد و خواتین کی شرح الگ الگ سہی لیکن سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خیبرپختونخواہ میں دیگر صوبوں کے مقابلوں میں اس عمر کے افراد کی تعداد زیادہ ہے.

نوجوان کسی بھی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں اور انہیں مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب کرنا اور انہیں اس میں مشغول رکھنا حکومت کیساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد کی بھی ذمہ داری ہے صوبے کے ان نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی جانب لانے کیلئے کیا اقدامات کئے جارہے ہیں یہ وہ بنیادی سوال ہیں جو یوتھ اور کھیلوں سے وابستہ صوبائی وزارت سے کرنے کی ضرورت ہے. بنیادی طور پر یہی وزارت نہ صرف نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرتی ہیں بلکہ ان کیلئے ایسے مواقع بھی پیداکرتی ہیں.کہنے کو تو خیبرپختونخواہ میں پینتیس اضلاع ہیں ، ان میں ضم اضلاع بھی شامل ہیںجس میں آبادی کے لحاظ سے پشاور ٹاپ پر ہے جس کے بعد مردان اورسوات ہے ، اسی طرح صوابی ، چارسدہ ، ڈیرہ اسماعیل خان ، مانسہرہ ، نوشہرہ، لوئر دیر ، ایبٹ آباد ، بنوں ، کوہاٹ ، باجوڑ ، ہری پور،خیبر، اپر دیر ، لکی مروت ، بنیر ، شانگلہ، ساﺅتھ وزیرستان ، ملاکنڈ ، کرک ، کرم ، نارتھ وزیرستان ، بٹگرام ، مہمند ، ہنگو ، ٹانک ، اپرکوہستان ، اورکزئی ، لوئر کوہستان ، لوئر چترال ، کولائی پالس ، تورغر اور اپر چترال شامل ہیں .

سال 2018 میں بننے والی کھیلوں کی صوبائی پالیسی کا اگر جائزہ لیا جائے تو گذشتہ چھ سالو ں میں کھیلوں کی سرگرمیوں کیلئے صوبائی حکومت نے بہت حد تک اقدامات بھی اٹھائے لیکن یہ اقدامات بڑے شہروں تک ہی محدود رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ چند مخصوص اضلاع سے کھلاڑی نکل رہے ہیں ، جہاں پر کھیلوں کی سرگرمیاں مختلف نوعیت کی جاری رہتی ہیں کم و بیش اڑتیس سے زائد کھیلوں کی ایسوسی ایشنز اس وقت صوبے میں کام کررہی ہیں لیکن بیشتر صوبائی ہیڈ کوارٹر پشاور تک ہی محدود ہے بعض ایسی ایسوسی ایشنز بھی ہیں جن کے پاس کاغذات میں پورے صوبے میں نمائندگی ہیں لیکن نہ پشاور میں ان کا کوئی دفتر ہے اور نہ ہی کسی دوسرے ضلع میں ، اور ان کی کھیلوں کی سرگرمیاں کاغذات میں ہی چل رہی ہیں ، جس طرح صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں پشاور ، مردان ، چارسدہ ، سمیت دیگر چند اضلاع میں کھیلوں کی سرگرمیاں متعلقہ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز جاری رکھے ہوئے ہیں اسی طرح چند ہی کھیلوں کی سرگرمیاں ایسوسی ایشن ہی چلاتی ہیں اور باقی تمام کھیلوںکی سرگرمیاںدیگر اضلاع میں صرف کاغذی اور ایک حد تک ہی ہیں جس کے بعد خیر خیریت ہی ہے.

خیبرپختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام پینتیس کے قریب تمام اضلاع میں ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر تعینات ہیں جن کا بنیادی کام اپنے متعلقہ ضلع کی سطح پر کھیلوں کی مختلف سرگرمیوں کو جاری رکھنا اورانکی پروموشن شامل ہیں اسی طرح مختلف کھیلوں میں نرسری سطح کے کھلاڑیوں کو آگے لانا بھی شامل ہیںلیکن سال 2018کی اناﺅنس کردہ سپورٹس پالیسی کے بعد ان پینتیس اضلاع میں کتنے اضلاع میں کھیلوں کے مختلف مقابلے منعقد کروائے گئے یا نوجوان نسل کو مثبت اور گراﺅنڈزآباد کرنے کیلئے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں اس بارے میں سوائے چند اضلاع کے بیشتر اضلاع پر مکمل مکمل طور پر خاموشی طاری ہیں ، قانون کے مطابق ضلع کی سطح پر ملنے والے بجٹ میں پانچ فیصد بجٹ کا حصہ نوجوانوں اور کھیلوں کی سرگرمیوں کیلئے وقف ہوتا ہے لیکن چارسد ہ ، پشاور اور مردان کے علاوہ کتنے اضلاع کے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز نے مقابلے منعقد کروائے کتنوں نے اس حوالے سے اپنے متعلقہ ضلع سے بجٹ لیا اور کونسی کھیلوں کی سرگرمیاں منعقد کی جس کی بنیاد پر یہی ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں ، سوائے چند ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کی جو جہاں بھی جاتے ہیں اپنے متعلقہ اضلاع میں کھیلوںکی سرگرمیاں شروع کرواتے ہیں ، باقی بیشتر ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرزصرف تنخواہیں وصول کرنے کیلئے بھرتی کئے گئے ہیں بعض ایسے اضلاع کے ڈی ایس اوزاور آر ایس اوز ہیں جو اپنی بنیادی ڈیوٹی چھوڑ کر یعنی نرسری سطح کے کھلاڑیوں کو لانے کے بجائے ڈیپارٹمنٹل مقابلوں کے انعقاد کے لئے کوشاں ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اس میں بہت فائدہ ملتا ہے اور مشکلات بھی نہیں ہوتی- یہی بنیادی حقیقت ہے جس کی طرف مشیر کھیل خیبرپختونخواہ، سیکرٹری سپورٹس خیبرپختونخواہ اور ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبرپختونخواہ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے.

