استاد ،ایک فکری رہنما

مصنف کی اپنے اساتذہ کے ساتھ سنہری یادیں اور یادگار لمحات۔

دینِ اسلام میں علم اور اس کے حصول کو بے حد اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں پہلی وحی کا نزول ہی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ علم اور اس کی ترسیل معاشرتی، فکری اور روحانی ترقی کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ العلق کی ابتدائی آیات میں فرمایا ) ترجمہ ومفہوم: (
پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا،
انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔
پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے،
جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا،
آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
(سورۃ العلق: 1-5)
ان آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو پڑھنے اور علم حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ علم کی ابتدا اللہ کےبابرکت نام سے کی گئی اور قلم کے ذریعے علم کی ترسیل کو بیان کیا گیا۔ علم کو انسان کی تخلیق کے بعد سب سے پہلی نعمت قرار دیا اور یہی علم انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔علم والے افراد کا مرتبہ بے علم لوگوں سے کہیں زیادہ ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) ترجمہ ومفہوم: (
(اے نبیؐ) کہہ دیجیے کیا علم والےاورجاہل برابر ہوسکتے ہیں ؟
(سورۃ الزمر: 9)
استاد وہ رہنما ہے جو علم کے راستے پر چلنے کے لیے روشنی فراہم کرتا ہے ۔نبی کریم ﷺ نے خود کو معلم قرار دیتے ہوئے فرمایا:
مجھے معلم (استاد) بنا کر بھیجا گیا ہے۔
) سنن ابن ماجہ(229
استاد درحقیقت پیغمبرانہ مشن کا وارث اور امین ہے۔ جس طرح انبیاء نے معاشرے کو جہالت سے نکال کر علم کی روشنی عطا کی اسی طرح استاد قوم کے شعور اور اخلاقی تربیت کی بنیاد رکھتا ہےجو ایک صالح اور ترقی یافتہ معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے۔ استاد اپنےقلم اور فکر کی طاقت سے نہ صرف افراد کی زندگی بدلتا ہے بلکہ قوم کی تقدیر سنوارنے کا ہنر بھی جانتا ہے۔ وہ علم کی شمع روشن کرنے کے ساتھ ساتھ، سوچنے، سمجھنے اور خود کو پہچاننے کا شعور بھی دیتا ہے۔ استاد کی بصیرت سے جاہل، عالم بنتا ہے، عام شخص خاص بن جاتا ہے اور خواب حقیقت بن جاتے ہیں۔
علامہ اقبال نے اپنی فکری اور علمی ترقی کا تمام تر سہرا اپنے استاد مولوی میر حسن کو دیا ہے۔ ان کی نظر میں مولوی میر حسن کی بصیرت اور تربیت نے ان کی شخصیت کو اس طرح نکھارا کہ وہ ایک عام طالب علم سے عظیم مفکر اور شاعر کے مقام تک پہنچے۔ اقبال نے اپنے استاد کی عظمت اور ان کے فیض کو ان الفاظ میں بیان کیا:
نفس سے جس کی کھلی میری آرزو کی کلی
بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو
یہ اشعار اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ مولوی میر حسن کی رہنمائی نے اقبال کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کیا اور ان کی آرزوؤں کو حقیقت کا روپ بخشا۔ اقبال نے اپنے استاد کی محبت اور شفقت کو یوں خراج تحسین پیش کیا:
مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے
پلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں
زندگی کی کامیابی بھی ایک سیڑھی کی طرح ہے جسے چڑھنے کے لیے مضبوط سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیڑھی کی ان سلاخوں کی مثال اساتذہ سے دی جا سکتی ہے جو قدموں کو سہارا دیتے ہیں اور بلندی کی طرف بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ اگر طالب علم استاد کی صلاحیتوں پر پُر اعتماد اور دل سے شُکر گزار ہو تو وہ بلا خوف ترقی کی راہ پر گامزن رہتا ہے۔ لیکن اگر یہ اعتماد ختم ہو جائے اور دل میں نَاشُکری ہو تو کامیابی کا سفر بھی رک جاتا ہے اور منزل کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ) ترجمہ: (
جو شخص لوگوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا۔
(سنن ترمذی: 1954)
الحمدللہ! اللہ کا بے پناہ فضل ہے کہ مجھے زندگی میں ایسے بہترین اساتذہ ملے جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ میں ہر ایک استاد کا ہمیشہ کے لیے مقروض ہوں اور ان کی رہنمائی اور شفقت کے لیے دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں۔ ان کی خدمات اور احسانات کو خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں جو میری فکری اور علمی ترقی میں روشن چراغ کی مانند رہے۔ان روشن چراغوں میں سے ایک تابندہ چراغ میرے محترم اور شفیق استاد جناب محمد انور بھٹی اختر آبادی صاحب ہیں۔ان کی شفقت، رہنمائی اور بے مثال تربیت نے میری زندگی میں مثبت تبدیلیاں کیں ،میں ہمیشہ ان کا احسان مند رہوں گا۔
استاد محترم ایک باکمال اور بااصول انسان ہیں جنہوں نے اپنی زندگی دیانتداری، علم دوستی اور خدمت کے اصولوں پر گزاری۔ ان کا ابتدائی پیشہ ورانہ سفر محکمہ انہار (Irrigation Department) میں بطور سب انجینئر (Sub-Engineer) گریڈ11 BPS-کے شروع ہوا جہاں وہ ایک قابل اور محنتی افسر کے طور پر جانے جاتے تھے ۔ لیکن کچھ عرصہ بعد انہوں نے وہ ملازمت چھوڑ دی کیونکہ وہ ان کے مزاج کے مطابق نہیں تھی۔ بعد ازاں محکمہ تعلیم میں بطور ڈرائنگ ٹیچر) گریڈ9 (BPS-کام شروع کیا حالانکہ یہ عہدہ اور تنخواہ پچھلی ملازمت کے مقابلے میں کم تھی۔مگر ان کے لیے پیسے اور عہدے کی نسبت ایمانداری اور خدمت زیادہ اہم تھے۔ باوجود اس کے کہ ان کی تعلیم اور ذہانت انہیں سائنس کے مضامین پڑھانے کے لیے زیادہ موزوں بناتی تھی، انہوں نے ڈرائنگ ٹیچر کے عہدے کو بخوبی نبھایا۔ اس وقت سکول میں سائنس مضامین کے لیے اساتذہ کی کمی تھی تو انہوں نے اپنی علمی قابلیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ریاضی، فزکس اور کیمسٹری جیسے مشکل مضامین گزشتہ تین دہائیوں تک پڑھائے اور ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور اعلیٰ تعلیمی اسناد حاصل کیں۔ 2010 میں انہیں گریڈ16 BPS-کے ساتھ SST ٹیچر کے عہدے پر ترقی دی گئی جو ان کی علم دوستی اور تدریس سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔انہوں نے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول اختر آباد میں 35 سال سے زیادہ عرصہ گزارا جہاں وہ نہ صرف تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے بلکہ طلباء کی تربیت میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کی تدریس محض کتابی علم تک محدود نہیں تھی بلکہ انہوں نے طلباء کو زندگی کے عملی پہلوؤں پر بھی تعلیم دی جس سے طلباء کی شخصیت سازی میں ان کا اہم کردار رہا۔
