غزوات : اہم واقعات و مراحل

ازقلم: زنیرہ بنت محمد عقیل
طالبہ جامعہ اسلامیہ حنفیہ، شعبہ درسِ نظامی (دورۃ الحدیث)
ہجرت مدینہ سے قبل حضور خاتم النبیین ﷺ کو دلائل اور موعظۂ حسنہ کے ذریعے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا حکم تھا اور کفار کے ظلم و ستم پر صبر و استقامت کی تاکید و تلقین کی گئی تھی، مگر جب مسلمانوں کو ہجرتِ مدینہ کے بعد وسعت و قوت اور اجتماعیت و مرکزیت نصیب ہوئی، تو اللہ ﷻ نے مسلمانوں کو ماہِ صفر سن 2 ہجری میں دشمنوں سے لڑنے اور ان کو منہ توڑ جواب دینے کی اجازت عطا فرمائی، چنانچہ قرآن کریم سورۃ الحج آیت 39 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلیٰ نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ
(جن سے لڑائی کی جاتی ہے انہیں اجازت دے دی گئی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے)

غزوہ ابواء:
اس غزوہ کو "غزوہ ودان" بھی کہتے ہیں۔ حضور خاتم النبیین ﷺ پہلی مرتبہ جہاد کے ارادہ فرماکر ماہ صفر سن 2ھ میں 60 مہاجرین کو اپنے ساتھ لے کر مدینے سے باہر نکلے اور مقام ابواء تک کفار کا پیچھا کیا، مگر کفارِ مکہ فرار ہو چکے تھے، اس وجہ سے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔

غزوہ بواط:
2ھ میں حضور خاتم النبیینﷺ جہاد کی نیت سے 200 مہاجرین کو ساتھ لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے۔ اس غزوہ کا مقصد کفار کے ایک تجارتی قافلہ کا راستہ روکنا تھا۔ اس قافلہ میں 100 کفارِ قریش اور 25000 اونٹ تھے۔ حضور ﷺ اس قافلہ کی تلاش میں "مقام بواط" تک تشریف لے گئے مگر کفارِ قریش سے کہیں سامنا نہ ہوا، بغیر کسی جنگ کے مسلمان مدینہ واپس لوٹ گئے۔

غزوہ سفوان(بدرِ اولیٰ):
2ھ میں "کرز بن جابر" نامی ایک شخص نے مدینے کی چراگاہ میں ڈاکا ڈالا اور کچھ اونٹوں کو ہانک کر لے گیا۔ جب آپﷺ کو اس معاملہ کا علم ہوا، تو آپﷺ صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے اور "وادی سفوان" تک اس ڈاکو کا تعاقب کیا، مگر وہ اس قدر تیزی سے بھاگا کہ ہاتھ نہ آیا اور آپﷺ مدینہ تشریف لے آئے۔اس کو "بدرِ اولیٰ" بھی کہتے ہیں۔

غزوہ ذی العشیرہ:
2ھ میں کفارِ قریش کا ایک قافلہ مالِ تجارت لے کر مکہ سے شام جارہا تھا۔ جب حضور خاتم النبیینﷺ کو اس قافلہ کا علم ہوا تو آپﷺ 150 یا 200 مہاجرین صحابہ کرام کو ساتھ لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے اور مقامِ ذی العشیرہ تک تشریف لے گئے، مگر قافلہ آگے نکل گیا تھا، اس وجہ سے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔

غزوہ بدر(بدر الکبرٰی):
یہ غزوہ 2ھ رمضان المبارک میں پیش آیا۔ یہ وہ غزوہ ہے جس میں 313 مسلمان مجاہدین نے مشرکین کے 1 ہزار ہتھیار بند لشکر کو
شکست دی۔ اس غزوہ میں اللہ ﷻ نے مسلمانوں کی مدد کیلئے فرشتوں کی فوج کا بھی نزول فرمایا۔ اس غزوہ میں 14 مجاہدین شہید ہوئےاور کفارِ قریش کے بڑے بڑے سردار مارے گئے؛ جن میں عتبہ بن ربیعہ، اسکا بیٹا ولید، اسکا بھائی شیبہ اور ابو جہل جیسے 70سے زائد سرداران کفار مارے گئے اور 70 گرفتار ہوئے۔

