"انسانیت میرا مذہب " کا دھوکہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
استعماری طاقتوں نے اپنے سامراجی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے ہیں، اور ان میں سے ایک نمایاں طریقہ "انسانیت" کے نام پر مذاہب کی مخالفت ہے۔ یہ عمل ایک گہری اور سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد دنیا کے مختلف خطوں میں موجود مذہبی سماجی نظاموں کو کمزور کرنا اور ان کی جگہ ایک ایسا نظریہ پیش کرنا ہے جو ان کی اپنی سامراجی اور معاشی ضروریات کے مطابق ہو۔

1. مذاہب کی انسانیت اور عدل کی تعلیم:
اسلام اور دیگر الہامی مذاہب بنیادی طور پر انسانیت، عدل، اور حقوق کی ادائیگی پر زور دیتے ہیں۔ مذاہب لوگوں کو نہ صرف اپنے حقوق سمجھنے کی تعلیم دیتے ہیں بلکہ دوسروں کے حقوق کا بھی احترام کرنے اور ان کی پاسداری کرنے کا درس دیتے ہیں۔ یہ مذاہب انسان کو روحانی، اخلاقی، اور سماجی اعتبار سے ایک کامل انسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اللہ کی بنائی ہوئی کائنات میں انصاف اور امن کے ساتھ زندگی بسر کرے۔مذاہب کی اصل تعلیم ہی انسانیت و حقوق کی ادائیگی کیلئے ہے، الگ سے انسانیت و حقوق کے مکاتیب بنانے سے صرف استحصالی نظام قائم کرنا مقصود ہے۔

2. استعماری طاقتوں کی حکمت عملی:
جب استعماری طاقتیں (یورپی سامراجی طاقتیں) مختلف ممالک پر قابض ہوئیں تو انہوں نے وہاں کے مذہبی اور سماجی نظاموں کو اپنے مفاد کے لیے ایک رکاوٹ سمجھا۔ ان طاقتوں نے دیکھا کہ مذاہب لوگوں کو آزادی، عدل اور انصاف کے اصولوں پر اکساتے ہیں، اور اگر ان اصولوں کو اپنایا گیا تو سامراجی تسلط اور استحصال ممکن نہیں رہ سکے گا۔ چنانچہ، انہوں نے مذاہب کے مقابلے پر "انسانیت" کا نعرہ بلند کیا۔ اس نعرے کا مقصد یہ تھا کہ مذہبی تعلیمات کو بے اثر کر کے ایک نیا سامراجی انسانیت پسند نظام لایا جائے جو ان کے تسلط کو برقرار رکھ سکے۔

3. دوغلا کردار اور مذہب کی مخالفت:
استعماری طاقتوں نے اپنے ایجنڈے کے فروغ کے لیے مذہبی پیشواؤں اور اداروں کے دوغلے کردار کو استعمال کیا۔ جب بعض مذہبی رہنما اور ادارے معاشی، اخلاقی کرپشن میں ملوث ہوئے نہ سب، تو استعماری طاقتوں نے ان دوغلے عناصر کے دوہرے معیاروں کو نمایاں کیا اور مذہب کی مخالفت شروع کر دی۔ انہوں نے عوام کو یہ باور کرایا کہ مذہب دراصل ایک استحصالی نظام ہے اور اسے رد کرنا ضروری ہے تاکہ انسانیت کا حقیقی فلاحی نظام قائم کیا جا سکے۔

4. نیوکولونیل ازم اور انسانیت کا نعرہ:
جب روایتی استعماری طاقتوں نے براہ راست استحصال کے بجائے غیر مرئی یا غیر روایتی طریقے اختیار کیے تو اسے "نیو کولونیل ازم" کہا جانے لگا۔ اس دور میں بھی انہوں نے مذہب کے مقابلے پر "ہیومن ازم" اور انسانیت کا نعرہ بلند کیا۔ اس نعرے کے تحت وہ لوگوں کو مذہب سے دور لے جانے لگے تاکہ مذہبی سیاست، معاشرت، اور عدالتی نظاموں کو کمزور کیا جا سکے۔ اس طریقے سے وہ ایک ایسا نظام تشکیل دینا چاہتے تھے جہاں انسانیت کی آڑ میں دراصل ان کے اپنے معاشی اور سامراجی مفادات پورے ہوں۔

5. سامراجی ہیومن ازم اور استحصال:
کولونیل اور استعماری طاقتیں اپنے مفادات کو پورا کرنے کے لیے انسانیت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ یہ طاقتیں انسانیت اور ہیومن ازم ، آزادئ اظہار رائے، خواتین کے حقوق اور فلاں فلاں حقوق کے خوبصورت الفاظ کا سہارا لے کر دنیا کے مختلف خطوں پر دھوکہ اور فراڈ کے ذریعے وہاں کے وسائل کا استحصال کرتی ہیں، اور وہاں کے مقامی مذہبی اور سماجی ڈھانچوں کو تباہ کرتی ہیں۔ وہ لوگ جو اصل میں انسانیت اور عدل کا علمبردار ہوتے ہیں، ان کو کمزور اور بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ سامراجی استحصال بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہ سکے۔

کولونیل اور استعماری طاقتوں کا یہ عمل دراصل ایک گہری سازش ہے جس کا مقصد مذاہب کے حقیقی انسان دوست اور عادلانہ پیغامات کو دبانا اور ان کے مقابلے پر ایک جھوٹے انسانیت پسند نظام کو پروان چڑھانا ہے۔ اس طرح وہ اپنے معاشی اور سامراجی مفادات کو یقینی بناتے ہیں، جبکہ عام انسان کو انسانیت کے نام پر استحصال کا شکار بنا دیتے ہیں۔اگر مذاہب کے بعض پیروکار مذاہب کی اصل تعلیمات کے بجائے کرپشن میں ملوث ہیں اور ان کے دعوے اور کردار و عمل میں واضح فرق ہے تو صرف ان افراد سے برأت کا اظہار کیا جائے نہ کہ پوری تعلیمات اور نظام کو ہی بھاڑ میں جھونک دیا جائے۔ لیکن اصل میں تو یہ موقع استحصالی طاقتوں کیلئے غنیمت ہوتا ہے کہ وہ مذاہب اور عدل و انصاف و حقوق کے اصل ذمہ داروں کو جعلی دعوے داروں کے ذریعے مجروح کریں، اور چند اوباشوں اور مفسدوں کو تمام افراد پر لاگو کرکے اپنی سازشی کرتوتوں کے ذریعے استحصالی نظام کو ترویج دیں۔

 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 94 Articles with 70667 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.