میری ان سے پہلی ملاقات 2008 کی گرمیوں کی چھٹیوں میں ہوئی تھی۔ میں اپنے والدمحترم اور بھائیوں کے ساتھ اختر آباد جا رہا تھا۔ راستے میں والد صاحب نے انہیں آتے دیکھا اور فوراً رک گئے۔ وہ دونوں پرانے دوست اور کلاس فیلو تھے، خوش دلی سے سلام دعا ہوئی۔ جب بات چیت ختم ہوئی تو انہوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا 'بیٹا ! آپ کس کلاس میں ہو اور کس سکول میں زیر تعلیم ہو؟' میں نے کہا سر میں آٹھویں جماعت کے امتحانات دے چکا ہوں اور اب نتائج آنے کا انتظار کر رہا ہوں۔ نتائج کے بعد گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول اختر آباد میں نویں جماعت کے لیے داخلہ لوں گا۔انہوں نے مجھے تاکید کی 'ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرو اور کل صبح علی احمد (بھائی) کے ساتھ میری دکان پر آنا شروع کر دو'۔ میرے والد صاحب نے مثبت ردعمل دیا۔ یہ ملاقات میرے لیے یادگار ہے کیونکہ اسی دن سے میں ان کی شخصیت اور تدریسی قابلیت سے متاثر ہوا۔ اگلے دن سےہم نے باقاعدگی سے اس تدریسی مرکز میں شامل ہونا شروع کر دیا اگرچہ ان دنوں موسم گرما کی تعطیلات بھی تھیں۔ اس تدریسی مرکز میں وقت گزارنا ہمارے لیے ایک قیمتی تجربہ تھاجس نے ہماری تعلیم کی بنیادیں مضبوط کیں اور ہمیں مزید ترقی کی راہیں دکھائیں۔
"وہ ایک چھوٹی سی کتابوں کی دکان تھی جہاں چھٹی کے بعد اکثر طلباء اپنی تعلیمی کمی کو دور کرنے اور رہنمائی حاصل کرنے کے لیے آتے تھے۔ یہ دکان علم کی روشنی بانٹنے کا مرکز تھی جہاں کسی بھی طالب علم سے کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی تھی کیونکہ وہاں علم کا مقصد صرف خدمت تھا" ۔
آج چودہ سال گزرنے کے بعدبھی مجھے یاد ہے کہ استاد محترم ہمارے کلاس انچارج تھے اور ان کا تدریسی انداز بےحد منفرد اور مؤثر تھا۔ وہ ہمیشہ کلاس کا آغازتلاوت اور درودِ پاک سے کرتے اور چند منٹ اخلاقی اقدار، صحت مند طرز زندگی اور قوم کی خدمت جیسے موضوعات پر بات کرتے۔ وہ طلباء کو متحرک رکھتے اور انہیں سوالات پوچھنے اور بلیک بورڈ پر مسائل حل کرنے کی ترغیب دیتے جس سے طلباء کی خوداعتمادی اور سیکھنے کی صلاحیت میں نمایاں اضافہ ہوتا۔ ان کی رہنمائی نے میری تعلیم کے سفر کو ایک نئی جہت دی۔ میں نے وہاں تقریباً دو سال تک علم حاصل کیا اور میٹرک میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