غزوہ بنی سلیم:
2ھ میں " بنو سلیم" مدینہ پر حملہ کے لئے لشکر تیار کر رہا تھا، جب حضور خاتم النبیینﷺ کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپﷺ مجاہدین کا لشکر لے کر مقامِ قرقر الکدر تک تشریف لے گئے، مگرلشکرِ بنو سلیم منتشر ہو کر فرار ہوگیا۔

غزوہ بنی قینقاع:
2ھ میں ایک یہودی کی غیر شریفانہ حرکت کی وجہ سے حضور خاتم النبیینﷺ نے یہودیوں کی اس بات پر ملامت کی تو بنو قینقاع کے یہودی اس بات پر جنگ پر اتر آئے، تو آپﷺ نے لشکر کے ساتھ ان پر حملہ کردیا اور یہ جنگ کی تاب نہ لا سکے اور ہتھیار ڈال دیئے۔

غزوہ سویق:
2ھ میں جب حضرت ابوسفیان ایمان نہیں لائے تھے، آپ نے غزوہ بدر کا انتقام لینا چاہا۔ آپ نے بنو نضیر کے سردار سے حضورﷺ کے تمام جنگی رازوں کی معلومات حاصل کی اور مقامِ عریض پر حملہ کر کے حضرت سعد بن عمرو کو شہید کر دیا، ساتھ ہی مسلمانوں کے گھروں اور باغات کو آگ لگا کر جلا دیا۔ جب اس واقعہ کی خبر آپﷺ کو ہوئی تو آپﷺ نے لشکر کے ساتھ ان کا تعاقب فرمایا مگر کفار میدان چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔

غزوہ ذی امر یا غزوہ غطفان:
غزوہ ذی امر یا غزوہ غطفان 3ھ میں بنو ثعلبہ و بنو محارب اور مدینہ کے 450 مسلمانوں کے درمیان پیش آیا۔ کفار پہاڑوں کی چوٹیوں میں چھپے ہوئے تھے کہ زور دار بارش ہو گئی۔ حضور خاتم النبیینﷺ ایک درخت کے نیچے لیٹ کر اپنے کپڑے سکھانے لگے۔ پہاڑ کی بلندی سے کافروں نے دیکھ لیا کہ آپ بالکل اکیلے ہیں، ایک دم دعثور بجلی کی طرح پہاڑ سے اتر کر ننگی شمشیر ہاتھ میں لیے ہوئے آیا اور آپﷺ کے سر مبارک پر تلوار بلند کرکے بولا کہ بتائیے! اب کون ہے جو آپ کو مجھ سے بچا لے؟ آپﷺ نے جواب دیا کہ میرا اﷲ مجھ کو بچا لے گا۔ تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی اور دعثور کانپنے لگ گیا۔ رسول اﷲﷺ نے فوراً تلوار اٹھا لی اور فرمایا کہ بول اب تجھ کومیری تلوار سے کون بچائے گا؟ دعثور نے کانپتے ہوئے کہا کہ کوئی نہیں۔ رحمۃ للعالمینﷺ نے اس کو معاف فرما دیا۔ دعثور اس اخلاقِ نبوتﷺ سے بے حد متاثرہوا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ پھر اپنی قوم میں آ کر اسلام کی تبلیغ کرنے لگا۔ اس غزوہ میں کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔

غزوہ بحران:
3ھ میں مسلمانوں کو اطلاع ملی کہ بنو سلیم لوگوں کو اکٹھا کر رہا ہے، حضور خاتم النبیین ﷺ 300 افراد لے کر دفاع کیلئے نکلے اور
بحران نامی مقام پر پہنچے، مسلمانوں کے پہنچنے سے پہلے ہی بنو سلیم خوف سے بھاگ چکے تھے۔

