ڈوبتی ہوئی اُمّتِ مسلِماں، کس کے انتظار میں؟

”کیا تم اِس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے تم پر پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیج دے؟ پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری تنبیہ کیسی ہوتی ہے۔“ (67: 17)
ہاں اب تک تو مسلمان بے خوف ہی ہیں بلکہ بے حس ہو چکے ہیں اور میں حیران ہوتا ہوں کہ اب تک آسمان سے ہم پر پتھر کیوں نہیں برسے؟ ہمیں اتنی بے حسی کے بعد بھی سلامت کیوں چھوڑ دیا گیا؟ جو کچھ اب تک ہم نے بطور اُمتِ مسلِماں کیا ہے اس کے بعد بھی ہمارا سلامت رہنا کسی معجزے سے کم نہیں یا شاید ہمیں ڈھیل دی جا رہی ہے کہ جتنا بارِ گناہ سمیٹ سکتے ہو تو سمیٹ لو۔
”اِن سے کہو، جو شخص گمراہی میں مُبتلا ہوتا ہے اُسے رحمان ڈھیل دیا کرتا ہے یہاں تک کہ جب ایسے لوگ وہ چیز دیکھ لیتے ہیں جس کا اُن سے وعدہ کیا گیا ہے خواہ وہ عذاب الٰہی ہو یا قیامت کی گھڑی تب انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کس کا حال خراب ہے اور کس کا جتھا کمزور!“ (19: 75)
نہیں، نہیں، ہم سلامت تو نہیں ہیں؟ ہم پر وباءیں نازل ہو رہی ہیں، مشکلات نازل ہو رہی ہیں، پریشانیاں ہمیں گھیرے جا رہے ہیں۔ ہم پر عذاب ہے۔ حکومت کا عذاب، مہنگاءی کا عذاب، فحاشی کا عذاب، سود کا عذاب، رشوت کا عذاب۔ مگر ہم ہیں کہ سمجھتے ہی نہیں، ہم ہیں کہ مانتے ہی نہیں۔ ہم سو رہے ہیں ہم ہیں کہ جاگتے ہی نہیں۔
”قسم ہے رسولؐ کے اِس قول کی کہ اے رب، یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے۔“ (43: 88)
کیا جب ہم پر پتھراؤ کرنے والی ہوا آۓ گی تب ہی ہم جاگیں گے؟ تب ہی ہم سنیں گے؟ نہیں، نہیں تب تو بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ ابھی تو بچنے کی صورت باقی ہے کیا جب ہم پر اوپر سے عذاب بھیج دیا جاۓ گا تو ہم تب مانیں گے؟ نہیں، نہیں تب تو وہ حساب کا وقت ہو گا اور معافی کے دروازے بند ہو جاءیں گے، بچنے کی گنجائش ختم ہو جاۓ گی، سوچنے کا وقت گزر چکا ہو گا، بس عذاب ہی عذاب ہو گا۔
”اچھا، اے نبیؐ، اِن سے درگزر کرو اور کہہ دو کہ سلام ہے تمہیں، عنقریب اِنہیں معلوم ہو جائے گا۔“ (43: 89)
میری ان تمام باتوں کا مقصد یوں ہی نہیں، پیچھے بہت کچھ چھپا ہے، بہت درد چھپے ہیں، بہت تکلیفیں، عزیتیں چھپی ہیں۔ پچھلے ایک برس مے ہمارے فلستینی مسلم بھاءی بہنوں پر سحونی فوج نے جو ستم ڈھاۓ ہیں دنیا کی کسی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی، شاید اس کے قریب قریب کی مثالیں مل بھی جاءیں جیسے پندروی اور سولوی سدی میں برتانیہ کے سفید لوگوں نے نسلی امریکن کی نسل کشی کی تھی اب وہی کچھ امریکا اسرائل کے ذریعے فلستین میں کر رہا ہے۔ مگر پوری اُمتِ مسلِماں اس ظلم پر جس طرح دانتوں میں انگلیاں دیے بیٹھی ہے اس کی تو کوءی بھی مثال نہیں ملتی۔ وہاں ہمارے بھاءی ہماری ماءیں، بہنیں، بیٹیاں اور چھوٹے چھوٹے بچے ہمیں اللہ کا واسطہ دے دے کر پکار رہے ہیں کہ ”اے ہمارے مسلمان بھاءیوں! اے مسلمانانِ عالم! اے عیش پسند مسلمان بادشاہوں! تمھیں خدا کا واسطہ ہے، رسول اللہ ﷺ کا واسطہ ہے ہماری مدد کرو، اللہ کے بعد تم ہی سہارا ہو، مسجدِ اقصیٰ صرف ہمارے لیے ہی حرمت کا مکام نہیں تمھارے لیے بھی ہے، آؤ اسے بچانے میں ہمارا ساتھ دو، پیغمبروں اور اُن کے اصحاب سے غداری نہ کرو, منافقت نہ دکھاؤ۔“ مگر ہم ہیں کہ ڈھیٹ بنے بیٹھے ہیں، ہمارے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ ہم اللہ کا یہ ارشاد بھی بھول گۓ کہ:
”آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے۔“ (4: 75)
ہاں ہم اللہ کے ارشاد کو بھول گۓ یا جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں تاکہ مدد نہ کرنی پڑے، جان نہ دینی پڑے، مشکلات نہ جھیلنی پڑے، اپنے اپنے پانچ خداؤں کی نافرمانی نہ کرنی پڑے، محنت و مشقت سے کماۓ ہوۓ روپے نہ نکالنا پڑے، گھر بار نہ چھوڑ کر جانا پڑے، کاروبار نہ ٹھپ ہو جاۓ۔ میری بات بہتوں کو بری لگے گی تو لگے، ضرور لگے۔ مجھے اس کی زرا برابر پروا نہیں۔ ہم ایک دوسرے سے تو جھوٹ بول سکتے ہیں مگر یقین جانو خود سے کبھی جھوٹ نہیں بول سکتے۔ اگر ہر شخص فرداً فرداً اپنے گریبان میں جھانکے تو جان جاۓ گا کہ میری کہی بات حرف بہ حرف، لفظ بہ لفظ درست ہے۔ قرآن میں ایسے لوگوں کو جو دنیاوی محبت میں مبتلا ہو کر اللہ کی راہ چھوڑ دیں ”فاسق“ کہا ہے۔ اے مسلمانوں کیا اللہ کا یہ ارشاد بھی تم بھلا بیٹھے ہو کہ:
”اے نبی، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔“ (9: 24)
ہاں لگتا ہے اللہ کا فیصلہ قریب ہے، آیا ہی چاہتا ہے۔ اب ہمارا عمل تے کرے گا کہ یہ فیصلہ ہمارے حق میں ہو گا یا ہمارے خلاف، اور اگر میری کہی بات غلط ہے تو اے مسلمانوں تم نبی کا یہ فرمان بھول گۓ کہ ”جہاد ایمان کا افضل درجہ ہے“ اور کیا یہ ارشاد بھی نہیں جانتے؟
”مسلمانو! اللہ کی راہ میں جنگ کرو اور خوب جان رکھو کہ اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔“ (2: 244)
مسجدِ اقصیٰ تو ہم کیا ہی بچاتے الٹا قبلہ دوم خانہ کعبہ بھی ہم نے منافقوں کے ہوالے کر رکھا ہے کیونکہ اللہ فرماتا ہے کہ:
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے کے لیے اور میری رضا جوئی کی خاطر (وطن چھوڑ کر گھروں سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم اُن کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے اُس کو ماننے سے وہ انکار کر چکے ہیں اور اُن کی روش یہ ہے کہ رسول کو اور خود تم کو صرف اِس قصور پر جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب، اللہ پر ایمان لائے ہو تم چھپا کر اُن کو دوستانہ پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا۔“ (60: 1)
تو کیا چھپا کر پیغام بھیجنے والے جو منھ پر کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کا قبلہ ہیں منافق نہیں تو اور کیا ہیں؟ یہ صرف منافق ہی نہیں ظالم بھی ہیں کیونکہ:
”وہ تمہیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے اُن سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔“ (60: 9)
تو اب بتاؤ ایسوں کو اِمامِ اُمّت بنانا کہاں سے درست ہو گیا؟ انھیں مسلمانوں کا قبلہ کہنا کہاں سے درست ہو گیا؟ سوال ہے اُن تمام مفتیانِ کرام اور علماے کرام سے جو منافقوں کے مکمل محافظ بنتے پھرتے ہیں۔ جبکہ اللہ تو کہتا ہے کہ جنھوں نے تمھارے دین کو تفریح کا سامان بنا لیا ہے تم اُن سے دوستی نہ کرو، اور جو کچھ چھپ کر محائدے ہو رہے تھے ابراہم اکارڈ کی شکل میں وہ کیا تھا؟ آج جو مسلم ممالک قرضوں کے نام پر اُن کی غلامی کر رہے ہیں وہ اس آیت کی رو سے کیسے جائز ہو گءی؟
