اس وقت امت کا حال سب کے سامنے ہے۔ آئے روز مسلمانوں پر
مظالم، مقدس ہستیوں اور شعار کی بے حرمتی، خصوصاً فلسطین کے حالات جن کے
آگے دل تھامنا بھی مشکل ہے، سب کے سامنے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر وہ
کون سے عناصر ہیں جن کی بدولت آج مسلمان چاہتے ہوئے بھی ترقی نہیں کر پا
رہے اور دن بدن تنزلی کی جانب گامزن ہیں؟
اول تو یہ جان لینا لازمی ہے، کہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے پہلے اس کی
اصل کو جاننا یا اس کی گہرائی کا علم ہونا ضروری ہے۔ لہذا امت کے زوال کا
باعث بننے والے عناصر کا جائزہ لیتے ہیں۔
ویسے تو اس کے بارے میں مفکرین کی مختلف رائے ہو سکتی ہے، لیکن کافی تحقیق
اور سوچ و بچار کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ آج امت کی تنزلی کی ایک وجہ
”کم علمی اور اس حوالے سے لوگوں میں الجھن“ ہے۔ کیونکہ یہ تعلیم ہی ہے جو
انسانوں میں شعور اجاگر کرتی ہے جو بہت سی خرابیوں کو سلجھانے کے لئے
کارآمد ہے اور اسی کی بدولت ہی ہم دیگر اقوام پر برتری حاصل کر سکتے ہیں۔
لیکن جب بھی علم کی بات ہوتی ہے، تو لوگوں میں ایک الجھن پیدا ہوتی ہے اور
ایک سوال اٹھتا ہے کہ کون سا علم دینی یا عصری؟ اسی کو لے کر امت میں دو
گروہ پائے جاتے ہیں۔ ایک گروہ عصری (دنیوی) علوم کو ہی ترقی کا اہم عنصر
سمجھتا ہے، جبکہ دوسرے گروہ کے مطابق دینی علوم مسلمانوں کی ترقی کا اہم
عنصر ہے۔ لیکن ایک عام آدمی بچارا ابھی تک یہ سمجھ نہیں پایا کہ ان دونوں
میں ٹھیک کون ہے اور غلط کون (مجھے کس جانب جانا چاہیے اور کون سے علوم
حاصل کرنے چاہئیں)؟
اگر کوئی شخص امت کو موجودہ (تنزلی) کی صورتحال سے نکالنے میں اپنی استطاعت
کے مطابق کوشش اور اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنا چاہے بھی تو کیسے؟
تعلیم کے ذریعے سے؟ اس حوالے سے تو وہ ایک نئی الجھن میں پڑ جاتا ہے کہ کون
سی تعلیم؟
اس وقت امت کے تعلیم و تربیت جو کہ کسی بھی شہری اور بچے کے بنیادی حقوق
میں بھی داخل ہے، کا یہ المیہ ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ امت
میں اس الجھن اور تفریق کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب ہے ”ہمارا نظام
تعلیم“ جہاں ایک عام آدمی کو حصول علم کے حوالے سے اندازہ نہیں ہو پا رہا،
جس کا صاف مطلب ہے کہ ہمارے ہاں رائج نظام تعلیم درست نہیں۔ تو پھر وہ کون
سا نظام تعلیم ہے، جس کو اپنا کر اس الجھن کا سدباب کیا جا سکے تاکہ امت
ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے؟
جس طرح پہلے بھی عرض کر چکا ہوں، کہ ہر مسئلے کے حل سے قبل اس مسئلے کو
سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ لہذا اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے بھی ہمیں گہرائی سے
اس کا جائزہ لینا ہو گا اور اس کے لئے ہمیں تاریخ کا رخ کرنا ہو گا۔
صدیوں پہلے جس وقت مسلمان اپنے عروج پر تھے (اسلام کا سنہری دور) کو دیکھا
جائے تو مسلمانوں کا اپنا ایک نظام تعلیم تھا۔ مسلمانوں کے بڑے بڑے
دارالعلوم ہوا کرتے تھے اور ان دارالعلوم میں ہر قسم کے دینی اور عصری علوم
پڑھائے جاتے تھے۔ یہ دارالعلوم محض علوم کی حد تک محدود نہیں تھے، بلکہ ایک