غزوہ احد:
غزوۂ بدر میں شکست کھانے کے بعدکفارِ مکہ نے مسلمانوں سے انتقام لینا چاہا، جس کے نتیجے میں 3ھ میں غزوۂ اُحُد ہوئی۔غزوۂ اُحُد میں مشرکوں کی تعداد تین ہزار اور لشکر اسلام کی تعداد ایک ہزار تھی، جن میں تین سو منافق بھی شامل تھے۔ منافقوں کا سردار عبد اللہ بن ابی، بظاہر مسلمان مگر دل سے کافر تھا، مدینہ منوّرہ سے نکلتے وقت تو یہ مسلمانوں کے ساتھ تھا لیکن شَوْط نامی مقام پر اپنے 300 ساتھی لے کر سازش کے تحت الگ ہوگیا ، یوں اسلامی لشکر کی تعداد 700 ہوگئی۔یہ پہاڑی جنگ تھی، حضور خاتم النبیینﷺ نے لشکرِ ا سلام کی پشت پر پچاس تیر انداز مقرر کئے اور فرمایا : جب تک میرا حکم نہ آجائے تم نے یہاں سے نہیں ہٹنا۔ جنگ کی ابتدا میں مسلمانوں کا پلہ بھاری رہااور کفار فرار ہوگئے تو تیر انداز مجاہدین سمجھے کہ جنگ ختم ہوگئی ہے، اکثر تیر اندازوں نے غلط فہمی کی بنا پر مورچہ چھوڑ دیا، کافروں نے مسلمانوں کی پشت خالی دیکھی تو یکدم پیچھے سے حملہ کیا جس سے افراتفری پھیل گئی، 70 صحابہ شہید ہوگئے، سید الشہداء حضرت امیرِ حمزہ ، حضرت حنظلہ ، حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت عمر بن جموع بھی اسی جنگ میں شہید ہوئے۔ آپﷺ کا رُخِ انور زخمی ہوگیا اور سامنے والے دانت مبارک کا تھوڑا سا کنارہ بھی شہید ہوا۔ جب کفار نے آپﷺ پر تیروں کی بوچھاڑ کردی، حضرت ابو دُجَانہ آپﷺ کے آگے ڈھال بن گئے، حضرت زیاد بن سکن چند انصار صحابہ کو لے کرآگے بڑھے، اپنی جانیں قربان کردیں لیکن کسی کو آپﷺ کے قریب آنے نہیں دیا۔ غزوۂ احد میں صحابہ کرام نے جانثاری کی وہ داستانیں رقم کیں جو آج بھی اوراقِ تاریخ پر جگمگا رہی ہیں۔

غزوہ بنی نضیر:
4ھ میں یہودیوں نے عہد شکنی کی، تو حضور خاتم النبیینﷺ نے ان کے قلعہ کا 15 دن تک محاصرہ کیا اور قلعہ کے اندر جانے والا سارا سامان بند کردیا، آخرکار یہودی جلا وطن ہونے کیلئے مان گئے۔

غزوہ ذات الرقاع:
5ھ میں قبائلِ انماروثعلبہ نے مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کیا،تو حضورخاتم النبیینﷺ 400 صحابہ کرام کے ساتھ مقامِ ذات الرقاع تک تشریف لے گئے اور کفار فرار ہوگئے۔

غزوہ بدر(بدرِ الصغریٰ):
غزوہ احد میں حضرت ابو سفیان نے (جب آپ ایمان نہیں لائے تھے) کہا تھا کہ آئندہ سال بدر میں تمھارا اور ہمارا مقابلہ ہوگا، اسی وجہ سے 5ھ میں حضور خاتم النبیینﷺ لشکر کے ساتھ بدر تشریف لے گئے اور 8 دن تک کفار کا انتظار کیا مگر وہ نہیں آئے۔