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے پیش رو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنا لیا ہے، اُنہیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔“ (5: 57)
اس لحاظ سے ایران بہتر ہے کم از کم غلامی تو نہیں کر رہا خواہ اُن کے اندرونی معاشی و سیاسی حالات کیسے ہی کتنے خراب ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم جب نماز پڑھتے ہیں تو ایک دن میں کم از کم 17 بار کہتے ہیں، خیر صرف کہتے ہی ہیں، مانتے نہیں:
”ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔“ ”اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا۔“ ”جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔“ (1: 5/6/7)
حیرت کا مکام نہیں ہے کہ ہمیں سیدھا راستہ اُن کا چاہیے جن پر انعام ہوا اور دوستی اُن سے کرتے ہیں جن پر اللہ کا غضب ہوا، آخر دوغلے پن کی کوءی انتہا ہے بھی یا نہیں! ارے ہاں ہاں! یہ عیش پسند مسلم فرعون بادشاہ بھی خدا اور اُس کی رحمت اور آخرت سے مایوس ہو چکے ہیں، اگر نہیں تو پھر یہ کیسے اُن کو دوست بناۓ ہوۓ ہیں جن کے بارے میں اللہ فرماتا ہے کہ:
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اُن لوگوں کو دوست نہ بناؤ جن پر اللہ نے غضب فرمایا ہے، جو آخرت سے اسی طرح مایوس ہیں جس طرح قبروں میں پڑے ہوئے کافر مایوس ہیں۔“ (60: 13)
کیا یہ لوگ ڈرتے نہیں کہ وہی غضب ان پر بھی ہو سکتا ہے؟ نہیں، شاید نہیں ڈرتے۔ اگر ڈرتے تو ایسا نہ کرتے۔ کیونکہ کیا تم نے سنا نہیں کہ جو شیطان کے لیے لڑتے ہوں ایمان والوں کو اُن سے مقابلے کا حکم دیا گیا ہے۔ غور طلب بات ہے کہ ”ایمان والوں کو“ فاسقوں یا ظالموں کو نہیں۔
”جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں، پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں۔“ (4: 76)
پھر ہم اتنے خوف زدہ کیوں ہیں؟ کوءی بھی ملک مقابلے کو کیوں نہیں آتا؟ اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہیں کرتا؟ صرف ایران اور اُس کے ساتھی اس میں اپنا چھوٹا سا ہی صحیح پر کردار عدا ضرور کر رہے ہیں، باقی اور کوءی کیوں نہیں؟ شیطان کے چیلے آپس میں اکھٹے ہو چکے ہیں مگر اللہ کی راہ پر چلنے والے فرقوں اور طبقوں میں کیوں بٹے ہوۓ ہیں؟ ہم کیوں ایران، یمن اور لبنان کا ساتھ نہیں دیتے؟ صرف اس لیے کہ وہ ہمارے ہم اقیدہ نہیں؟ یا صرف اس لیے کہ اُن کا ملک الگ ہے؟ یا صرف اس لیے کہ ہم اپنے آپ کو وقت کا سالارِ اعلٰ سمجھتے ہیں؟ یا اس لیے کہ ہم بزدل ہیں؟ یا سعودی عرب، عردن اور متحدہ عرب امارات کی طرح اللہ اور اُس کے پیغمبروں جو سرزمینِ فلستین میں رہے مثلً حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسحاق ؑ، حضرت یعقوب ؑ، حضرت سلیمان ؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ اور خاس طور پر آخری پیغمبر ﷺ جو معراج پر یہیں سے گۓ تھے اور تمام انبیا ؑ کی امامت بھی یہیں کی تھی سے غداری کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر شیطان سے ڈرنے لگے ہیں، کیا ہم سرزمینِ فلستین، جو کہ انبیا کی سرزمین ہے اس کی حرمت بھول چکے ہیں؟ کیا اس سرزمین کا قبلہ اول ہونا بھی بھول چکے ہیں؟ کیا حضرت عمر کا اس علاقے اور خاس طور پر بیت المقدص کو فتح کرنا اور کس انداز اور احترام کے ساتھ کرنا بھول چکے ہیں، اگر نہیں بھولے تو مکامِ عبرت ہے کہ اُس جگہ پر دشمنوں کا قبضہ ہے، مسجدِ اقصیٰ شدید خطرے میں ہے، اُسے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے ہمارے مسلم مجاہدین لڑ رہے ہیں، شہید ہو رہے ہیں، بے گھر ہو رہے ہیں، ہماری ماؤں، بہنوں بیٹیوں کے سر سے چادر کھینچی جا رہی ہے، عزت لُٹی جا رہی ہے اور ہم گھروں میں بیٹھے عیش و آرام کے ساتھ تماشہ دیکھ رہے ہیں، ابابیل کا انتظار کر رہے ہیں، کبھی کبھی اُن کی شہادت پر ہنس بھی دیتے ہیں، مزاق بھی اڑا دیتے ہیں اور اگر واقع ہی بھول چکے ہیں تو (اِنّا لِلّاہِ وَاِنّا اِلَیْہِ راجِعونَ) غور تو اس بات پر کریں کہ اللہ کہتا ہے کہ ”جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں“ تو سوال یہ ہے کہ جو مسلمان ممالک خاموش ہیں ”کیونکہ دلہن کی خاموشی اُس کی رضا مندی سمجھی جاتی ہے“ یا جو کھلم کھلا یہودیوں اور عیسایوں کا ساتھ دے رہے ہیں وہ کہاں ہیں؟ ایمان کے راستے پر یا کفر کے راستے پر؟ اللہ کے ساتھ یا شیطان کے چیلوں کے ساتھ؟ بے دردی سے مسلمان قتل کیے جا رہے ہیں بلکہ چن چن کر قتل کیے جا رہے ہیں جبکہ اللہ مومن کے قتل کے بارے میں فرماتا ہے کہ:
”رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اُس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔“ 4۔93 )
آزاد صحافتی اداروں کے بقول ایک سال میں 2 لاکھ سے زیادہ فلستینی شہید ہو چکے ہیں اور اتنے ہی یا اس سے زیادہ زخمی ہیں اور یہ تعداد بھی صرف اندازاً ہے، اس سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں، ان شہیدوں میں تقریباً 70 ہزار سے زیادہ عورتیں اور بچے ہیں اور دوسرے ممالک اور ادارے کے لوگ علہدہ ہیں۔ جبکہ اسرائل صرف 40 ہزار کی شہادت قبول کرتا ہے۔ نسل کشی کے دوران ویسے بھی صحیح تعداد کا معلوم ہونا محال ہوتا ہے اور جو نسل کشی کر رہے ہوں وہ تو کبھی بھی صحیح تعداد نہیں بتاتے کم ہی بتاتے ہیں، جس طرح برتانیہ کے کچھ سفید لوگ نسلی امریکن کے بارے میں کہتے ہیں کہ بس پندرہ بیس ہزار لوگ ہی مارے گۓ تھے، کچھ اور لوگوں نے اس تعداد کو تھوڑا اور بڑھا کر کہا کہ بس پچاس ساٹھ ہزار لوگ ہی مرے تھے حالاں کہ بات اس سے بالکل ہی الگ ہے، بہت سے امریکہ کے اپنے ہی تاریخ کے مصنفوں کی تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ نسلی امریکن کی جو تعداد نسل کشی کا شکار ہوءی وہ لاکھوں میں تھی، اس لیے اب نسلی امریکن پورے امریکہ کا اب صرف 2٪ ہیں۔ نسل کشی کا ایک ہی اصول ہے کہ بچوں اور عورتوں کو زیادہ سے زیادہ نشانہ بناؤ تاکہ افزائشِ نسل رک جاۓ اور اب بھی وہی کوشش جاری ہے۔ کیا جو مومن مرد و عورت، بوڑھے بچے قتل کیے گۓ اس میں باقی مسلم ممالک کا کوءی حصہ نہیں؟ کیوں نہیں؟ ہم جو اسرائلی، امریکی اور اس کے اتحادی ممالک کی غیر ضروری چیزیں کھاتے اور پیتے ہیں ان کی سروسز اور ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں، ان سے تجارت کرتے ہیں، ان کے مال زیادہ تعداد میں خریدتے ہیں، ان کو چھپ چھپا کر مال فروخت کرتے ہیں، ان سے ہتھیار خریدتے ہیں، انھیں تیل دیتے ہیں۔ اس میں عوام بھی شامل ہیں اور حکمران بھی۔ حکمرانوں کا تو کیا کہنا۔ (اِلّا ماشا اللہ) کوءی بچ جاۓ تو بچ جاۓ۔ سب پر جہاد فرض تھا تو سب زمہ دار ہوۓ نا؟ جب سب پر جہاد فرض ہے تو سب نکلتے کیوں نہیں؟ اب تو ہماری تعداد بھی زیادہ ہے حالاں کہ جب ہماری تعداد کم تھی تب بھی فتح مومنوں کا نصیب بنی۔