استاد محترم کو حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے مزار سے گہری عقیدت ہے اور وہ اکثر وہاں حاضری دیتے ہیں۔نویں جماعت کے آغاز میں ہی انہوں نے مجھے شفقت بھری دعا دی اور کہا: 'بیٹا! اللہ پاک پر کامل یقین رکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ تمہارا نام سکول کی لوحِ امتیاز پر لکھا جائے گا'۔ ان کے یہ الفاظ میرے لیے محض حوصلہ افزائی نہیں بلکہ ایک عزم بن گئےجنہوں نے مجھے آگے بڑھنے کی طاقت دی۔ میٹرک کے نتائج کے بعد جب میرا نام واقعی سکول کی "لوحِ امتیاز" پر کندہ ہواتو وہ لمحہ میرے لیے خواب کی تعبیر اور استاد کی دعاؤں کی قبولیت کا حقیقی مظہر تھا۔ جب میں نے انہیں 'لوحِ امتیاز' پر اپنا نام لکھے جانے کی خوشخبری سنائی تو ان کی آنکھوں میں تشکر کی جھلک اور چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور یوں کہنے لگے:
'ایک دن جب میں حضرت فرید الدین گنج شکرؒ کے مزار پر حاضری دے رہا تھاتو اچانک میرے دل میں تمہارے لیے دعا کرنے کا خیال آیا۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے تمہاری کامیابی کے لیے دعا کی اور بعد میں یہ بات تمہیں بتائی'
اس بات نے میرے دل میں استاد کی دعاؤں کی طاقت پر یقین کو مزید پختہ کر دیا۔ بعد ازاں مجھے بھی استادِ محترم کے ساتھ وہاں حاضری کا موقع ملا۔ مزار کی پر سکون فضا اور روحانی ماحول نے دل کو سکون بخشا۔ استاد محترم کی صحبت اور ان کے خیالات سننے کا موقع نصیب ہواجس نے اس لمحے کو میرے لیے مزید بامعنی اور یادگار بنا دیا۔ وہاں گزارے گئے لمحات نے مجھے یقین دلا دیا کہ علم اور تربیت سے بڑھ کر استاد کی دعائیں طالبِ علم کی کامیابی کی اصل کلید ہوتی ہیں۔
وہ ایک باوقار شخصیت کے حامل ہیں اور ادب میں کئی جہتوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ ایک عظیم شاعر ہونے کے ناطے ان کو شاعری کی ہر صنف میں مہارت ہے چاہے وہ نعت، منقبت، نثر، نظم و غزل ، یا دیگر اصناف ادب۔ ان کی نعتوں میں روحانیت اور ایسی گہرائی ہے جو دل کو چھو لیتی ہے۔ ان کی نثر میں خیال کی وسعت اور زبان کی پختگی نمایاں ہوتی ہے جو ہر قاری کو متاثر کرتی ہے۔نظم اور غزل میں ان کا انداز اظہار دلکش اور دل کی گہرائیوں سے نکلتا ہےجو انہیں ایک منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ مذہبی تقریبات میں ان کی عوامی تقریریں نہ صرف معلوماتی ہوتی ہیں بلکہ ان میں جذباتی اور روحانی کیفیت بھی ہوتی ہے جو سامعین کے دلوں کو چھو لیتی ہے۔وہ اپنا تعارف اس نعتِ پاک سے کرواتے ہیں:
یہ مدحتِ سرکارِؐ مدینہ کا صلہ ہے
ہر شخص مجھے خندہ پیشانی سے ملا ہے
کرتا ہوں رقم جب سے میں نعتِ پیغمبرؐ
ہر بزم کی زینت کا شرف مجھ کو ملا ہے
حالات کے ہاتھوں دل تو مرا کانپ رہا تھا
پھر رحمتِ سرکارؐ نے دل تھام لیا ہے
کرتے ہیں غلامانِ محمد ؐسے جو الفت
ان پر مری انورؔ ہر چیز فدا ہے
ان کے قلم سے لکھی ہوئی ایک اور نعت جو ان کے حلقۂ احباب میں بہت مشہور ہے:
نبیؐ کے آستاں کی آرزو ہے
زمیں کو آسماں کی آرزو ہے
جبینِ شوق سجدے کر رہی ہے
مکیں کو لامکاں کی آرزو ہے
جنوں کے ہر مسافر کو سفر میں
اسی پیرِ مغاں کی آرزو ہے
مدینے کی گلی دار الاماں ہے
وہیں پہ اک مکاں کی آرزو ہے
اسے نارِ جہنم کا نہیں ڈر
جسے جانِ جہاں کی آرزو ہے
سراپا رحمتِ عالَمؐ کرم ہو
مجھے حسنِ بیاں کی آرزو ہے
نہیں تختِ سکندر کی تمنا