غزوہ دومۃ الجندل:
5ھ میں دومۃ الجندل نامی قلعہ میں مدینہ پر حملہ کیلئے کفار کی ایک بڑی فوج جمع ہورہی تھی۔ جب حضورخاتم النبیینﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپﷺ لشکر لے کر ان کے مقابلہ کے لئے روانہ ہوئے، مگر کفار فرار ہوگئے۔

غزوہ مریسیع (غزوہ بنی المصطلق):
5ھ میں بنو مصطلق کے سردار حارث بن فرار نے مدینے پر فوج کشی کیلئے لشکر جمع کیا، جب حضور خاتم النبیینﷺ کو خبر ہوئی تو آپﷺ لشکر کے ساتھ مدینہ روانہ ہوئے، اس غزوہ میں حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ام سلمہ بھی ساتھ تھیں۔ ایک صحابی شہید ہوئے اور 10 کفار مارے گئے، 700 سے زائد کفار گرفتار کرلئے گئے۔

غزوہ خندق یا غزوہ احزاب:
غزوہ خندق 5ھ میں ہوئی، اس غزوہ میں حضور خاتمﷺ نے حضرت سلمان کے مشورے سے مدینے کے درمیان خندق (جو چھ کلومیٹر لمبی تھی) کھدوائی تھی۔ اس غزوہ میں تقریباً 3 ہزار مسلمانوں نے یہود، قریش اور قبیلہ عطفان سے مقابلہ کیا۔

غزوہ بنی قریظہ:
غزوہ خندق کے فوری بعد بنو قریظہ کی غداری کی وجہ سے اللہ کے حکم سے مسلمان بنو قریضہ کی طرف روانہ ہوئے اور ان کے قلعے کا محاصرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ سعد بن معاذ ہمارے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں منظور ہوگا۔ لہٰذا آپ نے فرمایا کہ لڑنے والی فوج کو قتل کر دیا جائے، عورتوں اور بچوں کو قید کر لیا جائے اور ان کا مال "مالِ غنیمت" بنا لیا جائے۔

غزوہ حدیبیہ:
حضور خاتم النبیینﷺ 6ھ میں 1400 صحابہ کرام کے ساتھ عمرے کیلئے روانہ ہوئے، تو دوسری طرف کفار نے مسلمانوں کو روکنے کے لیے فوج تیار کرلی تاکہ آپﷺ اور مسلمان عمرہ نہ کر سکیں، لیکن مسلمان احرام کی حالت میں تھے اور جنگ نہیں کر سکتے تھے لہٰذا آپﷺ نے حضرت عثمان غنی کو صلح کیلئے مکہ روانہ کیا لیکن کفار نے صلح سے انکار کر دیا اورآپ کو مکے میں ہی روک لیا اور یہاں خبر پھیل گئی کہ آپ کو شہید کر دیا گیا ہے، تو حضورﷺ نے صحابہ کرام سے بیعت لی جس کو بیعتِ رضوان کہتے ہیں۔ بیعت کے بعد حضرت عثمان غنی واپس آگئے اوراس کے بعد حضور خاتم النبیینﷺ اور قریش کے درمیان چند شرائط پر صلحِ حدیبیہ ہو گئی:
1۔ آپﷺاگلے سال عمرے کیلئے آ سکتے ہیں
2۔ اس سال بغیر عمرے چلے جائیں
3۔ مکہ میں ہتھیار نہ لائیں
4۔ مکہ میں رہنے والوں کو ساتھ نہ لے کر جائیں اور جو مکہ میں رہنا چاہے وہ یہاں رہ سکتا ہے
5۔ اگر کوئی مکے سے مدینے آجائے تو اس کو واپس کر دیا جائے گا اور جو مدینے سے مکہ آئے گا وہ واپس نہیں کیا جائے گا
6۔ عرب کو یہ اختیار ہوگا وہ جس کے ساتھ چاہے دوستی کا معاہدہ کرلیں