کم وبیش ایک لاکھ تک تنخواہ و مراعات لینے والے بیشتر ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز نے اپنے متعلقہ ضلع میں کتنے کھیلوں کے مقابلے منعقد کروائے ، کتنے کھلاڑی مختلف کھیلو ں میں پیدا کئے ، کونسے ان کے ضلع سے صوبائی اور قومی سطح کے کھلاڑی نکلے ، ان میں خواتین کھلاڑی کتنی ہیں ، پینتیس اضلاع میں ضلع کی سطح پر ملنے والا کھیلوں کا فنڈز کتنا ہے ،اور متعلقہ اضلاع میںنمائندگی کا دعوی کرنے والے کتنے ایسوسی ایشن حقیقت میں کام کررہی ہیں ، کتنے کلب متعلقہ ضلع میں چل رہے ہیں اپنے متعلقہ اضلاع میں ڈی ایس اوز نے کتنے کلبوں کی رجسٹریشن کیلئے اشتہارات دئیے ، کتنی درخواستیں وصول کئے یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو ڈی ایس اوز سے کرنے کے ہیں. ٹھیک ہے کہ متعلقہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر ہی ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر کا کنٹرولنگ آفیسر ہوتا ہے اوروہ اس حوالے سے ان سے پوچھ گچھ کر سکتا ہے لیکن صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ جوانہیں کھیلوں کی سرگرمیوں کیلئے تعینات کرتی ہیں اورانہیں عوامی ٹیکسوں سے حاصل ہونیوالی آمدنی سے تنخواہیں دی جاتی ہیں ، یہی تنخواہ ڈپٹی کمشنرز کو بھی ملتی ہیں ان سے بھی سوال کرسکتی ہے کہ متعلقہ ڈی ایس اوز ، آر ایس اوز نے کھیلوں کی سرگرمیوں اوراپنے متعلقہ کمپلیکس سمیت نئے کلبوں کی رجسٹریشن سے متعلق معلومات کتنی ہیں اور انہوں نے اس معاملے میں ریونیو کتنا پیداکیا گیا.

یہ وہ چند بنیادی سوالات ہے جو ضلع کی سطح پر تعینات ہونیوالے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز سے کرنے کے ہیں اسی طرح سول ایڈمنسٹریشن بھی ڈپٹی کمشنروں کے تبادلے و پروموشن صرف سیاسی مقاصد اور زیادہ ادائیگی کرنے والوں کے بجائے ان ڈی سیز کی کرنی چاہئیے جو امن و امان ، ریونیو جنریشن و دیگر معاملات سمیت کھیلوں کی سرگرمیوں میں بہتری لانے اور نوجوان نسل کو مثبت سرگرمیوں کی جانب لانے میں اپنا کردار ادا کریں اور باقاعدہ رپورٹ جمع کریں کہ انہوں نے اپنے دو سالہ تعیناتی کے دوران کتنے کھلاڑی ضلع کی سطح پر پیدا کئے کتنے مقابلوں کی سرپرستی کی اور کتنی کی فنڈنگ کی ، تبھی ان کی پروموشن ہو ، ورنہ جس طرح کا سلسلہ چل رہا ہے اور بیشتر ڈی سی تصاویر شائع کرنے اور اپنے آپ کی پروموشن میں مصروف عمل ہیں اسی طرح کا سلسلہ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفسران بھی شروع کردینگے کیونکہ یہ بھی اپنے آپ کو گریڈ سترہ کے افسر سمجھتے ہیں اور وہ افسر جو اپنی بنیادی ڈیوٹی ادا کرنے کے قابل نہیں لیکن مراعات لینے کے حق میں ہیں.

#kikxnow #digitalcreator #sportnews #dso #kpksportsnews #mojo #duties #kpksports #youth #policy #dc

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 649 Articles with 507996 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More