دیارِ قدسیاں کی آرزو ہے
بلالؓ باکمال حق نے جو دی
مجھے بھی اُس آذاں کی آرزو ہے
خدایا خیر ہو میرے جنوں کی
حبیبِ دو جہاں کی آرزو ہے
نوازش ہو حزیں انورؔ پہ آقاؐ
کہاں میں ہوں کہاں کی آرزو ہے
وہ اپنے فن میں مہارت رکھتے ہیں اور منفی پہلوؤں کو بھی نہایت خوبصورتی اور گہرائی سے قلمبند کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کی شاعری معاشرتی تضادات اور دہرے رویوں کی اس انداز سے عکاسی کرتی ہے کہ قارئین کو خود احتسابی کی دعوت دیتی ہے۔ ان کے الفاظ محبت، خلوص اور سچائی کی قدروں کو اجاگر کرتے ہیں اور انسانوں کو اپنے کردار اور رویے بہتر بنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔اسی تخلیقی بصیرت اور انسانی خدمت کے جذبے کا عملی نمونہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب سکول کے پرنسپل صاحب نے انور صاحب سے دکان کے منافع کے بارے میں استفسار کیا۔کیونکہ کتابوں کی دکان میں کوئی مالی فائدہ نہیں تھا لیکن طلبہ کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود رہتی تھی ۔ اس سوال کا جواب انہوں نے ایک پنجابی نظم کے ذریعے دیا۔ نظم کے الفاظ کے ذریعے یہ بات واضح کی کہ جب انسان کا مقصد دوسروں کو فیض پہنچانا ہو تو نقصان اٹھانا بھی کوئی بڑی بات نہیں۔
سوچاں دیاں یارو پُونیاں
کت کت نیں ہویاں دُونیاں
میرے باغ دے ساوے پَتّر
مَینوں ای دَیون دُہو نِیّاں
جیس گھڑے وچوں پیون پانی
بَھنّن اوندیاں ای چُھونیّاں
سوچاں سوچیں سوچ کے
سوچاں کرن نمونیاں
کھنڈاں پَا پَا تھکے انورؔ
سوچاں پھیر وی لُونیّاں
دوستوں! میری سوچیں یوں بڑھتی جا رہی ہیں جیسے دھاگے کی پرتیں آپس میں الجھتی جا رہی ہوں۔میرے باغ کے ہرے پتے مجھے دھواں دے رہے ہیں۔ جس گھڑے سے وہ پانی پیتے ہیں اسی کا ڈھکن توڑ دیتے ہیں۔ کثرتِ فکر نے ذہن کو ایسی الجھن میں مبتلا کر دیا ہے کہ خیالات اپنی اصل صورت کھو کر بگڑ چکے ہیں۔ انور مٹھاس برساتا ہے مگر ان کے خیالات پھر بھی نمکین ہیں۔
نظم 'ابھی کتنے گھرانے ہیں' میں استادِ محترم نے معاشرے کے پسماندہ طبقے کی محرومیوں اور ان کے دکھوں کو نہایت گہرائی سے بیان کیا ہے۔ ان کی شاعری ان لوگوں کی ترجمانی کرتی ہے جو اندھیروں اور محرومیوں میں گھرے ہوئے ہیں جن کے گھر اُجڑ چکے ہیں اور جنہیں کسی کی مدد کی اُمید نہیں۔ یہ نظم معاشرتی ناانصافی اور غربت کی عکاسی کرتے ہوئے اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ معاشرے کے مظلوم طبقے کے زخم آج بھی ویسے ہی تازہ ہیں چاہے وقت کے نئے موسم آتے اور جاتے رہیں۔ ان کے اشعار سادہ لیکن اثر انگیز انداز میں ان لوگوں کی بے بسی اور کرب کو بیان کرتے ہیں جو ابھی تک روشن مستقبل کی اُمید میں دیے جلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ استادِ محترم کی تخلیقی مہارت معاشرتی تضادات کو سامنے لاتی ہے جو ان کی شاعری کو ایک منفرد اور حساس رنگ عطا کرتی ہے۔
ابھی کتنے گھرانے ہیں
جہاں دیے جلانے ہیں
اندھیروں میں گھرے دیکھے
غریبوں کے کاشانے ہیں
گلستاں کی بہاروں پر
خزاں کے شاخسانے ہیں
نئے موسم تو وقتی ہیں
زخم دل کے پرانے ہیں
غریبوں کے مزاروں پر