اچھے شہری کی تربیت سمیت مذہبی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ مطلب کہ یہ
دارالعلوم مکمل طور تعلیم و تربیت کے گڑھ ہوا کرتے تھے۔ یہ وہ دارالعلوم
تھے جہاں ابن الہیثم، ابن سینا، ابن الرشد، جابر بن حیان، موسیٰ الخوارزمی،
وغیرہ جیسے بڑے بڑے مذہبی سائنسدان پیدا ہوئے۔ وقت گزرتا گیا کچھ مسلمانوں
کی ترجیحات بدلیں، وقتی مفاد کے پیچھے اپنا فرض منصبی بھول گئے (جو آج کل
بھی ہو رہا ہے )، کچھ آپس میں بے اتفاقی اور منافرت کی فضا پروان چڑھی۔
دوسری جانب دشمن نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سب کچھ ختم کر دیا۔ بعد ازیں
جب امت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تو جہاں ہماری باقی چیزوں، ثقافت، روایات،
وغیرہ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی، وہیں ہمارے نظام تعلیم کو بھی تبدیل
کر کے آہستہ آہستہ مسخ کر دیا گیا جس کا نتیجہ آج ہم سب کے سامنے ہے۔
یہاں اس تاریخ کو بتانے کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں یہ پتہ چل سکے کہ عروج کے
وقت ہمارا نظام تعلیم کیسا ہوا کرتا تھا۔ حاصل یہ کہ ہمیں اپنے تعلیمی نظام
کو تبدیل کر کے متفقہ طور پر ایک ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے، جس میں دینی
اور دنیوی علوم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ دی جاتی ہو۔ محض دنیوی علوم
پر ترقی کا دار و مدار ٹھہرانا بھی غلط اور محض دینی علوم پر اکتفا کرنا
بھی درست نہیں۔ مذہبی علوم سے انکار نہیں، لیکن کیا محض مذہبی تعلیمات دشمن
کو مات دینے کے لئے کافی ہیں؟ اگر محض دینی علوم کو حاصل کر کے ہم دشمن کا
مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ ہماری کم فہمی ہے۔ دینی علوم سے تو ہمارے پاس
مسائل کا علم آ سکتا ہے، لیکن دشمن کو مات دینے کے لئے یہ ناکافی ہو گا۔ آج
اگر فلسطین سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور
باقی مسلمان چاہ کر بھی اسے روک نہیں پا رہے، تو اس کی وجہ دشمن کے مقابلہ
میں ہماری عصری علوم کی کمی ہے۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کی ایسی کوئی خاص
ایجاد یا ٹیکنالوجی میں برتری نہیں، جس کی بنا پر ہم دشمن پر سبقت لے کر ان
کے قلوب میں اپنی رعب بٹھا سکیں۔ لہذا ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا
جاسکتا ہے کہ: ایک مسلمان کے لئے دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کا حصول
بھی نہایت ضروری ہے۔
اس کے برعکس جو محض دنیوی یا عصری علوم پر ہی ترقی کا دار و مدار سمجھتے
ہیں، وہ بھی غلطی پر ہیں۔ کیونکہ اگر آپ کے پاس محض عصری علوم کا انبار ہے،
مگر دینی علوم سے شناسائی نہیں اور آپ کو مسائل کا علم نہیں کہ کب، کیوں
اور کیسے اپنی طاقت کا استعمال کرنا ہے، تو پھر دشمن میں اور ہم میں کوئی
فرق نہیں ہو گا کیونکہ مذہب آپ کو اخلاقیات سکھاتا ہے اور بتاتا ہے کہ کب
اور کیسے موجودہ وسائل کا استعمال کرنا ہے۔
حاصل یہ کہ امت کو ایک ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جہاں ان دونوں علوم کو
یکجا کر کے ان کے درمیان تفریق کو ختم کیا جائے۔ یک طرفہ علوم، ترقی اسلام
و مسلمین کے لئے کارآمد نہیں بلکہ امید و اطمینان کے بجائے الجھن و نراسی
کا باعث ہیں۔
|