”تمہارے لیے اُن دو گروہوں میں ایک نشان عبرت تھا، جو (بدر میں) ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا دیکھنے والے بچشم سر دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دو چند ہے مگر (نتیجے نے ثابت کر دیا کہ) اللہ اپنی فتح و نصرت سے جس کو چاہتا ہے، مدد دیتا ہے دیدۂ بینا رکھنے والوں کے لیے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے۔“ (3: 13)
اگر اس آیت کی روشنی میں دیکھا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ اب نہ تو وہ مسلمان وہ مسلمان ہیں نہ ایمان وہ ایمان ہے۔ جب ایمان ہی صحیح نہ ہو تو مدد کس کے لیے، فتح کس کے لیے، عزت کس کے لیے، تخت و تاج کس کے لیے۔ بس ذلالت ہی ذلالت ہے۔ جبکہ اللہ نے ان یہودیوں کے بارے میں فرمایا تھا:
”یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستا سکتے ہیں اگر یہ تم سے لڑیں گے تو مقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے، پھر ایسے بے بس ہوں گے کہ کہیں سے اِن کو مدد نہ ملے گی۔“ ”یہ جہاں بھی پائے گئے اِن پر ذلت کی مار ہی پڑی، کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں، ان پر محتاجی و مغلوبی مسلط کر دی گئی ہے، اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے۔“ (3: 111/112)
مگر کیا ہوا؟ آج مسلمان ان یہودیوں کی جگہ براجمان ہیں اور لگتا ہے کہ آیت ہم پر ٹھیک ٹھیک بیٹھتی ہے کیونکہ تقریبً ہم بھی اُن جیسے ہی ہو چلے ہیں۔ جو لوگ 7 اکتوبر کے حملے کو غلط کہہ رہے ہیں حالاں کہ خود اس تکلیف سے نہیں گزر رہے، اپنے گھروں کے ڈرائنگ روم میں مزے سے بیٹھے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ حملہ درست تھا اور جائز تھا۔ اگر وہ حملہ نہ ہوتا تو کچھ مفاد پرست غدارِ اُمّتِ مسلِماں فلستین کو اپنے مفاد کے عوض ہڑپ کر جاتے اور ڈکار تک نہ لیتے اور سب سے بڑھ کر ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ:
”ان سے لڑو جہاں بھی تمھارا اُن سے مقابلہ پیش آئے اور انھیں نکالو جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے، اس لیے کہ قتل اگرچہ برا ہے، مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ برا ہے۔“ (2: 191)
تو کیا فلستینیوں کو اُن کی جگہ سے نہیں نکالا گیا؟ اگر ہاں تو پھر اس آیت کی رو سے اُن کو واپس نکالنا فرض ہے۔ جو کہتے ہیں کہ دو ملکی حل نکال لیا جاۓ تو وہ زرا یہ تو بتاءیں کہ اگر آپ کے ملک پر قبضہ کر لیا جاۓ اور دو ملکی حل پیش کیا جاۓ تو آپ کیا کریں گے، یا آپ کے گھر پر قبضہ کر لیا جاۓ، آپ کی بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں کی عزت لوٹ لی جاۓ، آپ کے بچوں کو قتل کر دیا جاۓ اور پھر آپ کو مجبور کیا جاۓ کہ اس گھر کے دو حصے کرو اور ایک بلکہ بڑا حصہ مجھے دے دو تو آپ کیا کریں گے، مجھے امید ہے کہ ان شا اللہ آپ دے دیں گے۔ تو جو اپنے لیے پسند نہیں کرتے اپنے بھاءی کے لیے بھی پسند نہ کرو۔ دو ملکی حل نامنزور! جو کہتے ہیں کہ آبادیوں پر حملہ غلط ہے تو اطلاعاً عرض ہے کہ اسرائل کی تقریباً آبادی چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں دو سے ڈھاءی سال کی فوجی تربیت رکھتی ہیں اور وہ اسی تربیت کی بنا پر آج غزا پر حملہ آور ہیں۔ اگر کوءی نہیں جانتا تو جان لے کہ جو فوج اس وقت غزا پر چڑھاءی کر رہی ہے اُن میں سے تقریباً 30٪ سے 40٪ وہ نوجوان ہیں جو محفوظ فوج میں سے بلاۓ گۓ ہیں۔ اس لیے جو بھی حملہ تھا وہ ایک غیر قانونی فوجی ملک پر تھا، نہ کہ غیر فوجی آبادیوں پر۔ اگر آپ کو یاد ہو تو جب یہودیوں کا ایک قبیلہ بنو قریظہ نے غذوہ خندک میں بغاوت کی تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں آخر میں یہ سزا دی تھی کہ اُس قبیلے کے تمام وہ مرد قتل کر دیے جاءیں جو جنگ کے قابل ہیں، اور یہاں تو پوری کی پوری آبادی ہی جنگ کے قابل ہے۔ اگر وہ سزا درست تھی تو یہ سزا غلط کیوں؟ اور اگر وہ سزا غلط تھی تو معازاللہ رسول اللہ ﷺ کو غلط کہہ دیا گیا اور رسول اللہ ﷺ کو غلط کہنے کا صاف مطلب اللہ کو غلط کہنا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے مطالق اللہ فرماتا ہے کہ:
”اے محمد! ان سے کہو، ”میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے“ پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟ (6: 50)
تو ثابت ہوا کہ جو ہوا اللہ کی مرضی سے ہوا بہر حال اب ہم پر لازم تھا کہ مسلمانوں کی مدد کریں، لیکن ہم لڑتے تو کیا، وہ تو بہت دور کی بات تھی، ہم الٹے خوف زدہ ہو کر رہ گۓ ہیں، پوری دنیا میں 2 ارب مسلمان ہیں اور 57 مسلم ممالک ہیں، جس میں سے 49 مسلم اکثریت والے ممالک ہیں۔ اس کے مقابلے میں صرف ایک سحونی ریاست ہے اور اَسی لاکھ یہودی۔ بس! اس کے باوجود ہم مغلوب ہیں کیوں؟ اس لیے کہ صرف 3 مسلم ممالک نے ہی کچھ ہاتھ پاؤں دکھاۓ ہیں، کچھ ممالک مفاد پرستی کے گہرے گڑھے میں جا پڑے ہیں، اپنے مسلماں بھاءیوں اور بہنوں کا خون پی رہے ہیں اور عذابِ اِلاہی کا انتظار کر رہے ہیں اور باقی سب غلامی کی انتہاءی سخت زنجیروں میں جکڑے ہوۓ ہیں۔ اب وہ وقت نہیں رہا کہ ہم ایک دوسرے کو اس کا دوش دیتے پھریں، اب وقت ہے کہ ہم اپنے سارے اختلافات ایک طرف رکھ کر ایک اُمّت بنیں جیسا کہ اللہ نے کہا ہے۔
”اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ (3: 110)
اب بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے زاتی اختلافات کو چھوڑ دیں اس سے پہلے کہ خدا ہمیں چھوڑ دے، واصف علی واصف کہتے ہیں کہ ”دشمن یہ نہیں دیکھتا کہ کون شیعا ہے اور کون سنی، وہ تو صرف یہ دیکھتا ہے کہ سب مسلمان ہیں“ ہم نے کبھی خود کو دشمن کی نظر سے نہیں دیکھا اگر دیکھتے تو وہ نہ ہوتا جو ہو رہا ہے، بڑے بڑے اور بہترین رحنماؤں کو چن چن کر اسرائل شہید کر رہا ہے اور ہم کچھ بھی نہیں کر پا رہے۔ بس پھر یہی سدا ہمیں سکون پہنچاتی ہے کہ:
”اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انھیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمھیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔“ (2: 154)
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا صرف اسی سدا کو سنتے رہیں یا کچھ کرنا بھی ہے؟ اگر کچھ کرنا ہے تو سوال یہ ہے کہ ہم اس تابناک ماحول میں کیا کردار عدا کر سکتے ہیں۔ نہ تو ہم جہاد کر سکتے ہیں، نہ حکومتوں کو مجبور کر سکتے ہیں۔ بس ہم یہ کر سکتے ہیں۔
”اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔“ (2: 195)
ہم شادیوں میں اتنا خرچ کرتے ہیں، داوتوں میں اڑاتے ہیں، ہوٹل بازیاں کرتے ہیں، ناچ گانے میں خرچ کرتے ہیں، فضول کھانوں میں، کپڑوں میں، سجنے سنورنے میں خرچ بلکہ ضائع کرتے ہیں۔ بس خرچ نہیں کرتے تو صرف اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے شاید ہمیں یہ لگتا ہے کہ ہم پیسے ضائع کر رہے ہیں حالاں کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ واصف علی واصف کہتے ہیں کہ ”امیر بخیل سے غریب سخی بہتر ہے۔“ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے بارے میں اللہ کہتا ہے کہ:
”جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کر کے پھر احسان جتاتے، نہ دکھ دیتے ہیں، اُن کا اجر اُن کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں۔ (2: 262)
اب ضروری ہے کہ ہم مسلمانوں کو اُس عزیت والے جہنمی ماحول سے آزاد کراءیں اس سے پہلے کہ آگ ہمارے اپنے گھروں تک آ پہنچے، ہمارے بچوں اور اہل و عیال تک آ پہنچے۔ کیونکہ جب ہم پہلے احساس نہیں کرتے تو ایک نہ ایک دن وہ آگ ہمارے گھروں تک ضرور پہنچتی ہے۔ اب ہمیں اتحادِ اُمّت کی ضرورت ہے، اختلافات کو بھلانے کی ضرورت ہے، خالد ابنِ ولید جیسے سالار کی ضرورت ہے، حضرت عمر جیسے امیر المومنین کی ضرورت ہے, محمد بن موسیٰ خوارزمی، جابر بن حیان اور بو علی سینہ جیسے افراد کی ضرورت ہے۔ اب اُمّتِ مسلِماں کو طاقت حاصل کرنے کی ضرورت ہے، ہتھیاروں کے ساتھ دشمن سے مقابلے کی تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اللہ کا پیغام بلکہ حکم بھول گۓ اس لیے آج زلیل و خوار ہیں۔
”اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دُوسرے اعداء کو خوف زدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہو گا۔“ (8: 60)
لیکن نہ ہم پہلے تیار تھے، نہ اب تیار ہیں اور نہ آگے کءی سالوں تک تیار ہونے کے امکانات نظر آتے ہیں۔ خدا کی کتاب کو پسِ پشت ڈالنے والے کامیاب کیسے ہو سکتے ہیں۔ حضرت علی کا قول ہے کہ ”تمھارے تین دشمن ہیں اور تین دوست، تین دشمن: تمھارا دشمن، تمھارے دوست کا دشمن اور تمھارے دشمن کا دوست۔ تین دوست: تمھارا دوست، تمھارے دوست کا دوست، اور تمھارے دشمن کا دشمن۔“ اگر ہم غور کریں تو اس میں بڑی حکمت ہے۔ میں اتنے مختصر وقت میں اس سے زیادہ اور کیا بات کر سکتا ہوں۔ بہر حال بہت سے لوگ مجھ سے یہ شکوہ کر سکتے ہیں کہ میں نے تمام گفتگو میں سب کا ذکر کیا۔ ایران، لبنان، یمن، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب۔ مگر باقیوں کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ اور خاص طور پر طاقتور اسلامی ملک معازرت خواہ ہوں، طاقتور مسلمان ملک، اُمّتِ مسلِماں کا قلع اور واحد مسلمان ایٹمی طاقت پاکستان۔ تو عرض یہ ہے کہ ان پانچ ممالک کے سوا باقی کسی مسلمان ملک کی کوءی حیسیت ہی نہیں اور جہاں تک بات ہے پاکستان کی تو یہ تو 100٪ یقینی ہے کہ یہ تو امریکہ کا غلام ہے اُس کے خلاف جانے کی جرت ہی نہیں کر سکتا۔ خلاف تو بہت دور کی بات، یہ تو اسرائل کے خلاف کھل کر بیان تک نہیں دے سکتا، اس ملک میں فلستین کے لیے آواز تک نہیں اُٹھا سکتے۔ اگر میری بات پر آپ کو یقین نہیں تو ایک بار جلوس نکال کر ضرور دیکھیے پھر معلوم نہیں کہ آپ کہاں ہوں گے اور میں کہاں، شاید محشر میں ہی ملاقات ممکن ہو پاۓ۔ یاد رکھیں، جب شاہینوں کے نشیمنوں میں کرگسوں کا بسیرہ ہو جاۓ تو بدترین وقت ہے۔ ہم تو بس لکھ سکتے ہیں، اپنی آواز بلند کر سکتے ہیں، اپنے بڑوں اور طاقت کے ایوانوں تک اپنی سدا پہنچانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے لڑ نہیں سکتے کیونکہ ہمارے پاس وہ وسائل نہیں۔ مثلہ تو یہ ہے کہ ہم لڑنا چاہتے ہیں مگر ہمارے پاس وسائل نہیں اور جن کے پاس وسائل ہیں وہ لڑنا نہیں چاہتے۔
”ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکت جہاد کے لیے راہ نہیں پاتے، اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلوص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے وفادار ہوں ایسے محسنین پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔“ (9: 91)
آخر میں ہمارے چند پیارے بھاءیوں اور بہنوں سے صرف اتنی سی ماسومانہ گزارش ہے کہ اگر آپ اُمّتِ مسلِماں کے لیے کچھ اچھا نہیں کر سکتے تو براے مہربانی اپنی زبان بھی براءی سے بند رکھیں! سچ میں آپ کی بہت مہربانی ہو گی۔ میری بات اگر کسی کو بری لگی ہو تو میں پہلے ہی معازرت خواہ ہوں کیونکہ اس کے پبلک ہونے کے بعد ناجانے کیا ہو، میری تحریر تو بات کی چیز ہے شاید میں ہی نہ ملوں۔ کہتے ہیں کہ اگر غلام آقا کے خلاف بولنے لگ جاۓ تو اُس کی موت قریب ہے لیکن دیکھو نا اللہ مجھے کتنی پیاری تسلی دیتا ہے۔
”اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور تمہاری حمایت و مدد گاری کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔“ (4: 45)
سبحان اللہ! اللہ تعلیٰ سے دعا ہے کہ اے اللہ، ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے در گزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے۔ اے رب العالمین، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اِس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں۔ پاک ہے تیری ذات، ہم تیرے حضور توبہ کرتے ہیں ہمیں معاف فرما دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما، تو سب سے بڑھ کر رحیم ہے۔ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔ اے ہمارے رب ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر۔ اے اللہ اُمّتِ مسلِماں شدید تکلیف میں ہے ہمارے لیے آسانیاں عطا فرما۔ اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، اے ہمارے رب! ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرما، ہمارے کام میں تیرے حدود سے جو کچھ تجاوز ہو گیا ہو اُسے معاف کر دے، ہمارے قدم جما دے۔ خدایا! ہمارے رب! ہم کو رزق عطا کر بیشک تو بہترین رازق ہے۔ اے ہمارے رب، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے اور ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ آمین۔
شایان عالم
 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.