وہی کتبے پرانے ہیں
کوئی اپنا نہیں انورؔ
یہ غم کس کو سنانے ہیں
وہی ہیں رت جگے انورؔ
بڑے دیکھے زمانے ہیں
نظم 'نوائے شوق پیدا کر' میں استادِ محترم نے مسلمانوں کی موجودہ حالتِ زار کو نہایت گہرائی سے بیان کیا ہے:
نوائے شوق پیدا کر
ادھوری داستاں پھر ہے
بلالی ؓ روح سے خالی
مؤذن کی اذاں پھر ہے
مقررسخن شیریں ہیں
مگر پھیکا بیاں پھر ہے
زلزلے یوں نہیں آتے
خدا ناراض یاں پھر ہے
کرو توبہ گناہوں سے
تو اللہ مہرباں پھر ہے
ہے چیلنج پھر مسلماں کو
تیاری میں طوفاں پھر ہے
وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آج کے دور میں مسلمانوں کی عبادات، اذانیں اور تقاریر اپنی روحانیت اور حقیقی اثر سے خالی ہیں۔حضرت بلالِ حبشیؓ کی اذان میں جو روحانی جذبہ اور طاقت تھی وہ آج کے مؤذن کی اذانوں میں نہیں رہی۔ مقررین کے الفاظ میٹھے ہیں مگر ان کی باتوں میں سچائی اور عمل کی کمی ہے۔ زلزلے اور قدرتی آفات محض زمین کی حرکات نہیں بلکہ خدا کی ناراضگی کا مظہر ہیں۔ وہ مسلمانوں کو اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی نصیحت کرتے ہیں کیونکہ اللہ کی رحمت کے دروازے اب بھی کھلے ہیں۔ آخر میں وہ مسلمانوں کو خبردار کرتے ہیں کہ دنیا پھر سے ان کے لیے چیلنجز لے کر کھڑی ہےاور ان کی کامیابی کا راز اپنی روحانی طاقت، ایمان اور عمل میں پوشیدہ ہے۔
اسی طرح 'نظم کون دیکھے گا؟' استاد محترم نے اپنے قریبی دوست اور ساتھی استاد محمد اسحاق صاحب کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر پڑھی۔ ہر لفظ میں دوستی اور رفاقت کی مٹھاس جھلکتی ہے۔ ہر شعر میں یہ سوال پوشیدہ ہے کہ اب بہاروں کا نظارہ کون کرے گا؟ دل کی بے چینی اور آنکھوں کی تڑپ کو سمجھنے والا کون ہوگا؟ انہوں نے الفاظ کے ذریعے اس رفاقت کو خراجِ تحسین پیش کیا جو برسوں پر محیط رہی۔ نظم پیش خدمت ہے:
مرے دل کی تمنا کے ویرانے کون دیکھے گا؟
گلستان میں بہاروں کے زمانے کون دیکھے گا؟
ترے ہرغم کو میں نے دل کی دنیا میں جگہ دی ہے
مری حسرت پہ لیکن تازیانے کون دیکھے گا؟
مری چشم تمنا میں عجب ہیجان رہتا ہے
بھرے اشکوں کے ساغر اور پیمانے کون دیکھے گا؟
سفر کی ہر صعوبت میں پوشیدہ ایک منزل ہے
مگر اس کے پس پردہ زمانے کون دیکھے گا؟
تمہی کہدو جنوں کے شوق میں کیا حال ہوتا ہے ؟
فریب وصل کے لیکن بہانے کون دیکھے گا؟
شب ہجراں کا ہر لمحہ برستی آگ لگتا ہے
تری آمد کے پر موسم سہانے کون دیکھے گا؟
نئی صبحیں نئی شامیں نئے موسم نئے منظر
زخم انور مگر دل کے پرانے کون دیکھے گا؟
نظم کے اختتامی اشعار میں ان زخموں کا ذکر ہے جو صرف قریبی دوست ہی سمجھ سکتے ہیں کیونکہ پرانا دوست ایک بہت بڑا سرمایہ ہوتا ہے جس کی قدر ہر کوئی نہیں جان سکتا۔ استادِ محترم نے دل کی گہرائیوں سے دوست کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے یہ حقیقت بیان کی کہ وقت چاہے جتنی بھی نئی صبحیں اور شامیں لے آئے لیکن پرانے زخموں کا درد اب کوئی نہیں سنے گا۔ استاد محترم اسحاق صاحب جب سکول سےرخصت ہوئے تو یہ نظم اپنے ساتھ لے گئے لیکن افسوس کہ اسحاق صاحب ریٹائرمنٹ کے کچھ عرصے بعد ہی وہ دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