غزوہ ذی القرد:
مدینہ کے قریب ذاتُ القرد ایک چراگاہ کا نام ہے، جہاں حضور خاتم النبیینﷺ کی اونٹنیاں چرتی تھیں ۔ عبدالرحمٰن بن عیینہ فزاری نے جو قبیلہ غطفان سے تعلق رکھتا تھا اپنے چند آدمیوں کے ساتھ بیس اونٹنیوں کو پکڑ کر لے بھاگا۔مشہور تیرانداز صحابی حضرت سلمہ بن اکوع کو سب سے پہلے اس کی خبر معلوم ہوئی۔ انہوں نے اس خطرہ کا اعلان کیا اور ان ڈاکوؤں کے تعاقب میں دوڑ پڑے اور ان ڈاکوؤں کو تیر مار مار کر تمام اونٹنیوں کو بھی چھین لیا اور ڈاکو بھاگتے ہوئے جو تیس چادریں پھینکتے گئے تھے ان چادروں پر بھی قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد حضورﷺ لشکر لے کر پہنچے اور ان ڈاکوؤں پرنرمی کا حکم دیا۔

غزوہ خیبر:
7ھ میں مسلمان اور یہودیوں کے درمیان آخری جنگ ہوئی، اس جنگ میں حضرت محمود بن مسلمہ سمیت 15 صحابہ کرام شہید ہوئے اور 93 یہودی قتل کئے گئے اور 20 دن کے محاصرے کے بعد خیبر فتح ہو گیا تھا۔

غزوہ عمرۃ القضاء:
صلح حدیبیہ کے ایک سال بعد حضور خاتم النبیینﷺ اور صحابہ کرام معاہدے کے مطابق عمرے کے لیے روانہ ہوئے، لیکن آپﷺ کو کفار پر اعتبار نہیں تھا اس وجہ سے آپﷺ جنگ کی مکمل تیاری کے ساتھ روانہ ہوئے، جب کفار کو خبر ہوئی تو انہوں نے پیغام دیا کہ ہم آپ کو معاہدے کے مطابق تین دن مکہ میں رہنے دیں گے، آپ ہتھیار ساتھ نہ لائیں ۔

غزوہ موتہ :
8ھ میں حضور خاتم النبیینﷺ نے حضرت حارث بن عمیر کوبطور قاصد روانہ کیا، تو راستے میں بلقاء کے بادشاہ نے حضرت حارث بن عمیر کو بے دردی سے رسی سے باندھ کر شہید کر دیا۔ جب آپﷺکو خبر ملی تو آپﷺ نے تین ہزار مسلمانوں کا لشکر تیار کر کے ان کو مقام ثنیۃ الوداع تک خود رخصت کیا اور سپہ سالار حضرت زید بن حارثہ کو حکم دیا کہ حضرت حارث بن عمیر کی شہادت گاہ پر جاؤ اور وہاں اسلام کی دعوت دو، اگر وہ انکار کریں تو جنگ کرو۔ کفار نے انکار کر دیا تو جنگ شروع ہو گئی تین ہزار لشکر کے مقابلے میں ایک لاکھ کفار کا لشکر تھا، اس جنگ میں 12 صحابہ کرام نے شہادت نوش فرمائی اور بہت سے کفار کو واصل جہنم کیا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔

فتح مکہ:
صلح حدیبیہ کے بعد قبیلہ خزاعہ مسلمانوں کا دوست بن گیا اور بنوبکر نامی قبیلے نے قریش کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ صلح کے معاہدے کی وجہ سے مسلمانوں کی طرف سے حملے کا کوئی امکان نہیں تھا، اس لئے بنوبکر کی ایک شاخ بَنُو نُفاثہ نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے کفارِ قریش کے ساتھ مل کر بنوخزاعہ پر اچانک حملہ کر دیا، جو صلح حدیبیہ کے معاہدے کی خلاف ورزی تھی، جس میں بنوخزاعہ کو کافی جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ جب حضور خاتم النبیین ﷺ کو یہ خبر ملی تو آپﷺ نے قریش کی طرف پیغام بھیجا کہ تین شرطوں میں سے کوئی ایک شرط قبول کر لیں:
1۔ خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا (یعنی ان کے قتل کا بدلہ) دیں
2۔ بنو نفاثہ کی حمایت سے دست بر دار ہو جائیں
3۔ اعلان کردیں کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا
قرطہ بن عمرنے قریش کا نمائندہ بن کر کہا کہ ہمیں صرف تیسری شرط منظور ہے۔ 10رمضان المبارک 8ہجری کو آپﷺ دس ہزار کا لشکر لے کر مکے کی طرف روانہ ہو گئے۔ مکہ شریف پہنچ کر آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا اس کیلئے امان ہے، جو شخص اپنا دروازہ بند کر لے گا اس کے لئے امان ہے، جو مسجدِ حرام میں داخل ہوجائے گا اس کے لئے امان ہے۔ مزید فرمایا کہ جو حضرت ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے بھی امان ہے۔ اس عام معافی کا کفار کے دلوں پر بہت اچھا اثر پڑا اور وہ آپ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کرنے لگے، فتحِ مکہ کے روز دو ہزار افراد ایمان لائے۔
تمام کفار کیلئے عام معافی تھی مگر ابنِ خطل جو آپﷺ کا گستاخ تھا، وہ غلافِ کعبہ سےجاکر لپٹ گیا مگر آپﷺ نے فرمایا: ابنِ خطل کو قتل کردو۔

غزوہ حنین:
8ھ میں فتحِ مکہ کے بعد عرب کے تمام لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔ مقامِ حنین میں موجود دو قبائل حوزان اور ثقیف نے مکہ پر حملہ کرنے کیلئے تیاری شروع کردی تھی، جب حضور خاتم النبیینﷺ کو اس معاملے کی خبر ہوئی تو آپﷺ نے 12 ہزار کا لشکر جمع کیا اور حنین کا رخ فرمایا، اس جنگ میں 70 کفار مارے گئے کچھ فرار ہو گئے اور کچھ گرفتار ہو گئے۔

غزوہ طائف:
جب کفار حنین سے فرار ہو کرطائف آئے تو حضور خاتم النبیینﷺ نے طائف کا ارادہ فرمایا، وہاں پہنچ کر افواج نے شہر کا محاصرہ کر لیا، کفارنے قلعے کے اندر سے تیر برسائے۔ 18 دن کے محاصرے کے بعدطائف فتح نہ ہو سکا تو آپﷺنے مشاورت کے بعد محاصرہ ختم کر دیا۔

غزوہ تبوک:
غزوۂ تبوک 9ھ میں حضور خاتم النبیینﷺ کی قیادت میں آخری غزوہ تھی۔ شام کی سرحد پر رومی سلطنت کی طرف سے حملے کی تیاری کی خبریں مدینہ منورہ پہنچیں۔ اس وقت سخت گرمی کا موسم تھا، قحط سالی بھی تھی اور کھجور کی فصل تیار کھڑی تھی، لیکن آپﷺ نے عام اعلان فرما کر لشکر تیار کرنے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام نے بڑھ چڑھ کر مالی تعاون کیا۔ یہ سفر طویل، گرمی سخت اور پانی قلیل تھا، اس لیے اسے جیش العسرہ یعنی تنگی کا لشکر بھی کہا جاتا ہے۔ تبوک پہنچنے پر معلوم ہوا کہ رومی لشکر پسپا ہو گیا ہے اور وہاں پھر کوئی جنگ پیش نہیں آئی۔

 

Zunaira Aqeel
About the Author: Zunaira Aqeel Read More Articles by Zunaira Aqeel: 36 Articles with 68225 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.