استادِ محترم جناب محمد انور بھٹی صاحب نے دسمبر 2020 میں گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول اختر آباد سے ریٹائرمنٹ حاصل کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہوں نے عالیہ پبلک سکول اخترآباد اوکاڑہ میں بطور پرنسپل اپنی تعلیمی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا اور آج بھی وہ اسی جذبے اور لگن کے ساتھ نئی نسل کو علم کی روشنی سے منور کر رہے ہیں۔ان کی تدریس کا سفر اب تیسری نسل تک پہنچ چکا ہے اور آج ان کے ہزاروں شاگرد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کامیابی کے ساتھ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
استاد محترم کی تعلیمی خدمات اُن کے اصولی موقف اور معاشرتی کردار نے اُنہیں ایک مثالی استاد اور فکری رہنما کے طور پر ہمیشہ کے لیے امر کر دیا ہے۔ اُن کی زندگی ہم سب کے لیے ایک روشن مثال ہے کہ اگر علم کی شمع کو سچائی، دیانت داری اور خدمت کے جذبے کے ساتھ تھاما جائے تو وہ شمع نہ صرف اندھیروں کو دور کرتی ہے بلکہ نئی نسلوں کو بھی شعور، آگہی اور ترقی کے راستے پر گامزن کرتی ہے۔ اُن کے کردار میں ایک مثالی استاد کے تمام اوصاف نظر آتے ہیں: علم دوستی، بے لوث محبت، اصول پرستی اور شاگردوں کی بہترین تربیت۔ ایسے اساتذہ قوم کی تقدیر بدلنے کا ہنر رکھتے ہیں اور ان کی بے مثال شخصیت اور تعلیمی خدمات ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گی۔
ہمارے معاشرے میں ایسے عظیم اساتذہ کی حقیقی قدر کی جانی چاہیئے اور ان کے علم و حکمت سے بھرپور تجربات کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔ انور صاحب جیسے اساتذہ قوم کی فکری اور علمی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آنے والی نسلوں کو بھی علم، اخلاق اور خدمت کی انمول دولت سے بہرہ مند کیا جائے تاکہ معاشرہ تعلیمی اور اخلاقی سطح پر ترقی کی منازل طے کر سکے۔ اساتذہ کا کردار محض تعلیمی اداروں تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ قوم کی تعمیر و ترقی کا اہم ستون ہیں۔ ایک مضبوط اور باشعور معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ کی علمی و فکری خدمات کو صحیح معنوں میں سراہا جائے۔قوموں کا عروج و زوال ان کے افراد کی محنت، کردار اور سوچ پر منحصر ہے۔ اگر افراد باشعور، محنتی اور باکردار ہوں تو وہ اپنی قوم کو بلندیوں پر لے جا سکتے ہیں۔علامہ اقبال نے فرمایا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ محمد انور بھٹی صاحب جیسے علم و حکمت کے علمبردار تمام اساتذہ کو صحت، تندرستی اور عافیت کے ساتھ طویل عمر عطا فرمائے تاکہ ان کی بصیرت، رہنمائی اور تجربے سے معاشرہ مزید فیض یاب ہو اور ان کے علم کی روشنی نسل در نسل اجالا پھیلاتی رہے۔ آمین یا رب العالمین۔

 
Engr. Dr. Ali Azam
About the Author: Engr. Dr. Ali Azam Read More Articles by Engr. Dr. Ali Azam: 5 Articles with 3311 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.